Express News:
2025-06-07@04:56:26 GMT

آئینے

اشاعت کی تاریخ: 6th, June 2025 GMT

عمرو عیار، ریت کے ایک ٹیلے پر بے دم بیٹھا ہوا تھا۔ عمرو کی نظر، دور ویرانہ کی طرف لگی ہوئی تھی۔ گہری سوچ میں کم ہی ڈوبتا تھا۔ کیونکہ اس کے پاس تقریباً ہر مسئلہ کا حل تھا۔ مگر اب وہ بے بس سا نظر آتا تھا۔ سورج ڈوب رہا تھا مگر عمرو، رات اپنے خیمے سے باہر ہی گزارنا چاہتا تھا۔ اصل مسئلہ یہ تھا کہ جنوں کے ایک گروہ نے پورے علاقہ پر قبضہ کر لیا تھا۔ جنات کا یہ جتھہ ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں پر مشتمل تھا اور ان کی طاقت کافی زیادہ تھی۔ وہ ایک لشکر کی طرح متحد رہتے تھے۔ ان کا سردار، ایک ایسا ظالم جن تھا جسے قتل عام کرنے سے راحت ملتی تھی۔

سردار کی صرف ایک آنکھ تھی جو ماتھے کے درمیان میں واقع تھی۔ اس کے سر پر سینگ تھے، جن سے وہ آگ نکالتا تھا۔ کوشش کرتا تھا کہ اپنے مخالفین کو زندہ جلا ڈالے۔ سردار نے اپنے لشکر کو نیزے، تیر کمان، آگ برسانے والی توپیں اور دیگر آتشیں اسلحہ سے خوب لیس کر رکھا تھا۔ وہ سارا دن دیگر جنات کو صرف ایک نکتہ ذہن نشین کرواتا تھا۔ کہ جسے بھی تم دشمن گردانتے ہو، اس سے کبھی سچ نہ بولو۔ اس سے جو بھی معاہدہ کرو، اس کی ہمیشہ وعدہ خلافی کرو اور موقع پاتے ہی اسے مار ڈالو۔ اس کے بیوی بچوں کو غلام بنا کر رکھو یا انھیں سرِبازار فروخت کر دو۔ یعنی تمام کاروبار زندگی وحرب، جھوٹ کی بنیاد پر استوار کرو۔ تابع جنات، بالکل یہی کرتے تھے۔

جس مکاری سے انھوں نے ملکِ پارس پر قبضہ کر لیا تھا، اسے بالکل دھوکے سے چلا رہے تھے۔ بلکہ یوں کہئے کہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت، جنگ کے بغیر اس پورے ملک پر قابض ہو چکے تھے۔ جنوں کے سردار نے، جس وقت ملک پر حملہ کیا، اسی وقت امیر حمزہ، عادی پہلوان اور لندھور، ایک آفت زدہ علاقہ میں، زلزلہ کا مقابلہ کر رہے تھے۔ ملک پارس کے ساتھ جو وسیع وعریض خطہ تھا، اس کا بادشاہ بیمار تھا۔ جب زلزلہ آیا اور پہاڑ آگ اگلنے لگے تو بادشاہ نے امیر حمزہ اور ان کے ساتھیوں سے التجا کی کہ وہ آئیں اور اپنی خداداد طاقت کو، لوگوں کی فلاح اور حفاظت کے لیے استعمال کریں۔ چنانچہ ایسے ہی ہوا۔ امیر حمزہ، جب اپنے ساتھیوں سمیت اس برباد شدہ علاقے میں پہنچے تو وہاں قیامت کا سماں تھا۔

