اسلام ٹائمز: کنونشن میں مدرسہ امام علی کے حوزہ مدیریت فرھنگی ڈاکٹر سید دانش نقوی، مدرسہ الولایہ کے مسئول علامہ سید حسن نقوی، ایم ڈبلیو ایم قم کے مسئول علامہ ذیشان سمیت جامعۃ المنتظر قم، مدرسہ امام سجاد قم، ادارہ سیاسیات، تشکل حیدریہ، اسلامک تھاٹ، جی بی علما کونسل، جامعہ روحانیت بلتستان،، جامعہ روحانیت سندھ، مجمع طلاب اسکردو، مدرسہ فرھنگی امام مہدیؑ شگر، تشکل امام زین العابدین، مدرسہ حیدرکرار کے نمائندہ وفود کے علاوہ آیت اللہ شجاع حسینی پاڑہ چنار، مفتی محمد ہاشم، علامہ شریف لغاری، علامہ یوشع ظفر حیاتی، علامہ منیر حسین عسکری اور علامہ سید مسیب حسین نے شرکت کی۔ خصوصی رپورٹ:

دفتر نمایندہ ولی فقیہ و قائد ملت جعفریہ علامہ سید ساجد علی نقوی کے زیراہتمام مدرسہ دارالشفا فیضہ قم کے کانفرنس ہال میں عظیم الشان عزم علماء تنظیمی کنونشن منعقد ہوا۔ کنونشن میں حوزہ علمیہ قم کے بزرگ علمائے کرام، طلاب و علماء کے تشکلات اور مجلس وحدت مسلمین قم کے نمائندہ وفد سمیت طلاب کی کثیر تعداد شریک ہوئی۔ عزم علماء تنظیمی کنونشن سے شیعہ علماء کونسل کے مرکزی جنرل سیکرٹری علامہ ڈاکٹر شبیر حسن میثمی اور مرکزی رہنماء زاہد حسین آخوند زادہ نے خطاب کیا۔ 

کنونشن میں مدرسہ امام علی کے حوزہ مدیریت فرھنگی ڈاکٹر سید دانش نقوی، مدرسہ الولایہ کے مسئول علامہ سید حسن نقوی، ایم ڈبلیو ایم قم کے مسئول علامہ ذیشان سمیت جامعۃ المنتظر قم، مدرسہ امام سجاد قم، ادارہ سیاسیات، تشکل حیدریہ، اسلامک تھاٹ، جی بی علما کونسل، جامعہ روحانیت بلتستان،، جامعہ روحانیت سندھ، مجمع طلاب اسکردو، مدرسہ فرھنگی امام مہدیؑ شگر، تشکل امام زین العابدین، مدرسہ حیدرکرار کے نمائندہ وفود کے علاوہ آیت اللہ شجاع حسینی پاڑہ چنار، مفتی محمد ہاشم، علامہ شریف لغاری، علامہ یوشع ظفر حیاتی، علامہ منیر حسین عسکری اور علامہ سید مسیب حسین نے شرکت کی۔

کنونشن کے آغاز میں پروگرام کے آرگنائزر حجت الاسلام و المسلمین ضیغم عباس جوادی نے دفتر قائد قم کے تنظیمی ڈھانچے، شعبوں اور کارکردگی کی تفصیلات پیش کیں۔ قم میں قائد ملت کے نمائندہ حجت الاسلام و المسلمین بشارت حسین زاہدی نے استقبالیہ خطاب کیا اور پاکستان سے تشریف لانے والے مہمانوں کے علاوہ کنونشن میں شریک علما و بزرگان کو خوش آمدید کہا اور ان کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کنونشن کے اغراض و مقاصد بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس کا مقصد علمائے کی رہنمائی میں تنظیمی کارکردگی کو بہتر بنانا ہے۔

تقریب کے دوران مسئول شعبہ زائرین ناصر انقلابی نے اسٹیج پر آکر پرجوش تقریر کی اور علامہ ساجد علی نقوی پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے ان کیساتھ تجدید عہد کے طور پر نعرے لگوائے، عزم علماء تنظیمی کنونشن میں شریک علماء نے نعروں کا بھرپور انداز میں جواب دیا۔ مسئول خدمات زائرین ناصر انقلابی نے کہا کہ مولا علی علیہ السلام کا فرمان ہے جب بھی پکارا جائے بیدار نظر آو، آپ قم کے لوگ ماشا اللہ بیدار ہیں، ہوشیار ہیں، انقلابی ہیں، آپ علما ہیں آپ کے چہرے کو دیکھنا بھی عبادت ہے، آپ کی رہنمائی میں ہم زندگی گزار رہے ہیں۔

اس کے بعد انہوں نے نعرہ تکبیر، نعرہ رسالت اور نعرہ حیدری کے شعار بلند کروائے۔ بعد ازاں انہوں صلی علی محمد یار قائد خوش آمد کے نعروں کیساتھ علامہ شبیر حسن میثمی کو خوش آمدید کہا۔ انہوں نے کہا کہ شہید قائد کے بعد قم میں یہ پہلا تنظیمی کنونشن ہے۔ انکا کہنا تھا کہ ہمارے امامؑ غیبت ہیں اور نائب امام ولی فقیہ حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای ہمارے رہبر ہیں، پاکستان میں سید محمد دہلوی، مفتی جعفر حسین اور شہید قائد عارف حسین حسینی کے بعد علامہ سید ساجد علی نقوی نمائندہ ولی فقیہ ہیں، علامہ ساجد علی نقوی کی قیادت سید محمد دہولی سے شہید حسینی تک کی آئینی اور دستوری قیادت کا تسلسل ہے۔

