چینی طلبہ امریکا کے نشانے پر، ویزوں کی ’جارحانہ‘ منسوخی پر چین کا شدید ردعمل
اشاعت کی تاریخ: 30th, May 2025 GMT
امریکا کی جانب سے چینی طلبہ کے ویزوں کی منسوخی پر حکومت چین نے اسے ’جارحانہ انداز‘ سے تعبیر کرتے ہوئے شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:مصنوعی ذہانت کی دنیا میں چین امریکا کو پیچھے چھوڑنے کے قریب پہنچ گیا
چین کی وزارتِ خارجہ نے جمعرات کو صحافیوں کو بتایا کہ اس نے واشنگٹن کے ساتھ بدھ کو امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو کے اعلان پر باضابطہ اعتراض درج کروایا ہے۔
’غیر معقول‘ فیصلہچینی حکومت کی ترجمان، ماؤ نِنگ نے ٹرمپ انتظامیہ پر الزام عائد کیا کہ وہ قومی سلامتی اور نظریات کو بہانہ بنا کر ایک ’غیر معقول‘ فیصلہ کر رہی ہے، جس سے چینی طلبہ کے جائز حقوق اور مفادات کو شدید نقصان پہنچا ہے اور دونوں ممالک کے درمیان معمول کے ثقافتی تبادلے میں خلل آیا ہے۔
چینی ترجمان کے مطابق امریکا کی یہ سیاسی اور امتیازی پالیسی اس کے اس دعوے کو جھٹلاتی ہے کہ وہ آزادی کا حامی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اور اس سے امریکا کی بین الاقوامی ساکھ، قومی وقار اور اعتماد کو بھی نقصان پہنچا ہے۔
یاد رہے کہ روبیو کے اعلان میں خاص طور پر چین اور ہانگ کانگ سے تعلق رکھنے والے طلبہ کے لیے نگرانی میں اضافے کا ذکر کیا گیا تھا، جو امریکی یونیورسٹیوں کے لیے ایک بڑا مالی ذریعہ ہیں۔
یہ اعلان اس وقت سامنے آیا جب ایک روز قبل چین نے امریکی محکمہ خارجہ کے اس فیصلے پر تنقید کی تھی کہ اس نے دنیا بھر کے طلبہ کے لیے ویزا اپوائنٹمنٹس کو وقتی طور پر معطل کر دیا ہے۔
اس کے علاوہ ٹرمپ انتظامیہ نے ہارورڈ یونیورسٹی میں زیر تعلیم تمام بین الاقوامی طلبہ کے اجازت نامے ختم کرنے کی کوشش کی تھی، جسے یونیورسٹی نے مسترد کر دیا تھا۔
واضح رہے کہ روبیو نے دوٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ ہم چینی طلبہ کے ویزے جارحانہ طور پر منسوخ کریں گے، خاص طور پر ان طلبہ کے جو چینی کمیونسٹ پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں یا اہم شعبہ جات میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم مستقبل کے ویزا درخواست گزاروں کے لیے معیارات میں تبدیلی بھی لائیں گے تاکہ جانچ پڑتال سخت کی جا سکے۔
یہ بھی پڑھیں:چین امریکا تعلقات سنگین ہوگئے، چینی وزیر خارجہ نے خطرہ کی گھنٹی بجادی
چینی نوجوان طلباہ طویل عرصے سے امریکی یونیورسٹیوں کے لیے اہم رہے ہیں، جو مکمل فیس ادا کرنے والے بین الاقوامی طلبہ پر انحصار کرتی ہیں۔
انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل ایجوکیشن کی رپورٹانسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل ایجوکیشن کی رپورٹ کے مطابق تعلیمی سال 2023-24 میں چین نے 277,398 طلبہ امریکا بھیجے، حالانکہ برسوں بعد پہلی مرتبہ بھارت نے اس تعداد کو پیچھے چھوڑا ہے۔
ٹرمپ نے اپنی سابقہ مدت میں بھی چینی طلبہ کو نشانہ بنایا تھا، خاص طور پر ان کو جو حساس شعبوں میں تعلیم حاصل کر رہے تھے یا فوج سے وابستہ تھے۔
تاہم یہ واضح نہیں کہ روبیو کا بیان پچھلے اقدامات سے کتنا مختلف یا شدید ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکا امریکا یونیورسٹی چین چینی ترجمان چینی طلبہ مارکو روبیو ویزا منسوخ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکا امریکا یونیورسٹی چین چینی ترجمان چینی طلبہ مارکو روبیو ویزا منسوخ چینی طلبہ طلبہ کے کے لیے
پڑھیں:
اسرائیل کی حمایت میں امریکا کا ایک بار پھر یونیسکو چھوڑنے کا اعلان
امریکا نے اقوام متحدہ کے تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی ادارے یونیسکو (UNESCO) سے دوبارہ علیحدگی کا اعلان کر دیا ہے۔
امریکی حکومت کا کہنا ہے کہ یونیسکو اسرائیل کے خلاف تعصب رکھتا ہے اور عالمی سطح پر ’’تقسیم پیدا کرنے والے‘‘ سماجی و ثقافتی ایجنڈے کو فروغ دیتا ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے کہا کہ یونیسکو میں رہنا "امریکی قومی مفاد میں نہیں" ہے۔ یہ فیصلہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2017 میں بھی کیا تھا، لیکن جو بائیڈن کے دور میں امریکا دوبارہ یونیسکو کا رکن بن گیا تھا۔
اب ٹرمپ کی واپسی کے بعد ایک بار پھر امریکا کا ادارے سے نکلنے کا اعلان سامنے آیا ہے، جو دسمبر 2026 میں مؤثر ہو گا۔
یونیسکو کی ڈائریکٹر جنرل آڈری آذولے نے اس فیصلے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام ملٹی لیٹرلزم (کثیر الجہتی تعاون) کے اصولوں کی نفی کرتا ہے۔ تاہم انہوں نے اعتراف کیا کہ یہ فیصلہ متوقع تھا اور ادارہ اس کے لیے تیار ہے۔
یونیسکو نے کہا کہ امریکی انخلا کے باوجود ادارے کو مالی طور پر بہت زیادہ فرق نہیں پڑے گا کیونکہ گزشتہ دہائی میں امریکا کی بجٹ میں شراکت 20 فیصد سے کم ہو کر اب 8 فیصد رہ گئی ہے۔
امریکا نے یونیسکو پر الزام لگایا ہے کہ اس نے فلسطین کو ریاست تسلیم کرکے اسرائیل مخالف بیانیہ بڑھایا ہے اور مقبوضہ مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں فلسطینی ثقافتی مقامات کو عالمی ورثہ قرار دینا بھی امریکی پالیسی کے خلاف ہے۔
اسرائیل نے امریکی فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے، جب کہ فرانسیسی صدر ایمانویل میکرون نے یونیسکو کی مکمل حمایت جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔
یاد رہے کہ امریکا اس سے پہلے بھی 1980 کی دہائی میں ریگن حکومت کے تحت یونیسکو سے نکل چکا ہے، اور 2000 کی دہائی میں صدر بش کے دور میں دوبارہ شامل ہوا تھا۔