مون سون 2025: معمول سے زیادہ بارشیں، سیلاب اور اربن فلڈنگ کا خطرہ، محکمہ موسمیات
اشاعت کی تاریخ: 30th, May 2025 GMT
محکمہ موسمیات نے مون سون 2025 کے حوالے سے وارننگ جاری کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ ملک کے وسطی، جنوبی اور شمال مشرقی علاقوں میں معمول سے زیادہ بارشیں متوقع ہیں، جس کے نتیجے میں سیلاب اور شہری علاقوں میں اربن فلڈنگ کا سنگین خطرہ پیدا ہو سکتا ہے۔
ڈائریکٹر جنرل محکمہ موسمیات مہر صاحبزاد خان نے اسلام آباد میں مٰڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ رواں سال مون سون سیزن 15 جون سے 15 ستمبر تک جاری رہے گا۔ اگرچہ یہ سیزن عمومی طور پر 3 ماہ پر محیط ہوتا ہے، تاہم اس سال اس کے جلد آغاز اور تاخیر سے اختتام کے امکانات بھی موجود ہیں۔
ڈی جی موسمیات کے مطابق شمال مشرقی پنجاب، کشمیر، اور ملک کے دیگر وسطی و جنوبی حصوں میں شدید بارشوں کا امکان ہے، جبکہ گلگت بلتستان اور شمالی خیبر پختونخوا میں بارشیں معمول سے کم ہوں گی، مگر درجۂ حرارت بلند رہنے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔
مزید پڑھیں: موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات، گلگت بلتستان میں سیلابی صورتحال کے باعث انتظامیہ کا انتباہ
انہوں نے کہا کہ اس سال برفباری معمول سے کم ہوئی اور جو برف گری وہ وقت سے پہلے پگھل گئی، جس کی وجہ سے درجہ حرارت میں اضافہ اور سیلابی خطرات بڑھ گئے ہیں۔ بالائی علاقوں میں شدید سیلابی صورتحال پیدا ہونے کے خدشے کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے متعلقہ اداروں کو فوری تیاری کی ہدایت کی ہے۔
کراچی، لاہور، فیصل آباد، پشاور اور حیدر آباد جیسے بڑے شہروں میں اربن فلڈنگ کے خطرات کو بھی نمایاں کیا گیا ہے۔
کراچی میں شدید گرمی، شہری احتیاط کریںدوسری جانب کراچی میں جمعہ کو درجہ حرارت 38.
ڈی جی محکمہ موسمیات نے شہریوں پر زور دیا ہے کہ وہ ذمہ داری کا مظاہرہ کریں، احتیاطی تدابیر اختیار کریں اور ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے ضلعی و صوبائی ادارے ہمہ وقت الرٹ رہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اربن فلڈنگ ڈائریکٹر جنرل محکمہ موسمیات محکمہ موسمیات مہر صاحبزاد خان مون سون 2025ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اربن فلڈنگ ڈائریکٹر جنرل محکمہ موسمیات محکمہ موسمیات محکمہ موسمیات اربن فلڈنگ معمول سے
پڑھیں:
ٹی ٹی پی کی پشت پناہی جاری رہی تو افغانستان سے تعلقات معمول پر نہیں آسکیں گے: خواجہ آصف
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے واضح کیا ہے کہ افغانستان کی جانب سے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی سرپرستی ختم کیے بغیر پاکستان اور افغانستان کے تعلقات معمول پر نہیں آسکتے۔
نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے خواجہ آصف نے بتایا کہ قطر اور ترکیہ کی ثالثی میں گزشتہ رات پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایک عبوری معاہدہ طے پایا ہے، جس کے تحت فریقین نے سیزفائر برقرار رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ مذاکرات کا اگلا دور 6 نومبر کو استنبول میں ہوگا، جس میں معاہدے کے طریقہ کار اور مانیٹرنگ کے میکنزم پر بات چیت کی جائے گی۔
وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ پاکستان کا بنیادی مطالبہ یہ ہے کہ افغان سرزمین سے پاکستان میں دراندازی کا سلسلہ بند کیا جائے، میں ساری افغان حکومت کو موردِ الزام نہیں ٹھہراتا، لیکن اس دراندازی کی پشت پناہی افغان حکومت کے کچھ عناصر کر رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ فی الوقت سیزفائر قائم ہے، مگر افغان جانب سے خلاف ورزیاں جاری ہیں اور ہم ان کا جواب بھی دے رہے ہیں۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک مؤثر ویری فیکیشن سسٹم بنایا جائے تاکہ معاہدے کی مکمل پابندی یقینی ہو۔
خواجہ آصف نے کہا کہ اگر افغانستان واقعی ہمسایہ ملک کی طرح تعلقات چاہتا ہے تو ٹی ٹی پی کی سرپرستی فوری طور پر ختم کرنا ہوگی، جب تک دراندازی اور دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کا خاتمہ نہیں ہوتا، معاہدے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
وفاقی وزیر نے وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کے حالیہ بیانات کو “ملکی سلامتی کے منافی قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ افسوسناک ہے کہ ایک صوبائی حکومت ایسے بیانات دے جو ریاستی مؤقف کو کمزور کریں۔ نیازی لا کے تحت ملک نہیں چل سکتا، پاکستان کسی فردِ واحد کی جاگیر نہیں بلکہ 25 کروڑ عوام کی ملکیت ہے۔
خواجہ آصف نے مزید کہا کہ پاکستان کسی شخصیت کی نہیں بلکہ اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔ جو لوگ ذاتی وابستگیوں کی بنیاد پر قومی سلامتی کے بیانیے کو نقصان پہنچا رہے ہیں، وہ دراصل بالواسطہ دہشت گردی کی معاونت کر رہے ہیں اور افغانستان کے مؤقف کو تقویت دے رہے ہیں۔”