Islam Times:
2025-09-18@22:23:15 GMT

ایک بوسیدہ گڑیا، جس نے فلسطینی بچی کی جان بچائی

اشاعت کی تاریخ: 2nd, June 2025 GMT

ایک بوسیدہ گڑیا، جس نے فلسطینی بچی کی جان بچائی

اسلام ٹائمز: بوڑھا فلسطینی اپنی بیٹی کی تصویر کو دیکھتا ہے اور پھر خاموشی سے کہتا ہے تاکہ جنین اسے سن نہ پائے کہ میں تھک گیا ہوں… ہر روز وہ میرے لیے بازو یا ٹانگ کا ایک ٹکڑا لاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تمہارے گھر والوں کا ہے، اسے دفن کر دو! مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ ان اعضاء کو کیسے دفن کیا جائے، مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ جسم کا کون سا حصہ ہے اور ہم کس وقت کونسا حصہ کہاں دفن کریں۔ میرا خاندان اسی گھر میں رہا ہے، میں انہیں وہیں دفن کرتا ہوں۔ بوڑھے فلسطینی نے اپنے دل کے 27 ٹکڑے ایک اجتماعی قبر میں دفن کیے ہیں، ہرگز نہیں! اس سے زیادہ صحیح تعبیر یہ ہے کہ اس نے اپنے آپ کو 27 مرتبہ قبر میں دفن کیا ہے۔ خصوصی رپورٹ

جنین کو کھردرے اور نوکیلے پتھروں اور سیمنٹ کے درمیان سے نکالا گیا۔ وہ اپنے ننھے بھالو کو اپنی بانہوں میں لیے سو رہی تھی، اور پرانی اور خاک آلود گڑیا قریقع خاندان کے گھر میں ننھے فرشتے کی نجات دہندہ بن گئی۔ "میں تھک گیا ہوں ۔ ۔ ۔ ہر روز وہ میرے پاس ہاتھ یا پاؤں کا ایک ٹکڑا لاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تمہارے خاندان کا ہے، اسے دفن کر دو!" یہ الفاظ اس بوڑھے فلسطینی کے ہیں، جس کا پورا کنبہ ٹکڑوں میں بٹ چکا ہے اور کئی ٹکڑے ملبے کے نیچے بھکرے پڑے ہیں، وہ ٹکڑے جو ہر روز ان کے گھر کے کسی ایک کونے سے ملتے ہیں اور اس کے پاس لائے جاتے ہیں۔ اس کے 27 پیاروں کو ایک اسرائیلی میزائل نے ان سے چھین لیا تھا، اور اس اجتماعی قتل میں صرف ایک شخص زندہ بچا تھا: جنین، اس کی پانچ سالہ پوتی!

اگرچہ دھماکے کو کافی عرصہ گزر چکا ہے، لیکن جب بھی محلے والے یا امدادی کارکن بوڑھے فلسطینی کے پاس کوئی ناشناختہ لاش لاتے ہیں تو اس کے لیے ایسا ہی کوئی نوحہ دہرایا جاتا ہے: یہ میری بیٹی کا ہاتھ ہے، میں نے اسے شہادت کی انگلی کے ساتھ والے تل سے پہچانا، یہ انگلیاں میرے چچا کی ہیں، وہ ہمیشہ مہندی لگاتا تھا، یہ فلاں ہو سکتا ہے۔۔۔ بچ جانیوالی جنین بول نہیں سکتی۔ دھماکوں نے نہ صرف اس کے خاندان کو بلکہ اس کی ٹانگوں اور زبان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ لیکن بوڑھے فلسطینی کو وہ دن اچھی طرح یاد ہے، وہ اسے کیسے بھول سکتا ہے؟! خاص طور پر اب جب لوگ اس کے خاندان کے کٹے اور جلے ہوئے ہاتھ پاوں لیکر آتے ہیں۔

آدھی رات کا وقت تھا اور وہ اپنی بیٹیوں کے ساتھ گھر میں بیٹھے تھے۔ ایک زوردار دھماکے سے ان کے گھر لرز اٹھے۔ آگ اور اینٹوں کے ٹکڑے منہدم ہونے والی عمارت سے اڑ کر کھڑکیوں سے اندر آگئے۔ یہ کیسا دھماکہ تھا؟! گھر کے لوگ خوف سے کانپ رہے تھے، حالانکہ انہیں معلوم تھا کہ میزائل کہیں اور جا لگا ہے اور ان کے گھر کے قریب نہیں گرا۔ لیکن گھر کے زوردار لرزنے اور دھماکے کی آواز انسان کے دل دہلانے کے لیے کافی تھی۔ بوڑھا فلسطینی گھر سے باہر نکلا۔ دھماکے کی آواز ابھی تک اس کے کانوں میں گونج رہی تھی۔ گھر کے سامنے پڑوسیوں کا ہجوم  تھا، حیران و پریشان، اٹھتی دھول اور خوف سے بھرے چہروں کے ساتھ: ’’اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ کوئی اس دھماکے سے بے ضرر نکلے ۔ ۔ ۔ خدا رحم کرے۔ ۔ ۔

