فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل: جسٹس جمال، جسٹس نعیم اختر نے اختلافی فیصلہ جاری کردیا
اشاعت کی تاریخ: 30th, May 2025 GMT
اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن )سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کے ججز جسٹس جمال خان مندو خیل اور جسٹس نعیم اختر افغان نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ملٹری ٹرائل درست قرار دینے پر تفصیلی اختلافی فیصلہ جاری کر دیا۔
واضح رہے کہ 7 مئی کو سپریم کورٹ کے 7 رکنی آئینی بینچ نے 2-5 کی اکثریت سے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ملٹری ٹرائل کو درست قرار دے دیا تھا، حکومت کی انٹراکورٹ اپیلیں منظور کرتے ہوئے آرمی ایکٹ کو اصل شکل میں بحال کردیا گیا تھا۔
ڈان نیو ز کے مطابق جسٹس جمال خان مندو خیل اور جسٹس نعیم اختر افغان نے 36 صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کیا، جس میں کہا گیا ہے کہ ہم اکثریتی ججز کے فیصلے سے اتفاق نہیں کرتے۔
اختلافی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عدالت کے سامنے اس معاملے سے متعلق 2 سوالات تھے، کیا آرمی ایکٹ کا سیکشن 2 (ون) (ڈی)، آئین کے آرٹیکل 8 (تین) (اے) سے مطابقت رکھتا ہے؟ دوسرا سوال یہ تھا کہ کیا آئین پاکستان کے تناظر میں آرمی ایکٹ کے سیکشن 2 (ون) (ڈی) کے تحت سویلینز کا ملٹری ٹرائل ہوسکتا ہے؟
ججز نے اختلافی فیصلے میں لکھا کہ پاکستان آرمی ایکٹ ایک خصوصی قانون ہے، جو مسلح افواج کے ممبران پر لاگو ہوتا ہے، یہ قانون فوجی جرائم کیلئے سزا تجویز کرتا ہے تاکہ فوج کی تنظیم قائم رہ سکے۔مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان میں دیگر عمومی جرائم کے لئے عمومی قانون موجود ہے جو تمام افراد پر لاگو ہوتا ہے، عمومی جرائم کے ٹرائل عام عدالتوں میں ہوتے ہیں، جنہیں سول جرائم کہا جاتا ہے۔
اختلافی فیصلے کے مطابق اگر کسی فوجی سے عام جرم سرزد ہو جائے تو عام عدالتیں اور فوجی عدالتیں دونوں کا دائرہ اختیار بنتا ہے تاہم یہ فیصلہ عام عدالت کو کرنا ہے کہ آیا یہ کیس کو فوجی عدالت بھیجنا ہے یا نہیں۔جسٹس جمال خان مندو خیل اور جسٹس نعیم اختر افغان نے لکھا کہ ہمیں بالکل شک نہیں کہ آرمی ایکٹ صرف اور صرف مسلح افواج کے ممبران پر لاگو ہوتا ہے، 1967 کے آرڈیننس کے تحت آرمی ایکٹ میں سیکشن 2 (ون) (ڈی) کا اضافہ کیا گیا۔
فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ مسلح افواج کے ممبران کو اپنی ڈیوٹی سے غفلت برتنے پر اکسانے والے کو بھی آرمی ایکٹ کے ماتحت کردیا گیا، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت جرائم کرنے والے کو بھی آرمی ایکٹ کے ماتحت کردیا گیا۔ججز کا فیصلے میں کہنا تھا کہ اسی طرح آرمی ایکٹ میں سیکشن 59 میں سب سیکشن 4 کا اضافہ بھی کیا گیا، سب سیکشن 4 میں جرائم کو سول جرائم قرار دے دیا گیا۔فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ سیکشن (ڈی) (ون) میں موجود جرائم تعزیرات پاکستان کے سیکشن 131 میں پہلے سے موجود تھے، اسی طرح سیکشن (ڈی) (ٹو) میں موجود جرائم آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں پہلے سے موجود تھے۔اسی طرح سب سیکشن 4 کے اضافے سے آرمی ایکٹ کا دائرہ اختیار سویلینز تک بھی وسیع کر دیا گیا، 1962 کا آئین ایک ملٹری ڈکٹیٹر نے تحریر کیا تھا، ڈکٹیٹرشپ میں عدلیہ کو ایگزیکٹو سے الگ رکھنے کا کوئی تصور موجود نہ تھا۔
