آئی سی سی اور بھارت کا دوغلا پن
اشاعت کی تاریخ: 15th, September 2025 GMT
گزشتہ شب دبئی کے میدان میں پاک بھارت میچ نے دنیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کی۔ ایک طرف میدان کے اندر بھارتی ٹیم کی جیت کو فوج اور پہلگام متاثرین کے نام کیا گیا، تو دوسری جانب اسٹیڈیم میں موجود پاکستانی اور بھارتی شائقین کے گلے ملنے اور ایک دوسرے کے لیے محبت بھرے نعروں نے سوشل میڈیا پر دھوم مچائی۔
یہ منظر واضح کر رہا تھا کہ عوامی سطح پر تعلقات کی خواہش کچھ اور ہے اور کھیل کے منتظمین کے ایجنڈے کچھ اور۔ بھارت کا رویہ یہاں سب سے نمایاں ہے۔ ایک طرف وہ پاکستان کے ساتھ دوطرفہ سیریز کھیلنے سے انکار کرتا ہے، فنکاروں اور موسیقاروں پر پابندیاں لگاتا ہے، حتیٰ کہ سوشل میڈیا پر پاکستانیوں کے ساتھ تعاون کرنے والے اپنے شہریوں کو بھی نشانہ بناتا ہے۔
دوسری طرف جب بات آئی سی سی یا ایشین کرکٹ کونسل کے ٹورنامنٹس کی آتی ہے تو اربوں ڈالر کے نشریاتی معاہدوں اور اشتہارات کی خاطر کھیلنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ یہی وہ تضاد ہے جسے ماہرین ’محبت اور منافقت‘ کا امتزاج قرار دیتے ہیں۔
کرکٹ کو ’جنٹلمینز گیم‘ کہا جاتا ہے، مگر جب یہ کھیل قومی وقار اور ریاستی سیاست سے جڑ جائے تو پھر ’بیٹ اور بال‘ کے بیچ طاقت، انا اور بیانیے کی جنگ شروع ہو جاتی ہے۔ کل کے پاک بھارت میچ کے بعد پیدا ہونے والا ’ہینڈ شیک تنازع‘ اس بحث کو ایک بار پھر زندہ کر گیا ہے کہ کھیل کو سیاست سے کیسے الگ رکھا جائے اور آئی سی سی اس ضمن میں کیا کردار ادا کرتی ہے؟
ایشیا کپ کے دبئی میچ کے بعد بھارتی ٹیم کا پاکستان کے کھلاڑیوں سے ہاتھ ملانے سے گریز کھیل کی اسپرٹ سے انحراف تھا۔ بھارتی کپتان سوریا کمار یادیو نے اسے حکومتی و بورڈ پالیسی کے مطابق قرار دے کر یہ تاثر مزید پختہ کر دیا کہ یہ فیصلہ کھیل کا نہیں بلکہ سیاسی تھا۔
پاکستان نے بھی احتجاجاً اپنا کپتان پریزنٹیشن کے لیے نہ بھیج کر اس رویے پر ردعمل دیا۔ کوچ مائیک ہیسن اور سابق فاسٹ باؤلر شعیب اختر نے واضح کہا کہ کھیل کو سیاست میں گھسیٹنا ناقابل قبول ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان کرکٹ محض کھیل نہیں، تاہم پاکستان نے ہمیشہ اسپورٹس اسپرٹ کا مظاہرہ کیا۔ 1999 کے لاہور ٹیسٹ میں کارگل کے پس منظر کے باوجود پرویز مشرف اور بھارتی ٹیم کی مسکراہٹیں یادگار ہیں مگر اب صورت حال یکسر بدل چکی ہے۔
2019 میں بھارت نے ورلڈ کپ میں پاکستان سے میچ کھیلنے کے خلاف مہم چلائی، مگر آئی سی سی نے دباؤ قبول نہیں کیا۔ اس کے برعکس، پاکستان نے بارہا بھارت کے ان اقدامات پر اعتراض کیا جن سے کھیل کو سیاست میں گھسیٹا گیا، لیکن اکثر شکایات نظرانداز ہوئیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ یہ کھیل سیاست، نسلی امتیاز اور عالمی تنازعات سے بارہا متاثر ہوا ہے۔ آئی سی سی بارہا مؤقف اپناتی رہی کہ کھیل کو سیاست سے الگ رکھا جائے، مگر اس میں تضاد بھی نمایاں رہا ہے۔ چند اہم مثالیں:
1968: جنوبی افریقہ
نسلی امتیاز (اپارتھائیڈ) کی پالیسی کے باعث جنوبی افریقہ کو بین الاقوامی کرکٹ سے باہر کر دیا گیا اور پروٹیز کئی دہائیوں تک عالمی کرکٹ کھیلنے سے محروم رہے۔
1996: بھارت بمقابلہ سری لنکا
ورلڈ کپ کے دوران بھارت نے تامل شورش کے باعث سری لنکا میں کھیلنے سے انکار کیا۔ آئی سی سی نے اسے کھیل کے اصولوں کے منافی قرار دے کر میچ سری لنکا کو دے دیا۔
2003: زمبابوے
زمبابوے کے کھلاڑی اینڈی فلاور اور ہنری اولونگا نے سیاہ پٹیاں پہن کر انسانی حقوق کی پامالی پر احتجاج کیا، جس پر آئی سی سی نے انہیں وارننگ جاری کی۔ اسی ورلڈ کپ میں انگلینڈ نے زمبابوے میں میچ کھیلنے سے انکار کیا تو آئی سی سی نے پوائنٹس کاٹ لیے۔
2009: لاہور حملہ
سری لنکن ٹیم پر دہشتگرد حملے کے بعد پاکستان برسوں تک اپنے ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ سے محروم رہا اور نیوٹرل وینیو پر کھیلنے پر مجبور ہوا۔
2019: پلوامہ واقعہ
بھارتی ٹیم نے آسٹریلیا کے خلاف فوجی ٹوپیاں پہن کر میچ کھیلا۔ پاکستان نے احتجاج کیا مگر آئی سی سی نے صرف تنبیہ کے ساتھ معاملہ ختم کر دیا۔
2023: عثمان خواجہ کا احتجاج
آسٹریلوی اوپنر عثمان خواجہ نے فلسطینی عوام سے اظہار یکجہتی کے لیے نعرے درج جوتے پہننے کا ارادہ کیا، مگر آئی سی سی نے ضوابط کی خلاف ورزی قرار دے کر روک دیا۔ بعدازاں انہوں نے بازو پر سیاہ پٹی باندھی تو ان پر چارج عائد کر دیا گیا۔
اس سے قبل جنوبی افریقہ کے اسپنر کیشو مہاراج کو مذہبی نشان کے استعمال کی اجازت دی گئی تھی، جو آئی سی سی کے متضاد رویے کو اجاگر کرتا ہے۔
2025: ایشیا کپ ہینڈ شیک تنازع
14 ستمبر کو دبئی میں بھارتی کھلاڑیوں نے پاکستانی ٹیم سے ہاتھ ملانے سے انکار کیا۔ یہ واقعہ اسپرٹ آف کرکٹ کی خلاف ورزی کے طور پر دنیا بھر میں زیر بحث آیا، مگر تاحال آئی سی سی کا کوئی باضابطہ مؤقف سامنے نہیں آیا۔
پاکستانی کوچ مائیک ہیسن نے کہا کہ ہم کھیل کو کھیل سمجھتے ہیں، سیاست اس میں شامل نہیں ہونی چاہیے۔ سابق فاسٹ باؤلر شعیب اختر نے مؤقف اپنایا کہ بھارت نے کھیل کی روح کو مجروح کیا۔ ویسٹ انڈیز کے سابق کپتان ڈیرن سیمی نے بھی زور دیا کہ آئی سی سی کو سب کے لیے یکساں اصول اپنانے ہوں گے۔
آئی سی سی کے پاس کوڈ آف کنڈکٹ موجود ہے جو کھیل میں سیاسی یا مذہبی علامت کے استعمال کو روکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ اصول سب پر یکساں لاگو ہوں گے یا بڑے بورڈز کے اثر و رسوخ کے آگے ضابطے کمزور پڑتے رہیں گے؟
دبئی کے اسٹیڈیم میں عوام نے ثابت کر دیا کہ تعلقات اور بھائی چارے کی خواہش سیاست سے زیادہ مضبوط ہے۔ اب یہ فیصلہ آئی سی سی اور کرکٹ بورڈز کو کرنا ہے کہ وہ کھیل کو سیاست کے بوجھ سے آزاد رکھنا چاہتے ہیں یا نہیں۔
