دنیا بھر میں مسلمان ہر سال سنت ابراہیمی پر عمل کرتے ہوئے عید الاضحیٰ پر جانوروں کی قربانی کرتے ہیں جس کے لیے ہر شخص کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ زیادہ خوبصورت اور زیادہ اچھا جانور اللّٰہ کی راہ میں قربان کرے۔ پاکستان میں بھی ہر سال لاکھوں لوگ خوبصورت، بھاری بھرکم اور نایاب نسل کے جانور قربان کیے جاتے ہیں۔

پاکستان کے ہر صوبے میں قربانی کے لیے مختلف نسل کے بیل پسند کیے جاتے ہیں۔ پنجاب میں ساہیوالی، فتح جنگی(دہنی)، براہمن، سندھ میں سلگر، چولستانی، کراس، خیبرپختونخوا میں آسٹریلین کراس اور بھینسے جبکہ بلوچستان میں ساہیوالی، بھگ ناڑی اور داجلی نسل کے جانور قربانی کے لیے زیادہ پسند کیے جاتے ہیں۔

ساہیوالی نسل کے بیل

پاکستان میں ساہیوال نسل کی گائے اپنے دودھ کے معیار کے باعث دنیا بھر میں مشہور ہے۔ اس نسل کے بیل تیز براؤن رنگ کے ہوتے ہیں۔ ان  کا قد درمیانہ ہوتا ہے البتہ ان کا وزن اور جسامت بہت بھاری ہوتی ہے۔ اس نسل کو اس لیے بھی پسند کیا جاتا ہے کہ یہ زیادہ مستی کرنے والے نہیں ہوتے اور گھروں میں بچے آرام سے ان کے خدمت کر لیتے ہیں۔

دھنی نسل کے بیل

دھنی نسل کے بیل خطہ پوٹھوار میں بہت زیادہ پسند کیے جاتے ہیں۔ یہ نسل پنجاب کے علاقوں اٹک اور فتح جنگ سے تعلق رکھتی ہے۔ اسے فتح جنگی نسل بھی کہا جاتا ہے۔ اس نسل کے بیلوں کے شوقین افراد اٹک، راولپنڈی، گجر خان، فتح جنگ، تلہ گنگ، چکوال میں زیادہ پائے جاتے ہیں۔ اس نسل کے بیل اونچے قد کے ہوتے ہیں اور ان میں غصے والا نخرہ پایا جاتا ہے۔ ان بیلوں کو رکھنا یا سنبھالنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ اس نسل کے بیلوں کو بیل ریس میں دوڑایا بھی جاتا ہے۔

براہمن اور سلگر نسل کے بیل

پاکستان میں ویسے تو مقامی نسل جسے دیسی کہا جاتا ہے زیادہ پسند کی جاتی ہے۔ تاہم اب چند سالوں سے باہر ملک کی نسلوں کو بھی زیادہ پسند کیا جاتا ہے ان میں براہمن اور سلگر نسل کو کراچی اور پنجاب کے کچھ شہروں میں قربانی کے لیے پسند کیا جاتا ہے۔ اس نسل کے بیلوں کی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ دیسی نسل کے بیلوں سے کئی گنا زیادہ وزن کے ہوتے ہیں اور ان کا قد بھی دیسی نسل کے جانوروں سے کئی گنا زیادہ ہوتا ہے۔

بھاگ ناڑی نسل کے بیل

بھاگ ناڑی بلوچستان کے ضلع بولان میں واقع ہے۔ یہ ایک زرخیز وادی ہے جو قدرتی چراگاہوں سے مالا مال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں کے بیل قدرتی غذا، کھلی چراگاہوں اور خاص مقامی نسل کی بدولت نہایت توانا، مضبوط اور دیدہ زیب ہوتے ہیں۔ ان جانوروں کی خاص بات ان کا قد، وزن، مضبوط جسمانی ساخت اور سفید و سیاہ دھاری دار رنگت ہے، جو دور سے ہی لوگوں کو متوجہ کرتی ہے۔ یہ بیل نہ صرف قربانی کے لیے پسند کیے جاتے ہیں بلکہ انہیں روایتی بیل دوڑوں اور مقابلہ حسن میں بھی شامل کیا جاتا ہے۔

چولستانی نسل کے بیل

صوبہ پنجاب کے علاقے راجن پور اور رحیم یار خان کی ’چولستانی نسل‘ کو بھی قربانی کے لیے پنجاب اور کراچی میں پسند کیا جاتا ہے۔ اس نسل کے بیلوں کو نکرہ بھی کہا جاتا ہے۔ ان بیلوں کی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ ان کی آنکھیں، کان اور ناک گلابی ہوتے ہیں اس لیے انہیں گلابی بھی کہا جاتا ہے۔ اور ان بیلوں کا رنگ زیادہ تر سفید ہوتا ہے جبکہ کچھ میں ہلکے ہلکے نقطوں کے نشان ہوتے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

