زرعی ٹیکس کی وصولی سمیت بجٹ شرائط پر سختی سے عملدرآمد کیا جائے: آئی ایم ایف
اشاعت کی تاریخ: 6th, June 2025 GMT
اسلام آباد (آئی این پی)عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف)نے بجٹ کے حتمی مشاورتی مراحل میں پروگرام کی شرائط پر سختی سے عمل درآمد کا مطالبہ کیا ہے، جس میں زرعی آمدنی پر ٹیکس کی صوبائی بجٹ میں شمولیت بھی شامل ہے، تاکہ اس کی موثر وصولی ستمبر 2025 سے پہلے شروع کی جا سکے۔ رپورٹ کے مطابق آئی ایم ایف نے وفاقی حکومت کے اضافی بجلی کی گنجائش کو استعمال کرنے کے لیے بجلی کے استعمال میں اضافے کی حوصلہ افزائی کے منصوبے سے بھی اتفاق نہیں کیا۔ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف صوبوں سے اخراجات پر کنٹرول کے لیے مضبوط وعدہ چاہتا ہے، حالاں کہ صوبوں نے ترقیاتی منصوبوں میں توسیع کی تجاویز دی ہیں، جنہیں نیشنل اکنامک کونسل (این ای سی)نے منظور بھی کر لیا ہے، چاروں صوبے اگلے سال کے لیے آئی ایم ایف کے اندازوں سے تقریبا 850 ارب روپے زیادہ ترقیاتی اخراجات مختص کر چکے ہیں۔دوسری جانب مرکز کی محصولات میں کمی کی وجہ سے صوبے اس سال بجٹ سرپلس فراہم کرنے کے وعدے کو پورا کرنے کے قابل نہیں ہوں گے، اور آئندہ مالی سال کے لیے اپنے حصص کو زیادہ سے زیادہ مختص کر رہے ہیں، تاکہ نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) کے آئندہ اجلاس سے پہلے اپنے مالی حقوق سے محروم نہ ہو جائیں۔آئی ایم ایف زرعی آمدنی پر مکمل عملدرآمد اور متعلقہ خدمات کا بھی خواہاں ہے، جس پر ابھی تک وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں اتفاق نہیں ہو سکا، کیوں کہ مرکز کا ماننا ہے کہ کارپوریٹ زراعت اس کے دائرہ اختیار میں آتی ہے۔ذرائع کے مطابق حکام نے 7 ہزار میگاواٹ اضافی بجلی کو کم قیمت پر بیچنے کی اجازت حاصل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی، جس میں کسی سبسڈی کی گنجائش نہیں تھی، لیکن آئی ایم ایف کا ماننا ہے کہ اس قسم کے معاشی بگاڑ، بشمول ٹیکسیشن، مراعات، اور الائونسز نے ملک کو مشکلات میں ڈالا ہے۔حکومت کا خیال ہے کہ اضافی بجلی کو اگر نئے صارفین اور صنعتی شعبوں کو بیچنے کی اجازت دی جائے تو یہ معاشی سرگرمیوں کو فروغ دے سکتی ہے، چاہے منافع کے بغیر ہی کیوں نہ ہو، مگر آئی ایم ایف اسے ان صارفین کے ساتھ ناانصافی سمجھتا ہے جو پہلے ہی بھاری نرخ ادا کر رہے ہیں۔یہ بھی غیر منصفانہ تصور کیا گیا کہ پرانے صنعتی یونٹس جو زیادہ پیداواری لاگت پر چل رہے ہیں، وہ ان نئی صنعتوں سے مقابلہ کریں، جو سستی بجلی پر چل رہی ہوں، حکومت کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ بجلی کے شعبے میں استحکام کے لیے لاگت میں کمی کی کوششیں جاری رکھے اور تمام صارفین کے لیے مساوی مواقع فراہم کرے۔اس سلسلے میں یہ واضح نہیں ہے کہ حکومت کا کرپٹو مائننگ کے لیے 2 ہزار میگاواٹ بجلی 3 سے 4 سینٹ فی یونٹ (یعنی 8-9 روپے) پر دینے کا منصوبہ کامیاب ہوسکے گا یا نہیں، کیوں کہ بنیادی نرخ 24 سے 25 روپے فی یونٹ ہیں۔آئی ایم ایف نے صوبوں کی جانب سے دی گئی بجلی اور گیس پر سبسڈی کی بھی مخالفت کی ہے، جیسا کہ رواں سال پنجاب نے یہ سبسڈی دی تھی، اور آئندہ سال بھی دہرانے کا ارادہ رکھتا ہے۔اس کے علاوہ آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ بجلی، گیس چوری اور اسمگلنگ کے خلاف مشترکہ حکمتِ عملی اختیار کی جائے، تاکہ مالی اور ٹیکس نقصان کم کیا جا سکے، اس حوالے سے، آئندہ سال صوبوں کو بھی اپنے محکموں میں کمی کرنا ہو گی تاکہ وہ وفاق کی اس سال کی جانے والی مشق کی حمایت کر سکیں۔