Express News:
2025-11-04@02:33:21 GMT

جنگی اذیتیں

اشاعت کی تاریخ: 31st, May 2025 GMT

پاکستان اور بھارت کے درمیان پہلی جنگ پندرہ ماہ جاری رہی تھی، یعنی اکتوبر 1947 سے لے کر دسمبر 1948 تک جب کہ دوسری جنگ کا دورانیہ جو 1965 میں لڑی گئی یہ جنگ سترہ روز تک لڑی گئی یعنی 6 ستمبر سے 23 ستمبر تک۔ تیسری جنگ یعنی 1971 کی جنگ تیرہ دن تک لڑی گئی تین دسمبر سے سولہ دسمبر تک، چوتھی جنگ دو مہینے تک جاری رہی، یہ 1999 میں مئی سے جولائی تک رہی، یہ کارگل کی جنگ تھی۔

سات مئی 2025 کو شروع ہونے والی جنگ دس مئی 2025 کی شام کو جنگ بندی کا اعلان ہوا، گویا چار دن میں یہ جنگ ختم ہو گئی تھی۔ 1947 سے لے کر آج تک ہم جان چکے ہیں کہ جنگ کس قدر خطرناک ہے یہ تباہی لے کر آتی ہے اور جانوں کو نگل لیتی ہے، پاکستان اور بھارت کے عوام یہ تباہ کاریاں جانتے ہیں۔ 

آج کے زمانے میں پل کر جوان ہونے والے بھی ان چند دنوں میں جنگ کی ہولناکیوں کو محسوس کر چکے ہیں۔ دنیا میں فلسطین کے حوالے سے اٹھتے ہوئے شعلے اور اس میں بھسم ہونے والی جانیں کون سنگ دل ہوگا جس کی آنکھ سے ان کے غم پر آنسو نہ آئے ہوں گے، ذرا سوچیں تو دل لرز اٹھتا ہے، کھاتے پیتے ان مظلوم انسانوں کی شکلیں ابھرتی ہیں تو دل رو اٹھتا ہے۔

سات اکتوبر 2023 کو شروع ہونے والی جنگ بہ ظاہر جس انداز میں شروع ہوئی تھی، اس سے یہ ہرگز نہ لگتا تھا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ مہم جوئی نما جنگ ایک تہلکہ خیز جنگ کو جنم دے گی، تاریخ سات ہی تھی کہ اس تاریخ کو جو شروع ہوا اس کا اختتام ابھی تک منتظر ہے کہ کب۔۔۔ پر ابھی تک خاموشی اور فضا میں بارود کی بدبو، دھماکے اور انسانی چیخوں کی آوازیں۔

سات تاریخ کو شروع ہونے والی ایک جنگ ہزاروں جانیں آج تک نگل چکی ہے شاید بھارت نے بھی اس سحر انگیز ’’سات‘‘ کے پھیرے میں ڈوب کر سات تاریخ کا ہی انتخاب کیا تھا، پر ہمیں کل کی بھی خبر نہیں اور پلان بڑے بڑے بناتے ہیں،کس کو پتا تھا کہ چند دنوں میں بھارت کے غبارے کی ہوا ہی نکل جائے گی اور کسی کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا اور ایسا ہی ہوا، نقصان اس قدر پھیلا کہ فرانس کے تاریخی شیئرز میں ٹھپا لگ گیا، کسی نے بھی رافیل نما شیطانی چرخے کو نہ مانا اور مسترد کر دیا گیا اور بعد میں بھی ایسا ہی ہوا کہ چند گھنٹوں میں ہی بھارت نے گھٹنے ٹیک دیے۔ 

اب وہ مانیں نہ مانیں پر حقیقت یہی ہے کہ مودی سرکار جنگ برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتی۔ بھڑکانے والے بھڑکاتے ہیں اور ان غباروں جیسی حقیقتوں پر چڑھاتے ہیں اور چند دن دنیا کا زاویہ کچھ پھرا اور بس۔بات پھر فلسطین کی کرتے ہیں جہاں ایک خبر نے دل دہلا دیا جب ایک ڈاکٹر کے 9 بچے ایک ہی دھماکے میں شہید کر دیے گئے جب کہ وہ اسپتال میں دوسروں کی جان بچانے کی کوششوں میں لگی تھیں۔ 

