اسلام ٹائمز: مختلف یورپی ممالک نے غزہ میں نسل کشی بالخصوص بچوں کے قتل عام پر صدائے احتجاج بلند کرنا شروع کر دی ہے۔ یورپ میں اس تبدیلی کے کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں، اس کی تفصیلات اس ویڈیو کلپ میں ملاحظہ فرمائیں۔ متعلقہ فائیلیںنقطہ ںظر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی
مختلف یورپی ممالک نے غزہ میں نسل کشی بالخصوص بچوں کے قتل عام پر صدائے احتجاج بلند کرنا شروع کر دی ہے۔ یورپ میں اس تبدیلی کے کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں، اس کی تفصیلات اس ویڈیو کلپ میں ملاحظہ فرمائیں۔ قارئین و ناظرین محترم آپ اس ویڈیو سمیت بہت سی دیگر اہم ویڈیوز کو اسلام ٹائمز کے یوٹیوب چینل کے درج ذیل لنک پر بھی دیکھ اور سن سکتے ہیں۔ (ادارہ)
https://www.
youtube.com/@ITNEWSUrduOfficial
ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
نہ ہینگ لگے نہ پھٹکری
27 ویں ترمیم کا کیا کم شوروغوغا تھا کہ ہمارے وطن کے ’انصافیوں‘ نے نومبرکی 27 ویں تاریخ کا پروپیگنڈہ کر کے عوام کو سیاسی عمل سے لاتعلق کردیا اور غیر ضروری بحث میں الجھا کر اپنی غیر سیاسی سوچ سے حکومت کو کھیلنے کودنے کے لیے چھوڑ دیا۔
بس یہی ھاھا کار رہی کہ نومبرکا 27 واں دن ملک کی قسمت یا بدقسمتی کی تاریخ رقم کرے گا، یہ ہوگا، وہ ہوگا۔ سب برباد ہو جائے گا وغیرہ۔ مگرکھودا پہاڑ نکلا چوہا کے مصداق نومبرکی 27 ویں تاریخ بھی 27 ویں ترمیم کی طرح گزرگئی اور ’’انصافی‘‘ ایک دوسرے کا منہ ہی تکتے رہ گئے۔
یہ پاکستان کی غیر سیاسی اور غیر سنجیدہ سوچ کا وہ چہرہ ہے جس کو مزید دریدہ کرنے میں قوتیں ہمیشہ پیش پیش رہی ہیں اور جن میں اضافہ 2014 کی تبدیلی پسند سیاست نے کیا۔
بس اب فرق صرف اتنا ہوا ہے کہ تبدیلی پسندوں کا خوف یا مصنوعی ہوّا کھڑا کر کے گملے میں لگائے گئے سیاسی پودوں کو مزید کمزور کرکے رہی سہی جمہوریت کو نہ صرف لہو لہان کردیا بلکہ جمہوریت کی لاش کو سر راہ ڈال کر بے وقعت اور غیر ضروری کردیا۔
78 برس سے یہی ہوتا چلا آیا ہے کہ کیاری میں لگائے گئے سیاسی پودے جب تناور درخت بننے کی کوشش کرتے ہیں تو انھیں کانٹ چھانٹ دیا جاتا ہے،اب چونکہ گملے میں پودا لگانے والا مالی ہی ان کی کانٹ چھانٹ کے فن میں یکتا ہوتا ہے.
سو وہ جب درخت کے پتے اور ٹہنیوں کی تراش خراش کرتا ہے تو درخت خود کو طاقتور سمجھتے ہوئے مزاحمت توکرتا ہے مگر چونکہ درخت کی جڑوں سے واقف مالی بظاہر طاقتور درخت کی کمزوریاں جانتا ہے.
لٰہذا آخری نتیجے میں مالی اور درخت مل کر ہرے بھرے جنگل اور نمو پانے والے پودوں کے سر قلم کرنے پر ایک ہوجاتے ہیں اور یوں یہ طاقت اورکمزورکا کھیل چلتا رہتا ہے،جس کے بہترین تماشبین غیر سیاسی عوام کی صورت میں اس کھیل کی دھما چوکڑی میں اپنے اپنے درخت کی طاقت کے نعرے لگاتے رہتے ہیں اور دوسرے درختوں کو ’’ ٹھاہ، ٹھاہ‘‘ کہہ کر اپنے جمہوری مستقبل سے بے پرواہ ہو جاتے ہیں۔
اس کے بعد پھر نہ سیاسی ہلچل کا چلن ہوتا ہے اور نہ ہی مزاحمت کی کوئی مربوط تحریک نمو پاتی ہے اور یہی دلچسپ غیر سیاسی سوچ اور بے ترتیب سماج تر نوالہ ہوتا ہے۔
2018 کے سیاسی کھیل کا جائزہ لیتے ہوئے افسوس کے ساتھ یہ تاریخ کا سچ ہے کہ تبدیلی پسندوں نے بھی طاقتوروں کی ہی بیساکھی کا سہارا لیا اور وہ نجانے کیوں اس سے بے خبر بن گئے جسے ہر صورت اقتدارکی راہداریوں میں جانے کی خواہش تھی.
