فوج کا کام ملک کا دفاع ہے نہ کہ عدلیہ کے فرائض سر انجام دینا، ججز اختلافی نوٹ
اشاعت کی تاریخ: 30th, May 2025 GMT
اسلام آ باد:
سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل سے متعلق انٹرا کورٹ اپیلوں پر دو اختلافی ججز نے اختلافی نوٹ جاری کردیا جس میں کہا ہے کہ فوجی افسر کا کام نہیں کہ وہ مجرمان کو سزائیں دے، فوج کا کام ملک کا دفاع ہے نہ کہ عدلیہ کے فرائض سر انجام دینا، اگر فوج عدلیہ کے فرائض سر انجام دینے لگی تو لوگوں کا ان پر اعتماد نہیں رہے گا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس نعیم اختر افغان نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا تھا ان کا تحریری فیصلہ سامنے آگیا ہے۔
5 ججز کے اکثریتی فیصلے میں ملٹری کورٹس میں سویلینز کے ٹرائل کو درست قرار دیا گیا تھا۔ اختلافی تفصیلی نوٹ 36 صفحات پر مشتمل ہے جسے جسٹس جمال مندوخیل نے تحریر کیا ہے۔
اختلافی نوٹ میں ججز نے کہا ہے کہ یہ کہنا کہ دنیا میں دہشت گردی کے مقدمات کا سامنا کرنے کے لیے فوجی عدالتیں قائم کی جاتی ہیں درست نہیں، یہ درست ہے کہ عام فوج داری عدالتوں میں سزا کی شرح کم ہے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان عدالتوں میں انصاف فراہم کرنے کی صلاحیت یا خواہش موجود نہیں ہے۔
نوٹ میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ مستقل طور پر نچلی عدالتوں کے فیصلوں کا عدالتی جائزہ لے رہی ہے، عدالتی مشاہدے میں آیا کہ زیادہ تر بریت کے فیصلے بے بنیاد سیاسی مقدمات میں آتے ہیں، ایسے فیصلے غیر پیشہ ورانہ تفتیش اور کمزور پراسیکیوشن کا نتیجہ ہوتے ہیں۔
ججز نے نوٹ میں کہا کہ انٹرا کورٹ اپیلیں وفاقی، پنجاب اور بلوچستان حکومت کی طرف سے دائر کی گئیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بدقسمتی سے ان حکومتوں کو فوج داری عدالتوں پر اعتماد نہیں رہا، افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ان منتخب حکومتوں نے فوج داری عدالتوں پر اعتماد ختم کردیا ہے، ان حکومتوں نے غیر سنجیدہ، سیاسی نوعیت کے مقدمات کے حل کا بوجھ فوجی عدالتوں پر ڈال دیا ہے جو کہ ناقابل فہم ہے۔
اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ فوجی افسران جو فوجی عدالتوں کی صدارت کرتے ہیں وہ فوجی معاملات میں مہارت رکھتے ہیں، ان افسران کے پاس عدالتی تجربہ نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ دیوانی مقدمات سے نمٹنے کے لیے تربیت یافتہ ہوتے ہیں، فوجی عدالتوں کو عام عدالتی نظام کے برابر نہیں سمجھا جا سکتا، عام عدالتوں کے افسران عدالتی تجربے کے ساتھ ساتھ آزادی کے حامل ہوتے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں دہشت گردی کے مقدمات کو سمجھنے کے بجائے اپنے مقصد کیلئے فوجی عدالتوں پر انحصار کررہی ہیں، عام فوج داری عدالتوں سے یہ توقع رکھنا کہ وہ بغیر ثبوت افراد کو مجرم ٹھہرائیں تو منصفانہ ٹرائل کی خلاف ورزی ہوگی، جب استغاثہ کے پاس کوئی ثبوت یا مواد نہ ہو تو فوجی عدالت سزا کیسے دے سکتی ہے؟