لاوا ٹھنڈا تو ہو چکا تھا مگر لوگ بہت زیادہ گھبرائے ہوئے تھے۔ امیر حمزہ نے لوگوں کو دوبارہ آباد کرنے کے لیے بہت محنت کی۔ عادی پہلوان نے بڑے بڑے درخت کندھوں پر اٹھائے اور انھیں کاٹ کر لکڑی کے چھوٹے چھوٹے گھر بنا ڈالے۔ لندھور اور اس کے ساتھیوں نے آتش فشاں پہاڑ کو اپنی بے پناہ طاقت سے پانی ڈال ڈال کر ٹھنڈا کر ڈالا۔ جیسے ہی جنات کے سردار کو معلوم ہوا کہ امیر حمزہ اپنے ملک میں موجود نہیں ہیں، تو فوراً چڑھ دوڑا اور علاقے پر قبضہ کر لیا۔ اس کے ظلم کے سامنے رعایا بے بس تھی۔ جو ذرا سا بھی سر اٹھاتا، اسی وقت ایک آنکھ والا جن اس کی تکہ بوٹی کر ڈالتا۔

عمرو عیار کو جیسے ہی اس معاملہ کی خبر ملی، اس نے فوراً امیر حمزہ کو اطلاع دینے کی کوشش کی۔ مگر مسئلہ یہ ہوا کہ امیر حمزہ، اکیلے ہی اپنے ملک کی طرف روانہ تھے۔ جنات نے انھیں اکیلے پا کر گرفتار کر لیا۔ جنات نے انھیں ایک ایسی جیل میں بند کر دیا جو پتھروں کی بنی ہوئی تھی اور سفلی قسم کے جنات اس حصار کی حفاظت کر رہے تھے۔ چڑیلوں کا ایک گروہ بھی جیل کے اردگرد، درختوں سے الٹا لٹکا ہوتا تھا تاکہ دور دور تک ہر چیز پر نظر رکھے۔

جب عمرو عیار کو یہ سب کچھ معلوم پڑا تو وہ فوراً لندھور اور عادی پہلوان کے پاس چلا گیا۔ مشورہ ہوا کہ امیر حمزہ کو ہر قیمت پر آزاد کروانا چاہیے۔ مگر کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ یہ مشکل کام کیسے سرانجام دیا جائے۔ بلکہ لندھور اور عادی نے کہا کہ عمرو ذہین بلکہ فطین ہے۔ لہٰذا وہ کوئی منصوبہ بنائے۔ اس پر عمل سارے کریں گے۔ مگر قیامت یہ تھی کہ جنات کے بہیمانہ ظلم کی بدولت ملکِ پارس کے عام لوگ بہت زیادہ ڈر چکے تھے۔ کوئی بھی کھل کر امیر حمزہ کی آزادی کی خاطر آگے آنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ سارا بوجھ عمرو کے کندھوں پر آن پڑا تھا اور اس ذہنی بوجھ کی بدولت، عمرو ٹیلے پر بیٹھا اکیلا سوچ بچار کر رہا تھا۔

عمرو نے فیصلہ کیا کہ وہ کوئی اور روپ دھار کر جیل کی صورت حال معلوم کرتا ہے۔ چنانچہ ایک عقاب کی شکل اختیار کر گیا۔ جب پتھروں والی جیل کے نزدیک پہنچا تو چڑیلوں نے شور مچانا شروع کر دیا کہ یہ عقاب نہیں بلکہ یہ کوئی انسان ہے۔ دراصل چڑیلیں انسان کی بو دور سے سونگھ لیتی تھیں۔ چڑیلوں نے فضا میں عقاب کا پیچھا کیا۔ مگر اسے پکڑ نہ سکیں۔ شور سن کر پہرے دار جنات بھی پرندے پر آگ برسانے لگے مگر عمرو نے حددرجہ تیزی سے زمین کے نزدیک اڑنا شروع کر دیا اور بڑی مشکل سے اپنی جان بچائی۔ مگر اس کوشش سے یہ ضرور معلوم ہوگیا کہ امیر حمزہ جس جگہ مقید ہیں، وہاں کسی طرح کا منفی حصار قائم کیا گیا ہے۔ اب تمام اکابرین نے باہمی مشورہ کرنا شروع کیا۔

