ایک بوسیدہ گڑیا، جس نے فلسطینی بچی کی جان بچائی
اشاعت کی تاریخ: 2nd, June 2025 GMT
اسلام ٹائمز: بوڑھا فلسطینی اپنی بیٹی کی تصویر کو دیکھتا ہے اور پھر خاموشی سے کہتا ہے تاکہ جنین اسے سن نہ پائے کہ میں تھک گیا ہوں… ہر روز وہ میرے لیے بازو یا ٹانگ کا ایک ٹکڑا لاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تمہارے گھر والوں کا ہے، اسے دفن کر دو! مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ ان اعضاء کو کیسے دفن کیا جائے، مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ جسم کا کون سا حصہ ہے اور ہم کس وقت کونسا حصہ کہاں دفن کریں۔ میرا خاندان اسی گھر میں رہا ہے، میں انہیں وہیں دفن کرتا ہوں۔ بوڑھے فلسطینی نے اپنے دل کے 27 ٹکڑے ایک اجتماعی قبر میں دفن کیے ہیں، ہرگز نہیں! اس سے زیادہ صحیح تعبیر یہ ہے کہ اس نے اپنے آپ کو 27 مرتبہ قبر میں دفن کیا ہے۔ خصوصی رپورٹ
جنین کو کھردرے اور نوکیلے پتھروں اور سیمنٹ کے درمیان سے نکالا گیا۔ وہ اپنے ننھے بھالو کو اپنی بانہوں میں لیے سو رہی تھی، اور پرانی اور خاک آلود گڑیا قریقع خاندان کے گھر میں ننھے فرشتے کی نجات دہندہ بن گئی۔ "میں تھک گیا ہوں ۔ ۔ ۔ ہر روز وہ میرے پاس ہاتھ یا پاؤں کا ایک ٹکڑا لاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تمہارے خاندان کا ہے، اسے دفن کر دو!" یہ الفاظ اس بوڑھے فلسطینی کے ہیں، جس کا پورا کنبہ ٹکڑوں میں بٹ چکا ہے اور کئی ٹکڑے ملبے کے نیچے بھکرے پڑے ہیں، وہ ٹکڑے جو ہر روز ان کے گھر کے کسی ایک کونے سے ملتے ہیں اور اس کے پاس لائے جاتے ہیں۔ اس کے 27 پیاروں کو ایک اسرائیلی میزائل نے ان سے چھین لیا تھا، اور اس اجتماعی قتل میں صرف ایک شخص زندہ بچا تھا: جنین، اس کی پانچ سالہ پوتی!
اگرچہ دھماکے کو کافی عرصہ گزر چکا ہے، لیکن جب بھی محلے والے یا امدادی کارکن بوڑھے فلسطینی کے پاس کوئی ناشناختہ لاش لاتے ہیں تو اس کے لیے ایسا ہی کوئی نوحہ دہرایا جاتا ہے: یہ میری بیٹی کا ہاتھ ہے، میں نے اسے شہادت کی انگلی کے ساتھ والے تل سے پہچانا، یہ انگلیاں میرے چچا کی ہیں، وہ ہمیشہ مہندی لگاتا تھا، یہ فلاں ہو سکتا ہے۔۔۔ بچ جانیوالی جنین بول نہیں سکتی۔ دھماکوں نے نہ صرف اس کے خاندان کو بلکہ اس کی ٹانگوں اور زبان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ لیکن بوڑھے فلسطینی کو وہ دن اچھی طرح یاد ہے، وہ اسے کیسے بھول سکتا ہے؟! خاص طور پر اب جب لوگ اس کے خاندان کے کٹے اور جلے ہوئے ہاتھ پاوں لیکر آتے ہیں۔
