اسرائیل امداد کی آڑ میں فلسطینیوں کی منظم نسل کشی کر رہا ہے، ضیاالدین انصاری
اشاعت کی تاریخ: 2nd, June 2025 GMT
امیر جماعت اسلامی لاہور کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے امدادی ٹرکوں کی آمد پر سخت پابندیاں عائد ہیں، امداد کو بطور ہتھیار استعمال کرنا بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی، انسانیت کی تذلیل اور عالمی جرم ہے۔ اسلام ٹائمز۔ امیر جماعت اسلامی لاہور ضیاءالدین انصاری ایڈووکیٹ نے کہا ہے کہ اسرائیل امداد کی آڑ میں فلسطینیوں کی منظم نسل کشی کر رہا ہے۔ امداد کو انسانوں کی مدد کے بجائے ظلم کا ہتھیار بنا دیا گیا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے منصورہ لاہور میں فرینڈز آف فلسطین کے سربراہ بلال اصطال سے ملاقات میں گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ غزہ قحط کا شکار ہو چکا، سات لاکھ افراد بھوکے اور پیاسے مدد کے منتظر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے امدادی ٹرکوں کی آمد پر سخت پابندیاں عائد ہیں، امداد کو بطور ہتھیار استعمال کرنا بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی، انسانیت کی تذلیل اور عالمی جرم ہے۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ کی مشترکہ امدادی پالیسی نہ صرف ناکام ہے بلکہ اسے فلسطینی عوام کی جبری بے دخلی اور نسل کشی کے ایک منظم منصوبے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے، جس کی پوری دنیا مذمت کر رہی ہے، پوری پاکستانی قوم فلسطین غزہ کے مسلمانوں کیساتھ کھڑی ہے۔ ملاقات میں سرائیلی بربریت کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی اور مظلوم فلسطینیوں امداد کیلئے فنڈ ریزنگ مہم کو مزید تیز کرنے کا عزم کیا گیا۔ اس موقع پر ڈپٹی سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی لاہور قیصر شریف، معتمد خاص امیر جماعت اسلامی پاکستان سمیع الحق شیرپاؤ اور دیگر بھی موجود تھے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: جماعت اسلامی انہوں نے نے کہا
پڑھیں:
بیروت اور دمشق سے ابراہیم معاہدہ ممکن نہیں، اسرائیلی اخبار معاریو
اپنے ایک کالم میں اسرائیلی تجزیہ کار کا کہنا تھا کہ مشرق وسطیٰ میں یکطرفہ شرائط پر امن قائم نہیں ہو سکتا۔ اسلام ٹائمز۔ اسرائیلی فوج کے ریٹائرڈ کرنل اور مشرق وسطیٰ امور کے ماہر "موشے ایلاد" نے "معاریو" اخبار میں لکھا کہ مشرق وسطیٰ میں یکطرفہ شرائط پر امن قائم نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے کہا کہ 2020ء میں اسرائیل اور کچھ عرب ممالک کے درمیان ہونے والا "ابراہیم معاہدہ شام اور لبنان تک بڑھایا نہیں جا سکے گا۔ تاہم موشے ایلاد نے اس معاہدے کو اسرائیل اور عرب ممالک کے تعلقات میں تاریخی قدم اور معیاری تبدیلی قرار دیا۔ اس سلسلے میں انہوں نے کہا کہ یہ معاہدے نہ صرف سفارتی تعلقات کی نوید دیتے ہیں بلکہ ٹیکنالوجی، معیشت، سیاحت، سیکورٹی اور زراعت کے شعبوں میں بھی معمول کے تعلقات کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ انہوں نے یہ سوال ابھارا کہ کیا ابراہیم معاہدہ واقعی دونوں فریقوں کے لیے فائدہ مند ہیں یا اسرائیل کو ہمیشہ ممکنہ خطرات کا سامنا رہے گا؟۔ اس سوال کو مدنظر رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مذکورہ سوال کا جواب اس معاہدے کی کامیابی کی تفصیلات میں پوشیدہ ہے۔ انہوں نے وضاحت کے ساتھ کہا کہ ابراہیم اکارڈ کا حصہ بننے والے ممالک کے ساتھ اسرائیل کے یہ معاہدے ایک نئی سیاسی صورتحال کا نتیجہ ہیں، وہ ممالک جو اقتصادی ترقی کے بارے میں سوچتے ہیں اور اپنے مفادات کو ایک مختلف نقطہ نظر سے دیکھنے کے لیے تیار ہیں۔ البتہ شام اور لبنان میں ایسی صورتحال ممکن نہیں۔
اس ریٹائرڈ کرنل نے دعویٰ کیا کہ ابراہیم معاہدہ سفارتی تعلقات سے آگے بڑھ کر دہشت گردی اور ایران جیسے مشترکہ خطرات سے نمٹنے کے بارے میں ہے جن سے اسرائیل فرنٹ لائن پر نبرد آزما ہے۔ اس کے باوجود انہیں شک ہے کہ خطے کے تمام ممالک قیام امن کے لیے حقیقی تعاون کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے گہرے شک کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیا واقعی یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ ابراہیم معاہدہ شام اور لبنان جیسے ممالک تک پھیلایا جا سکے گا؟۔ جس کی مستقبل میں کوئی خاص امید نہیں۔ دونوں ممالک کی اسرائیل کے ساتھ دشمنی کی ایک طویل تاریخ ہے اور اندرونی سیاسی مخالفت بھی امن کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہو گی۔ آخر میں اس اسرائیلی تجزیہ کار نے کہا کہ اگر ہم صحیح معنوں میں شام اور لبنان کے ساتھ امن کے خواہاں ہیں تو ہمیں نہ صرف سلامتی کے میدان میں بلکہ اقتصادی و ثقافتی میدانوں میں بھی ٹھوس کامیابیوں کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ اس راستے میں صبر اور موجودہ عمل میں بڑی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ سب سے بڑھ کر ان دو ممالک میں عوامی شعور کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ، ابراہیم معاہدے کی کامیابیاں بے حسی اور منفی رویے کی دیوار سے ٹکرا سکتی ہیں۔