بیل پاکستان عیدالاضحیٰ.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: بیل پاکستان عیدالاضحی پسند کیے جاتے ہیں پسند کیا جاتا ہے اس نسل کے بیلوں قربانی کے لیے زیادہ پسند کی اس نسل کے بیل پاکستان میں کہا جاتا ہے ہوتے ہیں کے جانور ہوتی ہے ہوتا ہے

پڑھیں:

لاڈلا بیٹا شادی کے بعد ’’کھٹکنے‘‘ کیوں لگتا ہے؟

وہ تمام لوگ جو اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد ہیں، یقیناً ان کا جواب ہاں میں ہوگا۔ آپ کے ذہن میں یہ سوال کلبلا سکتا ہے کہ اکلوتے کےلیے ’’سب‘‘ کا لفظ گرامر کے لحاظ سے غلط ہے۔ آگے جو کچھ غلط آنا ہے تو اس کے مقابلے میں اسے ناقابل اعتنا سمجھ کر آگے چلتے ہیں۔

جو لوگ دو بھائی یا ایک بھائی ایک بہن یا دو بہنیں ہیں، ہوسکتا ہے کہ ان میں سے کچھ کا جواب ہاں میں اور کچھ کا نہ بھی ہوسکتا ہے مگر وہ لوگ جو تین یا تین سے زائد بھائی یا بہنیں ہیں، یقیناً ان میں سے اکثریت کا جواب ’’نہیں‘‘ میں ہوگا۔

میں عموماً اپنی تربیتی نشستوں میں شرکا سے یہ سوال کرتا ہوں کہ آپ بھائی بہنوں میں والد یا والدہ کا پسندیدہ بچہ کون ہے؟ لوگوں کے جواب سے پتہ چلتا ہے کہ عموماً والد کی پسندیدہ اولاد کوئی بہن ہوتی ہے اور والدہ کی پسند کوئی بڑا یا چھوٹا بھائی ہوتا ہے اور جو خود پسندیدہ ہوتے ہیں وہ شرماتے ہوئے اس کا اقرار کرلیتے ہیں۔

والد کی پسند عموماً مستقل ہوتی ہے اور بیٹی کی شادی ہونے کے بعد بھی جو پہلے پسندیدہ ہوتی ہے وہی رہتی ہے لیکن والدہ کی پسند میں تغیر آتا ہے اور یہی ہماری آج کی تحریر کا اصل موضوع ہے۔

والدہ کی پسند عموماً کوئی نہ کوئی بیٹا ہوتا ہے جس کو گھر میں سب سے زیادہ لاڈ پیار ملتا ہے۔ کھانے پینے میں اس کی پسند کا ترجیحی بنیادوں پر خیال رکھا جاتا ہے اور یہ سب کچھ اس وقت تک تواتر سے جاری رہتا ہے جب تک اس کی شادی نہیں ہوجاتی۔ شادی چاہے وہ اپنی پسند سے کرے یا والدہ کی پسند سے، اب وہ اس مقام پر مستقل فائز نہیں رہ سکتا۔ بس یوں سمجھ لیجیے اور میں یہ بات مبالغہ آرائی سے لکھ رہا ہوں کہ پہلے سب گھر والے مل کر اس کےلیے دلہن لاتے ہیں اور پھر سب مل کر یہ چاہتے ہیں کہ بس اب دلہا اور دلہن خوش نہ رہیں۔

شادی سے پہلے والدہ کو بیٹی کی شکل میں ذمے داری نظر آتی ہے اور شادی کے بعد بیٹی میں سہیلی بلکہ بیٹے اور بہو کے خلاف کسی بھی قسم کی محاذ آرائی میں ایک بااعتماد شریک اور ساتھی نظر آتی ہے۔

شادی کے بعد بیٹا اگر گھر کے کام کاج میں اپنی بیوی کا ہاتھ بٹائے تو زن مرید اور اگر یہی سب کچھ داماد کرے تو کہا جاتا ہے کہ میاں بیوی میں کیا خوب ہم آہنگی ہے اور اللہ ایسے داماد سب کو دیں۔ مگر خود کے بیٹے پر ایسا داماد بننے کی پابندی تا دم مرگ برقرار رہتی ہے۔