آدھی رات کا وقت تھا اور وہ اپنی بیٹیوں کے ساتھ گھر میں بیٹھے تھے۔ ایک زوردار دھماکے سے ان کے گھر لرز اٹھے۔ آگ اور اینٹوں کے ٹکڑے منہدم ہونے والی عمارت سے اڑ کر کھڑکیوں سے اندر آگئے۔ یہ کیسا دھماکہ تھا؟! گھر کے لوگ خوف سے کانپ رہے تھے، حالانکہ انہیں معلوم تھا کہ میزائل کہیں اور جا لگا ہے اور ان کے گھر کے قریب نہیں گرا۔ لیکن گھر کے زوردار لرزنے اور دھماکے کی آواز انسان کے دل دہلانے کے لیے کافی تھی۔ بوڑھا فلسطینی گھر سے باہر نکلا۔ دھماکے کی آواز ابھی تک اس کے کانوں میں گونج رہی تھی۔ گھر کے سامنے پڑوسیوں کا ہجوم تھا، حیران و پریشان، اٹھتی دھول اور خوف سے بھرے چہروں کے ساتھ: ’’اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ کوئی اس دھماکے سے بے ضرر نکلے ۔ ۔ ۔ خدا رحم کرے۔ ۔ ۔
انہیں کیا ہوگیا ہے؟ وہ پکار رہا تھا۔ کھنڈرات سے دھواں اٹھ رہا تھا۔ چیزیں جلنے کی بدبو اور اڑتی مٹی کی تہہ اتنی سخت تھی کہ اس سے گلا جل رہا تھا۔ لوگ تیزی سے آگے بڑھے۔ یہ ہمیشہ ایسا ہی ہوتا تھا، جب بھی کسی گھر کو نشانہ بنایا جاتا، مقامی لوگ آگ اور ملبے کی طرف دوڑتے کہ شاید وہ کسی کو زندہ نکال سکیں۔ بوڑھے فلسطینی نے خاک سے گھر پہچانا، یہ اس کے چچا کا گھر تھا۔ وہی گھر جہاں اس کی بیٹی، اس کی پوتی جنین اور اس کے خاندان کے 25 دیگر افراد رہتے تھے۔ مقامی لوگ گھر کے ہر کونے میں دیکھ رہے تھے، لیکن وہ خود سیدھا اس کمرے میں گیا جہاں اسے یقین تھا کہ اس کی بیٹی وہاں ہوگی۔
جنین کا سر ملبے سے چپکا ہوا تھا، اس کا چہرہ سیاہ ہو چکا تھا لیکن ہونٹ ہل رہے تھے۔ اس کے بے جان الفاظ ناقابل فہم تھے، لیکن شاید چھوٹی بچی اپنی ماں کو پکار رہی تھی۔ بوڑھے فلسطینی نے لوہے اور سیمنٹ کے ان بڑے ٹکڑوں کو ایک طرف دھکیلنے کے لیے اپنی پوری طاقت جمع کی۔ چند قدم کے فاصلے پر ان کی بیٹی کا ہاتھ ملبے سے چپکا نظر آ رہا تھا۔ ایک ٹھنڈا، بے جان ہاتھ، جس کی نبض نہیں چل رہی تھی۔ شاید یہ ہاتھ آخری بار جنین کی ماں بن کر اسے گلے لگانا چاہتا تھا۔ بوڑھا فلسطینی زندگی اور موت کی کشمکش میں تھا۔ وہ ملبے کے چند ٹکڑے اٹھاتا اور پھر وہ جامد ہاتھ اس کو اپنی طرف کھینچتا۔ وہ اسے پکڑتا، اپنے سینے سے لگاتا، اپنے لیے آہ و بکا کرتا اور پھر جنین کی طرف لوٹ جاتا۔
اس کی آنکھیں غم سے بھر جاتی ہیں، جب وہ کیمرے میں دیکھتا ہے اور کہتا ہے کہ میں اپنی بیٹی کو ملبے سے نکالنا چاہتا ہوں، لیکن غزہ میں زندہ رہنے سے مر جانا بہتر ہے! آخر کار جنین کو کھردرے، نوکیلے پتھروں اور سیمنٹ کے درمیان سے نکالا گیا۔ وہ سوتے وقت اپنا بھالو لیے بیٹھی تھی۔ ایک بوسیدہ اور خاک آلود گڑیا قریقع خاندان کے گھر میں ننھے فرشتے کی نجات دہندہ بن گئی تھی۔ جنین کا بہت زیادہ خون بہہ رہا تھا، اور اس کی کھوپڑی کے کئی حصے پھٹے ہوئے تھے۔ اس کی ٹانگ کا فوری آپریشن کرنا پڑا اور اس میں پلاٹینم ڈالا گیا۔ جنین بچ گی، لیکن اب، اس کی عمر کے بچوں کے برعکس، اس کی ٹانگیں سلامت نہیں رہیں، وہ چل نہیں سکتی اور نہ ہی وہ بول سکتی ہے۔
