پاکستان کے سپر اسٹار بلے باز بابر اعظم کو لیگ کرکٹ میں اپنی ٹیم کو ٹائٹل جتوانے میں زیادہ عرصہ نہیں لگا لیکن ویرات کوہلی کو اپنی لیگ ٹیم کو جتوانے میں 18 سال لگ گئے۔رائل چیلنجرز بنگلور اور ویرات کوہلی نے 18 سال کے طویل انتظار کے بعد  بلآخر انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) کی ٹرافی اپنے نام کرلی۔آئی پی ایل 2025 کے فائنل میں رائل چیلنجرز بنگلور نے پنجاب کنگز کو سنسنی خیز مقابلے کے بعد 6 رنز سے شکست دے کر 2008 سے شروع ہونے والی آئی پی ایل میں پہلی مرتبہ ٹائٹل جیتنے کا خواب پورا کرلیا۔واضح رہے کہ گزشتہ روز احمد آباد کے نریندر مودی اسٹیڈیم میں کھیلے گئے آئی پی ایل سیزن 18 کے فائنل میں رائل چیلنجرز بنگلور نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے مقررہ 20 اوور میں 9 وکٹوں کے نقصان پر 190 رنز بنائے، جو اس سیزن اس میدان پر سب سے کم اسکور تھا۔191

رنز کے ہدف کے تعاقب میں پنجاب سپر کنگز کی ٹیم مقررہ 20 اوورز میں 7 وکٹوں کے نقصان پر 184 رنز بنا سکی اور یوں رائل چیلنجرز بنگلور نے 6 رنز سے کامیابی کے بعد بالآخر پہلی بار آئی پی ایل کا ٹائٹل اپنے نام کر لیا۔ویرات کوہلی مسلسل 18 سیزن سے رائل چیلنجرز بنگلور کی نمائندگی کر رہے ہیں اور اب پہلی بار انہوں نے آئی پی ایل ٹرافی اٹھائی ہے۔ویرات کوہلی آئی پی ایل جیتنے پر میدان میں جذباتی ہوگئے اور ان کی آنکھیں نم ہوگئیں۔پاکستان کی رن مشین بابر اعظم کا موازنہ بھارتی ریکارڈ ساز بلے باز ویرات کوہلی سے کیا جاتا ہے، تاہم جو اعزاز بابر اعظم نے اپنے لیگ کیریئر کے پہلے سال میں حاصل کیا وہ پانے میں کوہلی کو 18 سال لگ گئے۔یاد رہے کہ بابر اعظم پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کا افتتاحی ٹورنامنٹ جیتنے والی اسلام آباد یونائیٹڈ کا حصہ تھے جبکہ اس سیزن میں بابر نے اسلام آباد کی جانب سے اپنا ڈیبیو بھی کیا تھا۔تاہم بطور بیٹر اپنی ٹیم کے لیے کلیدی کردار ادا کرتے ہوئے بابر اعظم نے پی ایس ایل کا ٹائٹل کراچی کنگز کی نمائندگی کرتے ہوئے 2020 میں جیتا تھا۔پی ایس ایل کے اس سیزن میں بابر اعظم نے 473 رنز بنا کر ایونٹ کے ٹاپ اسکورر رہتے ہوئے پلیئر آف دی ٹورنامنٹ کا ایوارڈ جیتا، جبکہ وہ فائنل کے مین آف دا میچ بھی رہے تھے۔

Post Views: 4.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: رائل چیلنجرز بنگلور ویرات کوہلی ا ئی پی ایل

پڑھیں:

وزیر اعظم اور کابینہ کو توہین عدالت کے نوٹس

اسلام آباد ہائی کورٹ کے فاضل جج صاحب نے عافیہ صدیقی کیس میں وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کر دیے ہیں۔ میں اس حکم کو جیوڈیشل ایکٹیوازم کے تناظر میں دیکھتا ہوں، بہرحال یہ عدالتی اختیار اور دائرہ کار کا معاملہ ، اس پر جنھیں نوٹس ہوا ہے۔

