Express News:
2025-05-31@16:53:30 GMT

آسٹریلیا میں فوج اور پرندوں کے درمیان ’جنگ‘

اشاعت کی تاریخ: 30th, May 2025 GMT

آسٹریلیکی تاریخ میں ایک عجیب و غریب واقعہ پیش آیا ہے جسے "ایمو جنگ" (Emu War) کہا جاتا ہے۔

یہ واقعہ 1932 میں پیش آیا جب آسٹریلوی فوج نے مغربی آسٹریلیا کے کسانوں کی فصلوں کو تباہ کرنے والے ایمو پرندوں کے خلاف ’جنگ‘ لڑی۔

پس منظر

پہلی جنگ عظیم کے بعد آسٹریلوی حکومت نے سابق فوجیوں کو مغربی آسٹریلیا میں زمینیں دیں تاکہ وہ زراعت کر سکیں۔ تاہم 1932 میں تقریباً 20,000 ایمو پرندے ان علاقوں میں آ گئے اور فصلوں کو نقصان پہنچانے لگے۔ کسانوں نے وزارت دفاع سے اس سے نمٹنے کیلئے مدد مانگی جس پر حکومت نے فوجی مداخلت کا فیصلہ کیا۔

یہ فوجی مہم مغربی آسٹریلیا کے ضلع کیمپیون میں شروع ہوئی جو نومبر سے دسمبر 1932 تک چلی۔ فوج کے چھوٹے سے گروپ کی قیادت میجر گونیتھ میریڈتھ کررہے تھے جو مشین گنز اور 10,000 گولیوں سے لیس تھے۔

فوج نے ایمو پرندوں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی لیکن یہ پرندے تیز رفتار اور منتشر ہو کر حملوں سے بچ نکلتے تھے۔ ایک موقع پر فوج نے مشین گنز کو ٹرک پر نصب کر کے تعاقب کیا لیکن ناہموار زمین کی وجہ سے یہ کوشش ناکام رہی۔

اس معرکے میں تقریباً 986 ایمو پرندے ہلاک ہوئے۔ اس میں فوج کا کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تاہم مہم ناکام رہی۔ ایمو پرندے فصلوں کو نقصان پہنچاتے رہے اور فوجی مداخلت مؤثر ثابت نہ ہوئی اور ایمو پرندوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا۔

یہ واقعہ آسٹریلوی تاریخ کا ایک دلچسپ اور طنزیہ باب بن گیا ہے۔ 2019 میں اس پر ایک میوزیکل تیار کیا گیا اور 2023 میں "The Emu War" کے عنوان سے ایک کامیڈی فلم بھی ریلیز ہوئی۔

.

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

غزہ میں اسرائیل کا غیر مسلح فلسطینی کو فوجی وردی میں استعمال

حال ہی میں ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے جس نے شمالی غزہ کے متاثرہ علاقوں میں غیر ملکی شہریوں کو فوجی محاذ پر استعمال کرنے کے طریقوں کے بارے میں تشویش میں اضافہ کر دیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ حال ہی میں ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے جس نے شمالی غزہ کے متاثرہ علاقوں میں غیر ملکی شہریوں کو فوجی محاذ پر استعمال کرنے کے طریقوں کے بارے میں تشویش میں اضافہ کر دیا ہے۔ فارس نیوز کے مطابق، فلسطینی ذرائع نے جمعہ کی صبح اطلاع دی کہ ایک اسرائیلی فوجی کی جانب سے پہلی بار جاری کی گئی تصاویر نے سوشل میڈیا پر وسیع ردعمل پیدا کیا ہے، جن میں ایک غیر مسلح شخص کو دکھایا گیا ہے جو اسرائیلی فوج کا وردی پہنے ہوئے ہے اور شمالی غزہ کے علاقے جبالیا میں ملبے کے بیچوں بیچ فلسطینی پرچم کی طرف بڑھ رہا ہے۔ رپورٹس کے مطابق، یہ شخص غالباً مقامی باشندہ ہے جسے اسرائیلی فوجیوں نے مجبور کیا کہ وہ پرچم کو وہاں سے ہٹائے۔

اسرائیلی فوجی عام طور پر فلسطینی پرچم کو دیکھ کر اس پر حملہ نہیں کرتے، لیکن کئی بار جب انہوں نے پرچم نیچے اتارنے کی کوشش کی تو فلسطینی گروہوں کی طرف سے لگائی گئی بارودی سرنگوں سے انہیں نقصان پہنچا ہے اور کچھ فوجی مارے گئے یا زخمی ہوئے ہیں۔ اس وجہ سے اسرائیلی فوج فلسطینی پرچم کو محفوظ رکھنے کی تحریک کو روکنے میں زیادہ محتاط رویہ اپناتی ہے۔ پرچم کے میدان میں موجودگی کے حساس ہونے کی وجہ سے، اسرائیلی فوج نے براہ راست کارروائی کی بجائے غیر مسلح افراد کو فوجی وردی میں ملبوس کرکے استعمال کرنا شروع کیا ہے، یہ طریقہ ایک طرح کی فکر یا خوف کی عکاسی کرتا ہے کہ براہ راست اس نشانی کو ختم کرنے کے نتائج کیا ہو سکتے ہیں۔ اسرائیلی فوج نے ابھی تک اس ویڈیو پر کوئی سرکاری ردعمل نہیں دیا، لیکن ایک غیر مسلح شخص کو فوجی لباس میں استعمال کرنے کی خبر نے اس رژیم کے خلاف تنقید میں اضافہ کر دیا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • کوئٹہ سے انتہائی افسوسناک خبر، جانی نقصان کی اطلاعات
  • بارشوں اور سیلاب نے تباہی مچادی، 88 افراد جاں بحق
  • سندور فوجی آپریشن پر سیاست کرنا شرمناک ہے، سنجے راؤت
  • نائیجیریا میں بارشوں اور سیلاب نے تباہی مچادی؛ 88 افراد جاں بحق
  • غزہ میں اسرائیل کا غیر مسلح فلسطینی کو فوجی وردی میں استعمال
  • سوات، گردونواح میں زلزلے سے لرزاٹھے، شدت 4.2 ریکارڈ
  • کراچی؛ ڈیفنس میں ڈمپر ڈرائیور سے بےقابو ہوکر دیوار توڑ کر بنگلے میں جا گھسا
  • فروزن سبزیاں صحت کے لیے فائدہ مند یا نقصان دہ؟
  • قطری این ایل جی سے مقامی پیداوار متاثر، کے پی کا جبری گیس بندش پر احتجاج