اگلے سال کے لیے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کا ٹیکس ہدف تقریبا 14 ہزار 200 ارب روپے پر قائم رہے گا، جیسا کہ چند ماہ قبل توسیعی فنڈ پروگرام کے پہلے جائزے میں طے پایا تھا، دیگر زیادہ تر اندازے بھی وہی رہیں گے۔تنخواہ دار طبقے کے لیے معمولی ٹیکس رعایت دی جائے گی، لیکن خوردہ شعبے سے وصولیوں پر زیادہ توجہ دی جائے گی، آئندہ سال کے بجٹ کا بنیادی موضوع ڈیجیٹائزیشن ہوگا، اور نقد و ڈیجیٹل لین دین کے لیے مختلف ٹیکس اور شرحیں لاگو کی جائیں گی۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: ا ئی ایم ایف کے لیے سال کے
پڑھیں:
مستقبل میں پروٹیکٹڈ صارفین کی کٹیگری ختم ‘ بے نظرانکم سپورٹ پروگرام پر تعین کیلا جائیگا ِ سکر ٹر یک پاور
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) سیکرٹری پاور ڈویژن نے بجلی کے پروٹیکٹڈ صارفین کی کیٹیگری کو ختم کرنے کی خبروں کی تصدیق کر دی۔ قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس چیئرمین جنید اکبر کی زیر صدارت ہوا جس دوران سیکرٹری پاور ڈویژن نے بریفنگ دی۔ سیکرٹری پاور ڈویژن نے بتایا کہ پاکستان کے 58 فیصد صارفین 200 یونٹ استعمال کرنے والے ہیں جنہیں حکومت بجلی کے بل میں 60 فیصد تک سبسڈی دیتی ہے، گزشتہ چند سالوں میں پروٹیکٹڈ صارفین کی تعداد میں 50 لاکھ کا اضافہ ہوا۔ حکومت پروٹیکٹڈ صارفین کی کیٹیگری ختم کرنے پر کام کر رہی ہے، مستقبل میں بی آئی ایس پی کی بنیاد پر محفوظ بجلی صارفین کا تعین کیا جائے گا اور 2027ء سے غریب بجلی صارفین کو نقد رقم ملا کرے گی۔ آئی ایم ایف کو اضافی سستی بجلی فراہمی کیلئے 2 تجاویز دی ہیں، پہلی تجویزکے تحت موجودہ انڈسٹری کو دوسری شفٹ کے لیے عالمی ریٹ کے مطابق بجلی دی جا سکتی ہے، دوسری تجویز کے تحت نئی صنعتوں، کرپٹو اور ڈیٹامائننگ کو کم ریٹ دینے پر بجلی دی جا سکتی ہے۔ آئی ایم ایف سے مذاکرات جاری ہیں مگر فی الحال انہوں نے تجویز پر کوئی جواب نہیں دیا، آئی ایم ایف سے منظوری ملنے کی صورت میں فوری طور پر کابینہ سے منظوری لی جائے گی۔ عمر ایوب نے کہا کہ پی ٹی آئی حکومت کووڈ میں یہ سہولت فراہم کر چکی ہے۔ حکومت آئی ایم ایف کی طرف دیکھنے کی بجائے خود فیصلہ کرے۔ شازیہ مری نے کہا کہ ملک میں اضافی بجلی دستیاب ہے تو ہر جگہ لوڈشیڈنگ کیوں کی جا رہی ہے۔ سانگھڑ میں 14 گھنٹے بجلی کی لوڈشیڈنگ ہو رہی، تھر کے کوئلے سے سستی بجلی بنانے کاکام کئی سال تک مافیا کے دباؤ پر روکے رکھا، ساہیوال کوئلہ پلانٹ پر ہم نے احتجاج کیا مگر آج تسلیم کیاجا رہا ہے کہ یہ بے وقوفی تھی۔ سیکرٹری پاور نے کہا کہ تھر کے کوئلے سے سستی ترین بجلی مل رہی ہے اور تھر کے کوئلے سے مزید پاور پلانٹس چلانے کے لیے کام کیا جا رہا ہے، تھر کے کوئلے کو دیگر پاور پلانٹس تک لانے کے لیے ریلوے ٹریک بچھایا جائے گا جب کہ جامشورو پاور پلانٹ کو بھی تھر کے کوئلے پر چلایا جائے گا۔ آئندہ 10 سالوں میں درآمدی فیول پر کوئی نیا پلانٹ نہیں لگے گا، حکومت کی ترجیح پن بجلی گھر اور مقامی کوئلہ پلانٹس ہیں۔ متبادل ذرائع توانائی والے پلانٹس کو بھی فروغ دیا جائے گا، صنعتی اور کمرشل صارفین پر کراس سبسڈی کا بوجھ کم کرنے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے 200 یونٹ کے بعد سلیب بڑھنے پر وزارت سے مکمل بریفنگ طلب کر لی۔