انہیں کیا ہوگیا ہے؟ وہ پکار رہا تھا۔ کھنڈرات سے دھواں اٹھ رہا تھا۔ چیزیں جلنے کی بدبو اور اڑتی مٹی کی تہہ اتنی سخت تھی کہ اس سے گلا جل رہا تھا۔ لوگ تیزی سے آگے بڑھے۔ یہ ہمیشہ ایسا ہی ہوتا تھا، جب بھی کسی گھر کو نشانہ بنایا جاتا، مقامی لوگ آگ اور ملبے کی طرف دوڑتے کہ شاید وہ کسی کو زندہ نکال سکیں۔ بوڑھے فلسطینی نے خاک سے گھر پہچانا، یہ اس کے چچا کا گھر تھا۔ وہی گھر جہاں اس کی بیٹی، اس کی پوتی جنین اور اس کے خاندان کے 25 دیگر افراد رہتے تھے۔ مقامی لوگ گھر کے ہر کونے میں دیکھ رہے تھے، لیکن وہ خود سیدھا اس کمرے میں گیا جہاں اسے یقین تھا کہ اس کی بیٹی وہاں ہوگی۔

جنین کا سر ملبے سے چپکا ہوا تھا، اس کا چہرہ سیاہ ہو چکا تھا لیکن ہونٹ ہل رہے تھے۔ اس کے بے جان الفاظ ناقابل فہم تھے، لیکن شاید چھوٹی بچی اپنی ماں کو پکار رہی تھی۔ بوڑھے فلسطینی نے لوہے اور سیمنٹ کے ان بڑے ٹکڑوں کو ایک طرف دھکیلنے کے لیے اپنی پوری طاقت جمع کی۔ چند قدم کے فاصلے پر ان کی بیٹی کا ہاتھ ملبے سے چپکا نظر آ رہا تھا۔ ایک ٹھنڈا، بے جان ہاتھ، جس کی نبض نہیں چل رہی تھی۔ شاید یہ ہاتھ آخری بار جنین کی ماں بن کر اسے گلے لگانا چاہتا تھا۔ بوڑھا فلسطینی زندگی اور موت کی کشمکش میں تھا۔ وہ ملبے کے چند ٹکڑے اٹھاتا اور پھر وہ جامد ہاتھ اس کو اپنی طرف کھینچتا۔ وہ اسے پکڑتا، اپنے سینے سے لگاتا، اپنے لیے آہ و بکا کرتا اور پھر جنین کی طرف لوٹ جاتا۔

اس کی آنکھیں غم سے بھر جاتی ہیں، جب وہ کیمرے میں دیکھتا ہے اور کہتا ہے کہ میں اپنی بیٹی کو ملبے سے نکالنا چاہتا ہوں، لیکن غزہ میں زندہ رہنے سے مر جانا بہتر ہے! آخر کار جنین کو کھردرے، نوکیلے پتھروں اور سیمنٹ کے درمیان سے نکالا گیا۔ وہ سوتے وقت اپنا بھالو لیے بیٹھی تھی۔ ایک بوسیدہ اور خاک آلود گڑیا قریقع خاندان کے گھر میں ننھے فرشتے کی نجات دہندہ بن گئی تھی۔ جنین کا بہت زیادہ خون بہہ رہا تھا، اور اس کی کھوپڑی کے کئی حصے پھٹے ہوئے تھے۔ اس کی ٹانگ کا فوری آپریشن کرنا پڑا اور اس میں پلاٹینم ڈالا گیا۔ جنین بچ گی، لیکن اب، اس کی عمر کے بچوں کے برعکس، اس کی ٹانگیں سلامت نہیں رہیں، وہ چل نہیں سکتی اور نہ ہی وہ بول سکتی ہے۔

جنین پلاسٹک کے ایک چھوٹے سے چھپر میں چٹائی پر لیٹی ہوئی ہے اور اپنی گڑیا سے کھیل رہی ہے۔ گڑیا جو ایک اور بمباری میں اس کی نجات دہندہ بننے والی ہے۔ بوڑھا فلسطینی اپنی بیٹی کی تصویر کو دیکھتا ہے اور پھر خاموشی سے کہتا ہے تاکہ جنین اسے سن نہ پائے کہ میں تھک گیا ہوں… ہر روز وہ میرے لیے بازو یا ٹانگ کا ایک ٹکڑا لاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تمہارے گھر والوں کا ہے، اسے دفن کر دو! مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ ان اعضاء کو کیسے دفن کیا جائے، مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ جسم کا کون سا حصہ ہے اور ہم کس وقت کونسا حصہ کہاں دفن کریں۔ میرا خاندان اسی گھر میں رہا ہے، میں انہیں وہیں دفن کرتا ہوں۔ بوڑھے فلسطینی نے اپنے دل کے 27 ٹکڑے ایک اجتماعی قبر میں دفن کیے ہیں، ہرگز نہیں! اس سے زیادہ صحیح تعبیر یہ ہے کہ اس نے اپنے آپ کو 27 مرتبہ قبر میں دفن کیا ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: خاندان کے اپنی بیٹی ان کے گھر لاتے ہیں دفن کیا رہی تھی نے اپنے گھر میں رہا تھا ہیں اور اور پھر اور اس گھر کے ہے اور ہیں کہ