انہوں نے کہا کہ قائد محترم کی رہنمائی میں قم میں زائرین کی خدمات، روزانہ مجلس عزا اور ہزاروں طلبہ کے داخلوں کا سلسلہ جاری ہے۔ علامہ شبیر میثمی نے قائد محترم کی رہنمائی میں پاکستان میں پانی پہنچانے سمیت عوام کے ہر قسم کے مسائل حل کیے ہیں۔ یہ سلسلہ جاری رہے اور نظر بد سے بچیں رہیں۔ آج قم میں قائد ملت جعفریہ کیساتھ دونوں ہاتھ بلند کر کے تجدید عہد کریں، قیادت ہاتھ مضبوط کرینگے اور امام زمانہ علیہ السلام کے مجرم نہیں بنیں گے، جس قوم کا نعرہ علیؑ ولی اس قوم کا قائد ساجد علی، قائد کے فرمان پر جان قربان ہے، رہبر کے فرمان پر جان بھی قربان ہے، مفتی جعفر سید عارف ساجد ہیں دونوں کے وارث۔ ہم عہد کرتے ہیں کہ درواندیش اور بہادر قیادت کا ساتھ دینگے۔
 
اس کے بعد مسئول دفتر قائد ملت قم نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قیادت کے حوالے سے جب مسائل پیدا ہوئے تو تین ہستیاں ایسی تھیں جب ان کو کسی دوسری پارٹی میں شمولیت کے لئے کہا گیا تو انہوں نے کہا کہ ہم قیادت کیساتھ ہیں، آپ لوگ قیادت کو تسلیم کرینگے۔ ان میں ایک علامہ حسن ترابی شہید تھے، دوسرے سید ضیا الدین شہید اور تیسرے نوجوانی سے علامہ شبیر حسن میثمی تھے۔ علامہ شبیر حسن میثمی نے ہمیشہ سے قائد ملت کا ساتھ دیا ہے۔ بعد ازاں قومی ترانہ چلایا گیا اور تمام شرکا نے کھڑے ہو کر قومی ترانہ سنا۔

علامہ شبیر حسن میثمی کا خطاب
اس کے بعد علامہ شبیر حسن میثمی نے خطاب کے پہلے حصے میں الزہراؑ اکیڈمی کی کارکردگی اور خدمات کے بارے تفصیلی گفتگو کی۔ انہوں نے بتایا کہ جب میں کینیڈا میں سے واپس آیا تو قائد ملت جعفریہ علامہ سید ساجد علی نقوی کی خدمت میں حاضر ہوا، ان سے رہنمائی لی اور پورے ملک اس وقت ہم نے دو کروڑ سے زیادہ لوگوں کے لئے پینے کے پانی کا بندوبست کیا ہے، تعلیمی، فلاحی خدمات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ زہراؑ اکیڈمی کے ہر کام کو قائد ملت جعفریہ سے منسوب کیا گیا ہے تاکہ قوم کے ہر فرد کو احساس ہو کہ ہمارے قائد ہماری مشکلات کے حل کے لئے کوشاں ہیں۔
 
انہوں نے خطاب کے دوران کہا کہ علامہ سید ساجد علی نقوی نے نہایت مشکل حالات میں قیادت کی ذمہ داری سنبھالی اور پاکستان میں اگر امن ہے تو یہ علامہ ساجد علی نقوی کی مدبرانہ قیادت کی وجہ سے ہے، جب میں ذمہ داری سنبھالی تو مجھے انہوں نے ہدایات دیں کہ عزاداروں اور عزاداری کا خیال رکھنا ہے، جہاں بھی رکاوٹ پیدا ہو آپ نے اس کا حل نکالنا ہے، اسی طرح پارلیمنٹ میں جب بل آیا تو ہمیں علامہ ساجد علی نقوی نے لمحہ بہ لمحہ رہنمائی کرتے ہوئے اور قومی کانفرنس بلا کر اس کو قانون کا حصہ نہیں بننے دیا۔ اسی طرح الیکشن میں بھی بہترین حکمت عملی کے نتیجے میں مختلف علاقوں بشمول شمالی علاقہ جات میں اچھے نتائج حاصل کیے گئے۔ آپ سب بزرگان، علما اور طلاب کو چاہیے کہ اپنے اپنے حصے کا کام کریں اور قوم کی خدمت میں ہمارا ساتھ دیں۔