یہ کیسا اذیت ناک تھا کہ ایک ماں کے9 جگر گوشے ایک ساتھ۔۔۔۔ یہ آزمائش نہیں تو اور کیا ہے؟ پاکستان میں بیٹھ کر ہم ایک ماں کے درد کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتے، پر آنکھیں نم ہیں اور دل میں دعائیں۔یہ وہی اسرائیل ہے جسے 1948 میں یعنی پاکستان بننے کے محض سال بھر بعد ہی دنیا کے نقشے پر چڑھانے کی کوشش کی گئی تھی۔ بھارت اور پاکستان بالمقابل اسرائیل اور فلسطین کیا کوئی کہانی اس طرح ترتیب دینے کی بھونڈی کوشش کی گئی تھی پر یہ سچ ہے کہ سات کی کہانی کا راز ابھی باقی ہے۔

یورپی ممالک سے مالٹا کی جانب سے ایک آواز ابھری ہے، وزیر اعظم رابرٹ ابیلا نے کہا ہے کہ ان کا ملک جلد ہی باضابطہ طور پر فلسطین کو ایک خود مختار ریاست کے طور پر تسلیم کرے گا۔ رابرٹ ابیلا نے فلسطین کے حالات کو جس درد مندی سے محسوس کیا اور کھل کر بیان کیا وہ قابل تعریف ہے نہ صرف یہ بلکہ انھوں نے اسرائیلی فضائی حملے میں نشانہ بننے والے النجار خاندان کے زندہ بچ جانے والے افراد کو مالٹا میں پناہ دینے کا اعلان بھی کیا، ان کے یہ الفاظ ’’ مالٹا آپ اور آپ کے خاندان کو پناہ دینے کے لیے تیار ہے اور آپ کے ساتھ اپنے شہریوں جیسا سلوک کرے گا۔‘‘

ان سرد جذبات والے رہنماؤں کے لیے ایک مثال ہیں جو دنیا کے علم بردار بنتے ہیں۔مالٹا فلسطین کے لیے جو کر رہا ہے اور جس کوشش میں مصروف ہے وہ یورپی ممالک کے لیے ہی نہیں بلکہ مسلمان طاقتوں کے لیے بھی سوچنے کے در وا کرنا ہے کہ آخر ایک یورپی ملک فلسطین کے لیے اتنا درد رکھتا ہے اور۔۔۔سوال تو اٹھتے ہی ہیں کہ سات تاریخ کو ہی حماس نے اسرائیل پر چھاتہ بردار جنگ کا آغاز کیوں کیا، بھارت نے پاکستان پر 7 مئی پر بلاوجہ حملہ کیوں کیا اور ایک جنگ کی ابتدا کی؟

اقوام متحدہ کے ایک 193 میں سے ایک سو 147 رکن ممالک نے فلسطین کو ایک خود مختار ریاست کے طور پر تسلیم کر لیا ہے۔ بین الاقوامی طور پر فلسطین کو انتہائی شکستہ صورت حال میں دیکھ کر ان کے عزم کو سلام کرتے طاقت کا بڑا رخ ان کو تسلیم کرنے کی حمایت میں آگے آ چکے ہیں لیکن ابھی بھی بڑے بڑے ہاتھیوں نے ہار نہ ماننے کا فیصلہ کیا ہے۔

ابھی خبر تو یہ بھی گرم ہے کہ فرانس کے صدر ایمانول میکرون نے عنقریب ہی فلسطین کو ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کا کہا تو ہے اب یہ عنقریب کتنے مہینوں پر محیط ہوگا یا کبھی نہیں، یہ ایک الگ سوال ہے کہ ہو سکتا ہے کہ رافیل کے باعث عالمی سطح پر ان کی جو حوصلہ شکنی ہوئی یا شاید وہ اسے خدا کا اشارہ سمجھ کر گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جائیں۔

ویسے بھی اپنی بیگم صاحبہ سے عزت افزائی کی تازہ ترین وڈیو نے ایمانول میکرون کی اپنی گھریلو صورت حال کی وضاحت کر دی ہے، اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ جو شخص اپنے گھر میں مستحکم حالت میں نہیں ہے تو عالمی سطح پر وہ کتنا طاقتور ہو سکتا ہے۔ اب چاہے اسرائیل غزہ کے ستر فیصد رقبے پر قبضہ کرے یا نہیں، کیا اس کی حالت بھی ایمانول میکرون کی طرح ہے؟

سات کا ہندسہ اپنے اندر ایک تاثر رکھتا ہے۔ انشااللہ اس پر پھر بات ہوگی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: فلسطین کے ہونے والی فلسطین کو تسلیم کر ہیں اور ہے اور کے لیے

پڑھیں:

غزہ میں مستقل امن اور تعمیر نو

دفتر خارجہ سے جاری بیان کے مطابق استنبول اجلاس کے دوران پاکستان جنگ بندی معاہدے پر مکمل عمل درآمد، مقبوضہ فلسطینی علاقوں، بالخصوص غزہ سے اسرائیلی افواج کے مکمل انخلا، فلسطینی عوام کو بلا رکاوٹ انسانی امداد کی فراہمی اور غزہ کی تعمیرِ نو کی ضرورت پر زور دے گا۔ پاکستان اس بات کو بھی دہرائے گا کہ تمام فریقوں کو مل کر ایک آزاد، قابلِ عمل اور جغرافیائی طور پر متصل فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے کوششیں تیزکرنی چاہئیں۔

غزہ کی موجودہ صورتحال میں جنگ بندی معاہدے پر عملدرآمد کا مرحلہ نہایت نازک اور پیچیدہ صورت اختیارکرچکا ہے۔ یہ معاہدہ جسے عالمی برادری نے ایک بڑی سفارتی پیش رفت قرار دیا تھا، عملاً ایک ایسی آزمائش بن گیا ہے جس پر فلسطین کے مستقبل، خطے کے استحکام اور عالمی طاقتوں کی نیتوں کا دار و مدار ہے۔

جنگ بندی بظاہر ایک سانس لینے کا موقع فراہم کرتی ہے، مگر غزہ کے عوام کے لیے یہ اب تک مکمل راحت کا باعث نہیں بن سکی۔ ملبے میں دبے انسان، اجڑی بستیاں، برباد اسپتال اور امدادی قافلوں پر عائد پابندیاں اس حقیقت کا پتہ دیتی ہیں کہ امن کے وعدے اب بھی زمین پر اترنے سے قاصر ہیں۔ اس معاہدے کے تحت فریقین نے تین بنیادی مراحل میں امن کی جانب بڑھنے پر اتفاق کیا تھا۔ پہلے مرحلے میں مکمل فائر بندی، یرغمالیوں اور قیدیوں کی مرحلہ وار رہائی اور انسانی امداد کی فراہمی شامل تھی۔

دوسرے مرحلے میں اسرائیلی افواج کا تدریجی انخلا، شہریوں کی واپسی اور جنگ زدہ علاقوں کی بحالی طے پائی تھی۔ تیسرے مرحلے میں مستقل امن، تعمیر نو اور غزہ کے مستقبل کے سیاسی ڈھانچے پر اتفاق ہونا تھا۔ معاہدے کی ضمانت کے لیے قطر، مصر اور امریکا ثالث بنے اور یہ یقین دہانی کرائی گئی کہ کسی بھی خلاف ورزی کی صورت میں بین الاقوامی نگرانی کی جائے گی، لیکن زمینی حقائق نے جلد ہی ظاہر کر دیا کہ یہ معاہدہ صرف کاغذی نہیں بلکہ عملی لحاظ سے کئی رکاوٹوں میں گھرا ہوا ہے۔

معاہدے پر دستخط کے چندگھنٹوں بعد ہی فائر بندی کی خلاف ورزیاں سامنے آنا شروع ہو گئیں۔ اسرائیلی افواج نے کئی علاقوں میں چھاپے مارے، بمباری کی اطلاعات آئیں اور امدادی قافلوں کو روکا گیا۔ دوسری طرف حماس نے الزام لگایا کہ اسرائیل انسانی امداد کو سیاسی دباؤ کے آلے کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ اسرائیل کی جانب سے یہ جواز پیش کیا گیا کہ وہ حماس کی فوجی سرگرمیوں کے مکمل خاتمے تک پیچھے نہیں ہٹ سکتا۔ یوں ایک بار پھر’’ سلامتی‘‘ اور ’’سیاست‘‘ کے درمیان وہی قدیم تضاد ابھرا جس نے ہمیشہ اس خطے کے امن کو برباد کیا ہے۔

شمالی غزہ کے ہزاروں مہاجرین اب بھی بے گھر ہیں۔ ان میں وہ خاندان شامل ہیں جو پچھلے برس کے فضائی حملوں میں اپنے گھروں سے محروم ہو گئے تھے۔ معاہدے کے تحت انھیں اپنے علاقوں میں واپس جانے کی اجازت ملنی تھی، مگر اسرائیلی فوج نے متعدد راستے بند کر رکھے ہیں۔ اقوام متحدہ کے نمایندوں نے خبردار کیا ہے کہ اگر امدادی رسائی بحال نہ ہوئی تو انسانی بحران مزید گہرا ہو جائے گا۔ دوسری جانب اسرائیل کا مؤقف یہ ہے کہ حماس کے عسکری ڈھانچے کی موجودگی واپسی کے لیے خطرہ ہے، اس لیے سیکیورٹی کلیئرنس کے بغیر شہریوں کو داخل نہیں ہونے دیا جا سکتا۔

