جیلیں جرائم کی نرسریاں ہیں؟ اکثر یہ سوال اٹھایاجاتا ہے اور مختلف مکتبہ فکر میں اس پر بات بھی ہوتی ہےاور یہ بات کس حد تک درست ہے؟ سماج اور قانون کی کتابوں میں جرم کی تعریف اس طرح کی گئی ہے کہ جب بھی کوئی ضابطہ ٹوٹتا ہے یا قواعد کی خلاف ورزی ہوتی ہےوہ جرم کے زمرے میں آتا ہے۔ چوری چکاری ہی نہیں،کوئی اخلاقی جرم بھی ہو تو وہ قابل دست اندازی پولیس جرم ہے۔ یوں جرم کرنے والے پر فوجداری مقدمہ قائم ہو سکتا ہے۔پاکستان میں جو طبقہ اس وقت سب سے زیادہ ذہنی دبائو کا شکار ہے وہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ہیں۔ قریبا 29 ملین سے زیادہ نوجوان اس وقت بے روزگار ہیں۔ جب کہ نشہ کرنے والوں کی تعداد بھی ملک میں دن بدن بڑھ رہی ہے۔نشہ کرنے والوں میں نوجوان بھی ہیں اور 40 سال سے اوپر کے افراد بھی۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی کل آبادی کا قریبا 64 فیصد 30 سال سے کم عمر نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ ان میں سے 27 ملین بے روزگار ہیں۔ یہ بے روزگار نوجوان پاکستانی معاشرے کے لیے ٹائم بم کی حیثیت رکھتے ہیں کیونکہ معاشرے میں ایسے بہت سے عناصر موجود ہیں جو ٹینشن میں مبتلا ان نوجوانوں کو جرم کی طرف دھکیلتے ہیں۔ اس طریقے سے ان کی برین واشنگ کی جاتی ہےکہ یہ نوجوان بالآخر جرم کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ نا چاہتے ہوئے بھی جرم کرنے لگتے ہیں۔ بالآخر گرفتار ہو کر جیل پہنچتے ہیں تو کریمنل سائیڈ پر ان کی مزید آبیاری ہوتی ہے۔ جیل میں پہلے سے موجود خطرناک کرمنلز ان کو سیدھا راستہ دکھانے کی بجائے جرم کے نت نئے طریقوں سے آگاہ کرتے ہیں۔جیل میں ہی نئے گینگ تشکیل دیئے جاتے ہیں۔ جب ان کی ضمانتوں پر رہائی ہوتی ہے تو یہ عناصر جیل سے باہر آ کر معاشرےکے لیے ناسور بن جاتے ہیں۔ اس طرح جرائم میں مزید اضافہ ہوتا ہے جو دن بدن بڑھتے چلے جاتے ہیں۔بی بی سی نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ پاکستان میں گزشتہ سات برسوں کے دوران چھیاسٹھ ہزار افراد کے قتل،سولہ ہزار خواتین کی عصمت دری، اور پچاس ہزار افراد کے اغوا کے مقدمات درج کیے گئےجبکہ شاہراہوں پر لوٹ مار، موٹر سائیکل اور کار چوری کی وارداتیں ان کے علاوہ ہیں۔ ان کی تعداد بھی ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں میں ہے۔ سب سے زیادہ جو مقدمات درج ہوتے ہیں وہ چوری سے متعلقہ ہیں۔ دوسرے نمبر پر قتل اور تیسرے نمبر پر اغوا کی وارداتیں ہیں۔ ان اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں جرائم کی تعداد کافی زیادہ ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس جدید سائنسی دور میں بھی جرائم میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟ کیا ان جرائم پر قابو پایا جا سکتا ہے؟ لوگ دین سے بہت دور ہو گئے ہیں۔ اس دوری کا لازمی نتیجہ جرائم میں اضافے کی صورت میں نکل رہا ہے۔ پاکستان میں جرائم میں اضافے کا سبب پولیس بھی ہے۔ پولیس کو ختم کر دیاجائے تو جرائم میں 80 فی صد تک کمی آ سکتی ہے۔
حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ جرائم کی بیخ کنی کے لیئے کام کرے لیکن یہ بھی دیکھنا ہے کہ آیا ہم اپنا فرض صحیح طریقے سے ادا کررہے ہیں؟ جس دور میں ہیں ہم سب نفسانفسی کی زندگی گزار رہے ہیں ہم معاشرتی ذمہ داریوں کی طرف کوئی دھیان نہیں دیتے۔ اپنی ذات سے نکل کر جب ہم دوسروں کے بارے میں سوچنا شروع کریں گے تو جرائم سمیت دیگر مسائل کا حل بھی نکل آئیگا۔ پاکستان کا واحد مسئلہ صرف اور صرف معاشی ہے۔یہی مسئلہ بڑھتے ہوئے جرائم کا سبب بھی ہے۔ جرائم کے بڑھنے کی وجہ احساس محرومی بھی ہے۔ انصاف کا بول بالا نہ ہو۔طاقتور، کمزور پر حاوی ہونے لگے تو ملک میں جرائم بڑھتے رہیں گے۔ ناانصافی بھی جرم بڑھنے کی ایک بڑی وجہ ہے۔ لوگوں کو انصاف ملنا شروع ہو جائے تو یقیناجرم میں کمی ہو گی۔ (جاری ہے)
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: پاکستان میں جاتے ہیں ہوتی ہے
پڑھیں:
بھارتی فوج کشمیریوں کا نشے کا عادی بنا رہی ہے!
ریاض احمدچودھری
میرواعظ نے اسلامیہ ہائر سیکنڈری اسکول سرینگر میں” منشیات سے پاک کشمیر کی تعمیر:طلباء اور معاشرے کا کردار ”کے عنوان سے منعقدہ ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تقریبا 22 لاکھ کشمیری نوجوان جو 18سے 35سال کی عمرکے گروپ کا تقریبا ایک تہائی ہیں، بے روزگار ہیں۔ طبی اعداد و شمار اور تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ تقریبا 11% نوجوان ٹراماڈول اور ہیروئن جیسی منشیات کی لت میں مبتلا ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نشہ آور اشیا کا استعمال اب محض تشویش کا باعث نہیں رہا بلکہ یہ ایک مکمل بحران میں تبدیل ہو چکا ہے جو کشمیری نوجوانوں کی زندگیوں اور مستقبل کو شدید خطرے میں ڈال رہا ہے۔میرواعظ کا کہنا تھا کہ جہاں اس کی روک تھام کے لئے ائمہ مساجد، علمائے کرام، سول سوسائٹی کے ارکان اور خاندانوں کی کوششیں اہم ہیں، وہیں بنیادی ذمہ داری قابض انتظامیہ پر عائد ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بڑھتی ہوئی سماجی تباہی کے باوجود ایک مربوط اور فوری پالیسی ردعمل کی عدم موجودگی سے سنگین حکومتی غفلت کی عکاسی ہوتی ہے۔انہوں نے علاقے میں خاص طور پر سیاحت کے فروغ کی آڑ میں شراب کی آسان دستیابی پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔حریت رہنما بھی اس معاملے پر آواز بلند کر چکے ہیں کہ کشمیری نوجوانوں کو تباہ کرنے کے لئے وادی میں سرکاری سرپرستی میں بے دریغ منشیات پھیلائی جا رہی ہے۔یہ منشیات فوجی کیمپوں کے ذریعے پھیلائی جاتی ہے۔دوسری جانب بھارتی فوج اور پولیس ڈھٹائی کے ساتھ منشیات کا الزام پاکستان پر عائد کر دیتی ہے اور کہتی ہے کہ پاکستان عسکریت پسندوں کی مدد منشیات کے ذریعے کر رہا ہے۔
