سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے حوالے سے جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس نعیم اختر افغان کا اختلافی نوٹ جاری کر دیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل قانونی قرار، مقدمے میں کب کیا ہوا؟

اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ جب استغاثہ کے پاس کوئی ثبوت یا مواد نہ ہو تو فوجی عدالت سزا کیسے دے سکتی ہے؟ دونوں ججوں نے اپنے اقلیتی فیصلے ذریعے 9 مئی ملزمان کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل بھی کالعدم قرار دے دیے۔

36 صفحات پر مشتمعل اختلافی نوٹ جسٹس جمال خان مندوخیل نے تحریر کیا ہے۔ دونوں جج صاحبان کا کہنا ہے کہ فوجی عدالتیں نہ تو آزاد ہوتی ہیں اور نہ غیر جانبدار۔ دونوں جج صاحبان نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے ہیں وفاقی حکومت کی اپیلیں مسترد کر دیں۔

7 مئی کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئینی بینچ نے 5-2 کی اکثریت سے سویلینز کے ملٹری ٹرائل کی اجازت دے دی تھی۔ آئینی بینچ نے وزارت دفاع اور دیگر کی اپیلیں منظور کرتے ہوئے جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں 5 رکنی بنچ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا جو انہوں نے 23 جولائی 2023 کو جاری کیا تھا۔

 جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس نعیم اختر افغان کے اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ فوجی عدالتی نظام کا مقصد نظم، اخلاقیات اور ڈسپلن کو فروغ دینا ہے، ملٹری لا صرف سزا نہیں بلکہ فوجی نظم و ضبط کا جامع نظام ہے۔

آرمی ایکٹ کے بارے میں جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا ہے کہ مذکورہ ایکٹ سب سے پہلے برطانوی حکومت نے فوج میں غداری اور بغاوت کی روک تھام کے لیے  سنہ 1689 میں بنایا اور اس کے بعد سنہ 1911 میں پہلا انڈین آرمی ایکٹ نافذ کیا گیا جبکہ پاکستان آرمی ایکٹ سنہ 1952 میں بنایا گیا جو کہ آرمی ملازمین کے درمیان ڈسپلن قائم رکھنے کے لیے بنایا گیا۔

مزید پڑھیے: سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلنز کا ٹرائل درست قرار دے دیا

اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ فوجی عدالت کا طریقہ کار عام عدالت سے مختلف ہوتا ہے۔ فوجی عدالت کی جانب سے سنائی گئی سزا کی اپیل چیف آف آرمی اسٹاف کے سامنے کی جا سکتی ہے۔ آرمی ایکٹ کا تعلق صرف اور صرف فوجی ملازمین کے ساتھ ہے یا ان افراد پر جو اس قانون کے تابع ہوں۔

سویلین افراد کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے حوالے سے پارلیمنٹ نے آرمی ایکٹ میں سیکشن ڈی کا اضافہ کیا۔ جس میں ان سویلین افراد کے فوجی عدالت میں ٹرائل کی بھی اجازت دی گئی جو فوج میں بغاوت پھیلانے کی کوشش کریں یا کوئی ایسا جرم کریں جس کا تعلق افواج پاکستان سے ہو اور جو آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1952 کے تحت جرم ہو۔

اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ انتظامیہ اور عدلیہ 2 الگ الگ چیزیں ہیں، قرآن اور نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی آزاد، غیر جانبدار عدلیہ کا درس دیا، حضرت عمر فاروق نے عدلیہ کو ایگزیکٹو سے الگ رکھا جبکہ اسلامی تعلیمات کو قرارداد مقاصد کا حصہ بنایا گیا ہے۔ آئین میں انہی اسلامی تعلیمات کے تحت عدلیہ کو آزاد رکھا گیا اور اس لیےعدلیہ کا اختیار کسی ایگزیکٹو ادارے کو نہیں دیا جا سکتا۔ یہ کہنا کہ دنیا میں دہشتگردی کے مقدمات کا سامنا کرنے کے لیے فوجی عدالتیں قائم کی جاتی ہیں، درست نہیں۔

 اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ درست ہے کہ عام فوجداری عدالتوں میں سزا کی شرح کم ہے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان عدالتوں میں انصاف فراہم کرنے کی صلاحیت یا خواہش موجود نہیں ہے، سپریم کورٹ مستقل طور پر نچلی عدالتوں کے فیصلوں کا عدالتی جائزہ لے رہی ہے،  عدالتی مشاہدے میں آیا کہ زیادہ تر بریت کے فیصلے بے بنیاد سیاسی مقدمات آتے ہیں، ایسے فیصلے غیر پیشہ ورانہ تفتیش اور کمزور پراسیکیوشن کا نتیجہ ہوتے ہیں۔

مزید پڑھیں: سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل، اس مقدمے میں کیا کچھ ہوتا رہا؟

اختلافی نوٹ میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے 23 جولائی 2023 کے فیصلے کے خلاف انٹر کورٹ اپیلیں وفاقی، پنجاب اور بلوچستان حکومت کی طرف سے دائر کی گئی، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بدقسمتی سے ان حکومتوں کو فوجداری عدالتوں پر اعتماد نہیں رہا، افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ان منتخب حکومتوں نے فوجداری عدالتوں پر اعتماد ختم کردیا ہے۔

ان حکومتوں نے غیر سنجیدہ، سیاسی نوعیت کے مقدمات کے حل کا بوجھ فوجی عدالتوں پر ڈال دیا ہے جو کہ ناقابل فہم ہے، فوجی افسران جو فوجی عدالتوں کی صدارت کرتے ہیں وہ فوجی معاملات میں مہارت رکھتے ہیں، ان افسران کے پاس عدالتی تجربہ نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ دیوانی مقدمات سے نمٹنے کے لیے تربیت یافتہ ہوتے ہیں، فوجی عدالتوں کو عام عدالتی نظام کے برابر نہیں سمجھا جا سکتا، عام عدالتوں کے افسران عدالتی تجربے کے ساتھ ساتھ آزادی کے حامل ہوتے ہیں، وفاقی اور صوبائی حکومتیں دہشتگردی کے مقدمات کو سمجھنے کی بجائے اپنے مقصد کے لیے فوجی عدالتوں پر انحصار کرہے ہیں، عام فوجداری عدالتوں سے یہ توقع رکھنا کہ وہ بغیر ثبوت افراد کو مجرم ٹھہرائیں تو منصفانہ ٹرائل کی خلاف ورزی ہوگی، جب استغاثہ کے پاس کوئی ثبوت یا مواد نہ ہو تو فوجی عدالت سزا کیسے دے سکتی ہے؟ 9 مئی مقدمات سے متعلق کورٹ مارشل ہونے والے کچھ افراد نے بھی عدالت سے رجوع کیا تھا، سپریم کورٹ کے 25 مارچ 2024 کے حکمنامے کے بعد سویلینز کے ٹرائل آگے بڑھے اور سزائیں سنائی گئیں، فوجی عدالتوں میں سزاؤں سے بہت سارے سویلینز سزا یافتہ ہیں۔

اختلافی نوٹ میں قرار دیا گیا کہ فوجی عدالتوں کے پاس سویلین کا ٹرائل کرنے کا دائرہ اختیار نہیں۔

یہ بھی پڑھیے: فیصلہ کرلیں کہ سول نظام ناکام ہوچکا سب کیسز فوجی عدالت بھیج دیں، جسٹس جمال مندوخیل

