پیار دوبارہ بھی ہو سکتا ہے لیکن ایک ساتھ دو نہیں، ماہرہ خان
اشاعت کی تاریخ: 31st, May 2025 GMT
معروف اداکارہ ماہرہ خان نے کہا ہے کہ پیار دوبارہ بھی ہو سکتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ ایک محبت کے ہوتے ہوئے دوسرا پیار نہیں ہوتا۔فلم “لوو گرو” کی پروموشن کے دوران معروف اداکار ہمایوں سعید اورماہرہ خان نے میڈیا سے ہلکے پھلکے انداز میں گفتگو کی۔ایک ٹک ٹاکرنے سوال کیا دوبارہ محبت ہو سکتی ہے؟ ہمایوں سعید نے مسکراتے ہوئے کہا کہ دوبارکیا، پیار تو چار بلکہ پانچ بار بھی ہوسکتا ہے۔فلم میں ہمایوں سعید ایک دل پھینک عاشق کا کردارادا کر رہے ہیں جبکہ ماہرہ خان سنجیدہ اور باوقار کردار میں نظر آئیں گی۔ “لوو گرو” جلد سنیما گھروں کی زینت بننے جا رہی ہے۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
پڑھیں:
قلنگی مرغ اور بازوئے شمشیر زن (حصہ اول)
پچھلے دنوں یہاں پشاور میں مدتوں بعد ایک خوبصورت تقریب دیکھنے سننے کو ملی۔پروگرام تیکنیکی اعتبار سے کیا تھا؟ کانفرنس سیمینار یا افتتاح یہ تو ہم کہہ نہیں پائیں گے کیونکہ ہم درمیان میں پہنچے تھے لیکن پروگرام بہرحال خوبصورت تھا۔اکادمی ادبیات کی سربراہ نجیبہ عارف بھی وہاں تھیں۔ بعض لوگ بڑھاپے میں اس سے کہیں زیادہ خوبصورت اور باوقار لگتے ہیں جتنے جوانی میں ہوتے ہیں۔بقول فراق گورکھپوری
ایک رنگینی ظاہر ہے گلستاں میں اگر
ایک شادابی پنہاں ہے بیابانوں میں
پروگرام کئی نشستوں پر مبنی کئی موضوعات پر مشتمل تھا میرے حصے میں ’’ادب اور فکشن یا اس خطے میں’’فکشن‘‘ آیا تھا۔اس میں تو جو بولنا تھا ہم بول گئے۔لیکن ہم سے پہلے جو نشست تھی وہ اس خطے میں’’ادب اور امن‘‘ پر تھی، شرکاء اس میں اچھا بولے لیکن اس موضوع پر وہ نہیں بولا گیا جو بولنا چاہیے تھا۔اور اسی موضوع پر ہمیں بولنا ہے اور بہت بولنا ہے۔یعنی یہ کہ اس خطے کو ہمیشہ ہمیشہ سے بدامنی کیوں لاحق ہے
تم سے مل کر مجھے رونا بہت رونا تھا
تنگی وقت ملاقات نے رونے نہ دیا
اس لیے اپنا’’رونا‘‘ اپنے کالم میں روتے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ موضوعات کا انتخاب کرنے والوں نے اسی لیے اس موضوع کا انتخاب ہی اس لیے کیا تھا کہ’’امن‘‘ ہمیشہ سے صرف آج کل نہیں بلکہ صدیوں سے اس خطے کی ضرورت رہا ہے عام طور پر تو دور دور سے دیکھیے سننے والوں کو صرف اتنا پتہ ہے یا بتایا گیا ہے کہ پشتون ایک لڑاکو قوم ہے ہر وقت لڑائی جھگڑوں اور مرنے مارنے میں مصروف رہتی ہے بلکہ یہاں کوئی شریف اور امن پسند بندہ ہے ہی نہیں سارے پشتون لڑاکو مرغے ہیں، خونریز ہیں اور تشدد پسند ہیں اور اس کے علاوہ اور بھی بہت لکھا پڑھا اور کہا سنا جاتا ہے۔لیکن کسی نے کبھی اس پر غور نہیں کیا ہے کہ پشتون ایسے کیوں ہیں؟کیا ان میں کوئی پیدائشی یا خاندانی نقص ہے؟یا یہ کوئی بیماری ہے مرض ہے یا عارضہ ہے جو پشتونوں کو لاحق ہے آخر کیوں یہ لڑنے مرنے کے اتنے رسیا ہیں ؟ تو آج اس پر بات ہوہی جائے اگرچہ میں نے اپنی تاریخ کی کتابوں میں اس موضوع پر بہت کچھ لکھا ہے لیکن کون پڑھتا ہے غم کے افسانے۔وہ تو جہالتوں، حماقتوں اور برائیوں میں اتنے مصروف ہیں کہ کچھ اور سوچتا ہی نہیں بلکہ اس پر برائیاں ڈال کر خوش ہولیتے ہیں اور بس۔لیکن یہ کبھی کسی نے سوچا تک نہیں کہ اس میں یہ ’’بُرائیاں‘‘ آئی کہاں سے؟کیونکہ انسان خود کبھی اچھا یا بُرا نہیں بنتا۔بلکہ اس کا ماحول اس کی ضرورتیں اس کی مجبوریاں اور محرومیاں ہی اسے’’بناتی‘‘ہیں۔
