اسلام آباد(نیوز ڈیسک) معلوم ہوا ہے کہ آئی ایم ایف اور پاکستان آئندہ مالی سال 2025-26 کے بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کے لیے ٹیکس کی شرح میں مجوزہ کمی پر ایک بڑھتے ہوئے اتفاق رائے کی جانب بڑھ رہے ہیں۔

تاہم، اگلے بجٹ میں 14.2 2 ٹریلین روپے کے ہدف کے حصول کے لیے بجٹ سازوں کے لیے چیلنج ہوگا کیونکہ اگلے مالی سال کے ہدف کی بنیاد غیر مستحکم حالات پر رکھی جائے گی، خاص طور پر جب کہ 12.

33 ٹریلین روپے کے کم کیے گئے ٹیکس وصولی کے ہدف کو پورا کرنے میں ٹیکس کی کمی بڑھ رہی ہے۔

آئی ایم ایف اور ایف بی آر کے درمیان جمعہ کی شب سخت بات چیت ہوئی اور فنڈ کے عملے نے اصولی طور پر تنخواہ دار طبقے کے مختلف سلیبز میں ٹیکس کی شرحوں کو کم کرنے کی وسیع اجازت دے دی۔

آئی ایم ایف نے اندازہ لگایا ہے کہ اس کمی سے آئندہ مالی سال میں 56-60 ارب روپے کا ریلیف ملے گا، لہٰذا ایف بی آر کو اس خلا کو پر کرنے کے لیے انکم ٹیکس میں ٹیکس کے اقدامات تجویز کرنے ہوں گے۔

مذاکراتی ٹیم کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے ہفتے کے روز دی نیوز کو تصدیق کی کہ ہم نے 10 جون کو پیش کیے جانے والے آئندہ بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے آئی ایم ایف کو مطمئن کرنے کے لیے کچھ ٹیکس اقدامات تجویز کیے ہیں۔

اعلیٰ حکام نے بتایا کہ تنخواہ دار طبقے کی تجویز کردہ ٹیکس سلیبز میں کمی کا مکمل تعین ابھی تک نہیں ہوا ہے لیکن ایف بی آر نے پہلے سلیب یعنی سالانہ 6 لاکھ سے 12 لاکھ روپے تک آمدنی والے افراد پر صرف ایک فیصد ٹیکس لگانے کی تجویز دی ہے، جو موجودہ 5 فیصد کی شرح سے کم ہے۔

آئی ایم ایف پہلے سلیب سے 1.5 فیصد ٹیکس کی وصولی پر زور دے رہا ہے، لہٰذا اگر 1.5 فیصد ٹیکس عائد کیا گیا تو افراد کو قومی خزانے میں 9000 روپے ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔ باقی سلیبز کے لیے تنخواہ دار طبقے کی ہر آمدنی کی سلیب میں ڈھائی فیصد کمی کی تجویز ہے، اور زیادہ سے زیادہ سلیب کی شرح کو 35 فیصد سے کم کرکے 32.5 فیصد کیا جائے گا تاہم، ابھی تک آئی ایم ایف اور ایف بی آر کے اعلیٰ حکام کے درمیان مکمل لاگت کا درست حساب کتاب نہیں ہو سکا ہے اور نہ ہی اس پر اتفاق رائے ہوا ہے۔

بغیر ڈاؤن پیمنٹ ای بائیک خریدنے کا سنہری موقع

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: تنخواہ دار طبقے ا ئی ایم ایف ایف بی ا ر ٹیکس کی کی شرح کے لیے

پڑھیں:

تنخواہ دار طبقےکو ریلیف کیلئے بچت سکیموں اور بینک ڈپازٹ پر ٹیکس میں اضافے پر غور

  ویب ڈیسک :عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف )کی رضامندی سے تنخواہ دار اور دیگر شعبوں کو ریلیف فراہم کرنے کی کوشش میں ایف بی آر کمرشل بینکوں اور بچت سکیموں میں رکھے گئے ڈپازٹس پر حاصل ہونے والی سود کی آمدنی پر ٹیکس کی شرح میں 2فیصد اضافے پر غور کر  رہا ہے۔ 

 آئندہ مالی سال 2025-26 کے بجٹ میں فائلرز اور نان فائلرز دونوں کے لیے ٹیکس کی شرح میں اضافے کی تجویز دی گئی ہے۔

کراچی کے مختلف علاقوں میں پھر سے زلزلہ، خوف وہراس  پھیل گیا

 ایک اعلیٰ عہدیدارکے مطابق آئی ایم ایف نے ابھی اس تجویز کی حتمی منظوری نہیں دی ہے ‘ آئی ایم ایف نے تنخواہ دار طبقے اور دیگر شعبوں کو ریلیف فراہم کرنے کی صورت میں پیدا ہونے والے خسارے کو پورا کرنے کے لیے مختلف ٹیکس تجاویز کی تفصیلات طلب کی ہیں، جہاں رسمی شعبوں کا حجم سکڑ رہا ہے، جس کے نتیجے میں آئی ایم ایف پروگرام کے تحت گزشتہ مالی سال 2024-25 کے بجٹ میں عائد کی گئی بھاری شرحوں کے بعد ٹیکس ریونیو کی وصولی میں کمی واقع ہوئی ہے۔

