امریکا حقیقت پسندانہ شراکت کیلئے پاکستان کے جغرافیائی مفادات تسلیم کرلے ،تھنک ٹینک کامشورہ
اشاعت کی تاریخ: 4th, June 2025 GMT
واشنگٹن: امریکی تھنک ٹینک کا اپنی ایک رپورٹ میں کہنا ہےکہ امریکا اگر پاکستان کے جغرافیائی مفادات کو تسلیم کر لے تو دونوں ممالک حقیقت پسندانہ شراکت داری قائم کرسکتے ہیں۔
امریکی تھنک ٹینک ہڈسن انسٹی ٹیوٹ نے ماہرین کی آرا پر مشتمل ایک پالیسی رپورٹ تیار کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کے ساتھ امریکی رابطے برقرار رکھنا کیوں اور کتنے ضروری ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے دوسرے دورِ صدارت میں زیادہ حقیقت پسندانہ خارجہ پالیسی اپنانے کا اشارہ دیا، ایک ایسی پالیسی جو اُن ممالک کے ساتھ بھی تعلقات برقرار رکھے جن کے نظریات اُن سے مختلف ہیں۔
ہڈسن انسٹی ٹیوٹ کے مطابق پاک امریکا تعلقات میں بہتری ممکن ہے بشرط یہ کہ دونوں ممالک نظریاتی اختلافات کے بجائے مشترکہ مفادات پر توجہ دیں۔ امریکی حلقے پاکستان پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ امریکی امداد تو لیتا ہے مگر بھارت اور افغانستان کے حوالے سے امریکی ترجیحات کو نظرانداز کرتا ہے جبکہ پاکستان کو شکایت ہے کہ واشنگٹن اس کے علاقائی مفادات کو نظرانداز کر کے غیر مشروط حمایت مانگتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق سابق امریکی حکومتوں کے برعکس ٹرمپ انتظامیہ نے تسلیم کیا ہے کہ کسی ملک کی جغرافیائی حیثیت اس کی اسٹریٹیجک حکمت عملی پر اثر ڈالتی ہے اور پاکستان اپنی سکیورٹی کے تناظر میں بھارت اور افغانستان کو اہم سمجھتا ہے، اس لیے ہڈسن انسٹیٹیوٹ کی رپورٹ کے مطابق اُس کا نقطہ نظر واشنگٹن سے مختلف ہو سکتا ہے۔
امریکی تھنک ٹینک کا کہنا ہے کہ امریکا اگر پاکستان کے جغرافیائی مفادات کو تسلیم کر لے تو دونوں ممالک حقیقت پسندانہ شراکت داری قائم کر سکتے ہیں، اس سے امریکا کو پاکستان میں جمہوری اقدار کے فروغ اور دہشت گردی کے خلاف جواب طلبی میں مدد ملے گی۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان دیگر ایشیائی ممالک کی طرح امریکا اور چین کے تنازع میں غیرجانبدار رہنا چاہتا ہے پھر بھی کاروباری اور فوجی حلقے امریکا کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہیں۔
اس لیے ہڈسن رپورٹ کی رائے میں واشنگٹن اور اسلام آباد باہمی دلچسپی کے معاملات میں حقیقت پسندانہ شراکت داری کی بنیاد رکھیں، مثلاً انسداد دہشت گردی جیسے شعبوں میں دونوں کے مفادات مشترک ہیں اور اگرچہ بھارت پر دونوں کا مؤقف مختلف ہے پھر بھی پاک بھارت کشیدگی کسی کے مفاد میں نہیں۔
رپورٹ کے مطابق امریکا اور پاکستان کا چین پر بھی نقطۂ نظر مختلف ہے لیکن واشنگٹن کے لیے یہ ضروری ہے کہ اسلام آباد کو بیجنگ پر حد سے زیادہ انحصار کرنے سے روکے، امریکہ کو چاہیے کہ وہ پاکستان پر اثرانداز ہونے کے لیے امداد یا سرزنش کے بجائے تجارتی اور سماجی ذرائع استعمال کرے جبکہ پاکستان کو بھی ماننا چاہیے کہ وہ اگرچہ خطے میں امریکا کا سب سے اہم اتحادی نہیں رہا لیکن پھر بھی ایک اہم شراکت دار بن سکتا ہے۔
