یومِ تکبیر – دفاعِ کی ناقابلِ تسخیر ضمانت
اشاعت کی تاریخ: 29th, May 2025 GMT
دفاعی طاقت کے تناظر میں پاکستان کو ایٹمی قوت ہونے کی بدولت ایک ممتاز اور منفرد مقام حاصل ہے، اور یہ تاریخی مقام پاکستان نے 28 مئی کے دن حاصل کیا تھا۔ یہ دن نہ صرف پاکستان کی سائنسی اور عسکری کامیابی کی علامت ہے بلکہ قومی خودمختاری، خوداعتمادی اور استقامت کی روشن دلیل بھی ہے۔
28مئی 1998ء کا دن پاکستان کی تاریخ کا ایک ایسا سنگ میل ہے جسے یومِ تکبیر کے طور پر منایا جاتا ہے اور جو ہمیشہ سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔ اس دن پاکستان نے کامیاب ایٹمی دھماکے کر کے نہ صرف دشمن کو منہ توڑ پیغام دیا، بلکہ دنیا کو یہ واضح کر دیا کہ اب پاکستان کا دفاع ناقابلِ تسخیر ہے۔ یہ صرف سائنسی ترقی کا مظاہرہ نہ تھا بلکہ قومی عزم، خودداری اور سلامتی کی ایک بلند مثال تھی۔ یہ کارنامہ ایک دن یا ایک فیصلے کا نتیجہ نہیں بلکہ عشروں پر محیط مسلسل محنت، استقامت، اور قربانیوں کا ثمر تھا۔ اس سفر میں ملک کے مختلف اداروں، ماہرین، انجینیئرز، سیکیورٹی حلقوں اور قیادت نے بھرپور جدوجہد کی۔ ایٹمی پروگرام کسی سیاسی منشور سے زیادہ ایک قومی فریضہ بن چکا تھا، جسے ہر سطح پر خفیہ، منظم اور محفوظ رکھا گیا۔
اس سفر کے دوران پاکستان کو شدید بیرونی دباؤ، معاشی پابندیوں اور سفارتی تنہائی کا سامنا کرنا پڑا۔ کئی عالمی قوتوں نے پاکستان کے اس منصوبے کی مخالفت کی، امداد بند کی گئی، اور پابندیوں کا سامنا رہا۔ تاہم، ملک کے مختلف شعبوں نے اس مشن کو صرف ایک سیکیورٹی ضرورت ہی نہیں بلکہ قومی غیرت کا معاملہ سمجھ کر جاری رکھا۔ دوسری جانب، اندرونی سطح پر بھی مختلف چیلنجز موجود تھے۔ معاشی مسائل، عوامی ضروریات، اور سیاسی پیچیدگیوں کے باوجود قومی سلامتی کو ہر ترجیح پر مقدم رکھا گیا۔ پروگرام کی خفیہ نوعیت کو برقرار رکھنے کے لیے ایک مربوط سیکیورٹی نظام قائم کیا گیا، اور اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ کوئی حساس معلومات دشمن کے ہاتھ نہ لگے۔
پاکستان کی جغرافیائی، سیاسی اور عسکری صورتِ حال ہمیشہ سے خطے میں اہم رہی ہے۔ بھارت کے ساتھ تعلقات کی نوعیت مخاصمت پر مبنی رہی ہے، اور دونوں ممالک کے درمیان کئی جنگیں اور سرحدی جھڑپیں ہو چکی ہیں۔ 2025 کے موجودہ حالات میں پاکستان کی دفاعی حکمتِ عملی میں افواجِ پاکستان کی میزائل ٹیکنالوجی کا کردار کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔
6اور 7 مئی 2025ء کی درمیانی شب بھارت کی جانب سے پاکستان پر ایک بے بنیاد اور من گھڑت الزام کو بنیاد بنا کر پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جارحانہ کارروائی کی۔ یہ اقدام نہ صرف بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی تھا بلکہ جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کے لیے بھی ایک کھلا خطرہ ثابت ہوا۔ بھارت کی اس کارروائی کا مقصد پاکستان کو دباؤ میں لانا اور عالمی برادری کے سامنے ایک غلط بیانی پر مبنی بیانیہ پیش کرنا تھا۔ بھارتی میڈیا اور حکومتی اداروں نے بغیر کسی ثبوت کے پاکستان کو موردِ الزام ٹھہرانا شروع کر دیا، حالانکہ زمینی حقائق اس کے بالکل برعکس تھے۔
