WE News:
2025-06-06@18:47:18 GMT

بجٹ 26-2025: فری لانسرز کے حکومت سے کیا مطالبات ہیں؟

اشاعت کی تاریخ: 6th, June 2025 GMT

بجٹ 26-2025: فری لانسرز کے حکومت سے کیا مطالبات ہیں؟

پاکستان کا مالی سال 2025-26 کا بجٹ جلد پیش کیا جانے والا ہے، اور اس حوالے سے حکومتی سطح پر تیاریاں عروج پر ہیں، ملک بھر کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی نظریں اس بجٹ پر یہ دیکھنے کے لیے مرکوز ہیں کہ آنے والے مالی سال میں انہیں کن سہولتوں یا ممکنہ مشکلات کا سامنا ہوگا۔

ذرائع کے مطابق حکومت اس بار بجٹ میں فری لانسرز اور سوشل میڈیا کونٹینٹ کریئیٹرز، بالخصوص ٹک ٹاکرز پر بھی ٹیکس عائد کرنے پر غور کر رہی ہے، اس سلسلے میں فری لانسرز کا مؤقف یہ ہے کہ وہ ٹیکس دینے کے لیے تیار ہیں مگر نظام کو شفاف اور آسان بنایا جائے۔

فری لانسرز سمجھتے ہیں کہ شفاف ٹیکس پالیسی سے غیر یقینی صورتحال کا خاتمہ ہوگا، مگر دوسری جانب ان کے حکومت سے اس بجٹ میں کچھ مطالبات بھی ہیں، آئیے جانتے ہیں وہ مطالبات کیا ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: فری لانسرز کو درپیش رقم منتقلی کے مسائل، کیا پے پال سے معاہدہ سود مند ثابت ہوگا؟

ایک دہائی سے زائد تجربہ کار فری لانسر طاہر عمر نے وی نیوز کو بتایا کہ پاکستان میں ڈیجیٹل اکانومی، خاص طور پر فری لانسرز، ملکی معیشت کا قیمتی اثاثہ ہیں لیکن بدقسمتی سے، حکومتی پالیسیوں اور بینکنگ نظام کی پیچیدگیوں کی وجہ سے یہ طبقہ شدید مشکلات کا شکار ہے۔

’فری لانسرز کے لیے ٹیکس نظام کو آسان اور شفاف بنانا ازحد ضروری ہے، موجودہ صورتحال میں ٹیکس فائلنگ کا عمل اس قدر پیچیدہ اور غیر واضح ہے کہ اکثر فری لانسرز گھبرا کر اپنی آمدنی بیرون ممالک رکھنا ہی بہتر سمجھتے ہیں۔‘

طاہر عمر کے مطابق ہر سال بجٹ سے قبل فری لانسرز کو غیر یقینی صورتحال اور حکومتی اقدامات سے ڈرایا جاتا ہے، جس سے اعتماد کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔

مزید پڑھیں: پاکستان میں پے پال سروس شروع کرنے کے لیے حکومت کیا کوشش کررہی ہے؟

طاہر عمر کا کہنا تھا کہ اسی بے اعتمادی کے نتیجے میں بہت سے فری لانسرز ’ڈیجیٹل نومیڈ ویزا‘ حاصل کرکے صرف ضرورت کی رقم ہی پاکستان لاتے ہیں اور باقی آمدن انہی ممالک میں رکھتے ہیں جہاں انہیں فری لانسنگ کے لیے بہتر سہولیات اور تحفظ حاصل ہوتا ہے۔

پاکستانی بینکس بھی فری لانسرز کے لیے سازگار ماحول فراہم نہیں کرتے، اگرچہ بعض بینکوں نے فری لانسرز کے لیے مخصوص سہولیات متعارف کروائی ہیں، مگر حقیقت میں ایک نئے فری لانسر کو بینک اکاؤنٹ کھولنے اور لین دین کے لیے کئی غیر ضروری سوالات اور رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، حتیٰ کہ پاکستان سافٹ ویئر ایکسپورٹ بورڈ کا سرٹیفکیٹ ہونے کے باوجود بھی، یہ رویہ اعتماد کو مزید کمزور کرتا ہے۔

ٹیکسوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ظاہر عمر نے کہا کہ فری لانسرز کو انٹرنیشنل ادائیگیوں پر متعدد ٹیکسز کا سامنا ہے، جیسے انٹرنیشنل ٹرانزیکشن فیس، ایڈوانس انکم ٹیکس، فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی اور کرنسی کنورژن چارجز وغیرہ، جو مجموعی طور پر ادائیگی پر 25 فیصد یا اس سے بھی زیادہ بوجھ ڈال دیتے ہیں۔

