پاکستان اور بھارت کے درمیان پہلی جنگ پندرہ ماہ جاری رہی تھی، یعنی اکتوبر 1947 سے لے کر دسمبر 1948 تک جب کہ دوسری جنگ کا دورانیہ جو 1965 میں لڑی گئی یہ جنگ سترہ روز تک لڑی گئی یعنی 6 ستمبر سے 23 ستمبر تک۔ تیسری جنگ یعنی 1971 کی جنگ تیرہ دن تک لڑی گئی تین دسمبر سے سولہ دسمبر تک، چوتھی جنگ دو مہینے تک جاری رہی، یہ 1999 میں مئی سے جولائی تک رہی، یہ کارگل کی جنگ تھی۔
سات مئی 2025 کو شروع ہونے والی جنگ دس مئی 2025 کی شام کو جنگ بندی کا اعلان ہوا، گویا چار دن میں یہ جنگ ختم ہو گئی تھی۔ 1947 سے لے کر آج تک ہم جان چکے ہیں کہ جنگ کس قدر خطرناک ہے یہ تباہی لے کر آتی ہے اور جانوں کو نگل لیتی ہے، پاکستان اور بھارت کے عوام یہ تباہ کاریاں جانتے ہیں۔
آج کے زمانے میں پل کر جوان ہونے والے بھی ان چند دنوں میں جنگ کی ہولناکیوں کو محسوس کر چکے ہیں۔ دنیا میں فلسطین کے حوالے سے اٹھتے ہوئے شعلے اور اس میں بھسم ہونے والی جانیں کون سنگ دل ہوگا جس کی آنکھ سے ان کے غم پر آنسو نہ آئے ہوں گے، ذرا سوچیں تو دل لرز اٹھتا ہے، کھاتے پیتے ان مظلوم انسانوں کی شکلیں ابھرتی ہیں تو دل رو اٹھتا ہے۔
سات اکتوبر 2023 کو شروع ہونے والی جنگ بہ ظاہر جس انداز میں شروع ہوئی تھی، اس سے یہ ہرگز نہ لگتا تھا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ مہم جوئی نما جنگ ایک تہلکہ خیز جنگ کو جنم دے گی، تاریخ سات ہی تھی کہ اس تاریخ کو جو شروع ہوا اس کا اختتام ابھی تک منتظر ہے کہ کب۔۔۔ پر ابھی تک خاموشی اور فضا میں بارود کی بدبو، دھماکے اور انسانی چیخوں کی آوازیں۔
سات تاریخ کو شروع ہونے والی ایک جنگ ہزاروں جانیں آج تک نگل چکی ہے شاید بھارت نے بھی اس سحر انگیز ’’سات‘‘ کے پھیرے میں ڈوب کر سات تاریخ کا ہی انتخاب کیا تھا، پر ہمیں کل کی بھی خبر نہیں اور پلان بڑے بڑے بناتے ہیں،کس کو پتا تھا کہ چند دنوں میں بھارت کے غبارے کی ہوا ہی نکل جائے گی اور کسی کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا اور ایسا ہی ہوا، نقصان اس قدر پھیلا کہ فرانس کے تاریخی شیئرز میں ٹھپا لگ گیا، کسی نے بھی رافیل نما شیطانی چرخے کو نہ مانا اور مسترد کر دیا گیا اور بعد میں بھی ایسا ہی ہوا کہ چند گھنٹوں میں ہی بھارت نے گھٹنے ٹیک دیے۔
اب وہ مانیں نہ مانیں پر حقیقت یہی ہے کہ مودی سرکار جنگ برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتی۔ بھڑکانے والے بھڑکاتے ہیں اور ان غباروں جیسی حقیقتوں پر چڑھاتے ہیں اور چند دن دنیا کا زاویہ کچھ پھرا اور بس۔بات پھر فلسطین کی کرتے ہیں جہاں ایک خبر نے دل دہلا دیا جب ایک ڈاکٹر کے 9 بچے ایک ہی دھماکے میں شہید کر دیے گئے جب کہ وہ اسپتال میں دوسروں کی جان بچانے کی کوششوں میں لگی تھیں۔
یہ کیسا اذیت ناک تھا کہ ایک ماں کے9 جگر گوشے ایک ساتھ۔۔۔۔ یہ آزمائش نہیں تو اور کیا ہے؟ پاکستان میں بیٹھ کر ہم ایک ماں کے درد کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتے، پر آنکھیں نم ہیں اور دل میں دعائیں۔یہ وہی اسرائیل ہے جسے 1948 میں یعنی پاکستان بننے کے محض سال بھر بعد ہی دنیا کے نقشے پر چڑھانے کی کوشش کی گئی تھی۔ بھارت اور پاکستان بالمقابل اسرائیل اور فلسطین کیا کوئی کہانی اس طرح ترتیب دینے کی بھونڈی کوشش کی گئی تھی پر یہ سچ ہے کہ سات کی کہانی کا راز ابھی باقی ہے۔