لندھور نے کہا کہ ہمیں کسی نیک جن سے مشورہ کرنا چاہیے مگر ڈھونڈنے کے باوجود کوئی ایسا جن نہ مل سکا جو کہ اپنے سپہ سالار یعنی ایک آنکھ والے جن کے خلاف مشورہ دے۔ عمرو کا دماغ جواب دے چکا تھا۔ اچانک اس نے محفل سے اجازت لی اور پرستان کی طرف روانہ ہو گیا۔ پریوں کی ملکہ بہت ذہین خاتون تھی۔ عمرو نے جب ملکہ سے یہ سوال کیا کہ جنات کے اتنے مضبوط لشکر کوکیسے شکست دی جا سکتی ہے اور چڑیلوں کو کیسے مسخر کیا جاسکتا ہے۔ تو ملکہ عمرو کے ہمراہ اپنی والدہ کے پاس چلی گئی جس کی عمر سات سو برس تھی۔ اور وہ ہر وقت یادِ الٰہی میں مصروف رہتی تھی۔ ملکہ نے جب سارا ماجرا بتایا اور مشورہ مانگا تو والدہ بھی سوچ میں پڑ گئی۔

یکدم اس کے ذہن میں خیال آیا کہ اس کے خاوند جب پرستان کے بادشاہ تھے اور سفلی جنات نے ان کے ملک پر حملہ کیا تھا، اس وقت پرستان کے لشکر نے انھیں شکست دی تھی۔ والدہ نے کہا کہ جنات کو شکست دی جا سکتی ہے۔ اس کا طریقہ صرف یہ ہے کہ عمرو عیار کا لشکر ہاتھوں میں بڑے بڑے آئینے پکڑ لے۔ تلواریں اور دوسرا اسلحہ جنات کو ختم نہیں کر سکتا۔ ترکیب صرف یہ ہے کہ لشکر، ان شیشوں میں جنات کو اپنا اصل چہرہ دکھا دیں۔ تمام جنات اپنا کریہہ چہرہ دیکھ کر فرار ہو جائیں گے۔ چڑیلیں اپنا عکس، جب آئینہ میں دیکھیں گی تو انھیں آگ لگ جائے گی کیونکہ وہ اپنے آپ کو بہت حسین سمجھتی ہیں۔ عمرو یہ منصوبہ سن کر واہ واہ کرنے لگا۔

واپس اپنے گروہ میں آیا اور شیشہ سازی کا کام شروع کر دیا۔ بس چالیس دنوں میں امیرحمزہ کے لشکر نے لاتعداد آئینے بنا لیے۔ عادی پہلوان نے تو حد کر دی۔ اس نے حددرجہ بلند قامت شیشے ترتیب دیے۔ یہی حالت لندھور کی تھی۔ ان دونوں کے شیشے اس قدر وزنی تھے کہ انھیں دو سو کے قریب افراد مل کر اٹھا سکتے تھے۔ بہرحال جب مکمل تیاری ہو گئی تو عمرو عیار اور تمام ساتھی ملکِ پارس کی جانب روانہ ہو گئے۔ ان کے ہاتھ میں ہتھیاروں کی جگہ بڑے بڑے شیشے تھے۔ جب جنات کا لشکر سامنے آیا اور اپنے بھالے اور ہتھیار نکالے تو لندھور اور عادی پہلوان نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ فوراً آئینے جنات کے سامنے کر دو۔ ایسے ہی کیا گیا۔ جب جنات نے اپنا وجود آئینوں میں دیکھا، انھیں اپنی بدصورتی کا احساس ہوا تو تمام لشکر چنگھاڑے مارتا ہوا میدان سے بھاگ نکلا۔ اب امیر حمزہ کے تمام ساتھی پتھروں کی جیل کی طرف روانہ ہوئے۔

چڑیلوں نے انھیں دیکھ کر شور مچانا شروع کر دیا مگر جب آئینے سامنے رکھے گئے تو ان کے حواس جواب دے گئے اور وہ دن کی روشنی میں جلنے لگ گئیں۔ تھوڑی ہی دیر میں ان کی خاک میدان میں پڑی ہوئی تھی مگر ایک جن بچ نکلا اور وہ جنوں کا سردار تھا۔ اس کی طاقت بے مثال تھی اور وہ شیشوں میں اپنی شکل دیکھ کر گھبراتا بھی نہیں تھا۔ اب وہ واحد طاقت تھی جو امیر حمزہ کو قید خانہ میں رکھ سکتی تھی مگر اسے جیل پہنچنے میں تاخیر ہوگئی۔