امام خمینی کی شخصیت اور انقلاب اسلامی: انہوں نے بانی انقلاب اسلامی امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی برسی کی مناسبت سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں بین الاقوامی تعلقات کے مطالعات کی روشنی میں یہ کہتا ہوں کہ امام خمینی نے انسانی سوچ کو 360 ڈگری پر تبدیل کر دیا، لوگ کہتے ہیں 360 ڈگری جب کہا تو اس مراد تو ہوتی ہے کہ وہیں کہ وہیں آکر رک گئے، نہیں میری مراد یہ ہے کہ امام خمینی نے انسانی سوچ کو مکمل طور پر تبدیل کیا اور پھر فرمایا کہ یہاں سے آگے سوچو۔ بے شک رہبرمعظم حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای کا بہت بڑا کردار ہے، لیکن جس انقلاب کی بنیاد امام خمینی نے رکھی، اس کی مثال نہیں۔ اس انقلاب کی بعد آج دنیا دو حصوں میں تقسیم ہے، میں ملی یکجہتی کونسل کا نائب صدر ہو اور اختلاف کی بات کرنیکا عادی بھی نہیں ہوں۔

واضح طور پر نظر آ رہا ہے کہ دنیا دو قطبی ہو چکی ہے، دنیا یا حسینی ہیں یا یزیدی، پھر 7 اکتوبر 2023 کے بعد یہ دو طاقتیں بدست و گریبان ہیں، اور اس معرکے میں حسینی طاقت کو اللہ تعالیٰ نے عزت و شرف عطا فرمایا ہے، نقصان بہت ہوا، سید حسن نصر اللہ، اسماعیل ھنیہ جیسے ہمارے لوگ شہید ہوئے ہیں، پاکستان میں صرف فلسطین کی حمایت کی وجہ سے اہل سنت شخصتیں شہید ہوئی ہیں، پاکستان میں اہل سنت کی اہل سنت کی شخصیات کو اس لئے شہید کیا گیا کہ وہ حسینیت کیساتھ کھڑے ہو کر فلسطین کی بات کرتے تھے، اور وہ کہتے تھے کہ فلسطین کو اگر کوئی آزاد کروائے گا تو وہ وہی مسلمان ہیں جو اہلبیتؑ سے محبت کرنیوالے ہیں، یہ امام خمینی کی شخصیت کا اعجاز ہے۔

دنیا کا سیاسی انسائیکلوپیڈیا کو امام خمینی نے بدل کر رکھا دیا ہے، اسلام آباد میں یوم القدس کا پروگرام ہو رہا تھا اس وقت جماعت اسلامی کے ایک بڑے رہنما نے کہا کہ مسلمانوں کو اب پتہ چل رہا ہے کہ فلسطین کتنا اہم ہے، تو میں نے کہا کہ مدبرانہ اور حکیمانہ فکر تھی امام خمینی کی کہ کئی دہائیاں پہلے انہوں نے یوم القدس کا اعلان فرمایا اور کہا کہ فلسطین کو بھلانے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ (اس دوران ھال مردہ باد امریکہ اور مردہ باد اسرائیل اور اسرائیل نامنظور کے نعروں سے گونج اٹھا)۔ تقویٰ آتا ہے تو پھر حکمت آ ہی جاتی ہے، یہ امام خمینی کی حکمت کا کمال تھا۔ اگر یوم القدس نہ منایا جاتا تو فلسطین بھلا دیا جاتا۔

ہم نے امام خمینی کے فرمان پر ہر سال یوم القدس منایا اور ثابت ہوا کہ قدس اصل میں حسینیوں کا مسئلہ ہے، یزیدی اس میں داخل نہیں ہو سکتے، اور آج آپ دیکھ رہے ہیں کہ یہی ہو رہا ہے۔ اس کے بعد امام خمینی کی تربیت یافتہ شخصیت رہبرمعظم حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای (ھال میں درو شریف کی گونج) کی مرجعیت کے متعلق زہرا اکیڈمی نے استاد محترم آیت اللہ حسین مرتضیٰ نقوی کی حکمت عملی کے مطابق امام خمینی کی رحلت سے قبل ہی پیغام چھپوائے اور مومنین تک پہنچائے۔ قم کی سرزمین اور انقلاب اسلامی کا مجھ جیسے لوگوں پر احسان ہے، ہمیں تو روایتی شیعہ ہونیکا پتہ تھا لیکن تشیع کیا ہے یہ ہمیں انقلاب اسلامی، امام خمینی، رہبر معظم اور قائد محترم کی بدولت پتہ چلا۔

قائد محترم کیساتھ جب اختلاف کیا گیا اور کچھ چیزوں کو اچھالا گیا تو وہ قم تشریف لائے، ہمیں فخر ہے کہ ہم قائد محترم کا نام لیتے ہیں۔ اگر 2000 جگہوں پر خدمات جاتی ہیں اور ہر جگہ 100 افراد بھی ہوں تو کتنے لوگوں تک قیادت کا پیغام پہنچتا ہے، یہ مال ہمارے پاس امانت ہے، جو ہم دوسروں تک پہنچا رہے ہیں۔ مجھے ایک عزیز نے بتایا کہ ہمارے پاس ایک ٹیکنالوجی ہے جس سے ایک سیب سے سترہ فائدہ اٹھائے جاتے ہیں، میں نے سوچا کہ ایک ہینڈپمپ لگا کر زہرا اکیڈمی کیوں پانچ فائدے نہیں اٹھا سکتی، جن میں سے سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ قیادت کا پیغام لوگوں تک پہنچتا ہے۔ یہ امام خمینی کا معجزہ ہے کہ شبیر لاکھانی کو شبیر میثمی بنا دیا ہے۔

