اینٹی کرپشن فورس کے قیام کیلئے نیا قانون لا رہے ہیں: مصدق عباسی
اشاعت کی تاریخ: 3rd, June 2025 GMT
— فائل فوٹو
مشیر اینٹی کرپشن خیبرپختونخوا مصدق عباسی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کرپشن انڈیکس بہت بلند ہے، اینٹی کرپشن فورس کے قیام کے لیے نیا قانون لا رہے ہیں۔
مصدق عباسی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کوہستان کرپشن اسکینڈل اور مردان سولر اسکیم میں کرپشن حقیقت ہے، مردان میں مساجد اور قبرستانوں کے سولر سسٹم کے پیسوں میں کرپشن کی گئی اور جن افسران نے بغیر کام کے ادائیگی کی وہ سزا سے نہیں بچ سکتے۔
اُنہوں نے کہا کہ کوہستان کا کیس نیب کے پاس ہے، اس پر میں تبصرہ نہیں کروں گا ہم نے نیب کو بلایا ہے اور تین ہفتے کا وقت دیا ہے، کوہستان اسکینڈل میں محکمہ سی اینڈ ڈبلیو، پی ایچ اے اور اے جی آفس شامل ہے۔
اُنہوں نے بتایا کہ خیبرپختونخوا میں کرپشن کے خلاف ہم لڑ رہے ہیں، 5 سے 6 ارب روپے تک ریکوری کرچکے ہیں۔
مشیر اینٹی کرپشن خیبرپختونخوا نے بتایا کہ محکمہ مال کے حوالے سے سب سے زیادہ شکایات موصول ہوتی ہیں، محکمہ مال کو ڈیجیٹائز کر رہے ہیں۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: اینٹی کرپشن رہے ہیں
پڑھیں:
انکوائری کمیشن کا ممکنہ قیام،ہدف دفعہ 295 سی؟
سوشل میڈیا پرمقدس ہستیوں بالخصوص حضورﷺ کی توہین پر مبنی بدترین گستاخانہ موادکی تشہیری مہم میں ملوث زیرحراست گستاخوں کےرشتہ داروں کیجانب سے گستاخوں کےخلاف درج مقدمات کےمتعلق پنجاب پولیس کی اسپیشل برانچ اورقومی کمیشن برائے انسانی حقوق کی ثابت شدہ بے بنیاد اور من گھڑت رپورٹس کی بنیاد پر انکوائری کمیشن تشکیل دینے کے لئے دائر رٹ پٹیشن کی سماعت فاضل اسلام آباد ہائیکورٹ کے فاضل جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان کے روبرو جاری ہے۔مذکورہ پٹیشن کی سماعت 25مارچ سے اسلام آباد ہائیکورٹ کی ویب سائٹ پرلائیو دکھائی جا رہی ہے۔ملعون گستاخوں کے رشتہ داروں کی جانب سے انکوائری کمیشن کی تشکیل کے لئے دائر پٹیشن کی تحریک تحفظ ناموس رسالت ﷺ سمیت وہ تمام متعلقہ افراد بھرپور مخالفت کررہے ہیںجو گستاخوں کے خلاف مقدمات کو متعلقہ قانونی فورمز کے روبرو لڑ رہے ہیں۔اس مخالفت پر بعض حلقوں کی جانب سے روز اول سے ہی یہ سوال کیا جارہا ہے کہ ’’اگر گستاخوں کے خلاف درج مقدمات درست ہیں اور مدعیان مقدمہ کا دامن صاف ہے تو پھر انکوائری کمیشن کی تشکیل کی مخالفت کیوں کی جارہی ہے؟کمیشن بننے دیں۔دودھ کا دودھ اورپانی کاپانی ہوجائے گا‘‘ ۔ یہی سوال قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن نے بھی مورخہ 13 فروری کو ملاقات کے لئے آنے والے تحریک تحفظ ناموس رسالت ﷺ پاکستان کے وفد سے بھی کیا تھا کہ ’’اگر انکوائری کمیشن بنا دیا جائےتو اس میں حرج کیا ہے؟‘‘۔
اس خاکسار کی موجودگی میں تحریک کےجنرل سیکرٹری نےقائد جمعیت مولانا فضل الرحمن کو جواب دیاتھاکہ ’’اگرحقائق کوجاننااور منظر عام پر لانے کی نیت سے ہی انکوائری کمیشن کا تقاضہ کیا جارہا ہو تو پھر ایک نہیں،دس انکوائری کمیشن قبول ہیں۔لیکن مسئلہ یہ ہےکہ انکوائری کمیشن کےقیام کی کوشش کے پس پردہ محرکات گھنانے ہیں۔پہلا مقصد تو یہ ہےکہ انکوائری کمیشن کےقیام کی بنیادپرگستاخوں کےخلاف ٹرائل کورٹس میں زیر سماعت مقدمات کو طول دیاجائے۔تاکہ زیرحراست گستاخ اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ضمانت پر رہائی پاکر بیرون ملک فرارہوسکیں۔دوسرامقصدیہ ہےکہ انکوائری کمیشن کےذریعے بلاسفیمی بالخصوص توہین رسالت کے متعلق تعزیرات پاکستان کی دفعہ 295 سی کو متنازع بناکراسے غیرموثرکرنےکی راہ ہموارکی جائے‘‘۔ توہین رسالت کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ کو ختم کرنے یا کم سے کم اسے غیر موثر کرنے کی سازشیں اسلام دشمن قوتوں کی جانب سے طویل عرصےسےجاری ہیں۔ قائد جمعیت کی خدمت میں یہ بھی عرض کیاگیاکہ ’’اگر مذکورہ پٹیشن پرانکوائری کمیشن اس حکم کے ساتھ قائم کیا جائے کہ کمیشن کی کارروائی سےگستاخوں کے خلاف ٹرائل کورٹس میں زیرسماعت مقدمات پرکوئی اثر نہیں پڑے گا اور نہ ہی قانون نافذ کرنے والے ادارے گستاخوں کے خلاف قانونی کارروائی کے عمل کو روکیں گے۔مزید یہ کہ انکوائری کمیشن کے ٹی او آرز میں بلاسفیمی بالخصوص توہین رسالت کے متعلق قانون پرنظرثانی کےمتعلق کوئی ٹی او آر شامل نہیں ہو گا،تو ہم انکوائری کمیشن کے قیام کو قبول کرنے کے لئے تیار ہیں۔‘‘ فاضل اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیر سماعت مذکورہ پٹیشن کی سماعت جوں جوں آگے بڑھ رہی ہے،اسے دیکھتے ہوئے بد قسمتی سے وہ تمام خدشات درست ثابت ہو رہے ہیں،جن کا اظہار قائدجمعیت مولانا فضل الرحمن کے سامنے کیا گیا تھا۔ مورخہ 30جنوری 2025ء کو فاضل اسلام آباد ہائیکورٹ کے فاضل جج جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے وفاقی حکومت کو انکوائری کمیشن قائم کرنے کے لئے جو پہلا حکم جاری کیاتھا،اس حکم نامہ میں بھی فاضل جج نے مدعیان مقدمہ کے مذکورہ دو خدشات کا ذکر کرتے ہوئے یہ لکھا تھا کہ ’’انکوائری کمیشن بلاسفیمی کے متعلق قوانین پر نظر ثانی کے لئے نہیں قائم کیاجارہا اور نہ ہی پٹیشنرز نے عدالت کے سامنے زیر سماعت پٹیشن میں ایسی کوئی استدعا کی ہے‘‘۔ تاہم فاضل جج نےاپنے مذکورہ حکم نامہ میں مدعیان مقدمہ کے پہلے خدشہ کو نقل کرنے کے باوجود بھی اس متعلق کوئی وضاحت نہیں کی تھی۔یہی وجہ ہے کہ مذکورہ گستاخوں کے خلاف سرگرم حلقوں کی جانب سے مذکورہ عدالتی حکم پر اعتراض کیا گیا اور کمیشن کے قیام کی مخالفت شروع کر دی گئی۔
اب گزشتہ کچھ سماعتوں کے دوران اسلام آباد ہائیکورٹ کےفاضل جج کی جانب سے آن ریکارڈکچھ ایسے ریمارکس دیئےگئے ہیں کہ جن سے نہ صرف یہ کہ انکوائری کمیشن کے قیام کی مخالفت کرنے والوں کے خدشات کو تقویت مل رہی ہے بلکہ فاضل جج کے وہ ریمارکس 30جنوری 2025ء کے حکم نامہ میں بلاسفیمی کے متعلق قوانین پر نظر ثانی نہ کرنے کے متعلق تحریر کئے گئے موقف کے بھی برعکس ہیں۔جس کی وجہ سے تشویش کا پیدا ہونا ایک فطری امر ہے۔ رٹ پٹیشن کی سماعت کے دوران مورخہ 25مارچ کو فاضل جج نے ریمارکس دیئے کہ ’’ماضی میں بلاسفیمی کےقوانین کاغلط استعمال ہواہے۔یہ سب کو معلوم ہے۔489ایف میں اگر آپ ایس او پیز رکھ سکتے ہیں تو یہاں پر بھی سوچنا چاہیے تاکہ ان قوانین کا غلط استعمال نہ ہو۔‘‘ جب روسٹرم پر کھڑے وکیل صاحب نے ایس او پیز کے متعلق جج صاحب کے مذکورہ ریمارکس پر اعتراض کرناچاہا توفاضل جج نے فوراً فرما دیا کہ ’’اسے چھوڑیئے۔یہ خیال تو بس ایسے ہی نکل گیا‘‘ پہلا سوال تو یہ ہے کہ کب اور کہاں بلاسفیمی کے متعلق قوانین بالخصوص دفعہ 295سی کا غلط استعمال ہوا ہے؟خاکسارکی نظر میں تو ایسی کوئی مثال موجود نہیں ہے کہ آج تک توہین رسالت کی دفعہ 295 سی کے تحت درج ہونے والے کسی ایک مقدمے میں بھی کوئی ایک ملزم بھی عدالت کے ذریعے باعزت بری ہوا ہو۔یہاں تک کہ ملعونہ آسیہ مسیح کو بھی جب سپریم کورٹ نے توہین رسالت کے مقدمے سے بری کیا،تواس بنیاد پر نہیں کیا تھا کہ ملعونہ نے توہین رسالت کا ارتکاب نہیں کیا،بلکہ مقدمے میں موجود بعض تکنیکی خامیوں کی وجہ سے شک کا فائدہ دیتے ہوئے ملعونہ کی سزائے موت کو کالعدم قرار دیا تھا۔واضح رہے کہ کسی بھی کریمنل مقدمے میں خاص طور پر کسی ایسے مقدمےمیں کہ جس میں ملزم کوسزائے موت ہوئی ہو،پاکستانی قوانین کے مطابق ذرہ سی بھی خامی کافائدہ ہمیشہ ملزم کو ہی دیاجاتا ہے۔
(جاری ہے )