ٹرمپ کے تجارتی ٹیرف اور پاکستان کی معیشت پر اثرات
اشاعت کی تاریخ: 2nd, June 2025 GMT
بین الاقوامی معاشی پالیسیوں کا اثر صرف اُن ممالک تک محدود نہیں رہتا جو براہ راست اس پالیسی کا نشانہ بنتے ہیں، بلکہ یہ دنیا بھر کی معیشتوں پر غیر مرئی مگر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے دورِ صدارت میں امریکا نے جو تجارتی پالیسیاں اپنائیں، ان میں سب سے نمایاں پالیسی ’’امریکا فرسٹ‘‘ کا نعرہ اور اس کے تحت تجارتی ٹیرف (Tariffs) کا نفاذ تھا۔ ان ٹیرف کا بنیادی مقصد چینی مصنوعات کی حوصلہ شکنی اور امریکی مقامی صنعت کا تحفظ تھا، لیکن اس پالیسی نے عالمی تجارتی توازن کو متاثر کیا اور اس کا دائرہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک تک پھیل گیا۔
ٹرمپ انتظامیہ نے چین، یورپی یونین، میکسیکو اور کینیڈا جیسے بڑے تجارتی شراکت داروں پر اربوں ڈالر مالیت کے ٹیرف عائد کیے۔ گوکہ پاکستان براہ راست ان پابندیوں کا ہدف نہیں تھا، مگر عالمی سطح پر پیدا ہونے والا عدم توازن پاکستان کی معیشت پر کئی زاویوں سے اثر انداز ہوا۔
پاکستان کی معیشت کا انحصار بڑی حد تک برآمدات پر ہے، جن میں ٹیکسٹائل، سرجیکل آلات، چمڑا، اور کھیلوں کا سامان شامل ہیں۔ امریکی ٹیرف نے چین جیسے بڑے برآمد کنندگان کو محدود کیا تو امریکا نے متبادل منڈیوں کی تلاش شروع کی، جس میں پاکستان کو ایک موقع مل سکتا تھا۔ تاہم، پاکستانی صنعت ان مواقع سے مکمل فائدہ نہ اٹھا سکی۔ بنیادی وجوہات میں غیر معیاری پیداوار، برانڈنگ کی کمی، اور برآمدات کےلیے درکار عالمی سرٹیفکیشنز کا فقدان شامل ہیں۔ توانائی کے بحران اور مہنگی لاگت نے بھی پاکستانی برآمدکنندگان کو عالمی دوڑ میں پیچھے چھوڑ دیا۔
ٹرمپ کے ٹیرف نے نہ صرف تیار شدہ مصنوعات کی تجارت کو متاثر کیا بلکہ عالمی سطح پر خام مال، خصوصاً کیمیکلز، دھاتوں اور صنعتی مشینری کے نرخوں میں بھی اتار چڑھاؤ پیدا کیا۔ چونکہ پاکستان کئی اشیاء کے لیے درآمدی خام مال پر انحصار کرتا ہے، اس لیے ان قیمتوں میں اضافے نے پیداواری لاگت میں اضافہ کیا۔ پاکستان بیورو آف اسٹیٹسٹکس کے مطابق 2023 میں صنعتی خام مال کی درآمدی لاگت میں 17 فیصد تک اضافہ ہوا، جس کا براہِ راست اثر مقامی صنعتوں پر پڑا۔
امریکی ٹیرف کی پالیسیوں کے نتیجے میں چین اور دیگر متاثرہ ممالک کی معاشی سست روی نے عالمی سرمایہ کاری کا رجحان بدل دیا۔ جب امریکا میں افراطِ زر میں اضافہ ہوا، تو فیڈرل ریزرو نے شرحِ سود بڑھا دی، جس کے باعث دنیا بھر سے سرمایہ امریکا کی طرف منتقل ہونے لگا۔ پاکستان جیسی ابھرتی ہوئی معیشتوں سے سرمایہ نکلنے لگا، اور روپے کی قدر دباؤ میں آگئی۔ اس سے نہ صرف مہنگائی میں اضافہ ہوا بلکہ درآمدی اشیاء کی لاگت بھی بڑھی۔
ٹرمپ کی تجارتی جنگ سے عالمی مارکیٹ میں جو خلل پیدا ہوا، اس نے پاکستان میں چھوٹی اور درمیانی صنعتوں (SMEs) کو شدید متاثر کیا۔ ایک طرف برآمدات کی قیمتیں عالمی مقابلے کی دوڑ میں پیچھے رہیں، دوسری طرف خام مال مہنگا ہونے سے منافع کم ہوا۔ ایسے میں متعدد صنعتیں یا تو بند ہوگئیں یا محدود دائرہ کار میں کام کرنے پر مجبور ہوگئیں۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ بحران کے پہلو میں مواقع بھی پوشیدہ ہوتے ہیں۔ ٹرمپ ٹیرف کے بعد امریکا اور دیگر مغربی ممالک متبادل سپلائرز کی تلاش میں تھے۔ اگر پاکستان اس موقع سے فائدہ اٹھاتا، تو ٹیکسٹائل اور انجینئرنگ کے شعبوں میں اپنی جگہ بنا سکتا تھا۔ لیکن اس کے لیے ضروری تھا کہ حکومت اور نجی شعبہ مل کر برآمدات کے معیار، برانڈنگ، اور سرٹیفکیشن کے نظام کو بہتر بناتے۔ GSP+ جیسے تجارتی معاہدوں پر عمل درآمد کو وسعت دینا بھی نہایت ضروری ہے۔
آگے بڑھنے کےلیے پاکستان کو چاہیے کہ وہ تجارتی سفارت کاری کو مؤثر بنائے، علاقائی منڈیوں مثلاً افریقہ، وسطی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ کو ہدف بنائے، اور مقامی صنعت کو جدید ٹیکنالوجی سے لیس کرے۔ اس کے ساتھ ساتھ مالیاتی پالیسیاں ایسی ہوں جو برآمد کنندگان کے لیے معاون ثابت ہوں، نہ کہ رکاوٹ۔
