اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 04 جون2025ء) وزیراعظم محمد شہباز شریف نے ریلوے کو جدید بنیادوں پر ترقی دینے کو قومی پالیسی کا اہم جزو قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ملکی معاشی اور صنعتی ترقی کے لئے ملک بھر کے ریلوے انفراسٹرکچر کی پائیدار بنیادوں پر تعمیر نو کرنے کی ضرورت ہے ، وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ تجارتی روابط بڑھانے کے لئے ریلوے اپنے نیٹ ورک کو وسیع کرنے کے حوالے سے حکمت عملی ترتیب دے۔

وزیر اعظم آفس کے میڈیا ونگ کی طرف سے جاری بیان کے مطابق وزیر اعظم نے ان خیالات کا اظہار بدھ کو اپنی زیر صدارت پاکستان ریلویز سے متعلق امور پر اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ریلوے نظام کسی بھی ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے،ملکی معاشی اور صنعتی ترقی کے لئے ملک بھر کے ریلوے انفراسٹرکچر کی پائیدار بنیادوں پر تعمیر نو کرنے کی ضرورت ہے، علاقائی تجارت و روابط کے لئے ریلوے کو جدید بنیادوں پر ترقی دینا قومی پالیسی کا اہم جز ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے ہدایت کی کہ وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ تجارتی روابط بڑھانے کے لئے ریلوے کو اپنا نیٹ ورک کو وسیع کرنے کے حوالے سے حکمت عملی ترتیب دی جائے۔وزیر اعظم نے گوادر کو پاکستان ریلویز نیٹ ورک سے منسلک کرنے کا کام تیز تر کرنے کی بھی ہدایت کی ۔ وفاقی وزیر ریلوے حنیف عباسی نے وزیر اعظم کو پاکستان ریلویز میں جاری اصلاحات پر بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ پاکستان ریلویز میں مزید سرمایہ کاری کی بے پناہ استطاعت ہے، بڑے اور اہم ریلوے سٹیشنز پر جدید انفارمیشن ڈیسک بنائے جا رہے ہیں، لاہور، راولپنڈی اور ملتان کے ریلوے سٹیشنز پر صفائی ستھرائی کا نظام آؤٹ سورس کیا گیا ہے،ٹرینز اور ریلوے سٹیشنز میں فراہم کی جارہی خوراک کی نگرانی کے حوالے سے ریلویز اور صوبائی فوڈ اتھارٹیز مل کر کام کر رہی ہیں۔

بریفنگ میں بتایا گیا کہ عوام کی سہولت کے لئے عرصہ دراز سے بند سروسز کا دوبارہ آغاز کیا گیا ہے، بولان میل کو حال ہی میں روزانہ سروس کی بنیاد پر شروع کیا گیا ہے جبکہ ڈیرہ غازی خان اور خوشحال خان خٹک ایکسپریس کو بھی بحال کیا گیا ہے، ریلوے کی سکھر، خانیوال اور کوہاٹ میں موجود کنکریٹ سلیپر فیکٹریز کو آؤٹ سورس کیا جا رہا ہے۔ وزیر اعظم کو بتایا گیا کہ کراچی، لاہور، پشاور، کوئٹہ، ملتان اور سکھر میں موجود ریلوے کے ہسپتالوں، سکولوں، کالجوں اور ریسٹ ہاؤسز کو ریونیو شئیرنگ کی بنیاد پر آؤٹ سورس کیا جا رہا ہے، رائل پام گالف اینڈ کنٹری کلب لاہور کو نیلام کیا جا رہا ہے جہاں پر فائیو سٹار ہوٹل قائم ہونے کی تمام تر استطاعت موجود ہے ۔