پاکستان ایک نعمت: مجھے کینیڈا میں شہریت کی آفر ہوئی تو میں نے کہا کہ مجھے پاکستان کی سرزمین سے محبت ہے، پاکستان جا کر خدمات انجام دونگا۔ میرے والد کی وصیت کی کہ ہم والدین ہیں لیکن اصل ماں پاکستان ہے، پاکستان کی خدمت کرنا، دنیا میں پاکستان جیسا ملک نہیں ہے۔

تشیع کی عزت اور شرف کا دور: حقیقت بھی یہی ہے۔ شکر ادا کریں کہ دنیا میں اس زمانے میں ہیں جب دنیا میں تشیع کو وہ عزت ملی جو کبھی نہیں ملی۔ آج لوگ علی ولی اللہ پڑھنے والوں کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں، ہم غدیر کے دن ولایت کے اعلان پر ثابت قدم ہیں، اور رہیں گے۔ امام خمینی اور رہبر معظم کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے تشیع کو دنیا کو عزت دی ہے۔ میں ستائیس ملکوں میں گیا ہوں اور لوگ یہ بتاتے ہیں کہ یہ انقلاب اسلامی ایران ہے جس سے پتہ چلا کہ انسانیت کیا ہوتی ہے، اسلام کیا ہے، تشیع کیا ہے، شکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس طرف رکھا ہے جس طرف حق ہے۔ اسی طرف رہیں گے، اسی پر جان دینگے۔

وزیراعظم اور آرمی چیف کی رہبر معظم سے ملاقات:
یہ جو بھارت نے غلطی کی اور پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے فتح نصیب فرمائی، اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو عزت دی اور اس عزت کے بعد پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت رہبرمعظم کی خدمت میں آتے ہیں، اور رہبر معظم نے ہمارے سپہ سالار سے فرمایا کہ مجھے تم سے بہت امیدیں ہیں۔ پاکستانی وفد نے رہبرمعظم کی شان میں الفاظ ادا کئے اور احترام کیا، رہبر معظم نے بھی عزت دی، دونوں ملکوں کے درمیان محبت کا رشتہ ہے، مسائل ہر جگہ ہوتے ہیں، آج میں فخر سے کہہ سکتا ہوں کہ میرا ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان اور اسلامی جمہوریہ ایران رہبر معظم کے دو طاقتور بازو ہیں، جن کے ذریعے فلسطین آزاد ہوگا۔ کچھ ایسی باتیں ہیں جو قائد محترم مجھے بتاتے ہیں۔

ان میں سے ایک یہ ہے۔ ایک اور بات آپ کو بتاتا ہوں کہ جو مجھے خود پتہ ہے کہ اسرائیل نے دو سو اسپشلسٹ بھیجے تھے، بھارت میں کہ جائیں پاکستان پر حملہ کریں اور اسلام آباد پر قبضہ کر لیں اور پھر گلگت بلتستان اور کشمیر پر بھی قبضہ کر لیں۔ اسرائیل یہ جانتا ہے کہ ہمیں پاکستان سے خطرہ ہے۔ اسی لئے پاکستان نے ایران کے ایٹمی پروگرام کی بھی کھل کر حمایت کی ہے، امریکہ کی بدمعاشی سے ہم ڈرنے والے نہیں ہیں۔ اسرائیل اور بھارت کا پروگرام یہ تھا کہ نورخان ائیربیس پر اتریں گے، لیکن اللہ نے پاکستان کو عزت دی۔ اس کے بعد پاکستان کے اتنے بڑے وفد کا ایران رہبرمعظم کے پاس آنا یہ بتاتا ہے کہ دونوں ملکوں کے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں۔

ہم ہندوستان میں موجود مسلمانوں کے بارے میں بہت فکر مند ہیں، ہندوستان میں موجود غیرمسلموں کے بارے میں بھی فکر مند ہیں۔ آر ایس ایس ایک فاشسٹ رجیم ہے، یہ وہ رجیم ہے کو انسانیت پر یقین ہی نہیں رکھتی۔ یہ صیہونی اور فاشسٹ رجیم دونوں انسانیت کا احترام اور انسانیت پر یقین نہیں رکھتے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کہ وہ انسانیت کی نجات کے لئے امام زمانہ علیہ السلام کے ظہور میں تعجیل فرمائے۔

پاکستان میں نظام ولایت فقیہ کا تسلسل: ہم نظام ولایت کے قائل ہیں، وہ نظام جو اصل میں ولایت معصومین علھیم السلام کا نظام ہے۔ اب غیبت کے زمانے میں یا تو کوئی آزاد رہے یا کوئی نظام ہو جس کے سائے میں رہیں۔ میں آیت اللہ کاظم حائری کا درس خارج پڑھا ہے، یہ نظام ولایت دراصل انسانیت کی نجات کا نظام ہے، اسی نظام کے تسلسل میں قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی، نمائندہ ولی فقیہ پاکستان ہیں۔ پاکستان میں نمائندہ ولی فقیہ صرف ایک شخصیت ہے، جس کا نام آیت اللہ سید ساجد علی نقوی ہے۔ یہ وہ ہیں جنہوں نے پاکستان کو امن کا گہوارہ بنایا ہوا ہے۔ میرا قائد وہ ہے جنہوں نے اتحاد بین المسلمین کو قائم کیا ہوا ہے۔