اختلافی فیصلے کے مطابق 1973 کے آئین کے بعد صورتحال مکمل طور پر مختلف ہے، پہلی بار سیکشن (ٹو) (ون) (ڈی) کے تحت ملٹری ٹرائل کو چیلنج کیا گیا ہے، اپنی نوعیت کا پہلا کیس ہونے کے باعث اس کا جواب 1973 کے آئین کی روشنی میں دینا چاہئے۔فیصلے کے مطابق آئین کے تحت حکومت ریاست کی مالک نہیں بلکہ عوام کی ایما پر ریاست کا نظام چلانے کی مجاز ہے، آئین کا دیباچہ کہتا ہے کہ حکومت اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ حدود کے اندر رہ کر اپنے اختیارات کا استعمال کرے گی، آئین مقننہ، ایگزیکٹو اور عدلیہ تینوں ریاست کے آرگنز ہیں۔اختلافی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ایگزیکٹو اور عدلیہ دو الگ الگ چیزیں ہیں، قرآن اور نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی آزاد، غیر جانبدار عدلیہ کا درس دیا۔اختلافی فیصلے کے مطابق حضرت عمر فاروق نے عدلیہ کو ایگزیکٹو سے الگ رکھا، اسلامی تعلیمات کو قرارداد مقاصد کا حصہ بنایا گیا، آئین میں انہی تعلیمات کے تحت عدلیہ کو آزاد رکھا گیا۔
فیصلے کے مطابق عدلیہ کا اختیار کسی ایگزیکٹو ادارے کو نہیں دیا جا سکتا، یہ کہنا کہ دنیا میں دہشت گردی کے مقدمات کا سامنا کرنے کے لئے فوجی عدالتیں قائم کی جاتی ہیں، درست نہیں۔دو ججز نے اختلافی فیصلے میں مزید لکھا کہ یہ درست ہے کہ عام فوجداری عدالتوں میں سزا کی شرح کم ہے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان عدالتوں میں انصاف فراہم کرنے کی صلاحیت یا خواہش موجود نہیں ہے، سپریم کورٹ مستقل طور پر نچلی عدالتوں کے فیصلوں کا عدالتی جائزہ لے رہی ہے۔اختلافی فیصلے کے مطابق عدالتی مشاہدے میں آیا کہ زیادہ تر بریت کے فیصلے بے بنیاد سیاسی مقدمات آتے ہیں، ایسے فیصلے غیر پیشہ ورانہ تفتیش اور کمزور پراسیکیوشن کا نتیجہ ہوتے ہیں۔اختلافی فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ انٹر کورٹ اپیلیں وفاقی، پنجاب اور بلوچستان حکومت کی طرف سے دائر کی گئی، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بدقسمتی سے ان حکومتوں کو فوجداری عدالتوں پر اعتماد نہیں رہا۔
فیصلے کے مطابق افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ان منتخب حکومتوں نے فوجداری عدالتوں پر اعتماد ختم کردیا ہے، ان حکومتوں نے غیر سنجیدہ، سیاسی نوعیت کے مقدمات کے حل کا بوجھ فوجی عدالتوں پر ڈال دیا ہے، جو کہ ناقابل فہم ہے۔اختلافی فیصلے میں ججز نے مزید لکھا کہ فوجی افسران جو فوجی عدالتوں کی صدارت کرتے ہیں وہ فوجی معاملات میں مہارت رکھتے ہیں، ان افسران کے پاس عدالتی تجربہ نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ دیوانی مقدمات سے نمٹنے کے لئے تربیت یافتہ ہوتے ہیں۔اختلافی فیصلے کے مطابق فوجی عدالتوں کو عام عدالتی نظام کے برابر نہیں سمجھا جا سکتا، عام عدالتوں کے افسران عدالتی تجربے کے ساتھ ساتھ آزادی کے حامل ہوتے ہیں، وفاقی اور صوبائی حکومتیں دہشت گردی کے مقدمات کو سمجھنے کے بجائے اپنے مقصد کیلئے فوجی عدالتوں پر انحصار کرہے ہیں۔