جنین پلاسٹک کے ایک چھوٹے سے چھپر میں چٹائی پر لیٹی ہوئی ہے اور اپنی گڑیا سے کھیل رہی ہے۔ گڑیا جو ایک اور بمباری میں اس کی نجات دہندہ بننے والی ہے۔ بوڑھا فلسطینی اپنی بیٹی کی تصویر کو دیکھتا ہے اور پھر خاموشی سے کہتا ہے تاکہ جنین اسے سن نہ پائے کہ میں تھک گیا ہوں… ہر روز وہ میرے لیے بازو یا ٹانگ کا ایک ٹکڑا لاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تمہارے گھر والوں کا ہے، اسے دفن کر دو! مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ ان اعضاء کو کیسے دفن کیا جائے، مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ جسم کا کون سا حصہ ہے اور ہم کس وقت کونسا حصہ کہاں دفن کریں۔ میرا خاندان اسی گھر میں رہا ہے، میں انہیں وہیں دفن کرتا ہوں۔ بوڑھے فلسطینی نے اپنے دل کے 27 ٹکڑے ایک اجتماعی قبر میں دفن کیے ہیں، ہرگز نہیں! اس سے زیادہ صحیح تعبیر یہ ہے کہ اس نے اپنے آپ کو 27 مرتبہ قبر میں دفن کیا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: خاندان کے اپنی بیٹی ان کے گھر لاتے ہیں دفن کیا رہی تھی نے اپنے گھر میں رہا تھا ہیں اور اور پھر اور اس گھر کے ہے اور ہیں کہ
پڑھیں:
خوراک کے متلاشی باپ سمیت درجنوں فلسطینی شہید
(غزہ میں اسرائیلی درندگی )
6 بچیوں کی بھوک کیلیے امدادی کیمپ جانے والے حسام وافی پر یہودی فوج نے فائرنگ کردی
بے گھر درجنوں نہتے افراد کو اس وقت نشانہ بنایا گیا ،جب وہ امریکی امداد کے منتظر تھے ،حکام
جنوبی غزہ کے ناصر اسپتال میں ماتم کا سماں تھا جب درجنوں افراد ایک باپ، حسام وافی، کی لاش پر بین کرتے نظر آئے، جو اپنے بچوں کے لیے خوراک لینے گیا تھا لیکن اسرائیلی فائرنگ کا نشانہ بن گیا۔میڈیارپورٹس کے مطابق چھ بچیوں کے باپ حسام وافی کو اس وقت شہید کیا گیا جب وہ اپنے بھائی اور بھتیجے کے ہمراہ جنوبی شہر رفح میں ایک امدادی مرکز سے آٹا لینے گیا۔ فلسطینی سول ڈیفنس ایجنسی کے مطابق، اس واقعے میں 31 افراد جاں بحق ہوئے۔حسام کی والدہ نہلہ وافی نے روتے ہوئے کہاکہ وہ اپنی بیٹیوں کے لیے روٹی لینے گیا تھا، لاش بن کر واپس آیا۔ناصر اسپتال کے صحن میں حسام کی بیوہ اور ننھی بیٹیوں کو دلاسہ دینے کی کوشش کی جا رہی تھی، جن کا مستقبل اب یتمی اور بھوک کے سائے میں ہے۔فلسطینی حکام نے الزام عائد کیا ہے کہ امداد لینے والے نہتے شہریوں پر اسرائیل کی طرف سے ڈرون حملہ کیا گیا، جو انسانی حقوق کے عالمی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے۔جنوبی غزہ کے علاقے رفح میں امریکی امداد کے منتظر بیگھر افراد پر اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے 24 فلسطینی شہید جبکہ بیشتر زخمی ہوگئے۔عرب میڈیا کے مطابق غزہ میں شہری دفاع کے حکام نے بتایا کہ منگل کی صبح جنوبی غزہ کے علاقے رفح میں فائرنگ کے واقعات میں 24 بے گھر فلسطینی شہید ہوگئے۔غزہ میں وزارتِ صحت نے بتایا کہ فائرنگ کے ان واقعات میں درجنوں افراد زخمی بھی ہوئے۔اسرائیل فوج کی جانب سے امداد لینے والے فسطینیوں پر فائرنگ کی تصدیق کی گئی ہے، اسرائیلی حکام کے مطابق انہوں ان فوجیوں کی شناخت کرلی جو ان واقعات میں ملوث ہیں۔