لندھور پہلوان نے ٹکر مار کر پتھروں کی جیل کو توڑ ڈالا۔ عادی نے جیل کے دروازے کو تنکے کی طرح اٹھا لیا۔ امیر حمزہ کو آزاد کروا لیا گیا۔ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی تھی۔ جنوں کا سردار، ہیبت ناک آوازیں نکالتا ہوا امیر حمزہ پر پل پڑا۔ امیر حمزہ کو عمرو عیار نے ایک مخصوص تند وتیز تلوار دے دی تھی۔ امیر حمزہ برق رفتاری سے سردار کے سر پر پہنچے اور اس کی آنکھ میں تلوار پیوست کر دی۔ سردار اندھا ہوگیا۔

امیر حمزہ نے سب کے سامنے قاضی کو طلب کیا۔ قاضی کے سامنے امیر حمزہ نے سردار کے تمام مظالم بیان کیے۔ عدالت نے بے خوف ہو کر حکم دیا کہ اس جن کو پھانسی دے دی جائے۔ جلاد نے اسی وقت جنوں کے سردار کو تختہ دار پر لٹکا دیا۔ امیر حمزہ کو اپنی سلطنت واپس مل گئی اور ان کی سلطنت میں لوگوں کی خوشحالی کادورہ دوبارہ شروع ہو گیا۔ (اس فرضی کہانی کا ہمارے ملک کے حالات سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں ہے)

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: امیر حمزہ کو کہ امیر حمزہ عادی پہلوان شروع کر دیا لندھور اور پہلوان نے عمرو عیار کے سامنے نے انھیں ہوئی تھی جنات کو انھیں ا جنات نے جنات کے کر لیا اور ان اور وہ کی طرف

پڑھیں:

معیشت کی بہتری، مہنگائی پرقابو پانے کے حکومتی دعوے ہوا میں تحلیل ہو رہے ہیں، امیر جماعت اسلامی

کراچی:

جماعت اسلامی پاکستان کے امیر حافظ نعیم الرحمان نے حکومتی اعداد وشمار کو مصنوعی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ معیشت کی بہتری اور مہنگائی پر قابوپانے کے حکومتی دعوے آہستہ آہستہ ہوا میں تحلیل ہو رہے ہیں۔

ادارہ نور حق کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ معیشت کی بہتری اور مہنگائی پر قابو پانے کے تمام حکومتی دعوے آہستہ آہستہ ہوا میں تحلیل ہو رہے ہیں، مصنوعی بنیادوں پر اعداد و شمار سے معیشت کبھی بہتر نہیں ہو سکتی۔

انہوں نے کہا کہ جب عام آدمی اور تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس بڑھے گا اور جاگیرداروں کو چھوٹ ملے گی، ایوان صدر، وزیر اعظم ہاؤس، گورنر ہاؤس اور وزرائے اعلیٰ ہاؤسز کے اخراجات کا بجٹ بڑھ رہا ہو اور حکمران عوام سے قربانی دینے کی باتیں کریں تو معیشت اور عوام کی حالت کیسے بہتر ہوسکتی ہے۔

حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ اس سال بھی تنخواہ دار طبقے نے 499 ارب روپے کا ٹیکس جمع کرایا جبکہ جاگیردار طبقے نے چار، پانچ ارب سے زیادہ ٹیکس جمع نہیں کرایا، ہمارا مطالبہ ہے کہ ایک لاکھ 25ہزاز ماہانہ تنخواہ والے افراد کو ٹیکس سے استشنیٰ دیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ بجلی کی قیمتوں میں کمی مستقل بنیادوں پر کی جائے ، بجلی کی پیداواری لاگت کے حساب سے عوام سے بل وصول کیے جائیں اور بجلی کے بنیادی ٹیرف میں کمی کی جائے۔

امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) 17سال سے سندھ میں حکومت کر رہی ہے، پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) نے مل کر کراچی کو تباہ و برباد کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے کے-الیکٹرک کا تحفہ دیا، تعلیم اور ٹرانسپورٹ تباہ کی، کراچی کی آبادی کم ظاہر کی، فارم 47کے ذریعے مستردشدہ لوگوں کو مسلط کروانے والے جب تک ہوش کے ناخن نہیں لیں گے کراچی کے حالات بہتر اور مسائل حل نہیں ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ کے-الیکٹرک اہل کراچی پر ایک مستقل عذاب بنی ہو ئی ہے، اس شدید گرمی اور حبس کے موسم میں 18،18گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہورہی ہے، چند بجلی چوروں کو پکڑنے کے بجائے پوری پوری آبادیوں کی بجلی بند کردی جاتی ہے۔

حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ جو لوگ بجلی کے بل اداکرتے ہیں ان کا کیا قصور ہے؟ وہ کیوں بجلی سے محروم ہیں۔

کے-الیکٹرک کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ عدالتی فیصلوں کے مطابق اگر ایک آدمی بھی بجلی کا بل ادا کررہا ہے تو آپ وہاں کی بجلی نہیں کاٹ سکتے، جن کے ذمے 71کروڑ روپے کے بل ہیں ان کی بجلی نہیں کٹی ہوئی اور غریب لوگوں کی بجلی کاٹ دی جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی کے علاوہ کوئی بھی جماعت کے-الیکٹرک کے خلاف نہیں بولتی، کے-الیکٹرک سب کونوازتی ہے، ایم کیوایم، پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن)، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سب نے اپنے پنے ادوار میں کے-الیکٹرک کو سپورٹ کیا  اور آج یہ کراچی میں ایک مافیا بن چکی ہے۔

اس موقع پر انہوں نے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کے ذمہ دار ہیں، ٹرمپ نے امن کے بجائے جنگ کو اہمیت دی اور غزہ میں فلسطنیوں کی نسل کشی اور اسرائیل کی حمایت کے لیے اقوام متحدہ میں جنگ بندی کی قرار داد کو ویٹو کیا۔

انہوں نے کہا کہ ٹرمپ کو امن کا داعی قرار دینا ذہنی غلامی اور ذہنی بیماری ہے، بھارت کو شکست دینے کے بعد پاکستان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، وزیراعظم اور فیلڈ مارشل مسلم ممالک اور ہمارے ہم خیال ممالک کے حکمرانوں اور فوجی سربراہوں کا اجلاس بلائیں اور غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی رکوانے کے لیے واضح اور دو ٹوک پیغام دیں۔

امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ اس دفعہ پاکستان کے 67ہزار عازمین کے  لیے ایک بڑی تکلیف کا پہلو رہا کہ وہ بد انتظامی اور نااہلی کی وجہ سے حج کی سعادت حاصل کرنے سے محروم رہے۔

متعلقہ مضامین

  • معیشت کی بہتری، مہنگائی پرقابو پانے کے حکومتی دعوے ہوا میں تحلیل ہو رہے ہیں، امیر جماعت اسلامی
  • مودی کی سرمایہ دارانہ پالیسیوں کیوجہ سے امیر اور غریب کے درمیان فرق مسلسل بڑھتا جارہا ہے، کانگریس
  • جناح ہاؤس حملہ کیس میں عالیہ حمزہ کے ناقابل ضمانت وارنٹ جاری
  • وزیراعظم کا ٹرمپ کو امن کا پیامبر قرار دینا ذہنی غلامی ہے، امیر جماعت اسلامی
  •  دیامیر بھاشا ڈیم متاثرین سے متعلق اہم پیشرفت، کمیٹی نے سفارشات کو حتمی شکل دے دیا
  • جناح ہاؤس حملہ کیس: عالیہ حمزہ کے ناقابلِ ضمانت وارنٹِ گرفتاری جاری
  • امیر ترین یوٹیوبر مسٹر بیسٹ شادی کیلئے والدہ سے اُدھار پیسے کیوں لے رہے ہیں؟
  • اپنے بل بوتے پر بننے والی امیر ترین خواتین کی فہرست جاری