بریفنگ میں بتایا گیا کہ ریلویز کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے حوالے سے ڈیجیٹائزیشن کا کام تیزی سے کیا جا رہا ہے، ریلوے کے آئی ٹی ڈائریکٹوریٹ کی ری اسٹرکچرنگ کا کام تیزی سے جاری ہے، ٹرینز میں مفت وائی فائی سروسز فراہم کی جارہی ہیں ، رابطہ موبائل فون ایپلی کیشن کو بھی جدید بنایا جا رہا ہے جس کے تحت ٹرین ٹکٹس بک کئے جا سکیں گے۔ اس کے علاوہ 155 ریلوے سٹیشنز کو شمسی توانائی پر منتقل کیا جا رہا ہے جس سے حکومت کو کئی ملین روپے کی بچت ہوگی، رائٹ سائزنگ پالیسی کی تحت 17101 آسامیاں ختم کی گئی ہیں جبکہ مزید 5695 آسامیاں مستقبل میں ختم کی جائیں گی، بریفنگ کے مطابق پاکستان ریلویز ایڈوائزری اینڈ کنسلٹنسی سروسز، ریل کاپ، پاکستان ریلویز فریٹ ٹرانسپورٹ کمپنی اور پراجیکٹ امپلی منٹیشن یونٹ ختم کر دیئے گئے، 10 ارب روپے کی مالیت کی ریلوے کی زمین واگزار کرائی جا چکی ہے، حکومت پنجاب کے ساتھ مل کر لاہور سے راولپنڈی کے درمیان ہائی سپیڈ ٹرین سروس ، لاہور اور راولپنڈی سٹیشنز کی اپ گریڈیشن اور ریلوے کی پنجاب میں موجود آٹھ برانچ لائنز پر سب اربن ٹرین سروسز کے منصوبوں پر کام کیا جا رہا ہے۔

بریفنگ میں بتایا گیا کہ شاہدرہ باغ سے کوٹ لکھپت تک ریلوے لائن کے دونوں اطراف گرین بیلٹ بنائی جائے گی جبکہ مین لائنز کے دونوں اطراف پنجاب کے محکمہ جنگلات کے تعاون سے پھل دار درخت لگائے جائیں گے، حکومت بلوچستان کے ساتھ مل کر سریاب-کچلاک اور کوئٹہ-چمن ریلوے لائنز سیکشنز کو اپ گریڈ کیا جائے گا۔بیان کے مطابق وزیراعظم نے پاکستان ریلویز میں جاری اصلاحات اور نئے منصوبوں کی رفتار پر وفاقی وزیر ریلوے حنیف عباسی کو شاباش دی ۔ اجلاس میں وفاقی وزیر ریلوے حنیف عباسی ، وزیراعظم کے مشیر ڈاکٹر توقیر شاہ ، وزیر مملکت برائے ریلوے بلال اظہر کیانی اور متعلقہ اعلیٰ سرکاری افسران نے شرکت کی۔\932.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے پاکستان ریلویز کیا جا رہا ہے ریلوے سٹیشنز کے لئے ریلوے بتایا گیا کہ کے حوالے سے بنیادوں پر کیا گیا ہے کرنے کی کے ساتھ نیٹ ورک

پڑھیں:

ایران کا پاکستان کیساتھ توانائی کے شعبے میں تعاون بڑھانے کا ارادہ خطے میں بڑی تبدیلی ہے، محمد مہدی

ماہرِ امور خارجہ کا پنجاب یونیورسٹی میں منعقدہ سیمینار سے خطاب میں کہنا تھا کہ حالیہ ایران، اسرائیل جنگ کے بعد ایران اور پاکستان کے تعلقات میں بہتری آئی ہے، تاہم ایران سے توانائی کے منصوبے جیسے پاکستان ایران گیس پائپ لائن اور تاپی پائپ لائن عالمی پابندیوں کی وجہ سے مشکل کا شکار ہیں۔ ایران کیساتھ توانائی کے تعاون کے حوالے سے پاکستان کو واضح مشکلات کا سامنا ہے، مگر اس کے باوجود دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری کی امید ہے۔ اسلام ٹائمز۔ ماہرخارجہ امور محمد مہدی نے کہا کہ مئی کے حالیہ واقعات نے جنوبی ایشیاء کی سلامتی کے تصورات کو ہلا کر رکھ دیا ہے، یہ تصور کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ایٹمی جنگ کا امکان معدوم ہوچکا ہے، اب ماضی کا حصہ بن چکا ہے اور روایتی جنگ میں بالادستی کا تصور بھی اب ختم ہو چکا ہے، بھارت کی بی جے پی حکومت سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے پاکستان سے مذاکرات پر آمادہ نہیں۔ سائوتھ ایشین نیٹ ورک فار پبلک ایڈمنسٹریشن کے زیر اہتمام ''جنوبی ایشیائی ممالک اور بدلتی ہوئی جغرافیائی سیاسی صورتحال'' کے موضوع پر پنجاب یونیورسٹی میں منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے محمد مہدی نے کہا کہ 1998 میں بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان کے جوابی دھماکوں کے نتیجے میں دونوں ممالک نے امن کی اہمیت کو سمجھا تھا، مگر مئی کے واقعات نے ثابت کیا کہ خطے کی دو ایٹمی طاقتوں کے مابین کشیدگی کسی بھی وقت بڑھ سکتی ہے۔
 