امریکی تھنک کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ پاک بھارت جنگ کے دوران دو ایٹمی طاقتیں آمنے سامنے آئیں جس کے بعد امریکا نے مداخلت کی اور انھیں جنگ بندی پر مجبور کیا۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: حقیقت پسندانہ شراکت امریکی تھنک کہ پاکستان پاکستان کے رپورٹ میں تھنک ٹینک کے مطابق
پڑھیں:
امارات،سنگاپوراور ناروے اے آئی کے استعمال میں نمایاں، پاکستان بہت پیچھے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی: سنگاپور،ناروے، متحدہ عرب امارات، نے آرٹیفیشل انٹیلیجنس (AI) کے عالمی استعمال میں نمایاں برتری حاصل کر لی ہے۔ جبکہ پاکستان اس دوڑ میں کافی پیچھے ہے جہاں آبادی کا صرف ایک محدود حصہ روزمرہ زندگی میں اے آئی ٹولز استعمال کر رہا ہے۔
رپورٹ میں 170 ممالک میں آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے فروغ، اس کے استعمال اور سرکاری و نجی شعبوں میں اس کے انضمام کا تفصیلی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ جس کے مطابقمتحدہ عرب امارات اور سنگاپور میں کام کرنے والے 50 فیصد سے زائد افراد باقاعدگی سے آرٹیفیشل انٹیلیجنس استعمال کر رہے ہیں، جس سے یہ دونوں ممالک عالمی درجہ بندی میں سرِفہرست قرار پائے ہیں۔جبکہ پاکستان میں اے آئی کا استعمال 15 فیصد سے بھی کم ہے، جہاں بیشتر افراد اب تک آرٹیفیشل انٹیلیجنس کام یا تعلیم کے لیے استعمال نہیں کر رہے۔یہ انکشاف مائیکروسافٹ کے اے آئی اکنامی انسٹیٹیوٹ کی نئی رپورٹ ’اے آئی ڈیفیوشن رپورٹ 2025ء‘ میں کیا گیا ہے۔
ماہرین کے مطابق پاکستان میں آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے فروغ میں سست رفتاری کی بنیادی وجوہات انٹرنیٹ کی محدود رسائی، ڈیجیٹل مہارتوں کی کمی اور پاکستان کی علاقائی زبانوں میں اے آئی ٹولز کی عدم دستیابی ہیں۔ جن ممالک میں لوگ اپنی زبان، جیسے انگریزی یا عربی میں اے آئی استعمال کر سکتے ہیں، وہاں اس کا استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے۔
مسلم ممالک میں متحدہ عرب امارات سب سے آگے ہے، اس کے بعد سعودی عرب، ملائشیا، قطر اور انڈونیشیا نمایاں ہیں، جو آرٹیفیشل انٹیلجنس کی تعلیم، ڈیٹا سینٹرز اور حکومتی پروگرامز میں بھاری سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق اسرائیل بھی اُن 7 ممالک میں شامل ہے جو جدید آرٹیفیشل انٹیلجنس ماڈلز تیار کر رہے ہیں، اسرائیل ساتویں نمبر پر ہے جبکہ امریکا، چین، جنوبی کوریا، فرانس، برطانیہ اور کینیڈا اس فہرست میں اس سے آگے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ پاکستان ابھی آرٹیفیشل انٹیلجنس تیار کرنے والے ممالک میں شامل نہیں، تاہم بہتر ڈیجیٹل تعلیم، انٹرنیٹ سہولتوں اور مہارتوں کے فروغ کے ذریعے وہ اس میدان میں اپنی پوزیشن بہتر بنا سکتا ہے۔ تجویز کیاگیاہے کہ امیر اور غریب ممالک کے درمیان بڑھتے ہوئے اے آئی کے فرق کو کم کیا جائے تاکہ تمام اقوام اس جدید ٹیکنالوجی کے فوائد سے یکساں طور پر مستفید ہو سکیں۔