Express News:
2025-06-02@06:33:17 GMT

جنگی اذیتیں

اشاعت کی تاریخ: 31st, May 2025 GMT

پاکستان اور بھارت کے درمیان پہلی جنگ پندرہ ماہ جاری رہی تھی، یعنی اکتوبر 1947 سے لے کر دسمبر 1948 تک جب کہ دوسری جنگ کا دورانیہ جو 1965 میں لڑی گئی یہ جنگ سترہ روز تک لڑی گئی یعنی 6 ستمبر سے 23 ستمبر تک۔ تیسری جنگ یعنی 1971 کی جنگ تیرہ دن تک لڑی گئی تین دسمبر سے سولہ دسمبر تک، چوتھی جنگ دو مہینے تک جاری رہی، یہ 1999 میں مئی سے جولائی تک رہی، یہ کارگل کی جنگ تھی۔

سات مئی 2025 کو شروع ہونے والی جنگ دس مئی 2025 کی شام کو جنگ بندی کا اعلان ہوا، گویا چار دن میں یہ جنگ ختم ہو گئی تھی۔ 1947 سے لے کر آج تک ہم جان چکے ہیں کہ جنگ کس قدر خطرناک ہے یہ تباہی لے کر آتی ہے اور جانوں کو نگل لیتی ہے، پاکستان اور بھارت کے عوام یہ تباہ کاریاں جانتے ہیں۔ 

آج کے زمانے میں پل کر جوان ہونے والے بھی ان چند دنوں میں جنگ کی ہولناکیوں کو محسوس کر چکے ہیں۔ دنیا میں فلسطین کے حوالے سے اٹھتے ہوئے شعلے اور اس میں بھسم ہونے والی جانیں کون سنگ دل ہوگا جس کی آنکھ سے ان کے غم پر آنسو نہ آئے ہوں گے، ذرا سوچیں تو دل لرز اٹھتا ہے، کھاتے پیتے ان مظلوم انسانوں کی شکلیں ابھرتی ہیں تو دل رو اٹھتا ہے۔

سات اکتوبر 2023 کو شروع ہونے والی جنگ بہ ظاہر جس انداز میں شروع ہوئی تھی، اس سے یہ ہرگز نہ لگتا تھا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ مہم جوئی نما جنگ ایک تہلکہ خیز جنگ کو جنم دے گی، تاریخ سات ہی تھی کہ اس تاریخ کو جو شروع ہوا اس کا اختتام ابھی تک منتظر ہے کہ کب۔۔۔ پر ابھی تک خاموشی اور فضا میں بارود کی بدبو، دھماکے اور انسانی چیخوں کی آوازیں۔

سات تاریخ کو شروع ہونے والی ایک جنگ ہزاروں جانیں آج تک نگل چکی ہے شاید بھارت نے بھی اس سحر انگیز ’’سات‘‘ کے پھیرے میں ڈوب کر سات تاریخ کا ہی انتخاب کیا تھا، پر ہمیں کل کی بھی خبر نہیں اور پلان بڑے بڑے بناتے ہیں،کس کو پتا تھا کہ چند دنوں میں بھارت کے غبارے کی ہوا ہی نکل جائے گی اور کسی کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا اور ایسا ہی ہوا، نقصان اس قدر پھیلا کہ فرانس کے تاریخی شیئرز میں ٹھپا لگ گیا، کسی نے بھی رافیل نما شیطانی چرخے کو نہ مانا اور مسترد کر دیا گیا اور بعد میں بھی ایسا ہی ہوا کہ چند گھنٹوں میں ہی بھارت نے گھٹنے ٹیک دیے۔ 

اب وہ مانیں نہ مانیں پر حقیقت یہی ہے کہ مودی سرکار جنگ برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتی۔ بھڑکانے والے بھڑکاتے ہیں اور ان غباروں جیسی حقیقتوں پر چڑھاتے ہیں اور چند دن دنیا کا زاویہ کچھ پھرا اور بس۔بات پھر فلسطین کی کرتے ہیں جہاں ایک خبر نے دل دہلا دیا جب ایک ڈاکٹر کے 9 بچے ایک ہی دھماکے میں شہید کر دیے گئے جب کہ وہ اسپتال میں دوسروں کی جان بچانے کی کوششوں میں لگی تھیں۔ 