ٹرمپ کے تجارتی ٹیرف بظاہر صرف بڑی عالمی طاقتوں کی معاشی جنگ کا حصہ تھے، لیکن ان کی بازگشت پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں بھی سنائی دی۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ ایسی عالمی پالیسیوں کے اثرات سے خود کو محفوظ رکھنے کےلیے طویل مدتی تجارتی اور صنعتی پالیسیوں کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرے۔ بصورت دیگر، ہر عالمی جھٹکا ہماری ناتواں معیشت کو مزید زک پہنچاتا رہے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کی معیشت ٹرمپ کے خام مال
پڑھیں:
عمران خان کے بیٹوں کی امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خصوصی ایلچی رچرڈ گرینل سے ملاقات
واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔23 جولائی ۔2025 )پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان کے بیٹوں نے امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خصوصی ایلچی رچرڈ گرینل سے ملاقات کی، جس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنے والد کی رہائی کے لیے مہم کا آغاز کیا عمران خان کے بیٹے سلیمان خان اور قاسم خان نے مئی میں پہلی بار عوامی سطح پر اپنے والد کی قید پر توجہ دلائی تھی، عمران خان اگست 2023 سے اڈیالہ جیل میں قید ہیں، جہاں وہ 190 ملین پاﺅنڈ کرپشن کیس میں سزا کاٹ رہے ہیں، جب کہ ان پر 9 مئی 2023 کے احتجاج سے متعلق انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت دیگر مقدمات بھی زیر سماعت ہیں.(جاری ہے)
رچرڈ گرینل امریکی صدر کے خصوصی ایلچی برائے خصوصی مشن ہیں انہوں نے ”ایکس“ پر پوسٹ کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے سلیمان اور قاسم سے ریاست کیلیفورنیا میں ملاقات کی اور انہیں حوصلہ بلند رکھنے کا مشورہ دیا انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں لاکھوں لوگ سیاسی انتقام پر مبنی مقدمات سے تنگ آ چکے ہیں آپ اکیلے نہیں ہیں عمران خان کے بیٹوں نے پاکستانی نژاد امریکی معالج ڈاکٹر آصف محمود سے بھی ملاقات کی، جو امریکا میں پی ٹی آئی کی حمایت حاصل کرنے کی مہم میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں. ڈاکٹر آصف محمود امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی (یو ایس سی آئی آر ایف) کے نائب چیئرمین ہیں، انہوں نے ایک تصویر شیئر کی جس میں وہ عمران خان کے بیٹوں اور رچرڈ گرینل کے ساتھ موجود ہیں انہوں نے کہا کہ عمران خان کے بیٹوں قاسم اور سلیمان خان پر بے حد فخر ہے، جو اپنے والد، سابق وزیراعظم عمران خان کی رہائی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں انہوں نے گرینل کو انصاف اور اصولوں کا ساتھ دینے پر سراہا اور عمران خان کی رہائی کے لیے اتحاد پر زور دیا. اس ماہ کے آغاز میں عمران خان کی بہن علیمہ خان نے کہا تھا کہ عمران خان کے دونوں بیٹے پہلے امریکا جائیں گے تاکہ اپنے والد کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کو اجاگر کر سکیں اس کے بعد وہ پاکستان آ کر اس تحریک کا حصہ بنیں گے جو سابق وزیراعظم کی رہائی کے لیے چلائی جا رہی ہے. اگرچہ حکومت کی جانب سے اس معاملے پر کوئی باضابطہ بیان سامنے نہیں آیا لیکن وزیر مملکت برائے قانون و انصاف بیرسٹر عقیل ملک نے بتایا کہ آئین کے آرٹیکل 16 کے تحت اجتماع کا حق صرف پاکستانی شہریوں کو حاصل ہے اور غیر ملکیوں کو پاکستان میں جلسہ یا اجتماع کرنے کی اجازت نہیں انہوں نے کہا کہ دونوں بھائی چوں کہ برطانوی شہری ہیں، اس لیے وہ مقامی سیاسی سرگرمیوں میں قانونی طور پر حصہ نہیں لے سکتے اور اگر وہ ویزا شرائط کی خلاف ورزی کرتے ہیں تو ان کا ویزا منسوخ کیا جا سکتا ہے. حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے راہنماﺅں کی جانب سے بھی اس معاملے پر متضاد بیانات سامنے آئے ہیں سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ دونوں بھائیوں کو قانون کی حدود کے اندر رہ کر پاکستان آنے اور اپنی سرگرمیاں انجام دینے کی اجازت ہونی چاہیے.