9 مئی مقدمات میں سویلینز کو سنائی جانے والی سزائیں اور ان کے ٹرائل کالعدم قرار دیے جاتے ہیں۔ اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ غلط تاثر قائم ہو چکا ہے کہ اگر فوجداری عدالتیں دہشتگردی ختم نہیں کرسکتیں تو فوجی عدالتیں حل ہیں، کیا 21 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے خطرناک دہشتگردوں کو فوجی عدالتوں سےسزائیں سنانے سے دہشتگردی ختم ہوئی؟ جواب ہے کہ قدرتی طور پر ایک فوجی افسر کا کام نہیں کہ وہ مجرمان کو سزائیں دے، فوج کا کام ملک کا دفاع ہے نہ کہ عدلیہ کے فرائض سر انجام دینا، اگر فوج عدلیہ کے فرائض سر انجام دینے لگی تو لوگوں کا ان پر اعتماد نہیں رہے گا، جسٹس منیب اختر کے فیصلے میں یہ درست قرار دیا گیا کہ فوجی عدالتوں میں بنیادی حقوق میسر نہیں ہوتے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل فوجی عدالتیں.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل فوجی عدالتیں کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل جسٹس جمال خان مندوخیل فوجداری عدالتوں کے فوجی عدالت کہ فوجی عدالت فوجی عدالتیں فوجی عدالتی عدالتوں پر سویلینز کے سپریم کورٹ ا رمی ایکٹ کے لیے سزا کی کے پاس

پڑھیں:

فوجی عدالتوں میں سویلنزکےٹرائل کا فیصلہ، سابق چیف جسٹس نے نظرثانی درخواست دائرکردی

اسلام آباد میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے نظرثانی کی درخواست دائر کر دی ہے، جس میں فوجی عدالتوں میں سویلنز کے ٹرائل کی اجازت دینے کے فیصلے کو واپس لینے کی استدعا کی گئی ہے۔
سابق چیف جسٹس (ر) جواد ایس خواجہ نے آئینی بینچ سے درخواست کی ہے کہ سپریم کورٹ نے حقائق اور قانون کا درست جائزہ نہیں لیا۔ نظرثانی درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ اگر فیصلے میں غلطی کی نشاندہی ہو جائے تو تصحیح کرنا عدالت کی ذمہ داری ہے۔
درخواست کے مطابق فیصلے میں ایف بی علی کیس پر انحصار درست نہیں کیونکہ یہ فیصلہ 1962 کے آئین کے مطابق تھا جس کا اب وجود نہیں۔ اکیسویں ترمیم میں فوجی عدالتیں آئینی ترمیم کے نتیجے میں قائم کی گئی تھیں جبکہ موجودہ کیس میں کوئی آئینی ترمیم نہیں ہوئی، اس لیے فیصلے پر انحصار بھی درست نہیں۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ تضادات کا مجموعہ ہے، ایک جانب کہا گیا کہ فوجی عدالتوں میں بنیادی حقوق کا تحفظ ہوتا ہے جبکہ دوسری جانب لکھا گیا کہ بنیادی حقوق یقینی بنانے کیلئے اپیل کا حق دیا جائے۔ 9 اور 10 مئی واقعات پر سپریم کورٹ کی آبزرویشن سے ٹرائل متاثر ہوں گے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ عدالتوں میں زیر التواء مقدمات پر سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کا مؤقف فیصلے کا حصہ بنایا، جبکہ آئینی بینچ نے فیصلے میں شہریوں کو بنیادی حقوق سے محروم کر دیا۔

Post Views: 7

متعلقہ مضامین

  • فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کی اجازت دینے کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج
  • فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کی اجازت دینے کا فیصلہ چیلنج
  • فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل پر آئینی بینچ کے فیصلے کیخلاف سپریم کورٹ میں نظر ثانی درخواست دائر
  • فوج کا کام ملک کا دفاع ہے نہ کہ عدلیہ کے فرائض سر انجام دینا، 2ججزکا اختلافی نوٹ
  • فوجی عدالتوں میں سویلنزکےٹرائل کا فیصلہ، سابق چیف جسٹس نے نظرثانی درخواست دائرکردی
  • فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل: جسٹس جمال، جسٹس نعیم اختر نے اختلافی فیصلہ جاری کردیا
  • فوج کا کام ملک کا دفاع ہے نہ کہ عدلیہ کے فرائض سر انجام دینا، ججز اختلافی نوٹ
  • چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی حج پر روانہ، جسٹس منیب اختر قائم مقام چیف جسٹس کا حلف اٹھائیں گے
  • فلم آپ کی مرضی سے فلاپ ہونی ہے ، پی ٹی آئی امیدواروں کو جان بوجھ کر حقوق نہیں دیئے گئے،وکیل فیصل صدیقی کا جسٹس جمال مندوخیل سے مکالمہ