یہ کیسا اذیت ناک تھا کہ ایک ماں کے9 جگر گوشے ایک ساتھ۔۔۔۔ یہ آزمائش نہیں تو اور کیا ہے؟ پاکستان میں بیٹھ کر ہم ایک ماں کے درد کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتے، پر آنکھیں نم ہیں اور دل میں دعائیں۔یہ وہی اسرائیل ہے جسے 1948 میں یعنی پاکستان بننے کے محض سال بھر بعد ہی دنیا کے نقشے پر چڑھانے کی کوشش کی گئی تھی۔ بھارت اور پاکستان بالمقابل اسرائیل اور فلسطین کیا کوئی کہانی اس طرح ترتیب دینے کی بھونڈی کوشش کی گئی تھی پر یہ سچ ہے کہ سات کی کہانی کا راز ابھی باقی ہے۔

یورپی ممالک سے مالٹا کی جانب سے ایک آواز ابھری ہے، وزیر اعظم رابرٹ ابیلا نے کہا ہے کہ ان کا ملک جلد ہی باضابطہ طور پر فلسطین کو ایک خود مختار ریاست کے طور پر تسلیم کرے گا۔ رابرٹ ابیلا نے فلسطین کے حالات کو جس درد مندی سے محسوس کیا اور کھل کر بیان کیا وہ قابل تعریف ہے نہ صرف یہ بلکہ انھوں نے اسرائیلی فضائی حملے میں نشانہ بننے والے النجار خاندان کے زندہ بچ جانے والے افراد کو مالٹا میں پناہ دینے کا اعلان بھی کیا، ان کے یہ الفاظ ’’ مالٹا آپ اور آپ کے خاندان کو پناہ دینے کے لیے تیار ہے اور آپ کے ساتھ اپنے شہریوں جیسا سلوک کرے گا۔‘‘

ان سرد جذبات والے رہنماؤں کے لیے ایک مثال ہیں جو دنیا کے علم بردار بنتے ہیں۔مالٹا فلسطین کے لیے جو کر رہا ہے اور جس کوشش میں مصروف ہے وہ یورپی ممالک کے لیے ہی نہیں بلکہ مسلمان طاقتوں کے لیے بھی سوچنے کے در وا کرنا ہے کہ آخر ایک یورپی ملک فلسطین کے لیے اتنا درد رکھتا ہے اور۔۔۔سوال تو اٹھتے ہی ہیں کہ سات تاریخ کو ہی حماس نے اسرائیل پر چھاتہ بردار جنگ کا آغاز کیوں کیا، بھارت نے پاکستان پر 7 مئی پر بلاوجہ حملہ کیوں کیا اور ایک جنگ کی ابتدا کی؟

اقوام متحدہ کے ایک 193 میں سے ایک سو 147 رکن ممالک نے فلسطین کو ایک خود مختار ریاست کے طور پر تسلیم کر لیا ہے۔ بین الاقوامی طور پر فلسطین کو انتہائی شکستہ صورت حال میں دیکھ کر ان کے عزم کو سلام کرتے طاقت کا بڑا رخ ان کو تسلیم کرنے کی حمایت میں آگے آ چکے ہیں لیکن ابھی بھی بڑے بڑے ہاتھیوں نے ہار نہ ماننے کا فیصلہ کیا ہے۔

ابھی خبر تو یہ بھی گرم ہے کہ فرانس کے صدر ایمانول میکرون نے عنقریب ہی فلسطین کو ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کا کہا تو ہے اب یہ عنقریب کتنے مہینوں پر محیط ہوگا یا کبھی نہیں، یہ ایک الگ سوال ہے کہ ہو سکتا ہے کہ رافیل کے باعث عالمی سطح پر ان کی جو حوصلہ شکنی ہوئی یا شاید وہ اسے خدا کا اشارہ سمجھ کر گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جائیں۔

ویسے بھی اپنی بیگم صاحبہ سے عزت افزائی کی تازہ ترین وڈیو نے ایمانول میکرون کی اپنی گھریلو صورت حال کی وضاحت کر دی ہے، اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ جو شخص اپنے گھر میں مستحکم حالت میں نہیں ہے تو عالمی سطح پر وہ کتنا طاقتور ہو سکتا ہے۔ اب چاہے اسرائیل غزہ کے ستر فیصد رقبے پر قبضہ کرے یا نہیں، کیا اس کی حالت بھی ایمانول میکرون کی طرح ہے؟