پڑھیں:

امریکی جج نے فلسطینی نژاد محمود خلیل کی ملک بدری کا حکم دے دیا

ایک امریکی امیگریشن جج نے فلسطینی نژاد سرگرم کارکن محمود خلیل کو الجزائر یا شام ملک بدر کرنے کا حکم دیا ہے۔ خلیل، جو امریکا کے مستقل قانونی رہائشی ہیں، پر الزام ہے کہ انہوں نے گرین کارڈ درخواست میں کچھ تفصیلات ظاہر نہیں کیں۔

فیصلہ امیگریشن جج جیمی کومانز نے سنایا، حالانکہ اس سے قبل نیو جرسی کے فیڈرل جج مائیکل فربیاز نے خلیل کی ملک بدری روکنے کا حکم جاری کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے طالب علم محمود خلیل نے ٹرمپ انتظامیہ کے خلاف 20 ملین ڈالر ہرجانے کا دعویٰ دائر کر دیا

محمود خلیل نے دعویٰ کیا کہ یہ کارروائی ان کی فلسطین کی حمایت میں سرگرمیوں کے خلاف انتقامی اقدام ہے۔

یاد رہے کہ محمود خلیل مارچ میں نیویارک کے اپارٹمنٹ سے گرفتار کیے گئے تھے اور کئی ماہ لوزیانا میں حراست میں رہے۔ ان پر کسی جرم کا الزام عائد نہیں کیا گیا۔

وکلاء کا مؤقف

خلیل کے وکلا کا کہنا ہے کہ ان کے پاس 30 دن میں بورڈ آف امیگریشن اپیلز میں اپیل کا حق ہے۔ تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ بعد میں 5th سرکٹ کورٹ آف اپیلز میں کامیابی کے امکانات کم ہیں۔

وکلاء کے مطابق خلیل کی ملک بدری میں واحد رکاوٹ فیڈرل عدالت کا جاری کیا گیا حکم ہے جو حبسِ بیجا کیس کے دوران ان کی ملک بدری روکتا ہے۔

محمود خلیل کا ردعمل

محمود خلیل نے کہا کہ یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ مجھے آزادیِ اظہار کی سزا دے رہی ہے۔ کینگرو امیگریشن کورٹ کے ذریعے ان کا اصل چہرہ بے نقاب ہوگیا ہے۔

واضح رہے کہ محمود خلیل، صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے فلسطینیوں کے حق میں طلبہ کے احتجاج مظاہروں کے خلاف کریک ڈاؤن کے دوران گرفتار ہونے والے پہلے شخص تھے۔

یہ بھی پڑھیے فلسطینیوں کی حمایت جرم قرار، امریکا نے غیر ملکی طلبہ کے ویزے منسوخ کر دیے

مارچ سے اپریل تک کئی طلبہ و محققین، بشمول بدار خان سوری (جارج ٹاؤن یونیورسٹی)، مومودو تال، یونسیو چونگ، رومیسہ اوزتورک (ٹفٹس یونیورسٹی) اور محسن مہدوی بھی ٹرمپ کے کریک ڈاؤن کا  نشانہ بنے۔ بعض طلبہ کو حراست کے بعد رہا کر دیا گیا جبکہ کئی کو قانونی چارہ جوئی کا سامنا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

فلسطینی نژاد امریکی محمود خلیل

متعلقہ مضامین

  • فلسطین، مزاحمت اور دو ریاستی حل کی حقیقت
  • فلسطینی بچوں سے یکجہتی، جماعت اسلامی کے تحت ”کراچی چلڈرن غزہ مارچ“ لبیک یا اقصیٰ کے نعرے
  • امریکی جج نے فلسطینی نژاد محمود خلیل کی ملک بدری کا حکم دے دیا
  • ہم بیت المقدس پر اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹیں گے، رجب طیب اردگان
  • فلسطینی عوام کے لیے تعاون، صحت کے شعبے میں معاہدہ طے
  • جاپان فی الحال فلسطینی ریاست کوتسلیم نہیں کریگا: جاپانی اخبار کا دعویٰ
  • جاپان فی الحال فلسطینی ریاست تسلیم نہیں کریگا، جاپانی اخبار کا دعویٰ
  • غزہ میں اسرائیلی جارحیت جاری، ایک ہی دن میں 100 سے زائد فلسطینی شہید
  • 31 سالہ فلسطینی نوجوان غزہ سے جیٹ اسکی پر یورپ پہنچ گیا
  • غزہ میں اسرائیلی فوج داخل، 3 صحافیوں سمیت 60 فلسطینی شہید