آزاد کشمیر پر قبضہ کرکے بطور نذرانہ پیش کیا جائے، نام نہاد ہندو روحانی پیشوا کا انوکھا مطالبہ
اشاعت کی تاریخ: 30th, May 2025 GMT
بھارتی آرمی چیف کی ہندو روحانی پیشوا ’’جگدگرو رام بھدر آچاریہ‘‘ سے ملاقات ہوئی جس کے بعد بھارت کی فوجی قیادت کے مذہبی جھکاؤ اور غیرجانبداری پر سوالات اٹھنے لگے ہیں۔
فوجی قیادت کا ہندوتوا سے جُڑاؤ اور عسکری ادارے سمیت نام نہاد سیکولرازم بے نقاب ہوگیا۔ بھارت میں روحانی رہنما بھی اب جنگی سوچ اور جارحیت کی زبان بولنے لگے ہیں۔
نام نہاد ہندو روحانی پیشوا نے انوکھا مطالبہ کیا ہے کہ ’’آزاد کشمیر پر قبضہ کر کے بطور نذرانہ پیش کیا جائے۔‘‘
آزاد کشمیر کو ’’گرو دکشِنا‘‘ کہنا بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ آشرم میں آزاد کشمیر پر قبضے کی بات بھارت کی نظریاتی شدت پسندی کا منہ بولتا ثبوت ہے جس سے اقلیتوں میں تشویش کی لہر پیدا ہوگئی جبکہ جنرل کی ملاقات سے فرقہ واریت کا تاثر گہرا ہوا۔
بھارتی فوج کے سربراہ کا روحانی آشرم میں سیاسی ایجنڈے کو فروغ دینا ایک شرمناک ہتھکنڈا ہے۔ بھارتی فوجی افسران مذہبی آڑ میں جارحانہ عزائم کو ہوا دینے میں مصروف ہیں۔
پاکستان کے علاقوں پر قبضے کے خواب کو اب مذہبی نعروں میں چھپانے کی کوشش جاری ہے۔ بھارت میں مذہب اور عسکریت کا امتزاج انتہا پسند بیانیے کو فروغ دے رہا ہے۔
مودی سرکار بھارتی جارحیت کا روحانی جواز تراش کر شدت پسندی کو بڑھاوا دینے میں مشغول ہے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
بھارت کا جنگی جنون جنوبی ایشیاء کے امن کیلئے سنگین خطرہ ہے، مسعود خان
سابق صدر آزاد کشمیر کا کہنا ہے کہ پاکستان ہمیشہ سے تنازعہ کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب مسائل کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کا خواہاں رہا ہے۔ اسلام ٹائمز آزاد جموں و کشمیر کے سابق صدر سردار مسعود خان نے کہا ہے کہ بھارت کا جنگی جنون جنوبی ایشیاء کے امن کیلئے سنگین خطرہ ہے۔ ذرائع کے مطابق سردار مسعود خان نے ایک انٹرویو میں کہا کہ حالیہ کشیدگی نے دنیا کو واضح پیغام دیا ہے کہ جنوبی ایشیا میں کوئی بھی روایتی جنگ، جوہری تصادم میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی قیادت کی جانب سے کوئی خوش فہمی رکھنا خطرناک ہو گا کیونکہ بھارتی وزِیراعظم نریندر مودی کھلے عام یہ اعلان کر چکے ہیں کہ بھارت یا مقبوضہ کشمیر میں کسی بھی دہشت گرد کارروائی کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرایا جائے گا اور اس کے نتیجے میں پاکستان پر حملہ کیا جائے گا۔ سردار مسعود خان نے کہا کہ پاکستان ہمیشہ سے تنازعہ کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب مسائل کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کا خواہاں رہا ہے۔ لیکن بھارت نے کبھی سنجیدگی سے مذاکرات کی پیش کش کو قبول نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کی جانب سے مسلسل پاکستان پر دہشت گردی کے بے بنیاد الزامات لگائے جا رہے ہیں لیکن ان کے ثبوت کبھی فراہم نہیں کیے گئے، جبکہ پاکستان کے پاس ناقابل تردید شواہد موجود ہیں کہ بھارت نہ صرف اعلانیہ بلکہ خفیہ طور پر بھی پاکستان میں دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوث ہے، خاص طور پر بلوچستان اور قبائلی علاقوں میں پراکسی نیٹ ورکس کے ذریعے دہشت گردی ہو رہی ہے۔
سردار مسعود خان نے کہا کہ پہلگام واقعے کے بعد بھارتی جارحیت پر پاکستان نے موثر اور فیصلہ کن جواب دے کر بھارتی عزائم کو ناکام بنا دیا۔ جس کے بعد بھارت کو سفارتی دبائو کا سامنا کرنا پڑا۔ بھارتی قیادت کی جانب سے ”نیو نارمل” کے تصور پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر بھارت مستقبل میں ہر واقعے کا الزام پاکستان پر لگا کر حملے کو معمول بنا دے گا تو خطے میں امن قائم نہیں رہ سکے گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی مسلح افواج نے بھارت کی عسکری برتری کا بھانڈا بیچ چوراہے پھوڑ دیا ہے اور وہ اس تلخ حقیقت کو تسلیم کرنے سے گریزاں ہے۔
امریکی ثالثی کے بارے میں سوال پر انہوں نے کہا کہ امریکہ کی جانب سے مذاکرات اور ثالثی کی پیشکش پاکستان کے لیے ایک موقع ہے مگر بھارت اس سے خائف دکھائی دیتا ہے اور مسلسل بہانے بنا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ ایک حالیہ رپورٹ میں بھارت پر کینیڈا، امریکہ اور پاکستان میں ایجنٹوں کے ذریعے قتل و غارت گری اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کے الزامات عائد کیے گئے ہیں جو اس کے توسیع پسندانہ عزائم کی نشاندہی کرتے ہیں۔ سردار مسعود خان نے بھارت میں مذہبی تعصب اور مسلم مخالف پالیسیوں پر بھی شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بھارت دنیا کا واحد ملک ہے جہاں مذہب کی بنیاد پر ریاستی سرپرستی میں تعصب اور امتیاز برتا جا رہا ہے جس کا سب سے بڑا نشانہ بھارتی مسلمان ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی معاشرے میں مسلمانوں کو محض اس بنیاد پر ”پاکستانی” کہہ کر دشمن قرار دیا جاتا ہے اور یہی رویہ مقبوضہ کشمیر کے عوام کے ساتھ بھی اختیار کیا جا رہا ہے۔