سات کا ہندسہ اپنے اندر ایک تاثر رکھتا ہے۔ انشااللہ اس پر پھر بات ہوگی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: فلسطین کے ہونے والی فلسطین کو تسلیم کر ہیں اور ہے اور کے لیے

پڑھیں:

حقیقتیں

پرورش
ماں نے آٹھ بچے پال پوس کر جوان کیے لیکن آٹھ بچے مل کر ماں کو چار سال نہ پال سکے۔
بے چھت
زلزلہ آیا پورا شہر مر گیا‘ صرف میں بچا‘ کیوں؟ کیونکہ میرے سر پر چھت نہیں تھی اور زلزلے بے چھت لوگوں کو کچھ نہیں کہتے۔
علاج
میں ڈاکٹر بدلتا رہا‘ میں دوائیں بھی تبدیل کرتا رہا لیکن شفاء نصیب نہ ہوئی‘ مجھے آخر میں پتہ چلا‘ خرابی دوائوں اور ڈاکٹروں میں نہیں تھی‘ نقص مجھ میں تھا‘ میں بزدلی کے مرض میں مبتلا ہوں اور بزدل مریضوں کو کسی دواء کسی ڈاکٹر سے شفاء نہیں ہوتی۔
انصاف
جج نے چور سے کہا ’’تم پر چوری ثابت نہیں ہو سکی‘ تمہیں باعزت بری کیا جاتا ہے‘‘ چور نے ہاتھ جوڑ کر پوچھا ’’جناب کیا میں اب چوری کی سائیکل استعمال کر سکتا ہوں‘‘۔
باپ
انسان کو اس وقت تک بچہ پیدا نہیں کرنا چاہیے جب تک وہ باپ بننا نہ سیکھ لے۔
پکی چھت
جو شخص اپنا فرش پکا نہیں کر تا‘ اسے کبھی پکی چھت نصیب نہیں ہوتی۔
کام یابی
جو لوگ کام یاب نہیں ہونا چاہتے‘ کام یابی کبھی ان پر ترس نہیں کھاتی۔
میل
جو لوگ دولت کو ہاتھ کی میل سمجھتے ہیں‘ دولت بھی ان کے ساتھ وہ سلوک کرتی ہے جو صابن میل کے ساتھ کرتا ہے۔
ککھ پتی
وہ ایک ایک روپیہ جمع کرتا رہا‘ وہ لکھ پتی بن گیا‘ میں ایک ایک روپیہ خرچ کرتا رہا ‘ میں ککھ پتی ہو گیا۔
کان
میں نے اپنے پیٹ کو ہزاروں دلیلیں لیکن یہ نہ مانا‘ میں نے تنگ آ کر اس پر ہاتھ پھیرا تو مجھے پتہ چلا میرے پیٹ کے کان ہی نہیں ہیں‘ یہ بے چارہ کیسے سنتا!
اعلیٰ ظرف
وہ زندگی کے آخری حصے میں کثرت سے دعا کیا کرتے ہیں’’یا باری تعالیٰ! مجھے پھل دار درختوں جتنا ظرف عطا فرما دے‘‘ ہم پوچھتے تھے’’باباجی یہ خواہش کیوں؟‘‘ وہ جواب دیتے تھے’’میں نے آج تک کسی کو پھل دار درختوں سے زیادہ اعلیٰ ظرف نہیں پایا‘‘۔ ہم پوچھتے تھے ’’کیسے؟‘‘ وہ جواب دیتے تھے ’’ہم درختوں کو پتھر مارتے ہیں‘ یہ بے چارے زخمی ہو جاتے ہیں لیکن جواب میں اپنا میٹھا ترین پھل ہماری طرف اچھال دیتے ہیں‘ مجھے انسانوں میں کوئی اتنا اعلیٰ ظرف شخص دکھا دو‘‘۔
نصیب
میں جھونپڑی میں رہتا تھا تو روز بارش ہوتی تھی‘ میں نے چھت پکی کر لی تو بارشیں بھی بند ہو گئیں۔
انصاف