کہاوت ہے کہ کسی نے ’’تیر‘‘ سے پوچھا کہ تم اتنا تیز کیوں جا رہے ہو یا اُڑ رہے ہو۔ تو تیر نے کہا یہ جاکر تم’’کمان‘‘ کی ’’تانت‘‘ سے پوچھو۔میں تو بے جان تنکا ہوں، میرے پیچھے سارا زور کمان کا ہے، کمان کی تانت کا ہے۔پشتون ایسے کیوں ہیں؟یہ بات آپ کو اس کا جغرافیہ بتا دے گی اگر غور کریں تو۔ سب کو معلوم ہے کہ زمانہ قدیم سے ہندوستان ایک سونے کی چڑیا کے طور پر مشہور رہا ہے۔اور اس ’’سونے کی چڑیا‘‘کو شکار کرنے بھی طالع آزما آتے رہے ہیں ان کو ان پہاڑی سلسلوں سے گزرنا پڑا ہے جہاں یہ بدنصیب پشتون آباد ہیں۔خیبر تو سب کو معلوم ہے لیکن اور بھی بے شمار چھوٹے بڑے دروازے ہیں باجوڑ، کرم، گومل، وزیرستان ژوب اور چمن۔ اور سارے دروازوں میں یہی بدنصیب پڑے تھے۔
چنانچہ شکاری ابتدا انھی سے کردیتے تھے یا ان کا پہلا’’ٹاکرا‘‘ ان سے ہوجاتا تھا۔ بابر نے اپنی تزک میں لکھا ہے کہ’’اس دن ہم نے صبح سے شام تک ان نابکار افغانوں کو جہنم واصل کیا اور پھر شام کو شکرانے کی دو رکعت پڑھ کر ساری رات’’ناو نوش‘‘ میں مشغول رہے‘‘۔اسی طرح سب کرتے رہے، ایرانی، یونانی، مغل، ترک، عرب، ظاہر ہے کہ بے مہار افواج لوٹ مار،قتل و قتال اور آبروریزی کی ابتدا یہیں سے کردیتی تھیں۔تو یہاں کے بدنصیب باسی اور کیا کرتے؟لڑتے اور لڑتے لڑتے لڑاکو مرغ بن گئے یہ تو جاہل لکھت پڑھت اور عیاریوں سے نابلد سیدھے سادے لڑاکو مرغ ہوتے تھے اور جہاں دیدہ جہاں گشتہ لوگ بہت جلد ان کو ’’پہچان‘‘ لیتے تھے پھر ہاتھ پھیر کر اپنے ساتھ لے جاتے اور مختلف میدانوں میں لڑانے لگتے۔جیت جاتے تو فتح بادشاہ کی ہوتی اور مرجاتے تو دشمن تھا مر گیا۔
اصیل مرغوں کی لڑائی میں جب کوئی مرغ ہار جاتا ہے تو مالک چھری پھیر کر کھاجا بنا لیتا ہے۔ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ حکمرانوں اور اشرافیہ کا ہمیشہ سے یہ وطیرہ رہا ہے اور میں اکثر ان کالموں میں تذکرہ بھی کرتا رہتا ہوں کہ اس اشرافیہ یا حکمرانیہ نے ’’عوامیہ‘‘ کو ہمیشہ سے دماغ کے عدم استعمال اور جسم کی کثرت استعمال پر لگایا ہوا ہے اور خود کو دماغ کے کثرت استعمال اور جسم کے عدم استعمال کے لیے مختص کر رکھا ہے جس کا لازمی نتیجہ یہی نکلنا تھا اور نکل گیا کہ عوامیہ کے دماغ زنگ آلود ہوکر رفتہ رفتہ صفر ہوگئے اور حکمرانیہ دماغ انتہائی تیز چالاک اور عیار ہوگئے ہیں۔ پشتونوں کے ساتھ ہوا یوں کہ جب ان آنے والے ’’طالع آزما شکاریوں نے ان کو پہچان لیا کہ’’قلنگی مرغ‘‘ ہیں تو ان کی پیٹھ ٹھونک کر بہادر شجاع اور بازوئے شمشیرزن کے خطابات بھی عطا فرما دیے۔
(جاری ہے)