لاہور پولیس نے عیدالاضحیٰ سے متعلق مربوط سکیورٹی پلان تشکیل دیدیا
اشاعت کی تاریخ: 6th, June 2025 GMT
سی سی پی او لاہور بلال صدیق کمیانہ کا کہنا ہے کہ عیدِالاضحیٰ کے موقع پر ٹریفک کی روانی کو بھی برقرار رکھا جائے گا۔ پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی کے کیمروں کے ذریعے شہر کی خصوصی نگرانی کی جائے گی۔ اسلام ٹائمز۔ لاہور میں ہونیوالے نمازعید کے اجتماعات کی سکیورٹی کیلئے 6 ایس پیز، 22 ایس ڈی پی اوز تعینات ہونگے۔ 83 ایس ایچ اوز اور 546 اپر سبارڈنیٹس تعینات کئے جائیں گے۔ عیدالاضحیٰ کے موقع پر لاہور میں 9 ہزار سے زائد پولیس اہلکار بھی سکیورٹی پر مامور ہوں گے۔ ٹریفک پولیس کے 700، ڈولفن اورپیرو سکواڈ کے 1600 سے زائد افسران واہلکار ڈیوٹی پر ہونگے۔ سی سی پی او لاہور بلال صدیق کمیانہ کا کہنا ہے کہ لاہور پولیس مساجد، امام بارگاہوں، نمازعید کے اجتماعات کی حفاظت کیلئےالرٹ ہے، عیدالاضحیٰ سے متعلق حکومتی احکامات پر من وعن عملدرآمد کروایا جائے گا۔ بلال صدیق کمیانہ کا کہنا ہے کہ عیدِالاضحیٰ کے موقع پر ٹریفک کی روانی کو بھی برقرار رکھا جائے گا۔ پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی کے کیمروں کے ذریعے شہر کی خصوصی نگرانی کی جائے گی۔
.ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی کا شہری کو سکیورٹی نہ دینے کا فیصلہ کالعدم قرار
لاہور (نیوز ڈیسک) لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس امجد رفیق نے ایک اہم فیصلہ سناتے ہوئے ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی (DIC) کا شہری کو سکیورٹی فراہم نہ کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔
جسٹس امجد رفیق نے شہری سیف علی کی درخواست پر 10 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا جس میں قرار دیا گیا ہے کہ ڈی آئی سی کی رپورٹ محض سفارشاتی حیثیت رکھتی ہے جبکہ حتمی اختیار پولیس کو حاصل ہے۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پولیس کسی بھی شہری کو جان کے خطرے کی صورت میں خود تحفظ فراہم کرنے کی مجاز ہے، آئین کے تحت شہریوں کی جان کا تحفظ مشروط نہیں، ریاست کو ہر قیمت پر اپنے شہریوں کی جان بچانے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کرنے ہوں گے۔
عدالت نے قرآن مجید کی آیت کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ جس نے ایک جان بچائی، اس نے پوری انسانیت کو بچایا۔
درخواست گزار کے مطابق وہ اپنی بہن اور بہنوئی کے قتل کیس میں سٹار گواہ ہے اور مقتولین کے لواحقین کی جانب سے مسلسل دھمکیاں مل رہی ہیں۔
پولیس نے درخواست گزار کو نقل و حرکت محدود کرنے کا مشورہ دیا تھا جبکہ آئی جی پنجاب کی رپورٹ کے مطابق ڈی آئی سی نے درخواست گزار کو دو پرائیویٹ گارڈ رکھنے کی تجویز دی تھی۔
عدالت نے مشاہدہ کیا کہ ہوم ڈیپارٹمنٹ پالیسی 2018 کے تحت پولیس پروٹیکشن کی 16 مختلف کیٹیگریز بنائی گئی ہیں جن میں وزیراعظم، چیف جسٹس، بیوروکریٹس اور دیگر اہم شخصیات شامل ہیں، تاہم پالیسی کے مطابق آئی جی پولیس مستند انٹیلی جنس رپورٹ کی بنیاد پر کسی بھی شہری کو 30 روز تک پولیس پروٹیکشن فراہم کر سکتا ہے۔
فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ پولیس آرڈر 2002 شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کی ذمہ داری واضح کرتا ہے، پنجاب وٹنس پروٹیکشن ایکٹ 2018 کے تحت ایف آئی آرز میں گواہوں کو تحفظ فراہم کیا جا سکتا ہے، شہری کے تحفظ کا حق آئینی، قانونی اور اخلاقی فریضہ ہے۔
عدالت نے قرار دیا کہ ڈی آئی سی کی رپورٹ کی بنیاد پر شہری کو پولیس تحفظ سے محروم کرنا غیر مناسب عمل ہے، اگر کسی شہری کی جان کو خطرہ ہو تو پولیس پروٹیکشن لینا اس کا حق ہے۔
عدالت نے ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی کا شہری کو سکیورٹی نہ دینے کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے آئی جی پنجاب کو درخواست گزار کو فوری طور پر پولیس تحفظ فراہم کرنے کا حکم دے دیا۔