Daily Ausaf:
2025-06-01@19:47:57 GMT

جرائم میں اضافے کی وجوہات

اشاعت کی تاریخ: 31st, May 2025 GMT

جیلیں جرائم کی نرسریاں ہیں؟ اکثر یہ سوال اٹھایاجاتا ہے اور مختلف مکتبہ فکر میں اس پر بات بھی ہوتی ہےاور یہ بات کس حد تک درست ہے؟ سماج اور قانون کی کتابوں میں جرم کی تعریف اس طرح کی گئی ہے کہ جب بھی کوئی ضابطہ ٹوٹتا ہے یا قواعد کی خلاف ورزی ہوتی ہےوہ جرم کے زمرے میں آتا ہے۔ چوری چکاری ہی نہیں،کوئی اخلاقی جرم بھی ہو تو وہ قابل دست اندازی پولیس جرم ہے۔ یوں جرم کرنے والے پر فوجداری مقدمہ قائم ہو سکتا ہے۔پاکستان میں جو طبقہ اس وقت سب سے زیادہ ذہنی دبائو کا شکار ہے وہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ہیں۔ قریبا 29 ملین سے زیادہ نوجوان اس وقت بے روزگار ہیں۔ جب کہ نشہ کرنے والوں کی تعداد بھی ملک میں دن بدن بڑھ رہی ہے۔نشہ کرنے والوں میں نوجوان بھی ہیں اور 40 سال سے اوپر کے افراد بھی۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی کل آبادی کا قریبا 64 فیصد 30 سال سے کم عمر نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ ان میں سے 27 ملین بے روزگار ہیں۔ یہ بے روزگار نوجوان پاکستانی معاشرے کے لیے ٹائم بم کی حیثیت رکھتے ہیں کیونکہ معاشرے میں ایسے بہت سے عناصر موجود ہیں جو ٹینشن میں مبتلا ان نوجوانوں کو جرم کی طرف دھکیلتے ہیں۔ اس طریقے سے ان کی برین واشنگ کی جاتی ہےکہ یہ نوجوان بالآخر جرم کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ نا چاہتے ہوئے بھی جرم کرنے لگتے ہیں۔ بالآخر گرفتار ہو کر جیل پہنچتے ہیں تو کریمنل سائیڈ پر ان کی مزید آبیاری ہوتی ہے۔ جیل میں پہلے سے موجود خطرناک کرمنلز ان کو سیدھا راستہ دکھانے کی بجائے جرم کے نت نئے طریقوں سے آگاہ کرتے ہیں۔جیل میں ہی نئے گینگ تشکیل دیئے جاتے ہیں۔ جب ان کی ضمانتوں پر رہائی ہوتی ہے تو یہ عناصر جیل سے باہر آ کر معاشرےکے لیے ناسور بن جاتے ہیں۔ اس طرح جرائم میں مزید اضافہ ہوتا ہے جو دن بدن بڑھتے چلے جاتے ہیں۔بی بی سی نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ پاکستان میں گزشتہ سات برسوں کے دوران چھیاسٹھ ہزار افراد کے قتل،سولہ ہزار خواتین کی عصمت دری، اور پچاس ہزار افراد کے اغوا کے مقدمات درج کیے گئےجبکہ شاہراہوں پر لوٹ مار، موٹر سائیکل اور کار چوری کی وارداتیں ان کے علاوہ ہیں۔ ان کی تعداد بھی ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں میں ہے۔ سب سے زیادہ جو مقدمات درج ہوتے ہیں وہ چوری سے متعلقہ ہیں۔ دوسرے نمبر پر قتل اور تیسرے نمبر پر اغوا کی وارداتیں ہیں۔ ان اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں جرائم کی تعداد کافی زیادہ ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس جدید سائنسی دور میں بھی جرائم میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟ کیا ان جرائم پر قابو پایا جا سکتا ہے؟ لوگ دین سے بہت دور ہو گئے ہیں۔ اس دوری کا لازمی نتیجہ جرائم میں اضافے کی صورت میں نکل رہا ہے۔ پاکستان میں جرائم میں اضافے کا سبب پولیس بھی ہے۔ پولیس کو ختم کر دیاجائے تو جرائم میں 80 فی صد تک کمی آ سکتی ہے۔
حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ جرائم کی بیخ کنی کے لیئے کام کرے لیکن یہ بھی دیکھنا ہے کہ آیا ہم اپنا فرض صحیح طریقے سے ادا کررہے ہیں؟ جس دور میں ہیں ہم سب نفسانفسی کی زندگی گزار رہے ہیں ہم معاشرتی ذمہ داریوں کی طرف کوئی دھیان نہیں دیتے۔ اپنی ذات سے نکل کر جب ہم دوسروں کے بارے میں سوچنا شروع کریں گے تو جرائم سمیت دیگر مسائل کا حل بھی نکل آئیگا۔ پاکستان کا واحد مسئلہ صرف اور صرف معاشی ہے۔یہی مسئلہ بڑھتے ہوئے جرائم کا سبب بھی ہے۔ جرائم کے بڑھنے کی وجہ احساس محرومی بھی ہے۔ انصاف کا بول بالا نہ ہو۔طاقتور، کمزور پر حاوی ہونے لگے تو ملک میں جرائم بڑھتے رہیں گے۔ ناانصافی بھی جرم بڑھنے کی ایک بڑی وجہ ہے۔ لوگوں کو انصاف ملنا شروع ہو جائے تو یقیناجرم میں کمی ہو گی۔ (جاری ہے)