ججز نے لکھا کہ 9 مئی مقدمات سے متعلق کورٹ مارشل ہونے والے کچھ افراد نے بھی عدالت سے رجوع کیا، سپریم کورٹ کے 25 مارچ 2024ء کے حکم نامے کے بعد سویلینز کے ٹرائل آگے بڑھے اور سزائیں سنائی گئیں، فوجی عدالتوں میں سزاؤں سے بہت سارے سویلینز سزا یافتہ ہیں، فوجی عدالتوں کے پاس سویلین کا ٹرائل کرنے کا دائرہ اختیار نہیں، 9 مئی مقدمات میں سویلینز کو سنائی جانے والی سزائیں اور ان کے ٹرائل کالعدم قرار دئیے جاتے ہیں۔
اختلافی نوٹ میں کہا گیا کہ یہ غلط تاثر قائم ہو چکا ہے کہ اگر فوج داری عدالتیں دہشت گردی ختم نہیں کرسکتیں تو فوجی عدالتیں حل ہیں، کیا 21 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے خطرناک دہشت گردوں کو فوجی عدالتوں سے سزائیں سنانے سے دہشت گردی ختم ہوئی؟ جواب ہے کہ قدرتی طور پر ایک فوجی افسر کا کام نہیں کہ وہ مجرمان کو سزائیں دے، فوج کا کام ملک کا دفاع ہے نہ کہ عدلیہ کے فرائض سر انجام دینا، اگر فوج عدلیہ کے فرائض سر انجام دینے لگی تو لوگوں کا ان پر اعتماد نہیں رہے گا، یہ درست قرار دیا گیا کہ فوجی عدالتوں میں بنیادی حقوق میسر نہیں ہوتے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: عدلیہ کے فرائض سر انجام فوج داری عدالتوں فوجی عدالتوں اختلافی نوٹ عدالتوں میں نوٹ میں کہا میں کہا گیا عدالتوں پر کا کام گیا ہے
پڑھیں:
جنہیں صادق اور امین کے سرٹیفکیٹ ملے انہیں پھر عدالتوں سے سزا ہوئی: پرویز رشید
---فائل فوٹومسلم لیگ ن کے رہنما پرویز رشید نے کہا ہے کہ جنہیں صادق اور امین کے سرٹیفکیٹ ملے انہیں پھر عدالتوں سے سزا ہوئی اور جنہیں سزا ہوئی پھر انہیں عدالتوں نے صادق اور امین کا سرٹیفکیٹ دیا۔
سینیٹر ہمایوں مہمند کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی پارلیمانی امور کا اجلاس ہوا۔
پرویز رشید نے اس موقع پر کہا کہ متناسب نمائندگی کی بات ہوئی، یہ مطالبہ چھوٹے صوبوں کی جماعتوں کی جانب سے آیا تھا، ساری سیاسی جماعتیں متناسب نمائندگی کے برعکس ہی الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں، مطالبہ ان جماعتوں کی جانب سے آیا تھا جن کے پاس زیادہ امیدوار نہیں تھے۔
انہوں نے کہا کہ ان جماعتوں کو لگتا تھا ان کے پاس ووٹ ہیں، صوبوں کی کم نمائندہ رکھنے والی جماعتوں کی جانب سے یہ مطالبہ سامنے آیا تھا، وہ سمجھتے تھے پنجاب کی سیاسی جماعت کو زیادہ نمائندگی ملے گی، وہ سمجھتے تھے کہ بلوچستان کی جماعت کو کم نمائندگی ملے گی۔
محسن عزیز نے کہا کہ 5 فیصد بے ضابطگی تو دنیا کے ہر ملک میں ہو جاتی ہے، ہمارے ملک میں الیکشن میں بڑی بڑی بے ضابطگیاں ہو جاتی ہیں جس کی بات ہر جماعت کرتی ہے، میں راستے میں ایک سیاسی جماعت کے جلوس میں پھنس گیا جس میں چار گاڑیاں تھیں، ایک رکشے والا تھا جس کے رکشے پر جماعت کا جھنڈا تھا اسے پولیس والا مار رہا تھا۔
اسلام آباد منگل کے روز قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی...