مزید پڑھیں: پے اونیئر نے پاکستانی صارفین کے لیے منی ٹرانسفر فیس دگنی کردی

’مثال کے طور پر اگر ایک فری لانسر فیس بک پر اشتہار چلانا چاہے تو اس کو اصل رقم سے کہیں زائد ادا کرنا پڑتی ہے، جبکہ یہی ادائیگی اگر کسی ورچوئل کارڈ یا پےاوئینیر کے ذریعے کی جائے تو وہ خاصی کم لاگت پر ممکن ہوتی ہے۔‘

آن لائن ادائیگیوں کے حوالے سے طاہر عمر کا کہنا تھا کہ پاکستان میں فی الحال پے اونیئر واحد دستیاب آپشن ہے، جو اپنے چارجز میں مسلسل اضافہ کر رہا ہے، حکومت کو چاہیے کہ یا تو اسے کنٹرول کرے یا متبادل پلیٹ فارمز کو مارکیٹ میں لانے کے اقدامات کرے تاکہ صحت مند مقابلہ ممکن ہو اور صارفین کو ریلیف ملے۔

’انفرادی طور پر کام کرنے والے فری لانسرز کو انفرادی اسمال میڈیم انٹرپرائز کا درجہ دیا جانا چاہیے، اس سے وہ مختلف گرانٹس، سبسڈیز، اور کاروباری قرضوں سے فائدہ اٹھا سکیں گے، جس سے نہ صرف ان کی ترقی ممکن ہوگی بلکہ ملکی برآمدات میں بھی اضافہ ہوگا۔‘

مزید پڑھیں: کیا پاکستان میں پے پال لانچ ہونے والا ہے؟

راولپنڈی سے تعق رکھنے والے فری لانسر زین العابدین کے مطابق دنیا کے 200 سے زائد ممالک میں پےپال ادائیگی کا ایک مقبول ترین ذریعہ ہے مگر پاکستان جیسے 220 ملین آبادی والے ملک میں ادائیگی کے اس پلیٹ فارم کی عدم دستیابی ایک افسوسناک پہلو ہے۔

’پے پال کی غیر موجودگی کی وجہ سے پاکستانی فری لانسرز کو ادائیگیوں کو وصول کرنے میں دشواری ہوتی ہے، کلائنٹس کے اعتماد میں کمی آتی ہے، متبادل سروسز پر زیادہ چارجز برداشت کرنا پڑتے ہیں اور اکثر قیمتی کلائنٹس صرف پے پال نہ ہونے کی وجہ سے معاہدہ منسوخ کر دیتے ہیں۔‘

زین العابدین نے حکومت کو سنجیدگی سے پے پال سے مذاکرات کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ ان مذاکرات کے ذریعے پے پال کو پاکستان میں اپنی خدمات فراہم کرنے کا موقع دیا جائے اور اس سلسلے میں اگر کوئی ریگولیٹری یا بینکنگ رکاوٹیں ہیں تو انہیں ہنگامی بنیادوں پر دور کیا جائے۔

مزید پڑھیں: ڈیجیٹل اسکلز ٹریننگ سے پاکستان کی جی ڈی پی میں 2.

8 ٹریلین روپے کا اضافہ ہوسکتا ہے، گوگل

زین العابدین کا کہنا تھا کہ پاکستان کے فری لانسرز سالانہ اربوں روپے کا زرِمبادلہ ملک میں لا رہے ہیں مگر حکومتی سطح پر ان کی فلاح کے لیے کوئی خاص مستقل اور مؤثر اسکیم موجود نہیں ہے، مثلاً بلا سود یا کم شرح سود پر قرضے، ٹیکنالوجی خریدنے کے لیے سبسڈی، اور سافٹ ویئر یا آلات کے لیے حکومتی تعاون۔

’حکومت کو چاہیئے کہ کو ورکنگ اسپیسز جیسے اقدامات کی طرز پر فری لانسرز کی سہولت کے لیے مزید اقدامات کرے تاکہ ان کا اعتماد بحال ہو۔‘

اگر حکومت واقعی ڈیجیٹل اکانومی کو فروغ دینے کی خواہاں ہے تو اسے فری لانسرز کے لیے ٹیکس، بینکنگ اور بین الاقوامی لین دین کو سہل، شفاف اور دوستانہ بنانا ہوگا کیونکہ یہی وہ طبقہ ہے جو کم سرمائے اور حکومتی مدد کے بغیر لاکھوں ڈالر سالانہ پاکستان لا رہا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اسمال میڈیم انٹرپرائز آن لائن بجٹ پے اونیئر پے پال ٹک ٹاکرز ٹیکس ڈیجیٹل اکانومی زین العابدین سوشل میڈیا طاہر عمر فری لانسر کونٹینٹ کریئیٹرز لین دین