حماس نے ابتدائی طور پر قیدیوں اور یرغمالیوں کے تبادلے میں تعاون کیا۔ درجنوں اسرائیلی یرغمالی رہا ہوئے اور اس کے بدلے میں کئی فلسطینی قیدیوں کو آزادی ملی۔ مگر جب یہ عمل سست پڑا تو بداعتمادی نے جنم لیا۔ بین الاقوامی برادری، خصوصاً امریکا اور یورپی یونین، نے ابتدا میں اسے ایک بڑی کامیابی قرار دیا۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی دلچسپی کم ہوتی جا رہی ہے۔ قطر اور مصر اب بھی ثالثی میں متحرک ہیں، مگر وہ بھی دونوں فریقوں کے دباؤ سے نالاں دکھائی دیتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے نمایندے نے حالیہ بیان میں کہا کہ ’’امن کی بنیاد اعتماد ہے، اور اعتماد اس وقت مفقود ہے۔‘‘ یہی وہ نکتہ ہے جو غزہ کے مستقبل کا فیصلہ کرے گا۔

عملدرآمد میں سب سے بڑی رکاوٹ سیاسی ارادے کی کمی ہے۔ اسرائیلی حکومت کے اندر مختلف دھڑے ہیں، ایک طرف وہ گروہ جو فوجی تسلط کو کم کرنے کے حق میں نہیں، اور دوسری جانب وہ عناصر جو عالمی دباؤ کے تحت کسی حد تک نرمی چاہتے ہیں۔ اسی طرح حماس کے اندر بھی یہ بحث جاری ہے کہ آیا جنگ بندی کو عارضی حکمت عملی سمجھا جائے یا ایک مستقل سیاسی پیش رفت کے طور پر قبول کیا جائے۔ ان باہمی تضادات نے فضا کو غیر یقینی بنا دیا ہے۔

غزہ کی موجودہ صورتحال پوری انسانیت کے ضمیر کو جھنجھوڑ رہی ہے۔ وہاں کے بے قصور شہریوں پر مسلط جنگ نے صرف عمارتوں اور بستیوں کو نہیں بلکہ امید اور زندگی کے احساس کو بھی تباہ کر دیا ہے۔

ایسے حالات میں جنگ بندی معاہدہ امید کی ایک کرن کی حیثیت رکھتا ہے لیکن اس معاہدے پر حقیقی اور پائیدار عملدرآمد اس وقت تک ممکن نہیں جب تک عالمی طاقتیں اور مسلم ممالک اپنا کردار سنجیدگی سے ادا نہیں کرتے۔ ماضی کے تجربات یہ بتاتے ہیں کہ جب بھی اس خطے میں کوئی جنگ بندی ہوئی، وہ زیادہ دیرپا ثابت نہ ہو سکی کیونکہ طاقتور فریقوں نے اپنے وعدے پورے نہیں کیے اور عالمی برادری نے بھی محض بیانات پر اکتفا کیا۔ اب وقت کا تقاضا ہے کہ اس غلطی کو دوبارہ نہ دہرایا جائے۔ عالمی طاقتیں، خصوصاً وہ ممالک جو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل ارکان ہیں، ان کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ اس معاہدے کی نگرانی کریں اور کسی بھی خلاف ورزی پر فوری کارروائی یقینی بنائیں۔ اسی طرح مسلم دنیا کو محض بیانات اور قراردادوں سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔

جنگ بندی کے معاہدے پر عملدرآمد کے حوالے سے ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ اسرائیلی افواج کا مکمل انخلا لازمی ہے۔ جب تک قابض افواج غزہ اور دیگر مقبوضہ علاقوں سے نہیں جاتیں، وہاں پائیدار امن قائم نہیں ہو سکتا۔ اس مقصد کے لیے بین الاقوامی نگران مشن تشکیل دینا ہوگا جو اس بات کی تصدیق کرے کہ انخلا حقیقی ہے، جزوی نہیں۔ ماضی میں دیکھا گیا کہ بعض اوقات اسرائیل محدود پیمانے پر انخلا کا اعلان کر کے بین الاقوامی دباؤ کم کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے لیکن زمینی حقائق تبدیل نہیں ہوتے۔ اس بار عالمی طاقتوں کو اس عمل کی مکمل نگرانی کرنا ہوگی اور مسلم ممالک کو سفارتی سطح پر اسرائیل پر مسلسل دباؤ برقرار رکھنا ہوگا۔