یورپی ممالک سے مالٹا کی جانب سے ایک آواز ابھری ہے، وزیر اعظم رابرٹ ابیلا نے کہا ہے کہ ان کا ملک جلد ہی باضابطہ طور پر فلسطین کو ایک خود مختار ریاست کے طور پر تسلیم کرے گا۔ رابرٹ ابیلا نے فلسطین کے حالات کو جس درد مندی سے محسوس کیا اور کھل کر بیان کیا وہ قابل تعریف ہے نہ صرف یہ بلکہ انھوں نے اسرائیلی فضائی حملے میں نشانہ بننے والے النجار خاندان کے زندہ بچ جانے والے افراد کو مالٹا میں پناہ دینے کا اعلان بھی کیا، ان کے یہ الفاظ ’’ مالٹا آپ اور آپ کے خاندان کو پناہ دینے کے لیے تیار ہے اور آپ کے ساتھ اپنے شہریوں جیسا سلوک کرے گا۔‘‘
ان سرد جذبات والے رہنماؤں کے لیے ایک مثال ہیں جو دنیا کے علم بردار بنتے ہیں۔مالٹا فلسطین کے لیے جو کر رہا ہے اور جس کوشش میں مصروف ہے وہ یورپی ممالک کے لیے ہی نہیں بلکہ مسلمان طاقتوں کے لیے بھی سوچنے کے در وا کرنا ہے کہ آخر ایک یورپی ملک فلسطین کے لیے اتنا درد رکھتا ہے اور۔۔۔سوال تو اٹھتے ہی ہیں کہ سات تاریخ کو ہی حماس نے اسرائیل پر چھاتہ بردار جنگ کا آغاز کیوں کیا، بھارت نے پاکستان پر 7 مئی پر بلاوجہ حملہ کیوں کیا اور ایک جنگ کی ابتدا کی؟
اقوام متحدہ کے ایک 193 میں سے ایک سو 147 رکن ممالک نے فلسطین کو ایک خود مختار ریاست کے طور پر تسلیم کر لیا ہے۔ بین الاقوامی طور پر فلسطین کو انتہائی شکستہ صورت حال میں دیکھ کر ان کے عزم کو سلام کرتے طاقت کا بڑا رخ ان کو تسلیم کرنے کی حمایت میں آگے آ چکے ہیں لیکن ابھی بھی بڑے بڑے ہاتھیوں نے ہار نہ ماننے کا فیصلہ کیا ہے۔
ابھی خبر تو یہ بھی گرم ہے کہ فرانس کے صدر ایمانول میکرون نے عنقریب ہی فلسطین کو ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کا کہا تو ہے اب یہ عنقریب کتنے مہینوں پر محیط ہوگا یا کبھی نہیں، یہ ایک الگ سوال ہے کہ ہو سکتا ہے کہ رافیل کے باعث عالمی سطح پر ان کی جو حوصلہ شکنی ہوئی یا شاید وہ اسے خدا کا اشارہ سمجھ کر گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جائیں۔
ویسے بھی اپنی بیگم صاحبہ سے عزت افزائی کی تازہ ترین وڈیو نے ایمانول میکرون کی اپنی گھریلو صورت حال کی وضاحت کر دی ہے، اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ جو شخص اپنے گھر میں مستحکم حالت میں نہیں ہے تو عالمی سطح پر وہ کتنا طاقتور ہو سکتا ہے۔ اب چاہے اسرائیل غزہ کے ستر فیصد رقبے پر قبضہ کرے یا نہیں، کیا اس کی حالت بھی ایمانول میکرون کی طرح ہے؟
سات کا ہندسہ اپنے اندر ایک تاثر رکھتا ہے۔ انشااللہ اس پر پھر بات ہوگی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: فلسطین کے ہونے والی فلسطین کو تسلیم کر ہیں اور ہے اور کے لیے
پڑھیں:
فلسطین کی صورتحال پر مسلم ممالک اپنی خاموشی سے اسرائیل کو سپورٹ کر رہے ہیں، حافظ نعیم
اسلام آباد:امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا ہے کہ فلسطین کی صورتحال پر اپنی خاموشی سے مسلم ممالک دراصل اسرائیل کو سپورٹ کر رہے ہیں، ابراہیم معاہدے کی طرف جانے کی کوششوں کی مزاحمت کریں گے۔
