آرٹیفیشل انٹیلی جنس نے نوعمر لڑکے کو اپنی جان لینے پر مجبور کردیا؟
اشاعت کی تاریخ: 3rd, June 2025 GMT
امریکی ریاست کینٹکی کے ایک 16 سالہ لڑکے نے اے آئی ٹیکنالوجی کے جھانسے میں آکر بلیک میل ہونے پر اپنی جان لے لی۔ اس واقعے کو 3 ماہ سے زائد عرصہ گزر چکا ہے لیکن واقعے کا ذمے داران اب تک گرفتار نہیں ہوسکے جس پر ہیکاک کا خاندان ایک مسقتل کرب کا شکار ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سوشل میڈیا ہراسانی اور بلیک میلنگ سے کیسے محفوظ رہا جاسکتا ہے؟
ہیکاک کو مصنوعی ذہانت (اے آئی) کے ذریعے تیار کردہ اس کی عریاں تصویر کے ذریعمصے جال میں پھنسایا گیا اور پھر اسے بلیک میل کیا جانے لگا اور اسے دوستوں اور اہل خانہ کے ساتھ شیئر نہ کرنے کے عوض 3 ہزار ڈالر ادا کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ دھمکی سے دلبرداشتہ ہو کر ہیکاک نے خودکشی کر لی۔
اس کے والدین جان برنیٹ اور شینن ہیکاک نے اپنے بیٹے کی موت سے پہلے کبھی ایسی بلیک میلنگ کے بارے میں نہیں سنا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں کچھ اندازہ نہیں تھا کہ کیا ہو رہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ منظم اور بے لگام ہیں مصنوعی ذہانت کی وجہ سے اب انہیں حقیقی تصاویر کی بھی ضرورت نہیں ہے۔
مزید پڑھیے: سوشل میڈیا کے ذریعے بلیک میلنگ، ہیکنگ اور فراڈ کی شکایات بڑھنے لگیں
حالیہ برسوں میں امریکا میں جنسی استحصال کے کیسز میں بے انتہا اضافہ ہوا ہے اور اس حوالے سے ایک لاکھ سے زیادہ رپورٹیں قومی مرکز برائے گمشدہ اور استحصال زدہ بچوں کو بھیجی گئی ہیں۔
ایف بی آئی کا تخمینہ ہے کہ سنہ 2021 سے اب تک کم از کم 20 نوجوان یسے معاملات کی وجہ سے خودکشی کر چکے ہیں۔ اے آئی نے ان جرائم کا ارتکاب آسان بنا دیا ہے کیونکہ شکاری اب آسانی سے نازیبا تصاویر بنا سکتے ہیں۔
مزید پڑھیں: ڈیرہ غازی خان کی غازی یونیورسٹی میں ’طالبہ سے جنسی زیادتی، چھوٹی بہن سے بلیک میلنگ‘
اس کے جواب میں ہیکاک کے والدین سخت قوانین پر زور دے رہے ہیں، بشمول ’ٹیک اٹ ڈاؤن ایکٹ‘، ایک حالیہ قانون جس کے تحت کسی کی رضامندی کے بغیر نازیبا تصاویر شیئر کرنا جرم خواہ وہ اے آئی کے ذریعے ہی کیوں نہ بنائی گئی ہو۔
ہیکاک کے والدین کو امید ہے کہ ان کا المیہ بچوں کو آن لائن فراڈیوں سے بچانے کے لیے وسیع تر کارروائی کو متحرک کرے گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکا اے آئی بلیک میلنگ بھتہ سیکسٹورشن کینٹیکی مصنوعی ذہانت.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکا اے ا ئی بلیک میلنگ بھتہ سیکسٹورشن مصنوعی ذہانت بلیک میلنگ اے ا ئی
پڑھیں:
ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی کا شہری کو سکیورٹی نہ دینے کا فیصلہ کالعدم قرار
لاہور (نیوز ڈیسک) لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس امجد رفیق نے ایک اہم فیصلہ سناتے ہوئے ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی (DIC) کا شہری کو سکیورٹی فراہم نہ کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔
جسٹس امجد رفیق نے شہری سیف علی کی درخواست پر 10 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا جس میں قرار دیا گیا ہے کہ ڈی آئی سی کی رپورٹ محض سفارشاتی حیثیت رکھتی ہے جبکہ حتمی اختیار پولیس کو حاصل ہے۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پولیس کسی بھی شہری کو جان کے خطرے کی صورت میں خود تحفظ فراہم کرنے کی مجاز ہے، آئین کے تحت شہریوں کی جان کا تحفظ مشروط نہیں، ریاست کو ہر قیمت پر اپنے شہریوں کی جان بچانے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کرنے ہوں گے۔
عدالت نے قرآن مجید کی آیت کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ جس نے ایک جان بچائی، اس نے پوری انسانیت کو بچایا۔
درخواست گزار کے مطابق وہ اپنی بہن اور بہنوئی کے قتل کیس میں سٹار گواہ ہے اور مقتولین کے لواحقین کی جانب سے مسلسل دھمکیاں مل رہی ہیں۔
پولیس نے درخواست گزار کو نقل و حرکت محدود کرنے کا مشورہ دیا تھا جبکہ آئی جی پنجاب کی رپورٹ کے مطابق ڈی آئی سی نے درخواست گزار کو دو پرائیویٹ گارڈ رکھنے کی تجویز دی تھی۔
عدالت نے مشاہدہ کیا کہ ہوم ڈیپارٹمنٹ پالیسی 2018 کے تحت پولیس پروٹیکشن کی 16 مختلف کیٹیگریز بنائی گئی ہیں جن میں وزیراعظم، چیف جسٹس، بیوروکریٹس اور دیگر اہم شخصیات شامل ہیں، تاہم پالیسی کے مطابق آئی جی پولیس مستند انٹیلی جنس رپورٹ کی بنیاد پر کسی بھی شہری کو 30 روز تک پولیس پروٹیکشن فراہم کر سکتا ہے۔
فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ پولیس آرڈر 2002 شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کی ذمہ داری واضح کرتا ہے، پنجاب وٹنس پروٹیکشن ایکٹ 2018 کے تحت ایف آئی آرز میں گواہوں کو تحفظ فراہم کیا جا سکتا ہے، شہری کے تحفظ کا حق آئینی، قانونی اور اخلاقی فریضہ ہے۔
عدالت نے قرار دیا کہ ڈی آئی سی کی رپورٹ کی بنیاد پر شہری کو پولیس تحفظ سے محروم کرنا غیر مناسب عمل ہے، اگر کسی شہری کی جان کو خطرہ ہو تو پولیس پروٹیکشن لینا اس کا حق ہے۔
عدالت نے ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی کا شہری کو سکیورٹی نہ دینے کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے آئی جی پنجاب کو درخواست گزار کو فوری طور پر پولیس تحفظ فراہم کرنے کا حکم دے دیا۔