انہوں نے کہا کہ بھارت اور پاکستان کے موجودہ تعلقات میں تناؤ کی وجہ سے سارک اور دیگر علاقائی ڈائیلاگ کے امکانات مفقود ہوچکے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جنوبی ایشیاء میں بیروزگاری اور معاشی عدم استحکام کا مسئلہ سنگین ہوچکا ہے، بنگلا دیش میں طلباء کی تحریک اسی صورتحال کا نتیجہ ہے، جب نوجوانوں کو روزگار کے مواقع نہیں ملتے تو ان کے ردعمل کے طور پر اس قسم کی تحریکیں ابھرتی ہیں۔ انہوں نے امریکہ میں صدر ٹرمپ کی کامیابی کو اس تناظر میں بیان کرتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ نے امریکہ میں بڑھتے ہوئے معاشی مسائل کو حل کیا جو ان کی سیاسی کامیابی کی وجہ بنی۔ محمد مہدی نے کہا کہ جنوبی ایشیاء کے ممالک میں بیروزگاری کا بحران تو ہر جگہ موجود ہے، مگر ہر ملک اپنے اپنے طریقے سے اس کا سامنا کر رہا ہے، بنگلا دیش میں طلباء کی بے چینی اور تحریک اسی صورت حال کا آئینہ دار ہے۔
 
انہوں نے کہا کہ اگرچہ بنگلا دیش کی تعلیمی سطح خطے کے کچھ دیگر ممالک سے بہتر سمجھی جاتی ہے مگر وہاں کے معاشی مسائل نے عوام کو احتجاج پر مجبور کیا۔ دوسری جانب افغانستان، سری لنکا اور مالدیپ جیسے ممالک میں مختلف نوعیت کے مسائل ہیں، جہاں بے روزگاری کی نوعیت اور شدت مختلف ہے، اس لیے ان ممالک میں بنگلا دیش جیسے حالات کا پیدا ہونا کم امکان ہے۔ انہوں نے ایران اور پاکستان کے تعلقات پر بھی روشنی ڈالی اور کہا کہ حالیہ ایران، اسرائیل جنگ کے بعد ایران اور پاکستان کے تعلقات میں بہتری آئی ہے، تاہم ایران سے توانائی کے منصوبے جیسے پاکستان ایران گیس پائپ لائن اور تاپی پائپ لائن عالمی پابندیوں کی وجہ سے مشکل کا شکار ہیں۔ ایران کیساتھ توانائی کے تعاون کے حوالے سے پاکستان کو واضح مشکلات کا سامنا ہے، مگر اس کے باوجود دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری کی امید ہے۔
 