پاکستان نے ہمیشہ امن، صبر اور سفارتی اصولوں کو ترجیح دی ہے، مگر قومی سلامتی اور خودمختاری پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ جب بھارت کی جانب سے جارحیت کی گئی، تو پاکستان کی مسلح افواج نے ایک منظم، بھرپور اور مؤثر جوابی کارروائی کی، جسے بُنیَانٌ مَّرْصُوصٌ نام سے موسوم کیا گیا۔
بُنیَانٌ مَّرْصُوصٌ ایک عربی ترکیب ہے، جس کا مطلب ہے سیسہ پلائی دیوار۔ یہ ترکیب قرآن مجید کی سورہ الصف، آیت نمبر 4 میں آئی ہے، إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الَّذِینَ یُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِہِ صَفًّا کَأَنَّہُم بُنیَانٌ مَّرْصُوصٌ۔ ترجمہ: بے شک اللہ اُن لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اُس کی راہ میں اس طرح صف بستہ ہو کر لڑتے ہیں گویا وہ سیسہ پلائی دیوار ہوں۔
اس آپریشن میں افواجِ پاکستان نے اپنی مہارت، پیشہ ورانہ قابلیت اور مستعدی سے نہ صرف دنیا بھر میں اپنا لوہا منوایا بلکہ عالمی برادری پاکستان کی پیشہ ورانہ صلاحیت پر ششدر رہ گئی۔ پاکستان نے نہ صرف کامیابی سے اپنا دفاع کیا بلکہ دشمن کے اہداف کو بھی مؤثر انداز میں نشانہ بنایا۔
رافیل طیارے، جنہیں بھارت ناقابلِ تسخیر سمجھتا تھا، پاکستان کی ایئر فورس نے اپنی مہارت، حکمتِ عملی اور جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے نہ صرف کامیابی سے روکا بلکہ ان کی برتری کے تاثر کو بھی چیلنج کر دیا۔ یہ وہ طیارے تھے جن پر بھارت نے بڑی امیدیں وابستہ کی تھیں اور جنہیں خطے میں فیصلہ کن قوت کے طور پر پیش کیا جا رہا تھا، مگر پاکستانی فضائی دفاع کے سامنے ان کی برتری دم توڑ گئی۔ اس کامیابی نے یہ ثابت کیا کہ اصل طاقت جدید ہتھیاروں سے زیادہ، پیشہ ورانہ قابلیت، قومی عزم اور بروقت فیصلہ سازی میں ہوتی ہے۔
اس جنگ کا سب سے نمایاں اور منفرد پہلو پاکستان کا سائبر حملوں کے ذریعے بھارتی ریڈار سسٹم کو مفلوج کرنا تھا۔ پاکستان نے سائبر حملوں کے ذریعے ان کے ریڈار سسٹم کو مفلوج کیا، یہاں تک کہ400 S- جیسے جدید نظام کو بھی ناکارہ بنا دیا۔
یہ تمام کامیابیاں پاکستان کی ا فواج کی دفاعی ہم آہنگی، تیاری، ٹیکنالوجی پر عبور اور کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ یہ آپریشن پاکستان کی دفاعی صلاحیت، عسکری نظم، اور مؤثر حکمتِ عملی کا مظہر تھا۔ فضائیہ نے نہایت چابک دستی اور مہارت سے دشمن کے تمام حملہ آور طیاروں کو پسپا کیا، جبکہ میزائل ڈیفنس سسٹمز نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے ممکنہ نقصان کو مکمل طور پر روکا۔ بُنیَانٌ مَّرْصُوصٌمحض ایک فوجی کارروائی نہیں بلکہ ایک نظریہ ہے، یہ نظریہ کہ جب قوم اپنی خودمختاری کے تحفظ کے لیے سیسہ پلائی دیوار بن جائے تو دنیا کی کوئی طاقت اسے جھکا نہیں سکتی۔ یہ آپریشن دنیا کے لیے ایک پیغام تھا کہ پاکستان امن کا داعی ہے، مگر دفاع پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔
یومِ تکبیر کا دن صرف ایک تکنیکی کامیابی نہیں بلکہ ایک نظریاتی اور قومی فخر کا دن تھا۔ چاغی کے پہاڑوں میں جو روشنی نظر آئی، وہ دراصل قوم کی قربانی، اتحاد اور عزم کی روشنی تھی۔ ان دھماکوں نے پاکستان کو دنیا کی ساتویں اور مسلم دنیا کی پہلی ایٹمی قوت بنا دیا، اور یہ پیغام دیا کہ قوم اپنی سلامتی اور بقاء کے لیے ہر ممکن قدم اٹھا سکتی ہے۔ یہ کامیابی اُن تمام افراد اور اداروں کی انتھک محنت کا نتیجہ تھی جنہوں نے اس قومی فرض کو خاموشی اور دیانتداری سے نبھایا۔ اس مشن میں شامل ہر فرد کی قربانی، محنت اور لگن نے پاکستان کو وہ مقام عطا کیا جس پر آج پوری قوم کو فخر ہے۔ پاکستان کا ایٹمی قوت بننا محض عسکری طاقت کا اظہار نہیں بلکہ قومی خودمختاری، وقار، اور دفاع کے ناقابلِ تسخیر عزم کی علامت ہے۔
یومِ تکبیر ہر سال یہ یاد دلاتا ہے کہ جب قوم متحد ہو، ارادے مضبوط ہوں، اور منزل واضح ہو تو دنیا کی کوئی طاقت ترقی اور بقاء کی راہ میں حائل نہیں ہو سکتی۔
یہ کامیابی ان تمام افراد اور اداروں کا نتیجہ تھی جنہوں نے اس مشن کو اپنا قومی فرض سمجھ کر خاموشی سے انجام دیا۔ سائنسدانوں کی محنت، قیادت کی بصیرت، افواج پاکستان کی حمایت اور عوام کا اعتماد، سب نے مل کر وہ کر دکھایا جس پر پوری قوم فخر کر سکتی ہے۔
پاکستان کا ایٹمی قوت بننا نہ صرف دفاعی سطح پر اہم تھا بلکہ یہ ایک واضح پیغام بھی تھا کہ ہم ایک آزاد اور خودمختار قوم ہیں، جو اپنی سلامتی اور بقاء کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتی ہے۔ یہ تاریخ ہمیں سکھاتی ہے کہ جب قوم متحد ہو، قیادت پرعزم ہو، اور منزل واضح ہو تو دنیا کی کوئی طاقت ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام دراصل اس کی قومی خودی، وقار اور بقاء کی علامت ہے، اور یومِ تکبیر ہمیں ہر سال یہ یاد دلاتا ہے کہ قربانیاں کبھی رائیگاں نہیں جاتیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پاکستان نے پاکستان کو پاکستان کا پاکستان کی نہیں بلکہ بلکہ قومی ایٹمی قوت اور بقاء دنیا کی کہ قوم کے لیے
پڑھیں:
بھارت کی انتہا پسندی کرکٹ میدان میں بھی
پروفیسر شاداب احمد صدیقی
کرکٹ کی تاریخ میں ایک نہایت منفرد اور افسوسناک لمحہ اس وقت سامنے آیا جب ایشیا کپ کے ایک میچ کے بعد بھارتی کھلاڑیوں نے روایت سے ہٹ کر پاکستانی کھلاڑیوں سے مصافحہ کرنے سے گریز کیا۔ یہ واقعہ اس کھیل کی اصل روح پر ایک کاری ضرب ہے ، کیونکہ کرکٹ کو ہمیشہ "جنٹل مینز گیم” کہا جاتا رہا ہے ، جہاں نہ صرف کھیل کے اصول بلکہ باہمی احترام اور تعلقات کی نزاکت بھی اہم سمجھی جاتی ہے ۔ لیکن بھارت کے کھلاڑیوں کا یہ رویہ اس بات کا ثبوت ہے کہ انتہا پسندی کی لہر نے وہاں کھیل کے میدانوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔ یہ محض ایک لمحاتی رویہ نہیں تھا بلکہ ایک سوچ اور بیانیہ کی عکاسی تھی جسے بھارتی میڈیا اور سیاستدان بڑی شدت کے ساتھ پروان چڑھا رہے ہیں۔