 ان کے وکلا ہی مقررہ تاریخ پیشی پر کوئی بات کریں گے ، البتہ دیگر پہلو پر بات ممکن ہے ، مثلاً عافیہ صدیقی کسی پاکستانی جیل میں قید نہیں ہیں۔ وہ امریکا کی جیل میں قید ہیں۔ امریکا کی عدالت نے انھیں 86سال قید کی سزا سنائی ہوئی ہے۔ وہاں پاکستان کا کوئی حکم نہیں چلتا۔البتہ سفارت کاری ہوسکتی ہے جو ہوتی بھی رہتی ہے۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ 2024میں وزیر اعظم شہباز شریف نے عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے امریکی صدر بائیڈن کو خط لکھا تھا۔ لیکن شاید امریکی صدر نے اس خط کا کوئی جواب نہیں دیا تھا۔ اور نہ ہی عافیہ صدیقی کو رہا کیا گیا ۔ اسلا م آباد ہائی کورٹ کے بار بار پوچھنے پر بتایا گیا کہ اس خط کا امریکی حکومت نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اس کے بعد محترم جج صاحب نے وزیر اعظم اور وزیر خارجہ کے تمام غیر ملکی دوروں کی تفصیلات مانگ لیں۔ اب انھوں نے وزیر اعظم اور کابینہ کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کر دیے ہیں۔

میں سمجھتا ہوں امریکا اور پاکستان کے درمیان کیسے تعلقات ہیںیا تعلقات کیسے ہونے چاہیے، یہ طے کرنا حکومت کا آئینی مینڈیٹ ہوتا ہے ۔ وزیر اعظم پاکستان کب امریکی صد ر کو کسی ایشو کے حوالے سے کوئی خط لکھنا چاہتے ہیں اور کب نہیں لکھنا چاہتے، یہ طے کرنا بھی حکومت کا مینڈیٹ ہوتا۔ یہ دو ممالک کے سفارتی تعلقات پر منحصر ہوتا ہے کہ کس حد تک بات کرنی یا نہیں کرنی ہے۔ کسی ملک کے دوسرے ملک کے ساتھ سفارتی تعلقات میں کسی دوسرے آئینی ادارے کو ہدایات دینے کا اختیار نہیں ہوتا۔ پاکستان امریکا کے تعلقات کیسے ہوںگے؟ ایک دوسرے کے قیدی کے ساتھ کیسا سلوک کیا جائے گا؟ یہ طے کرنا حکومت پاکستان کا کام ہے۔

 ہمارے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے لیے جذبات قابل قدر ہیں۔ ہماری یہ خواہش کہ امریکی حکومت ڈاکٹرعافیہ صدیقی کو رہا کر دے، قابل تحسین ہے۔ لیکن امریکا کا نظام ہمارے کنٹرول میں نہیں ہے ۔

وزیر اعظم پاکستان نے عدالتی حکم کو مانتے ہوئے امریکی صدر کو خط لکھ دیا۔ اب امریکی صدر نے اس کا جواب نہیں دیا۔ اب کیا کیا جاسکتا ہے؟ کیا وزیر اعظم پاکستان کو قصوروار ٹھہرایا جاسکتا ہے؟ اب دیکھتے ہیں کہ آگے کیا ہوتا ہے۔ توہین عدالت کے نوٹس وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کو جاری ہو گئے ہیں۔ ان کے دوروں کی تفصیلات بھی مانگ لی گئی ہیں۔ ظاہر یہ قانونی کارروائی کسی نہ کسی نتیجے تک پہنچے گی۔

عافیہ صدیقی کی طرح بہت سے پاکستانی دوسرے ممالک کی جیلوں میں قید ہیں۔ ان کے معاملات سفارتی سطح پر دیکھے جاتے ہیں۔ سفارت خانے ان سے جیلوں میں ملاقات بھی کرتے ہیں۔ لیکن ان کے ساتھ سلوک وہاں کی حکومتیں اپنے قوانین کے مطابق کرتی ہیں۔ان پر پاکستان کے قانون لاگو نہیں ہوتے۔