حضرت موسیٰ ؑ نے اﷲ سے پوچھا ’’یا باری تعالیٰ فرعون خدائی کا دعوے دار تھا لیکن تم نے اس کے باوجود اس کی رسی دراز رکھی‘‘ اﷲ تعالیٰ نے جواب دیا ’’موسیٰ! فرعون انصاف پسند تھا‘ میں اسے کیسے برباد کر دیتا‘‘۔
خسارہ
میں نے اس کی نئی قمیض گندی کرنے کے لیے کیچڑ اٹھایا لیکن اس کی قمیض گندی ہونے سے پہلے میرے ہاتھ گندے ہو گئے۔
ہڑتال
میرے شہر کی تمام گھڑیوں نے ہڑتال کر دی لیکن وقت کی دکان اس کے باوجود کھلی رہی۔
خوشی
مانگنے والے نے مہاتما بودھ سے کہا ’’مجھے خوشی چاہیے‘‘ بودھ نے مسکرا کر جواب دیا ’’میرے بچے تمہارے مطالبے میں دو چیزیں اضافی ہیں‘‘ مانگنے والے نے پوچھا ’’کیا‘‘ بودھ نے جواب دیا ’’مجھے اور چاہیے‘‘ ۔ مانگنے والا حیرت سے دیکھنے لگا‘ بودھ نے جواب دیا ’’تم مجھے اور چاہیے نکال دو‘ پیچھے خوشی رہ جائے گی‘‘۔
نظریہ ضرورت
سیدزادی کے ہاتھ میں سونے کے دو کنگن تھے‘ شمر کا فوجی آگے بڑھا‘ بچی کا ہاتھ پکڑا اور کنگن اتارنے لگا‘ وہ کنگن اتارتا جاتا تھا اور روتا جاتا تھا‘ بچی نے پوچھا ’’ چچاتم کیوں رو رہے ہو؟‘‘ فوجی نے جواب دیا ’’مجھ سے آل ِ رسولؐ کا یہ دکھ دیکھا نہیں جاتا‘‘ بچی نے کہا ’’تم پھر میرے کنگن کیوں اتار رہے ہو‘‘ اس نے جواب دیا ’’بی بی کنگنوں کا اترنا لازم ہو چکا ہے‘ یہ میں نہیں اتاروں گا تو کوئی اور اتار لے گا‘‘۔
گدھا نہ ہو کہیں کا
کمہار کا باپ مر گیا‘ کمہار گدھے کو شہر لے گیا‘ ختم کے لیے راشن خریدااور گدھے بیچارے کو راشن ڈھونا پڑ گیا‘کمہار کی بیٹی کی شادی آئی‘ گدھا کئی دن تک جہیز ڈھوتا رہا‘ گدھے نے ایک دن سوچا ’’ہم بھی کیا مخلوق ہیں‘ انسانوں کی خوشی ہو یا غمی ‘بوجھ بہرحال ہمیں ہی اٹھانا پڑتا ہے‘‘۔
اشرف المخلوقات
جانوروں نے ایک دن اﷲ سے شکوہ کیا ’’بھینسیں اپنے بچھڑوں کے لیے دودھ دیتی ہیں لیکن انسان پی جاتا ہے‘ مرغیاں اپنی نسل بڑھانے کے لیے انڈے دیتی ہیں لیکن انسان کھا جاتا ہے اور بھیڑ بکریاں اپنی افزائش کے لیے میمنے جنتی ہیں لیکن انسان انھیں بھی چٹ کر جاتا ہے ’’اﷲ نے پوچھا ’’پھر‘‘ جانوروں نے کہا ’’یا باری تعالیٰ !انسان اس کے باوجود اشرف المخلوقات ہے اور ہم جانور‘ کیا یہ ظلم نہیں‘‘۔
انسان کی موت
کراچی میں گولی چل رہی تھی‘ کتے کے پلے نے کچرہ گھر سے باہر جھانکنے کی کوشش کی‘ کتیا نے اسے پنجہ مار کر کہا ’’بے وقوف‘ سر اندر رکھو! کیوں انسان کی موت مرنا چاہتے ہو‘‘ اور پلے نے گھبرا کر ماں کے پیچھے پناہ لے لی۔
اگنور