پاکستان اور بھارت کے درمیان کرکٹ ہمیشہ سے محض کھیل نہیں بلکہ ایک بڑے اعصابی معرکے کے طور پر دیکھی جاتی ہے ۔ دونوں ملکوں کے عوام کا جوش و خروش اپنی جگہ، لیکن کھیل کے بعد کھلاڑیوں کا ایک دوسرے کے ساتھ مصافحہ اور خوشگوار ملاقات ہمیشہ ہی ایک مثبت پیغام دیتی رہی ہے ۔ چاہے ماضی میں کتنے ہی کشیدہ حالات کیوں نہ رہے ہوں، کرکٹ نے دونوں ملکوں کے عوام کو قریب لانے کا ایک ذریعہ فراہم کیا ہے ۔ لیکن حالیہ رویہ اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت میں کھیل کی روایات بھی نفرت کی سیاست کے سامنے دم توڑ رہی ہیں۔
اس سے بھی زیادہ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ پاکستان کے ساتھ کھیلنے سے پہلے ہی بھارتی میڈیا نے ایک عجیب ہنگامہ برپا کیا۔ "گودی میڈیا”کہلانے والے بھارتی چینلز نے یہ بحث چھیڑ دی کہ بھارت کو پاکستان سے کھیلنا ہی کیوں چاہیے ؟ گویا کھیل کی دنیا میں بھی تعلقات کو دشمنی اور سیاست کی عینک سے دیکھنے کی عادت بن گئی ہے ۔ بھارتی میڈیا کا یہ کردار نہ صرف کھیل کو نقصان پہنچا رہا ہے بلکہ بھارتی عوام کے ذہنوں میں بھی نفرت اور دوریاں بڑھا رہا ہے ۔ کرکٹ جیسے کھیل کو جنگ کا متبادل بنانے کی کوشش دراصل ایک خطرناک رجحان ہے ۔
یہ حقیقت ہے کہ جنگ اور کھیل میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے ۔ کھیل ایک ایسا ذریعہ ہے جو دشمنی کے بادل چھانٹ کر امن کا پیغام دیتا ہے ، جب کہ جنگ تباہی اور بربادی لاتی ہے ۔ کھیل کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ دونوں ملکوں کے عوام ایک دوسرے کو قریب سے جان سکیں، تعلقات میں نرمی پیدا ہو اور اعتماد کی فضا قائم ہو۔ لیکن بھارت کی موجودہ انتہا پسندانہ روش نے اس فرق کو مٹا کر کھیل کو بھی نفرت کا اکھاڑا بنانے کی کوشش کی ہے ۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان کرکٹ کی تاریخ شاندار لمحوں سے بھری ہوئی ہے ۔ 1987ء میں جب بھارتی ٹیم پاکستان آئی تو جنرل ضیاء الحق نے "کرکٹ ڈپلومیسی” کے تحت راجیو گاندھی سے ملاقات کی، جس نے دونوں ملکوں کے تعلقات میں وقتی بہتری پیدا کی۔ اسی طرح 2004ء میں جب بھارتی ٹیم پاکستان کے دورے پر آئی تو لاہور، کراچی اور راولپنڈی کے عوام نے بھارتی کھلاڑیوں کو بے مثال محبت دی۔ حتیٰ کہ شائقین نے بھارتی کھلاڑیوں کے لیے تالیاں بجائیں، ان کی کارکردگی کو سراہا اور دنیا کو دکھایا کہ کھیل کس طرح دشمنیوں کو مٹا سکتا ہے ۔ لیکن آج کا بھارت اپنی اسی تاریخ کو بھلا بیٹھا ہے اور کھیل کو بھی سیاست کی بھینٹ چڑھا رہا ہے ۔