جہاں تک ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے تمام قانونی اخراجات کا معاملہ ہے تو اس حوالے سے بھی کئی مسائل سامنے آسکتے ہیں۔اگر یہ کہا جائے کہ حکومت پاکستان یہ اخراجات ادا کرے تو یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ پاکستان کے قانون میں یہ کہاں لکھا ہے؟ کیا قانون میں ایسی کوئی گنجائش موجود ہے؟ میں نے پہلے بھی کئی بات عرض کیا ہے کہ پاکستان کا قانون یکساں نظام انصاف کے اصول پر قائم ہے۔ امیر کو غریب پر، اہم کو غیر اہم پر کوئی فوقیت یا برتری حاصل نہیں ہے۔ لیکن ہمارے ہاں ’’اہم‘‘ کے کیسز اور ’’غیر اہم‘‘ کے کیسز میں فرق نظر آتا ہے۔ اگر قانونی اخراجات ادا کرنے ہیں تو صرف ایک کے کیوں ادا کرنے ہیں، باقی تمام پاکستانیوں کے کیوں نہ ادا کیے جائیں۔

سوال یہی ہے کہ باقی پاکستانیوں کی رہائی کے لیے خط کیوں نہ لکھا جائے؟ میں کوئی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے خلاف نہیں۔ لیکن میرا مقصد اس اصول کو سامنے رکھنا ہے کہ سب کے لیے یکساں نظام انصاف ۔ بیرون ملک جیلوں میں قید اکثر قیدیوں کے لواحقین کہتے ہیں کہ ان کے لوگ بے قصور اور بے گناہ قید ہیں۔ کیا کسی غیر ملک کا نظام انصاف کسی کے لواحقین کے کہنے پر یقین کرے گا۔ عوامی رائے پر بھی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ عدالت نے قانون اور ثبوت دیکھ کر فیصلہ کرنا ہوتا ہے ۔

میں نظام عدل کے انتظامی اختیارات یا معاملات کی بحث میں نہیں جانا چاہتا کہ کیو نکہ یہ میرا کام نہیں ہے۔ کوئی جج چھٹی پر تھا یا نہیں،کاز لسٹ چھٹی کی وجہ سے منسوخ ہو چکی تھی۔یا نہیں ، یہ میرا موضوع نہیں ہے۔ اصل معاملہ سسٹم کو ٹھیک رکھنے کا ہے تاکہ پاکستان کے عوام کو یکساں انصاف کے اصول پر انصاف مل سکے۔ پاکستان میں بہت عرصے سے نظام عدل پر تند و تیز باتیں ہوتی چلی آرہی ہیں، جہاں تک میں سمجھتا ہوں کہ ایگزیکٹو کے معاملات میں جتنا ممکن ہوسکے، اتنا اجتناب کیا جانا چاہیے، سفارتی معاملات میں بالکل مداخلت نہیں ہونی چاہیے۔

متعلقہ مضامین

  • نومئی کیس میں 10، 10سال کی سزا پانے والے پی ٹی آئی رہنماوں کا ردعمل سامنے آگیا
  • 9 مئی کیس میں 10، 10 سال کی سزا پانے والے پی ٹی آئی رہنماؤں کا ردعمل سامنے آگیا
  • ٹی 20ن کی نئی رینکنگ جاری، بابر اعظم اور محمد رضوان پیچھے رہ گئے
  • جنوبی ایشیا میں زندان میں تخلیق پانے والے ادب کی ایک خاموش روایت
  • آڈٹ رپورٹ ابتدائی مرحلے میں ہے، مکمل جانچ باقی ہے، پاور ڈویژن کا مؤقف
  • میاں محمد اظہر کے انتقال پر نواز شریف اور شہباز شریف کا اظہارِ افسوس
  • ایف بی آر کی اصلاحات سے ٹیکس نظام کی بہتری خوش آئند ہے، وزیراعظم
  • پہلا ون ڈے: پاکستانی شاہینز نے پروفیشنل کاؤنٹی الیون کو 5 وکٹوں سے مات دیدی
  • وزیر اعظم اور کابینہ کو توہین عدالت کے نوٹس
  • کراچی: بارہویں ہوم اکنامکس اور آرٹس ریگولر کے خصوصی امیدواروں کے نتائج کا اعلان