جب میں آیت اللہ کہتا ہوں تو اس پر مطمئن ہوں کہ قائد محترم کی علمی استعداد ثابت ہے، دنیا سے پانچ مجتھدین جائیں اور قائد محترم کی علمی کاوشوں کو دیکھیں، جو موجود ہیں۔ اس لئے سامنے نہیں علمی کام کہ وہ میدان میں مصروف ہیں۔ یہ بہت بڑی قربانی ہے، اگر وہ علمی کام جاری رکھتے تو آیت اللہ حافظ بشیر حسین کی طرح ایک مرجع تقلید ہوتے۔ رہبر معظم نے قائد ملت جعفریہ کو اپنا نمائندہ قرار دیا ہوا ہے، ہم ان کی سرپرستی میں کام انجام دے رہا ہوں۔ اس حوالے سے آپ کا شکر گزار ہوں کہ کچھ اور نام بھی تھے لیکن یہاں سے آپ لوگوں نے یہاں سے قائد محترم کو خط لکھے کہ مجھے ذمہ داری دی جائے۔ جن لوگوں نے خط لکھے ان کے نام بھی میرے پاس موجود ہیں، میں نے آپ کو مایوس نہیں کیا۔

تنظیمی کارکردگی: عزاداری ہماری شہ رگ حیات ہے۔ قائد محترم نے فرمایا کہ میثمی صاحب آپ اللہ تعالیٰ کی مدد سے عزاداروں کی خدمت بھی کرنی ہے اور اگر عزاداری کے خلاف اقدامات ہوتے ہیں تو اس پر کام بھی کرنا ہے۔ بل کے بارے میں بھی ایک جملہ بتاتا چلوں کہ اگر یہ پاس ہوجاتا تو میں اور آپ حدیث کساء بھی نہیں پڑھ سکتے تھے، اس پر بھی ایف آئی آر کروائی گئی تھی۔ اس بل کے مطابق ایف آئی آر کٹ جاتی تو دس سال سزا تھی کم از کم، اس لئے ضمانت بھی نہیں ہو سکتی، اس طرح کیس چلتے چلتے کئی سال لگ جاتے ہیں۔ ہم نے قائد محترم کی رہنمائی میں کوشش کر کے اس بل کو ناکام بنایا۔

قائد محترم نے فرمایا یہ کرنا ہے، آگے آپ کی مرضی ہے، تو میں نے کہا میں بے وقوف آدمی نہیں ہوں، میرا باپ ہے، قائد ہے اور کو گائیڈ کرتا ہے، تو مجھے خود کچھ کرنیکی کیا ضرورت ہے۔ صرف قائد محترم نہ فرمایا تھا جو کچھ کرنا ہے جس سے ملنا ہے اس کی تشہیر نہیں کرنی۔ اگر چھوٹی سی غلطی ہو جائے تو قوم کے لئے بڑی مصیبت ہو جاتی ہے۔ ایک دفعہ کوئی فوٹو سامنے آئی، قائد محترم نے آئندہ کے لئے پھر منع فرمایا اور ہم نے دوبارہ ایسا نہیں ہونے دیا۔ یہاں آتے ہیں تو کوئی ایسی خبریں چلاتا ہے کہ جیسے ہم نے پاکستان کیخلاف کوئی بات کی ہے، ایسا کچھ نہیں ہے، جب محسوس ہوا کہ کچھ ایسا ہو رہا ہے تو قائد محترم نے عزاداری کانفرنس بلائی اور وہ بل روک دیا گیا۔ چونکہ یہی مرکزی پلیٹ فارم ہے، یہ قیادت ہی مرکزی پلیٹ فارم ہے۔

آپ بھی سمجھیں کہ صرف کسی کی لکھی ہوئی چیزوں کو اس لئے پڑھنا کہ شہریہ لینا ہے، بلکہ قیادت کی پیروی ضروری ہے۔ یہ ان لوگوں کو بھی سنا رہا ہوں کہ وہ بے وقوفیاں نہ کریں۔ عزاداری کانفرنس کے بعد بھی ہر علاقے، ہر گاوں سے فون آئے کہ ہم حاضر ہیں۔ عزاداری کو محدود کرنیکی کوششوں کو بھی روک رہے ہیں۔ عزاداری اور عزاداروں کی حفاظت پہلی ترجیح ہے۔ لیکن اسٹیج سے اہلبیتؑ کا پیغام پہنچنا چاہیے، لوگوں کی دل آزاری نہ کریں، یہ حوزہ علمیہ کی ذمہ داری ہے۔ اگر اس بات کو مانتے ہیں کہ مولا علی علیہ السلام کے فضائل ختم ہونیوالے نہیں ہیں تو یکم محرم سے ربیع الاول تک پھر فضائل ہی بیان فرمائیں۔

