امریکی ریاست کینٹکی کے ایک 16 سالہ لڑکے نے اے آئی ٹیکنالوجی کے جھانسے میں آکر بلیک میل ہونے پر اپنی جان لے لی۔ اس واقعے کو 3 ماہ سے زائد عرصہ گزر چکا ہے لیکن واقعے کا ذمے داران اب تک گرفتار نہیں ہوسکے جس پر ہیکاک کا خاندان ایک مسقتل کرب کا شکار ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سوشل میڈیا ہراسانی اور بلیک میلنگ سے کیسے محفوظ رہا جاسکتا ہے؟

ہیکاک کو مصنوعی ذہانت (اے آئی) کے ذریعے تیار کردہ اس کی عریاں تصویر کے ذریعمصے جال میں پھنسایا گیا اور پھر اسے بلیک میل کیا جانے لگا اور اسے دوستوں اور اہل خانہ کے ساتھ شیئر نہ کرنے کے عوض 3 ہزار ڈالر ادا کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ دھمکی سے دلبرداشتہ ہو کر ہیکاک نے خودکشی کر لی۔

اس کے والدین جان برنیٹ اور شینن ہیکاک نے اپنے بیٹے کی موت سے پہلے کبھی ایسی بلیک میلنگ کے بارے میں نہیں سنا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں کچھ اندازہ نہیں تھا کہ کیا ہو رہا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ منظم اور بے لگام ہیں مصنوعی ذہانت کی وجہ سے اب انہیں حقیقی تصاویر کی بھی ضرورت نہیں ہے۔

مزید پڑھیے: سوشل میڈیا کے ذریعے بلیک میلنگ، ہیکنگ اور فراڈ کی شکایات بڑھنے لگیں

حالیہ برسوں میں امریکا میں جنسی استحصال کے کیسز میں بے انتہا اضافہ ہوا ہے اور اس حوالے سے ایک لاکھ سے زیادہ رپورٹیں قومی مرکز برائے گمشدہ اور استحصال زدہ بچوں کو بھیجی گئی ہیں۔

ایف بی آئی کا تخمینہ ہے کہ سنہ 2021 سے اب تک کم از کم 20 نوجوان یسے معاملات کی وجہ سے خودکشی کر چکے ہیں۔ اے آئی نے ان جرائم کا ارتکاب آسان بنا دیا ہے کیونکہ شکاری اب آسانی سے نازیبا تصاویر بنا سکتے ہیں۔

مزید پڑھیں: ڈیرہ غازی خان کی غازی یونیورسٹی میں ’طالبہ سے جنسی زیادتی، چھوٹی بہن سے بلیک میلنگ‘

اس کے جواب میں ہیکاک کے والدین سخت قوانین پر زور دے رہے ہیں، بشمول ’ٹیک اٹ ڈاؤن ایکٹ‘، ایک حالیہ قانون جس کے تحت کسی کی رضامندی کے بغیر نازیبا تصاویر شیئر کرنا جرم خواہ وہ اے آئی کے ذریعے ہی کیوں نہ بنائی گئی ہو۔

ہیکاک کے والدین کو امید ہے کہ ان کا المیہ بچوں کو آن لائن فراڈیوں سے بچانے کے لیے وسیع تر کارروائی کو متحرک کرے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

امریکا اے آئی بلیک میلنگ بھتہ سیکسٹورشن کینٹیکی مصنوعی ذہانت.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: امریکا اے ا ئی بلیک میلنگ بھتہ سیکسٹورشن مصنوعی ذہانت بلیک میلنگ اے ا ئی

پڑھیں:

پی۔ٹی۔آئی اپنی طاقت گنوا چکی، کوئی تحریک نہیں چلا سکتی، سینیٹر عرفان صدیقی

اسلام آباد (نیوز ڈیسک)پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر راہنما اور سینیٹ میں پارلیمانی پارٹی لیڈر سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ عمران خان سے جیل میں حکومت یا اسٹیبلشمنٹ کے کسی عہدیدار کی نہ کوئی ملاقات ہوئی ہے، نہ کوئی پیشکش کی گئی نہ کوئی فارمولہ پیش کیا گیا ہے۔یہ سرا سر جھوٹ اور بے بنیاد ہے اس طرح کی باتیں خود کو اور اپنے لوگوں کو فریب دینے کے لئے کی جار ہی ہیں۔ عمران تو کسی کا لحاظ نہیں رکھتے۔ اگر کسی نے کوئی پیشکش کی ہے تو کُھل کر اس کا نام لیں۔اس وقت خان صاحب شدید مایوسی کا شکار ہیں۔ ایک طرف کہتے ہیں کہ پی۔ٹی۔آئی سب سے بڑی جماعت ہے۔جب چاہے لاکھوں کروڑوں عوام کو سڑکوں پر لا سکتی ہے، انقلاب بپا کر سکتی ہے۔ دوسری طرف حالت یہ ہے کہ ماہ رنگ بلوچ نامی خاتون کے کندھوں کا سہار ا لے رہے ہیں۔ ان سے کچھ بعید نہیں کہ یہ کل بی ایل اے سے بھی گٹھ جوڑ کر لیں۔ نجی چینل (ARY) پر سینئر اینکر سے گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ عمران خان جو کچھ اپوزیشن کے ساتھ کرتے رہے، موجودہ حکومت نے پی ٹی آئی کے ساتھ ہرگز ایسا نہیں کیا۔ انہوں نے کسی کو ہیروئن کے جھوٹے مقدمے میں بند کر دیا تو کسی کو ایفی ڈرین میں، کسی کو غداری میں، کسی کوکرایہ داری میں۔ ہم ایسا کچھ نہیں کر رہے۔ایک سوال کے جواب میں مسلم لیگی راہنما نے کہا کہ جب خان حاحب جیل سے باہر تھے اور اُن کی مقبولیت بھی عروج پر تھی اور وہ خود احتجاجی جلوسوں کی قیادت کر رہے تھے ،تب کون سا معرکہ سر کر لیا تھا جو اب وہ جیل کے اندر سے قیادت کر تے ہوئے سر انجام دے لیں گے؟ وہ تو زخمی ٹانگ کے باوجود سید عاصم منیر کی بطور آرمی چیف تقرری راستہ روکنے کے لئے لانگ مارچ کی قیادت کرتے ہوئے اسلام آباد پہنچ گئے تھے۔ لیکن عوام نے ان کا ساتھ نہیں دیا تھا۔ سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ پی ٹی آئی نے اقتدار میں آنے کے لئے نہ سیاسی جدو جہد کی نہ ماریں کھائیں۔ وہ عسکری گھوڑوں پر بیٹھ کر آئے اور اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہو گئے۔ اُس کی پرورش ’’لاڈ پیار‘‘ میں ہوئی جس کی وجہ سے خان کو ’’لاڈلا‘‘ بھی کہا جاتا تھا۔ وہ اشتہاری ہونے کے باوجود سپریم کورٹ میں ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھتے تھے اور کسی کی مجال نہیں تھی کہ اُ نہیں پکڑے۔ وہ بطور ملزم عدالت کے سامنے پیش کئے جاتے تھے تو ’’گڈ ٹو سی یو‘‘کہہ کر ان کا استقبال کیا جاتا تھا۔ انہیں صداقت اور امانت کے سرٹیفیکیٹ دیئے جاتے تھے۔وہ تصور بھی نہیں کر سکتے تھے کہ ان پر سنگین مقدمات قائم ہو سکتے ہیں اور انہیں گرفتار کر کے جیل میں ڈالا جا سکتا ہے۔ اسی لئے اُن کی پریشانی اور مایوسی آخری حدوں کو چھونے لگی ہے۔ پہلے وہ فوج کے اعلی ٰعہدیداروں کو میر جعفر اور میر صادق کہتے تھے، اب وہ فرعون اور یزید کہہ رہے ہیں۔ ’’جنگل کا بادشاہ‘‘ کا طعنہ دے رہے ہیں۔ لاڈلے پن کا حال یہ ہے کہ اُن کے پائوں میں کانٹا چبھ جائے اور خون کی ایک بوند نکل آئے تو خود کو حسینیت کے بلند مقام پر بٹھا لیتے اور دوسرے کو یزید قرار دے دیتے۔ تحریک چلانے کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ پی۔ٹی۔آئی اپنی طاقت گنوا چکی ہے۔ انہوں نے 9،مئی کے بعداپنے لئے مشکلات کا جو انبار جمع کر رکھا ہے، اُس میں مزید اضافے کے سوا انہیں کچھ نہیں ملے گا۔ عرفان صدیقی نے کہا کہ پی۔ٹی۔آئی مذاکرات، ،جمہوری کاروائیوں اور پارلیمانی روایات کے لئے نہیں بنی۔ انہوں نے کہا کہ کسی بڑے مقصد یا نظریے کے لئے کوئی قابل ِذکر اور موثر سیاسی اتحاد بنانا اب پی۔ٹی۔آئی کے بس میں نہیں۔ مولانا فضل الرحمن اور محمود خان اچکزئی کو اس کا بڑا تلخ تجربہ ہو چکا ہے۔ خان صاحب کہتے ہیں کہ میں جیل میں ہوں تو نوجوان بھی اٹھیں اور جیلوں میں آئیں۔ آپ نے تو کچھ کیا ہے تو جیل میں ہیں۔ پاکستان کے نوجوان اپنے مستقبل کو دائو پر لگا کر آپ کے گناہوں کی سزا بھگتنے کیوں جیلوں میں جائیں؟

Post Views: 6

متعلقہ مضامین

  • پی۔ٹی۔آئی اپنی طاقت گنوا چکی، کوئی تحریک نہیں چلا سکتی، سینیٹر عرفان صدیقی
  • بچوں کی ضد پوری نہ کریں، انھیں صبر اور برداشت سکھائیں، سلمیٰ حسن کا والدین کو مشورہ
  • میڈیا نوعمر خاتون انفلوئنسر کا قتل
  • آج کا دن کیسا رہے گا؟
  • ثناء یوسف کی آخری مسکراہٹ اور لال اسکوٹی چلاتی لڑکی
  • حافظ آباد میں شوہر کے سامنے بیوی کا گینگ ریپ، ملزمان ویڈیو بنا کر بلیک میل بھی کرتے رہے
  • پاکستان میں 60 فیصد بچوں کو گھریلو سطح پر تشدد کا سامنا ہے؛ سروے
  • شمالی وزیرستان: انٹیلی جنس آپریشن، 14 بھارتی حمایت یافتہ دہشتگرد ہلاک
  • بھارت کے پاکستان مخالف من گھڑت بیانیے کو اس بار سچ کا روپ لینے نہیں دیا جائیگا: سینیٹر شیری رحمان