حالانکہ یہ تبدیلی پسند جانتے تھے کہ اقتدارکی راہ داریوں کی یہ بساط تبدیلی پسندوں کی مرضی و منشا کے تحت نہیں بچھائی گئی،اس تناظر میں یہ کہنا غیر ضروری نہ ہوگا کہ کچھ چاہنے والوں کی خواہشات کے ایسے دھتی تھے کہ وہ ملکی سیاست بلکہ سیادت کی چالبازیاں نہ سمجھ سکے.
اسی لیے کہا جاتا ہے کہ سیاسی حکمت عملی دانش کا کام ہے کسی کھلندڑے بالک کا کام نہیں۔ تبدیلی پسند اپنے چاہنے والوں کی تربیت کے تحت یہ سمجھ ہی نہ سکا کہ اقتدار تبدیلی پسندوں کو صرف اپنے گملے کے تناور درخت بن جانے والے سیاستدانوں کو کمزور کرنے کے علاوہ تبدیلی پسندوں کے ذریعے جمہوریت کا بھی جنازہ نکلوانا چاہتے تھے.
سو یہ کام نہایت مہارت سے رسی سے بندھے قیدی کے سہارے سے نکلوا کر 26 ویں اور 27 ویں ترامیم لائی گئیں اورگمان ہے کہ تبدیلی پسند کو باندھ کر رکھنے کا مقصد 27 ویں ترمیم سے زیادہ کا ہے جس کے لیے معاشی ابتری کا واویلا کر کے صوبائی اختیارات پر سودے بازی کی جائے گی اور تبدیلی پسند کے چاہنے والے کسی بھی سیاسی عمل سے ماورا صرف حکومتی مخالفت اور پروپیگنڈہ کرتے رہیں گے.
مجھے تو یہ بھی نظر آرہا ہے کہ چند روز کے بعد جب ملک کی بارز اور ہائیکورٹ بارکے انتخابات اپنے حتمی نتیجے پر پہنچیں گے تو بظاہر نظر آنے والی ’’ وکلا تحریک‘‘ بھی سردیوں کی ٹھنڈ میں سکڑجائے گی، جس کا سب سے بڑا نقصان جمہوری اداروں،انسانی حقوق اور عوام کے جمہوری ومعاشی حقوق پر پڑے گا،جس کی تمام تر ذمے داری ملک کے سیاستدانوں کے علاوہ ’’ تبدیلی پسندوں‘‘ بالکوں پر بھی ہوگی۔
اس اثناء میں فیصلہ سازوں کا منصوبہ تبدیلی پسندوں کے گھوڑے سے تو پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکا حالانکہ تبدیلی پسندوں کے سرپرست نے میڈیا کو من پسند بیانیہ چلانے کی خاطرکالا قانون ’پیکا‘ اور ’پبکستان میڈیا اتھارٹی‘ بنانے کی پوری کوشش کی اور سنجیدگی سے فیصلہ سازوں کے منصوبے کے مطابق’’ سی پیک‘‘ کو بندکرنے اور اٹھارویں ترمیم کو جمہوریت کے خلاف قرار دینے کا خوب ورد کیا بلکہ ملک میں جمہوریت کی بساط پلٹنے کے لیے صدارتی نظام لانے کا خوب چرچا کیا.
مگر بعد کو فیصلہ سازوں کو احساس ہوا کہ تبدیلی پسندوں کے تلوں میں ان کی مرضی کا تیل نہیں، سو انھوں نے بہت ہی ہوشیاری سے کسی چاہنے والے کا اثاثہ بھی بچا لیا اور اسی اثاثے کی ایک ایسی نسل کو بیانیہ بنانے کی تمامتر آزادی دی تاکہ جمہوریت قابو میں رہے۔
اس تناظر میں اقتداری جماعتوں کو استعمال کرکے تبدیلی پسندوں کے خواب کو پورا کیا اور ایسا نظر آتا ہے کہ منصوبہ ساز تبدیلی پسندوں کی سہولت کاری کو شہرت کی چادر پہنا کر جمہوریت کو مزید کمزورکریں اور اقتداری پارٹیاں ہاتھ باندھے منصوبہ سازوں کے آگے کھڑی رہیں۔
جمہوریت اور جمہوری اداروں کوکمزورکرنے کا جو عمل تبدیلی پسندوں کے پروپیگنڈے سے شروع کروایا گیا تھا، منصوبہ سازوں نے اس غیر جمہوری عمل کو پی پی پی اور مسلم لیگ ن کے اتحاد سے پارلیمانی طریقہ کار سے کروایا اور جہاں قیمتی اثاثے کو محفوظ کیا، وہیں پی پی پی اور مسلم لیگ ن کو غیر جمہوری فیصلوں کا مجرم بھی بنا دیا، اسے کہتے ہیں کہ ’’نہ ہینگ لگے نہ پھٹکری اور رنگ آئے چوکھا۔‘‘
اب تبدیلی والے خوش ہوجائیں کہ جمہوریت کو تاراج کرنے کا جو خیال منصوبہ سازوں نے ترتیب دیا تھا وہ جمہوری اقدارکا جنازہ اب تبدیلی پسندوں کے بجائے پی پی اور ن لیگ اپنے کاندھوں پر اٹھا رہی ہیں اور تبدیلی پسندوں کے لیڈر قید میں بھی طبی سہولیات اور من پسند کھانے تناول کررہے ہیں۔ اسی کو کہتے ہیں عوام اور خاص طور ’کلٹ‘ کو نظر نہ آنے والی خفیہ سہولت کاری۔