ٹریڈنگ آرٹسٹ”،جو کہے کچھ اور کرے کچھ ،وہ زمانے میں اپنی پوزیشن کھو دے گا
اشاعت کی تاریخ: 4th, June 2025 GMT
ٹریڈنگ آرٹسٹ”،جو کہے کچھ اور کرے کچھ ،وہ زمانے میں اپنی پوزیشن کھو دے گا WhatsAppFacebookTwitter 0 4 June, 2025 سب نیوز
بیجنگ :چین اور امریکہ نے جنیوا میں چین امریکہ اقتصادی اور تجارتی مذاکرات پر مشترکہ بیان جاری کیا۔ اس کے بعد سے چین نے انتہائی خلوص اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے مشترکہ اعلامیے میں طے پانے والے اتفاق رائے کے مطابق امریکہ کے ” ریسیپروکل ٹیرف ” کے خلاف متعلقہ ٹیرف اور نان ٹیرف اقدامات کو فوری منسوخ یا معطل کیا ۔ تاہم امریکہ کی کارکردگی بہت مایوس کن رہی۔ مذاکرات کے بعد امریکہ نے چین کے خلاف متعدد امتیازی پابندیاں عائد کیں جن میں مصنوعی ذہانت کی چپس کے لیے ایکسپورٹ کنٹرول گائیڈ لائنز جاری کرنا، چین کو چپ ڈیزائن سافٹ ویئر (ای ڈی اے) کی فروخت روکنا اور یہاں تک کہ چینی طلبا ء کے ویزوں کی منسوخی کا اعلان بھی شامل ہے۔
اس سے بھی زیادہ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ مذاکرات کے اتفاق رائے کی خلاف ورزی کرنے والا امریکہ ہی ہے،تاہم امریکہ چین پر اتفاق رائے کی خلاف ورزی کا بے بنیاد الزام عائد کر رہا ہے۔لیکن اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے،کیونکہ اپنی غلطیوں کو تسلیم کیے بغیر دوسروں پر الزام لگانا امریکہ کی پرانی عادت ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ امریکہ دوسرے ممالک کے ساتھ مذاکرات میں رکاوٹ کا الزام بھی چین پر عائد کر رہا ہے ۔ وائٹ ہاؤس کی قومی اقتصادی کونسل کے ڈائریکٹر کیون ہسیٹ نے اے بی سی ٹیلی ویژن کو دیے گئے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا کہ دیگر ممالک کے ساتھ امریکی تجارتی مذاکرات اس لیے متاثر ہوئے ہیں کیونکہ “امریکی تجارتی ٹیم کی 100 فیصد توجہ چین پر ہے”۔ اس طرح کی بے بنیاد بیان بازی اور یوں قربانی کا بکرا تلاش کرنا بین الاقوامی معاملات سے نمٹنے میں امریکہ کی غیر ذمہ داری اور غیر معقول طرز عمل کو پوری طرح بے نقاب کرتا ہے۔ درحقیقت جب سے موجودہ امریکی انتظامیہ نے اقتدار سنبھالا، اس کی ساکھ کو فری فال کی طرح نقصان پہنچا ہے۔
یہ ٹرمپ انتظامیہ کے بیانات اور پالیسیوں میں مسلسل تبدیلیوں کا ناگزیر نتیجہ ہے۔ امریکی کمپنی “مارننگ کنسلٹ” کے تازہ ترین پولنگ اعداد و شمار کے مطابق ٹرمپ کے عہدہ سنبھالنے کے بعد امریکہ کی ساکھ میں تیزی سے گراوٹ آئی ہے۔ مئی کے آخر تک عالمی سطح پر امریکی پسندیدگی منفی سطح پر پہنچ چکی تھی۔ امریکہ کے بارے میں عالمی تصورات خراب ہوئے ہیں جس سے امریکی کمپنیوں کے بیرون ملک تجارت اور سرمایہ کاری کے مواقع بھی کم ہو سکتے ہیں ۔ امریکہ کے اندر بدلتی ہوئی پالیسیوں نے سب سے پہلے سپلائر کی فیصلہ سازی اور منافع کو متاثر کیا ہے۔ اسٹوڈنٹ ویزا پالیسی امریکی معیشت اور کلیدی شعبوں میں تحقیقی صلاحیتوں پر بھی گہرا اثر مرتب کرے گی، جبکہ ہائی ٹیک کمپنیاں امریکی حکومت کے سخت برآمدی کنٹرول کے تحت اپنا راستہ تلاش کر رہی ہیں کیونکہ وہ چینی مارکیٹ کو چھوڑنے کی متحمل نہیں ہو سکتیں۔ اطلاعات کے مطابق امریکی چپ کمپنی این ویڈیا چینی مارکیٹ کے لیے ایک نئی مصنوعی ذہانت کی چپ ڈیزائن کر رہی ہے جو امریکی ایکسپورٹ کنٹرول کی ضروریات کو پورا کرتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق چینی مارکیٹ کے بغیر این ویڈیا کا رواں سال کا ریونیو ہدف حاصل کرنا مشکل ہوگا اور عالمی چپ مارکیٹ میں اس کی غالب حیثیت بھی متزلزل ہو جائے گی۔ اب چین کی جانب دیکھیں تو چین کھلےپن کے راستے پر ثابت قدم ہے۔
کھلے پن کے دائرہ کار کی توسیع سے لے کر غیر ملکی کاروباری اداروں کو نیشنل ٹریٹمنٹ کی ضمانت ، دانشورانہ ملکیت کے حقوق کے تحفظ سے لے کر سروس گارنٹی کی مضبوطی تک، چین نے تمام پہلوؤں پر غیر ملکی سرمایہ کاری کے لئے قابل اعتماد اور پرکشش کاروباری ماحول فراہم کیا ہے.
حالیہ دنوں یہ فورم دوسری بار چین میں منعقد ہوا۔ صرف ایک سال بعد، فورم میں شریک غیر ملکی مندوبین کی تعداد تقریباً دوگنی دیکھی گئی ۔اس فورم میں شریک بیشتر یورپی کمپنیوں کے سربراہان کا یہ خیال تھا کہ چینی مارکیٹ کو کھونا دنیا میں ایک اہم پوزیشن کھو دینے کے مترادف ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عالمی معاشی ترقی کے طویل سفر میں، ایک “ساتھی ” جو اپنی بات پر عمل کرتا ہے،وہ کسی “ٹریڈنگ آرٹسٹ” ،جو کہے کچھ اور کرے کچھ ، کے مقابلے میں کہیں زیادہ مقبول ہے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرآئی ایم ایف؛ منقولہ اثاثوں پر کیپٹل ویلیو ٹیکس کی تجویز مسترد، ڈیجیٹل سروسز پر ٹیکس کی اجازت پاکستان اسٹاک مارکیٹ نے کھلتے ہی نئی تاریخ رقم کردی رواں مالی سال تنخواہ دار طبقے کی طرف سے سب سے زیادہ ٹیکس ادا کرنے کا انکشاف وفاقی بجٹ 2025-26کی تیاریاں مکمل، قومی اسمبلی اور سینیٹ کے بجٹ اجلاس طلب تنخواہ دار طبقے کے لیے انکم ٹیکس ریلیف میں اہم پیشرفت، آئی ایم ایف شرح کم کرنے پر آمادہ پیٹرولیم مصنوعات پر کاربن لیوی عائد کیے جانے کا امکان، مہنگائی کا طوفان آنے کا خدشہ ہم ویزا فری ممالک کے دائرے کو وسعت دیتے رہیں گے، چینی وزارت خارجہذریعہ: Daily Sub News
پڑھیں:
ملکی تاریخ میں پہلی بار ’’فری انرجی مارکیٹ پالیسی‘‘کے نفاذکااعلان
اسلام آباد: وفاقی وزیر توانائی سردار اویس احمد خان لغاری نے اعلان کیا ہے کہ ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ “فری انرجی مارکیٹ پالیسی” آئندہ دو ماہ میں حتمی نفاذ کے مرحلے میں داخل ہو جائے گی، جس کے بعد حکومت کی جانب سے بجلی کی خریداری کا عمل مستقل طور پر ختم کر دیا جائے گا۔
یہ بات انہوں نے عالمی بینک کے اعلیٰ سطحی وفد سے ملاقات کے دوران کہی، جس کی قیادت عالمی بینک کے ریجنل نائب صدر برائے مشرق وسطیٰ، شمالی افریقہ، افغانستان و پاکستان، جناب عثمان ڈیون (Ousmane Dione) کر رہے تھے۔