رونالڈو کے سعودی کلب کے ساتھ معاہدے کی آخری تاریخ 30 جون، مستقبل کیا ہوگا؟
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: مزید کہا گیا ہے کہ اختلافی فیصلے میں فیصلے میں مزید فوجی عدالتوں ملٹری ٹرائل عدالتوں میں عدالتوں پر جسٹس جمال آرمی ایکٹ ہوتے ہیں لکھا کہ ایکٹ کے ہوتا ہے دیا گیا کے تحت
پڑھیں:
فلم آپ کی مرضی سے فلاپ ہونی ہے ، پی ٹی آئی امیدواروں کو جان بوجھ کر حقوق نہیں دیئے گئے،وکیل فیصل صدیقی کا جسٹس جمال مندوخیل سے مکالمہ
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)سپریم کورٹ آئینی بنچ میں مخصوص نشستوں سے متعلق کیس جسٹس جمال مندوخیل نے فیصل صدیقی سےمکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ آپ کی فلم تو پھر فلاپ ہو جائے گی، وکیل فیصل صدیقی نے کہاکہ فلم آپ کی مرضی سے فلاپ ہونی ہے ، آپ کا فیصلہ قبول ہوگا، جمہوریت میں سب کو برابر کے حقوق ملنے چاہئیں،پی ٹی آئی امیدواروں کو جان بوجھ کر حقوق نہیں دیئے گئے۔
نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز کے مطابق سپریم کورٹ آئینی بنچ میں مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی کیس کی سماعت ہوئی، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 11رکنی لارجر بنچ نے سماعت کی،وکیل فیصل صدیقی نے کہاکہ اکثریتی ججز نے کہامخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو ملنی چاہئیں،جسٹس امین الدین خان نے کہاکہ آپ اپنے لئے مسائل پیدا کررہے ہیں،وکیل نے کہاکہ ہمیں کوئی مسئلہ نہیں نشستیں پی ٹی آئی کو ملیں یا ہمیں ایک ہی بات ہے،جسٹس جمال مندوخیل نے فیصل صدیقی سےمکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ آپ کی فلم تو پھر فلاپ ہو جائے گی، وکیل فیصل صدیقی نے کہاکہ فلم آپ کی مرضی سے فلاپ ہونی ہے ، آپ کا فیصلہ قبول ہوگا، جمہوریت میں سب کو برابر کے حقوق ملنے چاہئیں،پی ٹی آئی امیدواروں کو جان بوجھ کر حقوق نہیں دیئے گئے،جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ جمہوریت کی بات کی گئی ہے،کیا امیدواروں کا اپنی مرضی سے فیصلہ کرنا جمہوریت نہیں،کسی کو زبردستی دوسری جماعت میں شمولیت کیلئے مجبورتو نہیں کیا جا سکتا،جو آزادامیدوار کسی اور پارلیمانی جماعت میں جانا چاہیں تو جا سکتے ہیں،وکیل فیصل صدیقی نے کہاکہ اس ساری صورتحال میں الیکشن کمیشن کا کردار اہم ہے،الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی امیدواروں کو آزاد ڈکلیئر کردیا،جسٹس امین الدین نے کہاکہ فیصل صدیقی صاحب آپ بار بار پیچھے کی طرف جارہےہیں۔
کیا جج آئینی سکوپ سے باہر جا کر فیصلہ دے سکتے ہیں؟عوامی امنگوں اور جمہوریت کیلئے سہی، لیکن کیا جج آئین ری رائٹ کر سکتے ہیں؟جسٹس محمد علی مظہر کا استفسار
مزید :