میں نے شکوہ کیا ’’لوگ آج کل مجھے بہت برا بھلا کہتے ہیں‘‘ وہ ہنسے اور کہا ’’یہ برا بھلا اس سے سو گنا اچھا ہے کہ لوگ تمہیں کچھ بھی نہ کہیں‘ تمہیں اگنور کرکے گزر جائیں‘‘۔
رزق
گورکن نے اپنی بیوی سے کہا ’’یہ ڈاکٹر جب سے آیا ہے‘ ہمارا رزق تنگ ہو گیا‘ آئو مل کر اس کے لیے بددعا کریں‘‘اور بیوی نے جھولی پھیلا کر دہائی دی ’’جا ڈاکٹر ‘ اﷲ تمہیں غارت کرے‘‘۔
فیڈ بیک
لڑکے نے فون پر پوچھا ’’سر کیا آپ کو اچھا ڈرائیور چاہیے‘‘ دوسری طرف سے جواب آیا ’’میرے پاس بہت اچھا ڈرائیور موجود ہے‘‘ لڑکے نے کہا ’’سر میں آدھی تنخواہ پر کام کرنے کے لیے تیار ہوں‘‘ جواب ملا ’’نہیں شکریہ! آپ اگر مفت بھی کام کریں تو بھی میں اپنا ڈرائیور نہیں چھوڑوں گا‘‘ فون بند ہو گیا‘ پی سی او کا مالک سن رہا تھا‘ اس نے افسوس سے کہا ’’بیٹا ہمت نہیں ہارنی‘ تمہیں نوکری ضرور ملے گی‘‘ لڑکے نے قہقہہ لگایا اور بولا ’’میں ان کا ڈرائیور ہوں‘ میں صرف یہ دیکھنا چاہتا تھا‘ کیا یہ لوگ میرے کام سے مطمئن ہیں؟‘‘
اردو
میں نے رخصت ہونے سے پہلے میزبان سے کہا ’’خان صاحب ماشاء اﷲ آپ کی اردو بہت اچھی ہے‘‘ میزبان سادہ سا دیہاتی تھا‘ اس نے تھوڑی دیر سوچا اور پھر پوری سنجیدگی سے جواب دیا ’’نہیں سر!آپ ویسے ہی بکواس کر رہے ہیں‘‘۔
مسائل
میں نے عرض کیا ’’میںمسائل میں گھرا ہوا ہوں‘‘ انھوں نے مسکرا کر جواب دیا ’’مسائل زندگی کی علامت ہیں‘ آپ زندہ ہیں تو مسئلے رہیں گے‘‘ وہ رکے اور پھر آہستہ سے بولے ’’دنیا میں صرف ایک جگہ ہے جہاں کوئی مسئلہ نہیں‘‘ میں نے پوچھا ’’کون سی جگہ‘‘ وہ بولے ’’قبرستان‘‘۔
کاروبار
میں نے پوچھا’’کیا میں کاروبار کر سکتا ہوں‘‘ وہ بولے ’’ہاں اگر آپ 24 میں سے 16 گھنٹے مسکرا سکتے ہیں تو!‘‘
 

متعلقہ مضامین

  • روس پر ڈرونز کی بارش، یوکرین کا 40 جنگی طیارے تباہ کرنے کا دعویٰ
  • جنگی جنون میں مبتلا بھارت کیخلاف مقدمہ پیش کرنے پاکستانی وفد امریکا پہنچ گیا
  • حقیقتیں
  • سعودی وزیر خارجہ مقبوضہ مغربی کنارے کا غیر معمولی دورہ کرینگے
  • ’کتنے جنگی طیارے تباہ ہوئے؟‘، بھارتی جنرل کا جواب دینے سے گریز
  • امام حج بیت المقدس کی آزادی اور اسرائیل کیخلاف بیداری کا پیغام دیں، متحدہ علماء محاذ
  • کشمیر و فلسطین پر قبضے علاقائی امن کیلئے خطرہ بن چکے ہیں: اسحاق ڈار
  • کشمیر و فلسطین پر قبضے علاقائی امن کیلئے خطرہ بن چکے ہیں، اسحاق ڈار
  • فلسطینیوں کی نسل کشی؛ ترک کنگ فو چیمپئین نے اپنا میڈل پھینک دیا