اسلام آباد میں ملی یکجہتی کونسل کے زیر اہتمام مجلس قائدین اجلاس اور ’’قومی مشاورت‘‘ سے خطاب کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ اس وقت امت مسلمہ اور ملک کو درپیش حالات میں مضبوط و جاندار موقف اپنانے کی ضرورت ہے، مسئلہ فلسطین قبلہ اول کی آزادی کی جنگ ہے۔
انہوں نے کہا کہ فلسطین میں جو لوگ حق کے راستے میں قربانیاں دے رہے ہیں ان کے لیے آواز اٹھانی چاہیے۔ فلسطین میں روزانہ عورتوں اور بچوں سمیت 100 سے زائد افراد کو شہید کیا جا رہا ہے، بدترین بمباری کی جاری ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔
حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ آج جانوروں کے حقوق کی بات کرنے والے مغربی ممالک کہاں ہیں، دنیا بھر میں باضمیر لوگ فلسطینیوں کے حق میں آواز بلند کر رہے ہیں، ہمیں افسوس ہوتا ہے کہ فلسطین کی صورتحال پر اپنی خاموشی سے مسلم ممالک دراصل اسرائیل کو سپورٹ کر رہے ہیں، ہمیں اپنے حکمرانوں کو جگانے کے لیے بھی آواز بلند کرنی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ غزہ میں حق و باطل کی جنگ لڑی جا رہی ہے، حماس نے جو کیا عالمی قوانین کے مطابق کیا ہے، کسی بھی اعتبار سے حماس کے قدم کو غلط نہیں کہا جا سکتا، ہمیں واضح طور پر حماس کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا، پاکستان کو اپنے ہاں حماس کا دفتر قائم کرنا چاہیے، اسرائیلی لڑ نہیں سکتے اس لیے وہ نہتے بچوں، عورتوں اور عوام کو مار رہے ہیں، ٹرمپ اسرائیل کی ہرممکن مدد کر رہا ہے۔
حافظ نعیم نے کہا کہ پاکستان کی بنیادوں میں فلسطین کاز شامل ہے، قائد اعظم محمد علی جناح نے اسرائیل کو مغرب کا ناجائز بچہ کہا تھا، پاکستان کی پالیسی ہے کہ ہم اسرائیل کو کسی طور پر تسلیم نہیں کریں گے، پاکستان کو فلسطین کے ایک ریاستی حل کا مطالبہ کرنا چاہیے، اگر کوئی ابراہیم معاہدے کی طرف جانے کی کوشش کریں گے تو ہم اس کی مزاحمت کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں فلسطینیوں کی مدد کے لیے ہر ممکن مدد کر نی چاہیے، جب اسرائیل پر ایران کے حملے ہوئے تو ٹرمپ امن کے لیے میدان میں آگیا، جب بھارت نے حملہ کیا تو ٹرمپ چپ تھا لیکن جب پاکستان نے جواب دیا تو وہ امن کے لیے آگیا، کشمیر کے لیے ٹرمپ کی ثالثی کی کیا ضرورت ہے، کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادیں موجود ہیں ان پر عمل کیا جائے، کشمیریوں کے حق خود ارادیت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔
حافظ نعیم نے کہا کہ حکمران اور افواج اپنے حصے کا کام کرتے ہیں تو قوم اس کا ساتھ دیتی ہے، ہمیں ایران کے ساتھ کھڑے ہونے کی ضرورت ہے اور ایران کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔
انہوں نے واضح کیا کہ ہمیں یہ بھی دیکھنا ہے کہ کوئی بھی گروہ یا فرد توہین رسالت کا غلط استعمال نہ کرے، جو لوگ توہین رسالت کا قانون ختم کرنا اور مجرموں کو بچانا چاہتے ہیں ان کے خلاف بھر پور آواز بلند کی جانی چاہیے، توہین رسالت کے قوانین کے حوالے سے ہمیں ہوشیار رہنا ہوگا۔
امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ سود کے خاتمے کے لیے حکومت نے کیا قدم اٹھایا ہے، ملک سے سود کے خاتمے کے لیے ایک مضبوط آواز اٹھانے کی ضرورت ہے۔