اگر بیٹا معاشی لحاظ سے داماد سے بہتر ہو تو یہ بات بھی وجہ تنازعہ بن جاتی ہے اور اب بیٹے سے یہ امید بلکہ حکم دیا جاتا ہے کہ وہ جو کچھ اپنے بیوی بچوں کےلیے کرے ایسا ہی سب کچھ اپنی بہن اور اس کے بچوں کےلیے بھی کرے۔ اگر وہ ایسا نہ کرے تو پھر اماں نہ صرف اس کو ناخلف قرار دیتی ہیں اور حالات اپنے ہاتھ میں لے کر بیٹی کے گھر چیزیں پہنچانا شروع کردیتی ہیں کہ جس سے گھر کا ماحول کشیدہ ہوتے ہوئے جنگ و جدل کا میدان بن جاتا یے۔ تمام خاندان میں بہو اور اس کے بچوں جو کہ دراصل ان کے اپنے پوتے پوتیاں ہوتے ہیں، کی ایک منفی تصویر بنا کر پیش کی جاتی ہے۔

اس حوالے سے ایک اچھی بات یہ ہوئی ہے کہ اب ڈراموں میں ایسے کردار کھل کر دکھائے جارہے ہیں اور عقیدت اور احترام کو پس پشت ڈال کر حقیقت دکھانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ 

اللہ تعالیٰ نے اپنے تمام وصف تھوڑے تھوڑے ہمیں بھی دیے ہیں جیسے محبت کرنا، خوش ہونا، انعام دینا، غصہ کرنا وغیرہ وغیرہ۔ میری ذاتی رائے میں جس وصف کا سب سے زیادہ حساب دینا ہوگا اور جس پر ہماری سب سے زیادہ پکڑ ہوگی، وہ عدل ہوگا۔ اللہ چاہتا ہے کہ ہم اپنے ہر رشتے میں عدل کریں چاہے اولاد کا ہو یا والدین کا اور اگر اس میں ہم نے ظلم کیا تو اس کی پکڑ بہت سخت ہوگی۔

والدین بالخصوص والدہ کی اس جانبدارانہ رویے کی وجہ مشترکہ خاندانی نظام ٹوٹ رہا ہے اور بدقسمتی سے بزرگوں کو تنہائی کا کرب سہنا پڑتا ہے جو کہ خود ان کا اپنا بویا ہوا ہوتا ہے۔ یہ بات نہیں کہ تمام غلطیاں والدین ہی کی ہوتی ہیں، کوئی بھی انتہا پسند یا جانبدارانہ رویہ غلط ہے، چاہے کسی بھی جانب سے ہو۔

آج جب ہر موضوع پر بات ہورہی ہے تو میں نے سوچا کہ اس حساس موضوع پر بھی بات کر لیتے ہیں جو عموماً تمام گھروں کی کہانی ہے لیکن کوئی بھی اس پر بات کرنے کی ہمت نہیں کرتا۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کو میری یہ تحریر بیٹے یا بہو کی بے جا حمایت محسوس ہوگی لیکن اگر اپنے تمام جذبات کو بالائے طاق رکھ کر اگر آپ اس پر سوچیں گے اور اپنے اردگرد نظر دوڑائیں گے تو آپ کو یہ کہانیاں کھلی آنکھوں نظر آنے لگیں گی۔

اس دفعہ آخر میں کوئی کہانی نہیں، بس ایک مضمون کا حوالہ ہے۔ ’’میبل اور میں‘‘ میں پطرس نے ایک جگہ لکھا ہے کہ وہ مردوں سے ضرور داد چاہیں گے بالکل اسی طرح میں اپنی اس تحریر کے مظلوم طبقے یعنی بہو اور بیٹے سے اپنی حمایت ضرور چاہوں گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

متعلقہ مضامین

  • اسلام آباد میں گدھا کانفرنس ، محنت کش جانور کومعاشی اثاثہ تسلیم کرنے کا مطالبہ
  • پاکستان میں 6 ہزارسے زیادہ ادویاتی پودے پائے جاتے ہیں، ماہرین
  • ڈیرہ اسماعیل خان: جانور دھوپ میں کیوں باندھے؟ بھائی نے کلہاڑی سے بہن کو قتل کر دیا
  • بھارتی کرکٹرز پر پاکستانی نیٹ بولرز کے ساتھ تصاویر پر بھی پابندی عائد
  • امریکی قدامت پسند سیاسی کارکن چارلی کرک کے قتل کے ملزم پر باضابطہ فردِ جرم عائد
  • قومی اداروں کی اہمیت اور افادیت
  • ملک کے لئے جانیں قربان کرنے والے شہداء اور ان کے اہل خانہ کو پوری قوم سلام پیش کرتی ہے، گنڈا پور
  • فلسطینی جنگلی جانور ہیں، امریکی وزیر خارجہ کی بوکھلاہٹ
  • چین نے جرمنی کو پیچھے چھوڑ دیا، پہلی بار دنیا کے 10 بڑے جدت پسند ممالک میں شامل
  • لاڈلا بیٹا شادی کے بعد ’’کھٹکنے‘‘ کیوں لگتا ہے؟