ان کا کہنا ہے کہ ایک جماعت کو عوام تک اپنا پیغام پہنچانے میں دقت ہوئی انہیں جلسے جلوس کی اجازت نہیں ملی، ایک سال 3 ماہ ہو گئے خیبر پختونخوا کی سینیٹ کے الیکشن نہیں ہوئے۔
ثانیہ نشتر کی نشست خالی ہوئی اس پر کے پی میں الیکشن نہیں ہوا، دوسری طرف سینیٹر تاج حیدر کی سندھ کی خالی نشست پر الیکشن ہو گیا۔
سیکریٹری پارلیمانی امور نے کہا کہ ہم نہیں کہہ رہے کسی تنظیم کی رپورٹ کو منظور کریں یا مسترد، آپ اس معاملے کو التوا میں ڈال دیں، ہم صرف کہہ رہے ہیں کہ ایک تنظیم کا اسٹیٹس دیکھ لیں، کیا حکومت پاکستان اس تنظیم کو تسلیم کرتی ہے، آپ اس معاملے پر وزارت داخلہ سے رپورٹ مانگ لیں، وزارت داخلہ این جی اوز کو رجسٹرڈ کرتی ہے، اگر تنظیم رجسٹرڈ ہے تو اس ادارے کی رپورٹ کو زیر غور لے آئیں، ہم نے پلڈاٹ اور فافن کی رپورٹ دیکھی تھی۔
عامر ولی الدین کی زیرِ صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے صحت کا اجلاس منعقد ہوا ہے جس میں سینیٹر ہدایت اللّٰہ نے پولی کلینک میں بدانتظامی سے متعلق بریفنگ دی ہے۔
ہمایوں مہمند نے کہا کہ ہم نے شفاف انتخابات سے متعلق غیر سرکاری تنظیموں سے بریفنگ کا سلسلہ شروع کیا تھا، ہم نے پہلے فافن اور پلڈاٹ سے بریفنگ لی، ہم نے آج انتخابات سے متعلق تنظیم پٹن سے بریفنگ لینا تھی، وزارت پارلیمانی امور نے دو گھنٹے قبل کمیٹی کو بتایا کہ پٹن کو ڈسکوالیفائی کیا گیا ہے، یہ بات وزارت ہمیں پہلے بتا دیتی کہ پٹن سچ بولتی ہے اس لیے ہم نے اس پرپابندی لگائی۔
ایڈیشنل سیکریٹری پارلیمانی امور نے بتایا کہ ہمیں ابھی ذرائع سے معلوم ہوا کہ پٹن کی رجسٹریشن نہیں ہے، وزارت داخلہ تنظمیوں پر پابندی سے متعلق معاملے کی کسٹوڈین ہے، ہمیں پہلے معلوم ہوتا تو ہم آپ کو پہلے ہی اطلاع کر دیتے، قائمہ کمیٹی دفتر چیک کرلیا کرے کہ وہ جسے بلا رہے ہیں اس پر پابندی تو نہیں۔
ہمایوں مہمند نے کہا کہ میں کبھی ایسی تنظیم کو نہیں بلاؤں گا جس پر پابندی ہے، حکومت کے فیصلے کی عزت کروں گا چاہے وہ غلط ہے، ہم نے 16 مئی کو بتایا تھا کہ کمیٹی نے پٹن سے بریفنگ لینی ہے، آپ کو 20 مئی تک ہمیں بتا دینا چاہیے تھا کہ پٹن پر پابندی ہے، میرا دل دکھ رہا ہے کہ عوام کا پیسہ ضائع ہو رہا ہے، چیف کمشنر اسلام آباد کے دفتر کا خط وزارت پارلیمانی امور سے آیا ہے کہ پٹن پر پابندی ہے۔
ہمایوں مہمند کا کہنا ہے کہ میں نے نہیں کہا کہ پلڈاٹ یا فافن جھوٹ بولتے ہیں، بلکہ میں نے کہا پٹن سچ بولتا ہے، میں ڈیٹا کو دیکھتا ہوں، جو ادارے کا ڈیٹا ہے اسے دیکھنا چاہیے، پٹن کو فروری میں بین کیا گیا ہے کیونکہ انہوں نے چیزیں لکھیں، میں شفاف انتخابات کا انعقاد کرانے سے متعلق چیزیں لانا چاہتا ہوں، سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ کے حق میں درپیش مسائل کو حل کرنا ہے، ہم نے پلڈاٹ، فافن اور پٹن سے فیڈ بیک لینے کا فیصلہ کیا تھا، فیڈ بیک کا فیصلہ کیا تھا تاکہ ان کی سفارشات کو الیکشن کمیشن کے سامنے رکھ سکوں۔
محسن عزیز نے کہا کہ اس معاملے کو تو عوامی سماعت کے لئے رکھا جائے، پٹن کو کیوں بین کیا گیا، ان کی رپورٹ میں کوئی ناجائز بات نہیں جو کسی کو چبھی ہو۔
پرویز رشید نے کہا آپ کی بات سے لگا جیسے پلڈاٹ اور فافن سچ نہیں بولتے، یہ بات غیر مناسب ہے، آپ کے بیان سے غلط فہمی پیدا ہو سکتی ہے کہ دو ادارے غلط بات کرتے ہیں اور ایک سچ، پٹن کو اس کی رپورٹ پر بین کیا گیا ہے یا کسی اور چیز پر؟ اگر پٹن کے ساتھ نا انصافی ہوئی ہے تو پاکستان میں عدالت کا آئینی نظام موجود ہے، پٹن عدالت میں جائے، ان کے ساتھ نا انصافی ہوئی تو وہ ختم کر دی جائے گی۔