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: پاکستان میں جاتے ہیں ہوتی ہے

پڑھیں:

’بائیڈن وائٹ ہاؤس کی اپنی الماری میں ہی کھو جاتے تھے‘، گارڈ کے سابق صدر کی ذہنی حالت پر انکشافات

سابق امریکی صدر جو بائیڈن طبی حالت کے باعث اکثر خبروں میں رہا کرتے تھے، حال ہی میں ان میں پروسٹیٹ کینسر میں مبتلا ہونے کی خبر سامنے آئی تھی۔

اب ان کے بارے میں ایک اور حیران کن دعویٰ سامنے آیا ہے جسے جان کر لوگ حیرت زدہ رہ گئے۔

غیر ملکی میڈیا کے مطابق امریکی سینیٹر جوش ہاؤلی نے سابق صدر جو بائیڈن کے حوالے سے ایک سنسنی خیز اور حیران کن دعویٰ کیا ہے۔ فاکس نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے ریپبلکن سینیٹر نے کہا کہ ایک نامعلوم سیکرٹ سروس ایجنٹ نے انہیں بتایا کہ بائیڈن اپنی صدارت کے دوران بعض اوقات وائٹ ہاؤس میں صبح کے وقت اپنی ہی الماری میں گم ہو جایا کرتے تھے۔

امریکی سینیٹر جوش ہاؤلی نے کہا کہ ایک سیکرٹ سروس اہلکار نے مجھے بتایا کہ بائیڈن وائٹ ہاؤس کے رہائشی حصے میں صبح کے وقت اپنی الماری کے اندر گم ہو جاتے تھے۔ یعنی امریکہ کا صدر اپنے ہی کمرے میں راستہ تلاش نہیں کر پاتا تھا۔ یہ ناقابل یقین بات ہے اور ہمیں دھوکہ دیا گیا ہے۔

یہ دعویٰ ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب کانگریس میں جو بائیڈن کی ذہنی صحت اور صدارت کے دوران ان کی انتظامی اختیارات کے استعمال پر تحقیقات جاری ہیں۔ بائیڈن کے قریبی مشیروں نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ سابق صدر اہم فیصلے لینے کی مکمل صلاحیت رکھتے تھے۔

ان تحقیقات کی قیادت ہاؤس اوور سائٹ کمیٹی کے چیئرمین جیمز کومر کر رہے ہیں۔ وہ یہ جانچ رہے ہیں کہ آیا بائیڈن کے عملے نے سرکاری احکامات، حتیٰ کہ صدارتی معافیاں دینے کے لیے، بغیر بائیڈن کی براہ راست منظوری کے آٹو پین (autopen) کا استعمال کیا۔

جیمز کومر نے بائیڈن کے دور صدارت میں وائٹ ہاؤس کے معالج ڈاکٹر کیون اوکونر کے کردار پر بھی سوالات اٹھائے ہیں۔ وہ یہ معلوم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ آیا ڈاکٹر اوکونر کی طرف سے بائیڈن کی طبی رپورٹس میں مکمل شفافیت برتی گئی یا کچھ اہم معلومات کو چھپایا گیا۔

خیال رہے کہ رواں ماہ کے آغاز میں 82 سالہ بائیڈن نے انکشاف کیا کہ وہ ایک جارحانہ قسم کے پروسٹیٹ کینسر میں مبتلا ہیں، جس نے ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔

Post Views: 4

متعلقہ مضامین

  • وزیرخزانہ کا اپسوس صارف اعتماد سروے میں عوامی اعتماد میں اضافے کا خیر مقدم
  • انسانیت کیخلاف جرائم، شیخ حسینہ واجد پر فرد جرم عائد
  • کراچی: گولی مار کر نوجوان دوست کو قتل کرنے والے گرفتاری دے دی،
  • انسانیت کیخلاف جرائم کا مقدمہ، سابق بنگلہ دیشی وزیراعظم حسینہ واجد پر فرد جرم عائد کردی گئی
  • ’بائیڈن وائٹ ہاؤس کی اپنی الماری میں ہی کھو جاتے تھے‘، گارڈ کے سابق صدر کی ذہنی حالت پر انکشافات
  • تنخواہوں اورپنشن میں اضافے سےمتعلق اہم خبر
  • بجٹ 2025-26:تنخواہوں اور پنشن میں اضافے سےمتعلق اہم خبرآگئی
  • تنخواہوں اور پنشن میں اضافے سے متعلق اہم خبر
  • جمہوریت، مستحکم اداروں کیلئے سیاسی مکالمہ وقت کی ضرورت، نوجوان سرمایہ: صدر زرداری