یہ بات بھی اہم ہے کہ جنگ بندی کے معاہدے کے ساتھ ساتھ فلسطین کی تعمیر نو کے عمل کو بین الاقوامی ذمے داری کے طور پر قبول کیا جائے۔ اقوام متحدہ اور اسلامی تعاون تنظیم کے تحت ایک مشترکہ ادارہ قائم کیا جا سکتا ہے جو تعمیر نو کے منصوبوں کی نگرانی کرے، فنڈز کی شفاف تقسیم کو یقینی بنائے اور مقامی اداروں کے ساتھ مل کر غزہ کے عوام کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرے۔ اس عمل میں شفافیت اور جوابدہی انتہائی ضروری ہے تاکہ امدادی رقم بدعنوانی یا سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہ ہو۔ پاکستان اور دیگر مسلم ممالک اگر اپنے فنی ماہرین، انجینئرز اور طبی عملے کو غزہ بھیجیں تو اس سے عملی سطح پر بڑی مدد مل سکتی ہے۔

مسلم ممالک کے لیے اب یہ لمحہ فیصلہ کن ہے۔ اگر وہ واقعی امتِ مسلمہ کے اجتماعی مفادات کے محافظ ہیں تو انھیں اپنے اختلافات پس پشت ڈال کر فلسطینی مسئلے پر متحد ہونا ہوگا۔ اسلامی دنیا کے پاس وسائل کی کوئی کمی نہیں، صرف سیاسی عزم کی کمی ہے۔ اگر او آئی سی کے پلیٹ فارم کو مؤثر بنایا جائے، اگر مشترکہ اقتصادی، سفارتی اور انسانی لائحہ عمل اپنایا جائے تو نہ صرف غزہ بلکہ پورے فلسطین میں ایک نئی صبح طلوع ہو سکتی ہے۔ پاکستان جیسے ملک، جنھوں نے ہمیشہ اصولی موقف اپنایا، ان کے لیے یہ موقع ہے کہ وہ قیادت کا کردار ادا کریں اور دنیا کو بتائیں کہ انصاف، امن اور انسانی اقدار کے لیے مسلم دنیا ایک ہے۔

آخر میں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ غزہ کی جنگ بندی معاہدے پر عملدرآمد کے لیے صرف الفاظ نہیں بلکہ عمل کی ضرورت ہے۔ عالمی طاقتیں اگر واقعی امن چاہتی ہیں تو انھیں اپنی پالیسیوں میں توازن لانا ہوگا اور انسانی جانوں کی حرمت کو سیاست پر فوقیت دینی ہوگی۔ مسلم ممالک کو چاہیے کہ وہ اپنے مفادات سے بالاتر ہو کر امت کی اجتماعی بھلائی کو مقدم رکھیں۔ پاکستان نے اپنا مؤقف واضح کر دیا ہے، اب دنیا کی باری ہے کہ وہ ثابت کرے کہ انصاف ابھی زندہ ہے۔ فلسطینی عوام نے بہت قربانیاں دی ہیں، اب وقت ہے کہ ان کی جدوجہد کو منزل تک پہنچایا جائے۔ جنگ بندی کا معاہدہ اگر خلوص، سنجیدگی اور مشترکہ کوششوں سے نافذ کیا جائے تو یہ نہ صرف غزہ بلکہ پوری انسانیت کے لیے امید کا پیغام بن سکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • غزہ میں مستقل امن اور تعمیر نو
  • علامہ صادق جعفری کا سوڈان میں جاری خانہ جنگی اور لرزہ خیز مظالم پر شدید تشویش کا اظہار
  • فلسطین کے مسئلہ پر پاکستان اور ترکیہ مل کر کام جاری رکھیں گے
  • اسحاق ڈار کی ترک ہم منصب سے ملاقات، مسئلہ فلسطین سمیت مختلف امورپر تبادلہ خیال
  • اسحاق ڈار کی استنبول روانگی، فلسطین میں صورتحال پر بین الاقوامی اجلاس میں شرکت
  • مقبوضہ فلسطین کا علاقہ نقب صیہونی مافیا گروہوں کے درمیان جنگ کا میدان بن چکا ہے، عبری ذرائع
  • فلسطین کے گرد گھومتی عالمی جغرافیائی سیاست
  • فلسطین کے حق میں کیے گئے معاہدے دراصل سازش ثابت ہو رہے ہیں، ایاز موتی والا
  • بھارت مقبوضہ کشمیر میں اسرائیلی ساختہ پالیسیوں پر عمل پیرا ہے
  • بین الاقوامی نظام انصاف میں ’تاریخی مثال‘، جنگی جرائم میں ملوث روسی اہلکار لتھوانیا کے حوالے