اے ٹی ایم سے رقم نکالنے پر کتنا ٹیکس ہوگا؟ شہریوں کیلئے بری خبر

 ایف بی آر کے سابق ممبر ٹیکس پالیسی ڈاکٹر محمد اقبال کے مطابق اگر اس ٹیکس کی شرح میں اضافہ کیا گیا تو اس سے اُن لوگوں کی زندگی مشکل ہو جائے گی جو بینکوں اور سیونگز اسکیموں میں اپنی جمع شدہ رقم سے حاصل ہونے والی سودی آمدن پر منحصر ہیں‘ اسی طرح، کمرشل بینکوں کو بھی نقصان ہوگا کیونکہ ان کی جمع شدہ رقوم میں کمی آ سکتی ہے۔

 ایک اعلیٰ عہدیدار نےبتایا کہ یہ غیر فعال آمدنی پر ٹیکس کی شرح بڑھانے کے طریقوں میں سے ایک ہے، کیونکہ افراد کے ساتھ ساتھ کمپنیاں بھی کمرشل بینکوں اور بچت اسکیموں میں پیسہ لگاتی ہیں۔ فائلرز کے لیے سود کی آمدنی پر موجودہ ٹیکس کی شرح 15 فیصد تھی، جبکہ نان فائلرز کے لیے یہ بڑھا کر 35 فیصد کر دی گئی تھی۔ 

  باٹا پور : گھریلو جھگڑے پر فائرنگ،ماں بیٹی قتل

 آئندہ بجٹ میں فائلرز اور نان فائلرز دونوں کی غیر فعال آمدنی پر ٹیکس کی شرح میں 2 فیصد اضافہ زیر غور ہے۔ رابطہ کرنے پر، ایف بی آر کے سابق ممبر ٹیکس پالیسی ڈاکٹر محمد اقبال نے کہا کہ سود کی آمدنی پر 15 فیصد کی شرح پہلے ہی کافی زیادہ تھی کیونکہ بینک ڈپازٹس جن پر بینکوں سے آمدنی حاصل ہوتی تھی وہ بھی ایسی آمدنی سے پیدا ہوتی تھی جو کمانے کے وقت پہلے ہی ٹیکس کے تابع تھی۔ 

 مزید برآں، انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ 15 فیصد کی یہ شرح صرف اُن افراد پر لاگو ہوتی ہے جن کی سالانہ سودی آمدن 50 لاکھ روپے تک محدود ہو۔ انہوں نے وضاحت کی کہ اگر سودی آمدن 50 لاکھ روپے سالانہ سے تجاوز کر جائے تو پھر مجموعی آمدن (بشمول سودی آمدن) پر معمول کے مطابق قابل اطلاق ٹیکس شرح لاگو ہوتی ہے، اور پوری آمدن پر وہی عمومی ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے۔ 

ہمارے زمانے میں ترقی کی شرح 7 فیصد کو چھو رہی تھی، نواز شریف

 کمپنیوں کی جانب سے حاصل کی جانے والی سودی آمدن پر بھی کمپنیوں کے معمول کے ٹیکس کی شرح کے تحت ٹیکس عائد ہوتا ہے، جو کہ 29 فیصد کے علاوہ سرچارج اور سپر ٹیکس پر مشتمل ہوتا ہے۔

 اگر اس ٹیکس کی شرح میں اضافہ کیا گیا تو اس سے اُن لوگوں کی زندگی مشکل ہو جائے گی جو بینکوں اور سیونگز اسکیموں میں اپنی جمع شدہ رقم سے حاصل ہونے والی سودی آمدن پر منحصر ہیں۔ وہ پہلے ہی پالیسی ریٹ میں کمی کی وجہ سے بینکوں سے ملنے والے منافع میں کمی کا سامنا کر رہے ہیں۔ اسی طرح، کمرشل بینکوں کو بھی نقصان ہوگا کیونکہ ان کی جمع شدہ رقوم میں کمی آ سکتی ہے۔

پاکستان نے ترکی کا سب سے مطلوب شخص پکڑ کر استبول کے حوالے کردیا

 ان کا کہنا تھا کہ ڈیویڈنڈ پر ٹیکس کی شرح 15 فیصد تھی، تو حکومت ایک اور بگاڑ پیدا کرنے پر کیوں غور کر رہی ہے؟ ۔

متعلقہ مضامین

  • بجٹ میں بچت اسکیموں اور بینک ڈپازٹ پر ٹیکس میں اضافے کی تجویز
  • بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کو مہنگائی کے تناسب سے ریلیف دینے کا فیصلہ
  • تنخواہ دار طبقےکو ریلیف کیلئے بچت سکیموں اور بینک ڈپازٹ پر ٹیکس میں اضافے پر غور
  • اے ٹی ایم سے رقم نکالنے پر کتنا ٹیکس ہوگا؟ شہریوں کیلئے بری خبر
  • بجٹ 2025-26،تنخواہ دار طبقے کو بڑا ریلیف اور سرکاری ملازمین کو خوشخبری ملنے کا امکان، مختلف تجاویز زیر غور
  • بجٹ 2025-26: تنخواہ دار طبقے کو بڑا ریلیف اور سرکاری ملازمین کو خوشخبری ملنے کا امکان
  • آئی ایم ایف سے تنخواہ دار طبقے کیلئے ٹیکس کی شرح میں مجوزہ کمی پر اتفاق رائے کا امکان
  • آئی ایم ایف سے تنخواہ دار طبقے کیلئے ٹیکس کی شرح میں مجوزہ کمی پر اتفاق رائے موقع
  • وفاقی بجٹ: الیکٹرک گاڑیوں کیلئے فنڈنگ کا فیصلہ، پیٹرول، ڈیزل گاڑیوں پر لیوی عائد کیےجانے کا امکان،