محمد مہدی نے کہا کہ ایران کا بھارت کیساتھ تعلقات میں بھی سردمہری آئی ہے، خاص طور پر جب بھارت نے ایران کیساتھ تعلقات میں تذبذب کا مظاہرہ کیا تو ایران نے بھارت کے رویے کے حوالے سے مایوسی کا اظہار کیا۔ ایران کا پاکستان کیساتھ توانائی کے شعبے میں تعاون بڑھانے کا ارادہ خطے میں ایک اہم تبدیلی کو ظاہر کرتا ہے۔ محمد مہدی نے مزید کہا کہ جنوبی ایشیاء میں پائیدار علاقائی تعاون کا قیام اس وقت تک ممکن نہیں جب تک پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعات، بالخصوص مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوتے۔ خطے کی بیوروکریسی اور حکومتی سطح پر اصلاحات تب تک ممکن نہیں جب تک جنوبی ایشیاء کے ممالک ایک دوسرے کیساتھ امن و تعاون کے راستے پر نہیں چلتے، اگر یہ ممالک ایک دوسرے کیساتھ بڑھتے ہوئے تنازعات اور محاذ آرائی کی بجائے ایک دوسرے کیساتھ اقتصادی اور سیاسی تعاون کی سمت میں قدم بڑھائیں تو خطے میں ترقی اور استحکام ممکن ہو سکتا ہے۔
 
محمد مہدی نے اس بات پر زور دیا کہ جنوبی ایشیاء کے ممالک کو اپنے اندرونی مسائل حل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ خطے کی عوام کے درمیان بے چینی اور تناؤ کو کم کیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک گڈ گورننس، شفاف میرٹ اور بہتر معاشی ماڈلز پر عمل نہیں کیا جاتا اس وقت تک اس خطے میں پائیدار امن اور ترقی کا خواب دیکھنا محض ایک خام خیالی بن کر رہ جائے گا۔ ڈاکٹر میزان الرحمان سیکرٹری پبلک ایڈمنسٹریشن و  جنوبی ایشیائی نیٹ ورک سیکرٹری حکومت بنگلہ دیش نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سکیورٹی اور سیاسی چیلنجوں کو نظرانداز کرتے ہوئے، موسمیاتی تبدیلی، توانائی، اورغربت کے خاتمے جیسے مسائل کو حل کرنا ضروری ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر رابعہ اختر، ڈین فیکلٹی آف سوشل سائنسز نے کہا کہ مئی 2025 کا بحران صرف ایک فلیش پوائنٹ نہیں تھا، بلکہ یہ اس بات کا مظہر تھا کہ پلوامہ بالاکوٹ 2019 کے بعد سے پاکستان کی کرائسس گورننس کی صلاحیت کتنی بڑھی ہے۔ 2019 میں، ہم ردعمل کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ 2025 میں، ہم تیار تھے۔ اس موقع پر پنجاب یونیورسٹی کے ڈاکٹر امجد مگسی اور بنگلہ دیش کی حکومت کے ریٹائرڈ سیکرٹری تعلیم ڈاکٹر شریف العالم نے بھی خطاب کیا۔

متعلقہ مضامین

  • افغانستان، پاکستان اور ایران سمیت وسطی ایشیائی ممالک زلزلے سے لرز اٹھے
  • نیشنل لیبر فیڈریشن خیبر پختونخوا وسطی کا اجلاس
  • نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار کل استنبول کا دورہ کریں گے
  • کینیڈا اور فلپائن کا دفاعی معاہدہ، چین کو روکنے کی نئی حکمتِ عملی
  • ایران کا پاکستان کیساتھ توانائی کے شعبے میں تعاون بڑھانے کا ارادہ خطے میں بڑی تبدیلی ہے، محمد مہدی
  • چترال: وزیراعظم شہبازشریف دانش اسکول کا سنگ بنیاد رکھنے کے بعد دعا کررہے ہیں
  • اسحاق ڈار کا کینیڈین ہم منصب سے رابطہ، تجارت و سرمایہ کاری بڑھانے پر اتفاق
  • 11 ٹرینوں کی اوپن نیلامی، پاکستان ریلوے کا بڑا فیصلہ
  • اسحاق ڈار کی زیر صدارت اجلاس، برآمدات بڑھانے کیلئے اقتصادی سفارتکاری پر زور 
  • وزیر خزانہ کی ڈچ سفیر سے ملاقات: پاکستان، نیدر لینڈز کا تجارت و سرمایہ کاری میں تعاون بڑھانے پر اتفاق