زائرین کی مشکلات حل کرنیکے لئے بھی مسلسل مصروف ہیں، زائرین کے مسائل کے لئے آپ بھی کوشش کریں، یہ مولا امام رضا علیہ السلام کے مہمان ہیں یا امام حسین علیہ السلام کے۔ اسی طرح کرم ایجنسی کے مومنین کے لئے بھی کوشش کر رہے ہیں، انشا اللہ یہ مسائل حل ہو جائیں گے، مشکلات اور رکاوٹیں پیدا کرنیوالوں کا حل نکالا جا رہا ہے، دوائیں اور راشن بھجوا گیا اور بھی خدمات جاری رکھیں گے۔ آپ کے پاس کوئی معلومات ہوں تو قائد محترم کو ارسال کریں۔ میں سیاسی سیل کا چئیرمین ہونیکے ناطے بتا رہا ہوں کہ کس طرح بڑی سیاسی پارٹیوں کے سیاستدان منتیں کرتے ہیں کہ انہیں پتہ ہے کہ ہمارے ووٹ کی اہمیت ہے۔ تشیع کا ایک مقام ہے۔

یہ قائد محترم کی سیاسی حکمت عملی ہے۔ مت سمجھیں کہ سیٹیں نہیں نکلی تو اس کا مطلب ہے کہ سیاسی طور پر پیچھے ہیں۔ گلگت بلتستان میں ہمیں اندرونی اور بیرونی سازشوں کے ذریعے سیکنڈ لارجسٹ پارٹی سے زیرو پر لایا گیا لیکن ہم اب بھی وہاں جاتے ہیں۔ قائد محترم کو گلگت و بلتستان میں عزت واحترام حاصل ہے، چیف منسٹر اور گورنر کتنی مرتبہ قائد محترم کے پاس آ کر بیٹھتے ہیں، یہ سیاسی عمل ہے، جس کی وجہ سے سب سمجھتے ہیں کہ یہ ایک مدبرانہ قیادت ہے۔ ہم قوم کے لئے کھڑے ہیں، ہم فتنۃ الخوارک کے مقابلے میں ہم کھڑے ہیں۔ آپ سے درخواست ہے جہاں زمانے کے امامؑ کے لئے دعا کریں وہاں قائد ملت جعفریہ کے بھی دعا کریں۔

محققین، مبلغین اور ثقافتی خدمات انجام دینے والے علما کی قدردانی:
تقریب کے آخر میں پچاس کے قریب علما، محققین، مبلغین اور ثقافتی و تعلیمی حوالے سے خدمات انجام دینے والے علمائے کرام اور طلاب کی قدردانی کے طور پر دفتر نمائندہ ولی فقیہ قم کی جانب سے اعزازی شیلڈیں اور سرٹیفکیٹ دیئے گئے۔


 

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: علامہ سید ساجد علی نقوی علامہ شبیر حسن میثمی علامہ ساجد علی نقوی نمائندہ ولی فقیہ قائد ملت جعفریہ کی رہنمائی میں علیہ السلام کے کے مسئول علامہ انقلاب اسلامی جامعہ روحانیت امام خمینی کی قائد محترم کی آیت اللہ سید پاکستان میں کے بارے میں نے پاکستان پاکستان کی اللہ تعالی پاکستان کو کے نمائندہ کرتے ہوئے یوم القدس نے کہا کہ اس کے بعد بھی نہیں قیادت کا قیادت کی انہوں نے کہ ہمارے نقوی کی رہے ہیں کی خدمت معظم کے نہیں ہو اور ان کیا ہے رہا ہے تو میں ہیں کہ کے لئے ہوں کہ اور اس

پڑھیں:

لبنان میں کون کامیاب؟ اسرائیل یا حزب اللہ

اسلام ٹائمز: اسرائیل ایک ایسے سراب کا پیچھا کر رہا ہے، جو اسے فوری عسکری حل دکھاتا ہے، مگر حقیقت میں دوررس سیاسی و سماجی نتائج کو نظر انداز کرتا ہے۔ حزبِ اللہ وقتی دھچکوں کے بعد دوبارہ منظم ہونے اور عسکری و سیاسی سطح پر خود کو برقرار رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اگر امن چاہتے ہیں تو طاقت کے استعمال کی بجائے سیاسی تصورِ امن، لبنانی خود مختاری اور بین الاقوامی معاونت (اقتصادی و سیاسی) کو اولین ترجیح دی جانی چاہیئے۔ اس تمام تر صورتحال کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل نے اربوں ڈالرز خرچ کرنے کے بعد بھی لبنان میں کچھ حاصل نہیں کیا، سوائے اس کے کہ عمارتوں کو تباہ کیا، شخصیات کو قتل کیا، لیکن فتح آج بھی حزب اللہ کی ہے، کیونکہ عقیدہ اور نظریہ آج بھی زندہ ہے اور پہلے سے زیادہ توانائیوں کے ساتھ میدان میں آنے کے لئے تیار ہے۔ یہی امریکہ اور اسرائیل کی شکست کا ثبوت ہے۔ تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان

لبنان پر حالیہ اسرائیلی جارحیت اور جنگ بندی معاہدے کے بعد اسرائیلی خلاف ورزیوں میں روز بروز اضافہ دیکھا جا رہا ہے، ایسے حالات میں عالمی سطح پر مبصرین کے مابین ایک سوال اہمیت اختیار کرتا جا رہا ہے کہ کیا اسرائیل کو لبنان میں کامیابی نہیں ملی۔؟ حالانکہ امریکہ اور اسرائیل نے حزب اللہ لبنان کے اہم ترین کمانڈروں اور بالخصوص سید حسن نصراللہ اور سید ہاشم صفی الدین کو قتل کرنے کے بعد پوری دنیا کو یہی تاثر دیا ہے کہ حزب اللہ کو لبنان میں ختم کر دیا گیا ہے اور اب لبنان میں حزب اللہ کمزور ہوچکی ہے۔ ایسے حالات میں پھر اسرائیل کو مسلسل جنوبی لبنان اور دیگر علاقوں پر بمباری کی کیا ضرورت ہے۔؟ اس عنوان سے اسرائیلی مبصرین بعض اوقات لبنان کی موجودہ کشیدگی کو ایک سنگین صورتحال قرار دے رہے ہیں۔ اسرائیلی مبصرین کے مطابق اسرائیل پوری کوشش کر رہا ہے کہ وہ موجودہ صورتحال کو اپنے لئے ایک موقع میں تبدیل کرے اور یہ ایک ایسا موقع ہو، جس سے حتمی طور پر حزبِ اللہ کو کمزور یا غیر مسلح کیا جاسکے۔

اس تجزیہ کی بنیاد سے لگتا ہے کہ اس سے پہلے اسرائیل اور امریکہ کے کئے گئے دعوے سب کھوکھلے اور بے بنیاد ہیں۔ موجودہ صورتحال میں لبنان کا توازن یہ بتا رہا ہے کہ حزب اللہ بھرپور عوامی حمایت کی حامل ہے اور سیاسی سطح پر بھی اچھی پوزیشن میں ہے۔ اسی صورتحال کو دیکھتے ہوئے اسرائیل کے سابق میجر جنرل تامیر ہیمن نے کہا ہے کہ اسرائیلی فوج کے جنوبی لبنان اور دیگر ملحقہ علاقوں میں فضائی حملے ایک اچھی حکمتِ عملی نہیں ہیں، کیونکہ بمباری عمارتیں تباہ کر دیتی ہے، مگر نظریات اور سیاسی سرمایہ کو نیست و نابود نہیں کرتی۔ جنرل تامیر نے تاکید کے ساتھ کہا کہ اسرائیل عمارتوں اور شخصیات کو ختم کر رہا ہے، لیکن عقائد ختم نہیں کئے جا سکتے۔ اسرائیل کے حالیہ حملے خود اس کی اپنی عارضی کمزوری کی طرف اشارہ کر رہے ہیں، جبکہ مخالف قوتوں کو منظم ہونے، تجربات سے سیکھنے اور دوبارہ تیار ہونے کا عزم حاصل ہو رہا ہے۔

اسرائیلی مبصرین کا کہنا ہے کہ حزب اللہ نے ایک بڑی جنگ کا سامنا کیا ہے اور ابھی تک اسرائیلی جارحیت کا سامنا کر رہی ہے۔ اس تمام تر صورتحال میں ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی مشاہدہ کیا جا رہا ہے کہ حزب اللہ اپنی طاقت کو منظم کر رہی ہے اور جنگ میں ہونے والے نقصانات اور جنگی تجربات سے سبق حاصل کرکے آگے کے لئے مضبوط اور موثر حکمت عملی بنانے میں مصروف ہے۔ دوسری جانب اسرائیل ہے کہ جو صرف اپنی فضائی قوت کی برتری پر لبنان کے علاقوں پر بمباری کر رہا ہے، جو اب اس کے خلاف ایک سیاسی حکمت عملی بنتی چلی جا رہی ہے۔ حالیہ دنوں میں بلیدا (Blida) پر اسرائیلی حملے اور اس کے بعد صدر جوزف عون کی فوجی ردعمل کی ہدایت نے صورتحال کو مزید گرم کر دیا ہے۔ لبنانی صدر عون نے آئندہ کسی بھی اسرائیلی دراندازی کے خلاف فوج کو کارروائی کا حکم دیا ہے۔ حزبِ اللہ اور سیاسی حلقوں نے بھی سخت موقف اپنایا ہے۔

یہ واقعہ اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ کشمکش ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔ نہ صرف یہیبلکہ اسرائیلی جارحیت نے لبنان کے تمام حلقوں اور گروہوں کو اتحاد کی طرف پلٹنے کا بھی ایک موقع فراہم کیا ہے۔ اسرائیلی مبصرین نے مختلف ٹی وی چینلز پر بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ میدانی رپورٹس بتاتی ہیں کہ اگرچہ حزبِ اللہ بعض علاقوں سے پیچھے ہٹ گئی تھی، لیکن وہ اپنی فوجی صلاحیتوں کو دوبارہ منظم کر رہی ہے۔ زمینی روٹس، ذخائر اور مقامی نیٹ ورکس کی بحالی کا کام بھی جاری ہے، جسے اسرائیل اور مغربی حلقے تشویش کا باعث قرار دے رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ محض فضائی بمباری سے بقاء کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔

لبنانی حکومت اور فوج کو بین الاقوامی دباؤ کا سامنا ہے کہ وہ جنوبی علاقوں میں اسلحہ کی گزرگاہیں بند کریں یا مخصوص مقامات سے اسلحہ نکالا جائے، مگر یہ عمل داخلی سیاسی حساسیت اور وسائل کی کمی کی وجہ سے پیچیدہ ہے۔ فوج کا کردار پارٹیوں کے مابین توازن برقرار رکھنے تک محدود رہنے کا خدشہ ہے۔ لبنان کے اندرونی معاملات میں امریکی شرکت یا ساز باز کے شواہد بھی موجود ہیں، کیونکہ امریکہ اور اسرائیل جہاں ایک طرف جنگی کارروائیوں کی مدد سے حزب اللہ کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، وہاں ساتھ ساتھ سیاسی سطح پر مختلف سیاسی گروہوں کے ساتھ ساز باز کے ذریعے حزب اللہ کے اسلحہ کے خلاف اور سیاسی حیثیت پر بھی سوال اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن نتیجہ یہ ہے کہ دونوں میدانوں میں ان کو کامیابی حاصل ہوتی دکھائی نہیں دیتی ہے۔

امریکہ اور اسرائیل کی موجودہ حکمت عملی یہی ہے کہ وہ کسی بھی طرح لبنان کو اندر سے کمزور کر دیں۔ اگر اسرائیل براہِ راست حزبِ اللہ کو عسکری طور پر ختم نہیں کرسکتا تو بعض مبصرین کہتے ہیں کہ وہ اب سیاسی اور سماجی انتشار پیدا کرکے لبنان کو اندر سے کمزور کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ لبنانی فوج کو الجھانا، معاشرتی تقسیم کو ہوا دینا اور بیرونی شراکت داری کے ذریعے مقامی تنازعات کو گرم رکھنا۔ یہ حکمتِ عملی خطرناک اور غیر مستحکم ہے، کیونکہ اس کے طویل مدتی نتائج پورے خطے میں تباہ کن ہوسکتے ہیں۔ کسی بھی مسئلہ کے حل کے لئے لمبے عرصے کے لیے امن سیاسی حل، اعتماد سازی اور معاشی استحکام کے منصوبوں کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا۔ فضائی مہمات اور بار بار کے حملے وقتی فتح دکھا سکتے ہیں، مگر وہ تنازعے کے بنیادی اسباب قبضہ، سلامتی کے توازن اور علاقائی مداخلت کو حل نہیں کرتے۔ بین الاقوامی اداروں کو فوجی دباؤ کے بجائے بحالی، ڈپلومیسی اور واضح سیاسی ڈھانچے کی حمایت پر زور دینا چاہیئے۔

خلاصہ یہ کہ اسرائیل ایک ایسے سراب کا پیچھا کر رہا ہے، جو اسے فوری عسکری حل دکھاتا ہے، مگر حقیقت میں دوررس سیاسی و سماجی نتائج کو نظر انداز کرتا ہے۔ حزبِ اللہ وقتی دھچکوں کے بعد دوبارہ منظم ہونے اور عسکری و سیاسی سطح پر خود کو برقرار رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اگر امن چاہتے ہیں تو طاقت کے استعمال کی بجائے سیاسی تصورِ امن، لبنانی خود مختاری اور بین الاقوامی معاونت (اقتصادی و سیاسی) کو اولین ترجیح دی جانی چاہیئے۔ اس تمام تر صورتحال کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل نے اربوں ڈالرز خرچ کرنے کے بعد بھی لبنان میں کچھ حاصل نہیں کیا، سوائے اس کے کہ عمارتوں کو تباہ کیا، شخصیات کو قتل کیا، لیکن فتح آج بھی حزب اللہ کی ہے، کیونکہ عقیدہ اور نظریہ آج بھی زندہ ہے اور پہلے سے زیادہ توانائیوں کے ساتھ میدان میں آنے کے لئے تیار ہے۔ یہی امریکہ اور اسرائیل کی شکست کا ثبوت ہے۔

متعلقہ مضامین

  • گوادر کے قریب معدومیت کے خطرے سے دوچار عربی وہیل کا حیران کن نظارہ
  • شہرِ قائد میں 6 روز کے دوران 26 ہزار سے زائد ای چالان
  • پاک افغان تعلقات عمران خان دور میں اچھے تھے، ذبیح اللہ مجاہد
  • شبیر احمد شاہ کی درخواست ضمانت کی مخالفت کرنے پر این آئی اے کی مذمت
  • بانی پی ٹی آئی کے نامزد اپوزیشن لیڈر محمود اچکزئی کی تقرری مشکلات کا شکار
  • سائنس دانوں کی حیران کن دریافت: نظروں سے اوجھل نئی طاقتور اینٹی بائیوٹک ڈھونڈ لی
  • لبنان میں کون کامیاب؟ اسرائیل یا حزب اللہ
  • ولادت حضرت سیدہ زینب سلام اللہ علیھا کی مناسبت سے مدرسہ امام علی قم میں نشست کا انعقاد
  • ایم ڈبلیو ایم کے سربراہ سینیٹر علامہ راجہ ناصر عباس کا خصوصی انٹرویو
  • پنجاب میں مساجد کے امام کی رجسٹریشن سے متعلق حکومتی وضاحت سامنے آگئی