اصل مسئلہ بھارت کی اندرونی سیاست میں پنہاں ہے ۔ بھارتی حکمران جماعت نے اپنے ووٹ بینک کو مضبوط کرنے کے لیے پاکستان دشمنی کو ایک بیانیہ بنا لیا ہے ۔ انتخابی مہمات ہوں یا روزمرہ کی سیاست، پاکستان کے خلاف زہر اگلنا بھارتی رہنماؤں کے لیے ایک آسان ہتھیار ہے ۔ اس بیانیے کو بھارتی میڈیا نے مزید ہوا دی ہے ۔ ہر میچ کو ایک جنگ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور ہر پاکستانی کھلاڑی کو ایک دشمن کے طور پر دکھایا جاتا ہے ۔ نتیجہ یہ ہے کہ عوام کے ذہنوں میں یہ نفرت اس حد تک رچ بس گئی ہے کہ کھیل کے بعد ایک مصافحہ بھی انہیں گوارا نہیں ہوتا۔یہ رویہ صرف پاکستان کے ساتھ تعلقات کو ہی نقصان نہیں پہنچا رہا بلکہ بھارت کے اپنے کھیل کی ساکھ کو بھی متاثر کر رہا ہے۔ دنیا بھر میں کھیل کو امن اور دوستی کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے ، لیکن بھارتی کھلاڑیوں کا یہ طرزِ عمل دنیا کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ بھارت کھیل کو بھی اپنی انتہا پسندی کے رنگ میں رنگنا چاہتا ہے ۔ بین الاقوامی سطح پر اس سے بھارت کی شبیہ متاثر ہو رہی ہے ، کیونکہ کرکٹ کے شائقین دنیا کے کسی بھی کونے میں ہوں، وہ کھیل کے اندر دوستی اور عزت کو سب سے زیادہ پسند کرتے ہیں۔
پاکستانی کھلاڑیوں نے ہمیشہ اپنی طرف سے کھیل کی اقدار کا احترام کیا ہے ۔ چاہے جیت ہو یا ہار، انہوں نے بھارتی کھلاڑیوں کے ساتھ مثبت رویہ اپنایا۔ لیکن بھارت کی جانب سے یہ سرد مہری اور غیر روایتی رویہ اس بات کا اظہار ہے کہ کھیل کو نفرت سے آلودہ کر دیا گیا ہے ۔ اس کا نقصان صرف پاکستان کو نہیں بلکہ خود بھارت کو بھی ہوگا، کیونکہ جب کھیل سے رواداری ختم ہو جاتی ہے تو اس کے بعد کھیل کا اصل حسن باقی نہیں رہتا۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کا حل کیا ہے ؟ سب سے پہلے تو یہ ضروری ہے کہ کھیل کے میدانوں کو سیاست اور نفرت سے پاک رکھا جائے ۔ کرکٹ بورڈز کو چاہیے کہ وہ کھلاڑیوں کو کھیل کی اصل روح یعنی باہمی احترام اور رواداری کی تربیت دیں۔ بین الاقوامی ادارے مثلاً آئی سی سی اور اے سی سی اپنی ذمہ داری ادا کریں اور کھیل میں غیر اخلاقی رویوں کے خلاف سخت اقدامات کریں۔ میڈیا کو یہ سمجھنا ہوگا کہ کھیل کو سیاست کا میدان نہ بنایا جائے بلکہ اسے امن اور بھائی چارے کا ذریعہ بننے دیا جائے ۔ پاکستان اپنی کرکٹ ڈپلومیسی کو مزید فعال کرے اور دنیا کو یہ باور کرائے کہ کھیل کو سیاست سے بالاتر سمجھنا چاہیے ۔ دونوں ملکوں کے عوام کو یہ شعور دینا ہوگا کہ کھیل دشمنی نہیں بلکہ تعلقات بہتر بنانے کا ذریعہ ہے ۔آخر میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جنگ اور کھیل میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔ کھیل دلوں کو جوڑتا ہے ، جب کہ جنگ دلوں کو توڑتی ہے ۔ اگر بھارت واقعی ایک بڑی قوم بننا چاہتا ہے تو اسے کھیل کے میدانوں میں بھی بڑے پن کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ پاکستان کے ساتھ کھیلنا کوئی کمزوری نہیں بلکہ ایک موقع ہے کہ دونوں قومیں قریب آئیں اور نفرت کی دیواریں توڑیں۔ کرکٹ کو نفرت کا نہیں بلکہ محبت اور امن کا ذریعہ بنانا وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے ۔