وزیر توانائی نے بتایا کہ نئے ماڈل CTBCM (Competitive Trading Bilateral Contract Market) کے تحت ملک میں بجلی کی آزادانہ تجارت ممکن ہو سکے گی، جس میں “وِیلنگ چارجز” اور دیگر ضروری میکانزم شامل کیے جا رہے ہیں۔ اس نظام کے تحت حکومت کا کردار صرف ریگولیٹری فریم ورک تک محدود کر دیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ اس منتقلی کا عمل بتدریج اور جامع حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھایا جائے گا تاکہ بجلی کے نظام میں استحکام برقرار رکھا جا سکے۔
ملاقات کے دوران سردار اویس لغاری نے عالمی بینک کے وفد کو حکومت کی جاری توانائی اصلاحات، نیٹ میٹرنگ پالیسی، نجکاری اقدامات، ریگولیٹری بہتری اور سرمایہ کاری کے مواقع سے آگاہ کیا۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ حکومت کی پالیسی کا جھکاؤ واضح طور پر نجی شعبے کے فروغ اور شفافیت کی جانب ہے اور حکومت چاہتی ہے کہ بین الاقوامی سرمایہ کار اس تبدیلی میں بھرپور کردار ادا کریں۔
عالمی بینک کے نائب صدر عثمان ڈیون نے پاکستان کے توانائی شعبے میں جاری اصلاحات کو قابلِ تحسین قرار دیا اور کہا کہ توانائی کسی بھی ملک کی معاشی ترقی کی بنیاد ہے، اسی لیے عالمی بینک اس شعبے میں پاکستان کے ساتھ اپنی شراکت داری جاری رکھے گا۔
انہوں نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ عالمی بینک پاکستان کے لیے ایک پائیدار، قابل اعتماد اور سرمایہ کاری کے لیے موزوں توانائی نظام کی تشکیل میں بھرپور تعاون فراہم کرے گا۔
آخر میں وفاقی وزیر نے عالمی بینک کے وفد کو توانائی اصلاحات پر مبنی جامع کتابچہ بھی پیش کیا اور امید ظاہر کی کہ موجودہ شراکت داری مستقبل میں مزید مستحکم ہو گی۔
صارفین کے لیے “فری انرجی مارکیٹ” کے ممکنہ فوائد:
صارفین کو مختلف بجلی فراہم کنندگان میں سے مسابقتی نرخوں پر بجلی خریدنے کی آزادی ہوگی۔
مارکیٹ میں مسابقت بڑھنے سے بجلی کی قیمتوں میں کمی آنے کا امکان ہے۔
نجی کمپنیاں بہتر سروس فراہم کرنے کے لیے ایک دوسرے سے مقابلہ کریں گی، جس سے کسٹمر سروس، بلنگ کا نظام اور شکایات کے ازالے میں بہتری آئے گی۔
صنعتیں اپنی ضروریات اور استعمال کے مطابق سستا اور مستحکم توانائی معاہدہ کر سکیں گی، جو برآمدات اور پیداواری لاگت پر مثبت اثر ڈالے گا۔
صارفین سولر، ونڈ یا دیگر گرین انرجی ذرائع سے بجلی خریدنے کے آپشنز کو ترجیح دے سکیں گے، جس سے ماحول دوست توانائی کو فروغ ملے گا۔
جن گھریلو یا صنعتی صارفین کے پاس سولر پینل نصب ہوں گے، وہ بجلی فروخت بھی کر سکیں گے، جس سے آمدن حاصل کی جا سکتی ہے۔
جب حکومت بجلی خریدنا بند کرے گی، تو اس پر موجود گردشی قرضوں (circular debt) کا دباؤ کم ہوگا، جس کا بالآخر فائدہ صارفین کو مستحکم نظام کی صورت میں ملے گا۔