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اسمال میڈیم انٹرپرائز ا ن لائن پے اونیئر پے پال ٹک ٹاکرز ٹیکس ڈیجیٹل اکانومی زین العابدین سوشل میڈیا طاہر عمر فری لانسر کونٹینٹ کریئیٹرز لین دین فری لانسرز کے لیے فری لانسرز کو زین العابدین پاکستان میں کہ پاکستان مزید پڑھیں فری لانسر طاہر عمر

پڑھیں:

وفاق سابق فاٹا اور پاٹا پر ٹیکس لگانے سے گریز کرے، علی امین گنڈاپور

پشاور میں قبائلی جرگے سے خطاب میں وزیراعلیٰ کا کہنا تھاکہ بزدل دشمن کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے پر قوم کو مبارکباد دیتا ہوں، ملکی دفاع اورسالمیت کے لیے ہم ایک ہیں اور سیاسی اختلافاف کو بالائے طاق رکھ کر اتحاد کا ثبوت دیا۔ اسلام ٹائمز۔ خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت سابق فاٹا اور پاٹا پر ٹیکس لگانے سے گریز کرے، ان علاقوں کے عوام کی مالی صورتِ حال ٹیکس دینے کے قابل نہیں ، وفاقی حکومت ضم اضلاع کے بے گھر افراد کے فنڈز جلد جاری کرے۔ پشاور میں قبائلی جرگے سے خطاب میں علی امین گنڈا پور کا کہنا تھاکہ بزدل دشمن کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے پر قوم کو مبارکباد دیتا ہوں، ملکی دفاع اورسالمیت کے لیے ہم ایک ہیں اور سیاسی اختلافاف کو بالائے طاق رکھ کر اتحاد کا ثبوت دیا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ وفاقی حکومت سابق فاٹا اور پاٹا پر ٹیکس لگانے سے گریز کرے، ان علاقوں کے عوام کی مالی صورتحال ٹیکس دینے کے قابل نہیں، ضم اضلاع دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بری طرح متاثر ہیں، ان علاقوں میں خطیر سرمایہ کاری کی ضرورت ہے اورضم اضلاع کے لوگوں نے ملک کی خاطر بے شمار قربانیاں دی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ قبائلی عوام کے ساتھ کیے گئے تمام وعدے پورے کیے جائیں، وفاقی حکومت ضم اضلاع کے بے گھر افراد کے فنڈز جلد جاری کرے، این ایف سی میں ضم اضلاع کا حصہ صوبے کو منتقل کرنے کا فوری اعلان کیا جائے، کسی دوسرے صوبے کا حق نہیں مانگ رہے اپنا حق دیا جائے اور این ایف سی سے متعلق جو وعدہ کیا گیا ہے اسے فوری پورا کیا جائے۔ علی امین نے مطالبہ کیاکہ وفاقی حکومت اپنے ذمے خیبرپختونخوا کے تمام بقایاجات، پن بجلی کے خالص منافع کے بقایاجات اور ٹوبیکو سیس میں کے پی کا پورا حصہ دیا جائے، یہ صوبے کے لوگوں کا حق ہے۔ انہوں نے کہا کہ ضم اضلاع میں تنازعات کے پائیدار حل کے لیے جرگہ سسٹم بحال کیا جائے، افغانستان کے ساتھ مذاکرات کے عمل میں خیبر پختونخوا کو شامل کیا جائے کیونکہ خیبر پختونخوا کے بغیر مذاکرات ادھورے ہوں گے۔

متعلقہ مضامین

  • حکومت اور اساتذہ سے مذاکرات کرے اور ان کے مطالبات حل کرے، سید علی رضوی
  • آئندہ بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نافذ کرنے کا ارادہ نہیں: خیبر پختونخوا حکومت
  • خیبرپختونخوا حکومت کا آئندہ بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نافذ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں
  • ٹرانسپیرنسی کی IMF اور حکومت کو گورننس اور انسداد بدعنوانی اصلاحات کی سفارش
  • کیش لیس معیشت کا فروغ ، کمیٹی نے سفارشات وزیراعظم کو پیش کردیں
  •  نئے ٹیکس قواعد نے تاجروں کو الجھن میں ڈال دیا، قواعد واضح کیے بغیرشرائط لاگو نہ کی جائیں، چیئرمین پی سی ڈی ایم اے کا مطالبہ
  • آئی ایم ایف کی بجٹ ہر صورت جون کے آخر تک پارلیمان سے منظور کرانے کی ہدایت
  • بجٹ 2025 میں تنخواہ دار طبقے کیلئے خوشخبری، آئی ایم ایف نے رضا مندی ظاہر کردی
  • وفاق سابق فاٹا اور پاٹا پر ٹیکس لگانے سے گریز کرے، علی امین گنڈاپور