شورش اور سماج میں بے چینی کا نشے کی لت کے ساتھ ایک گہرا تعلق ہے۔ پچھلی تین دہائیوں سے شورش زدہ کشمیر میں نہ صرف ذہنی امراض میں اضافہ ہوا ہے بلکہ نشہ آور ادویات کے استعمال میں بھی بے تحاشہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ آئے دن سکیورٹی فورسز کے کریک ڈاؤن، تلاشی آپریشنز اور اپنے ہی گھر میں ان کی طرف سے بے عزت ہونے کا غم کشمیریوں بلکہ خاص طور پر نوجوان طبقے کو نشے کی طرف دھکیل رہا ہے۔باقی کسر بھارتی فوجی منشیات فراہم کر کے پوری کر دیتے ہیں۔وادی کشمیر میں آج اسی قوم کے جوانوں کو منشیات کا عادی بنایا جارہا ہے جن پر ہماری ا?میدیں وآبستہ تھیں کہ کل کو یہ جوان ہماری قوم کے قائد بنیں گے۔ مگر یہ نوجوان منشیات کی لت میں اس طرح پھنس گئے ہیں کہ کسی کو بھی نہیں معلوم کہ یہ کب اور کس جگہ نشے کی حالت میں اپنی جان گنوا بیٹھیں گے۔کشمیری نوجوانوں میں منشیات کا استعمال بڑی تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے۔ اگر اس کا تدراک بروقت نہ کیا گیا تو مستقبل قریب میں اس کا اثر پورے سماج کو دیکھنا پڑے گا۔ اور بعد میں ہمیں پچھتانے کے سوا کچھ حاصل نہیں پو گا۔نوجوانوں میں منشیات کا اثر اس قدر سرایت کرچکا ہے کہ کشمیر میں ہزاروں ایسے نوجوان ہیں جو افیون۔ چرس۔ ہیروئین۔ کوکین۔ بھنگ۔ براؤن شوگر۔گوند۔رنگ پتلا کرنے والے محلول اور دوسرے معلوم اور نامعلوم نشہ آور مرکبات استعمال کرنے کے نتیجے میں جسمانی نفسیاتی اور جذباتی امراض کا شکار ہو چکے ہیں۔اتنا ہی نہیں بلکہ ایسے نوجوانوں کی تعدادبھی کثرت سے ملتی ہیں جو فارما سیوٹیکل ادویات کو بھی اب نشے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔اور یہ عمل دوسری ادویات یا منشیات استعمال کرنے سے زیادہ خطرناک ہے۔
کشمیر کے بعض علاقوںمیں جان بوجھ کروہاں کی نوجواں نسل کوبربادکرنے کے لئے بھارتی فورسز منشیات کے پھیلائوکا حربہ استعمال کر رہی ہیں تاکہ نوجوان نسل کومنشیات کی لت پڑے اوروہ اسی میں لگے رہیںانہیں اپنی اوراپنے قوم کی فکر دامن گیر نہ رہے اوروہ اس طرف دیکھنے یاسوچنے کے قابل نہ رہیں۔اس کے ساتھ ساتھ بعض علاقوں میںحالات کا جبر،بڑھتی ہوئی بے روزگاری اورروزافزوں مہنگائی بھی اس کا باعث بن رہی ہے،جبکہ منشیات کے استعمال کی ایک اہم اور بنیادی وجہ دین سے دوری اورتعلیمات دین پرمشتمل نسخہ ہائے کیمیاسے اجتناب اور نشہ آور اشیا کے استعمال کے نقصانات اور وعیدوں سے بے خبری ہے۔ لیکن سب سے افسوس ناک امریہ ہے کہ اس وقت منشیات کے استعمال کے بارے میں ہم بعض افسوس ناک مخمصوں میں مبتلا ہیں۔کشمیر پولیس کاکہنا ہے کہ وادی کشمیر میں حریت مجاہدین کی جانب سے منشیات کو فروغ دیا جارہا ہے۔جبکہ مجاہدین نے الزام پولیس پر عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ سرکاری ایجنسیاں کشمیری نوجوانوں کو ایک ”خاص مقصد سے” منشیات کا عادی بنانا چاہتی ہیں۔حالیہ دنوں میں پولیس نے منشیات اسمگلروں کے کئی گروہوں کو بے نقاب کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے ان کے تار مجاہدین کے ساتھ جوڑنے کی کوششیں تک کی ہیں تاہم شمالی کشمیر کی ایک نامور کراٹے چیمپئن کا یہ الزام بھی تازہ ہے کہ پولس اور منشیات اسمگلروں کا ساز باز ہے۔ مذکورہ نے پولیس پر ان کے چھوٹے بھائی کو منشیات کا عادی بنانے والے مجرموں کو تحفظ دینے تک کا الزام لگایا ہے۔