آئی سی سی کے لیے بھی یہ ایک امتحان ہے۔ اگر وہ کھیل کو سیاست سے بالاتر رکھنے کے اپنے اصول پر قائم ہے تو اسے بھارت سمیت سب پر یکساں ایکشن لینا ہوگا۔ بصورت دیگر کھیل بزنس اور بیانیے کی بھینٹ چڑھتا رہے گا اور اس کی اصل روح کھو جائے گی۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ایشیا کپ بھارت پاک بھارت میچ محسن نقوی کھیل کو سیاست بھارتی ٹیم پاکستان نے کھیلنے سے اور بھارت سے انکار سیاست سے کے ساتھ کے لیے کر دیا
پڑھیں:
جنگ میں 6 جہاز گرنے کے بعد بھارت کھیل کے میدان میں اپنی خفت مٹا رہا ہے، وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ
وفاقی وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ نے کہا ہے کہ جب قوم اخلاقی پستی کا شکار ہو جاتی ہے تو وہ کھیل کو بھی سیاست کا میدان بنا دیتی ہے۔
قومی پیغامِ امن کمیٹی کے پہلے اجلاس کے بعد صحافیوں کے سوالات کے جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہاکہ بھارت کے 6 جہاز گر گئے، جنگ بھی ہار گئے، اب کہتے ہیں کرکٹ میں ہاتھ نہیں ملائیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: ایشیا کپ تنازع: دبئی میں پاکستان کرکٹ ٹیم کی آج ہونے والی پریس کانفرنس ملتوی
انہوں نے کہاکہ جن کی کوئی عزت نہیں ہوتی وہ اپنی خفت مٹانے کے لیے ایسے رویے اپناتے ہیں، تاہم ہر صورت میں اسپورٹس مین اسپرٹ زندہ رہنی چاہیے۔
ایک صحافی نے سوال کیاکہ آیا آئی سی سی نے میچ ریفری کو ہٹانے کے ضمن میں پاکستان کا مطالبہ منظور کر لیا ہے؟ تو اس پر عطااللہ تارڑ نے کہاکہ اس بارے میں بہتر جواب محسن نقوی ہی دے سکتے ہیں، مگر ان کے نزدیک میچ ریفری کو ریفری کی طرح ہی عمل کرنا چاہیے تھا۔
دہشت گردی کے موضوع پر بات کرتے ہوئے وزیر اطلاعات نے کہا کہ دہشتگرد کا سہولت کار بھی دہشتگرد ہی ہے، جو کسی دہشتگرد کو پناہ دیتا ہے وہ بھی انہی جرائم میں شریک ہے۔
انہوں نے کہاکہ قوم نے 90 ہزار جانوں کا نذرانہ دیا ہے اور سہولت کار چاہے کسی بھی سیاسی یا مذہبی جماعت سے منسلک ہوں، وہ گرفت میں آئیں گے۔
عطااللہ تارڑ نے مزید کہاکہ دہشتگردوں کا کوئی مذہب نہیں، وہ پاکستان کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں اور بالاخر امن قائم ہو گا۔ جن لوگ اسکولوں میں معصوم بچوں کو معاف نہیں کرتے ان کا کوئی دین و مذہب نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اگر پاکستان نے ایشیا کپ کا بائیکاٹ کیا تو ایونٹ کو مالی طور پر کتنا نقصان ہوسکتا ہے؟
ان کا کہنا تھا کہ جو بھی پاکستانی اور ریاست کے خلاف سازشیں کرتے ہیں یا ان کی حمایت کرتے ہیں، وہ سہولت کار تصور کیے جائیں گے اور اس پر سب کی متفقہ رائے ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews آئی سی سی ایشیا کپ تنازع پاک بھارت کرکٹ پاکستان بھارت تعلقات پی سی بی عطااللہ تارڑ کرکٹ کا میدان وفاقی وزیر اطلاعات وی نیوز