جے رام رمیش نے کہا کہ مودی نیند سے جاگیں، یہ آپکی حکومت کی دوہری ناکامی ہے، جسکے خوفناک نتائج آنے والے برسوں میں ملک کو بھگتنے پڑینگے۔ اسلام ٹائمز۔ کانگریس نے امیر اور غریب کے درمیان فرق میں مبینہ اضافہ پر مودی حکومت پر تنقید کی اور کہا کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو اپنی نیند سے بیدار ہونا چاہیئے ورنہ ملک کو خوفناک نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کانگریس کمیونیکیشن کے انچارج و جنرل سکریٹری، جے رام رمیش نے ایکس پر ایک میڈیا رپورٹ شیئر کی، جس میں دعویٰ کیا گیا کہ انتہائی امیروں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ورلڈ ویلتھ رپورٹ 2025ء کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2024ء میں ملک میں 33,000 اعلیٰ مالیت والے افراد کو شامل کیا گیا۔ جے رام رمیش نے ایکس پر ہندی میں ایک پوسٹ میں کہا کہ مودی حکومت کی سرمایہ دارانہ پالیسیوں کی وجہ سے، امیر اور غریب کے درمیان فرق مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ امیر، امیر تر اور غریب، غریب تر ہوتا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور مہنگائی کی وجہ سے 80 کروڑ لوگوں کو سرکاری راشن دینا پڑ رہا ہے، جبکہ "سپر امیر" کی تعداد بڑھ کر 3.

78 لاکھ ہوگئی ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ملک کے عام لوگ اپنی کم آمدنی اور بڑھتے ہوئے اخراجات کی وجہ سے اپنی پرانی بچت بینک سے نکال کر یا قرض لے کر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، عام آدمی کو ملک میں اپنے لئے کوئی مواقع نظر نہیں آرہے ہیں اور اس لئے موقع ملتے ہی بیرون ملک مزدوری کے مواقع تلاش کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ، امیر بھی بیرون ملک اپنے اثاثے بڑھانے میں مصروف ہیں۔ جے رام رمیش نے کہا کہ مودی نیند سے جاگیں، یہ آپ کی حکومت کی دوہری ناکامی ہے، جس کے خوفناک نتائج آنے والے برسوں میں ملک کو بھگتنے پڑیں گے۔

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: نے کہا کہ اور غریب

پڑھیں:

کانگریس اور مسلم لیگ کو ایک جیسا مان کر کمیونسٹوں نے غلطی کی تھی، پروفیسر عرفان حبیب

پروفیسر عرفان حبیب نے کہا کہ مسلم لیگ فرقہ پرست تھی، جبکہ انڈین نیشنل کانگریس ایک قومی پارٹی تھی، مسلم لیگ نے تقسیم کی حمایت کی لیکن کانگریس نے نہیں کی تو یہ کس بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ دونوں ایک جیسے تھے۔ اسلام ٹائمز۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کے سابق جنرل سکریٹری سیتارام یچوری کی پہلی برسی کے موقع پر منعقدہ ایک یادگاری خطبے میں نامور تاریخ دان پروفیسر عرفان حبیب نے اپنے سامعین پر زور دیا کہ انہیں ہندوستان کی جدوجہد آزادی کے چند اہم ترین ابواب  کے مارکسی تنقیدوں کا از سر نو جائزہ لینا چاہیئے۔ خاص طور پر ان ابواب کا، جن کے بارے میں انہیں لگتا ہے کہ وہ ہندوستانی کمیونسٹ تحریک کے کردار کو دھندلا کرتے ہیں۔ پروفیسر عرفان حبیب نے کہا کہ شاید اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی خامیوں پر بھی نظر ڈالیں۔ انہوں نے واضح طور پر خود کو بائیں بازو کا دانشور مانا۔ عالمی سطح پر قرون وسطیٰ کے ہندوستان کے ایک انقلابی مؤرخ کے طور پر معروف، لیکن جن کا کام قدیم سے جدید ہندوستان تک کے مختلف ادوار پر محیط ہے، پروفیسر عرفان حبیب اب 90 سال سے زیادہ کے ہوچکے ہیں۔ پروفیسر حبیب نے دہلی میں گزشتہ دہائی کا اپنا پہلا عوامی لیکچر دیا۔

پروفیسر عرفان حبیب نے کہا کہ برطانوی استعمار پر کمیونسٹ تنقید، ہندوستان میں کمیونسٹ تحریک سے پہلے شروع ہو چکی تھی۔ (کارل) مارکس اور (فریڈرک) اینگلز نے 1840ء کی دہائی میں نو آبادیات پر تنقید کی، لیکن نوروجی اور دت نے ہندوستان میں اس تنقید کو فروغ دیا، ہمیں بھی ان کا احترام کرنا چاہیئے۔ عرفان حبیب نے مزید وضاحت کی کہ کمیونسٹ انڈین نیشنل کانگریس کا ایک اہم حصہ تھے اور وہ اکثر سوشلسٹوں کے ساتھ اتحاد کرتے تھے۔ یہ صورتحال آزادی کے بعد بدلی، جب دونوں کے درمیان اختلافات نمایاں ہونے لگے۔ تاہم، انہوں نے یہ بھی کہا کہ کمیونسٹوں نے ایک اسٹریٹجک غلطی کی تھی، جب انہوں نے مسلم لیگ اور کانگریس کو ایک جیسا مان لیا۔ انہوں نے کہا کہ 1930ء کی دہائی سے لے کر 1947ء تک، کانگریس اور مسلم لیگ دو مختلف سمتوں میں آگے بڑھ رہی تھیں۔ کانگریس فوری اور مکمل آزادی چاہتی تھی، اور مسلم لیگ مسلمانوں کے لئے علیحدہ حصہ (ڈیویڈنڈ) کا مطالبہ کر رہی تھی۔ عرفان حبیب نے دلیل دی کہ اگرچہ کمیونسٹوں نے کانگریس کے مطالبے کی حمایت کی، لیکن انہوں نے غلطی سے دونوں سیاسی جماعتوں کو ایک ہی مان لیا۔

پروفیسر عرفان حبیب نے کہا کہ مسلم لیگ فرقہ پرست تھی، جبکہ انڈین نیشنل کانگریس ایک قومی پارٹی تھی، مسلم لیگ نے تقسیم کی حمایت کی، لیکن کانگریس نے نہیں کی، تو یہ کس بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ دونوں ایک جیسے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم دونوں میں فرق کیوں نہیں دیکھ پائے۔ کانگریس کے پاس پہلے ہی سوشلسٹ پروگرام تھا۔ عرفان حبیب نے یاد کیا کہ غیر منقسم کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نے کانگریس اور مسلم لیگ کو ایک جیسا مانتے ہوئے، ایسی پالیسی اپنائی تھی، جس کے تحت اپنے مسلم کارکنوں کو مسلم لیگ  میں بھیجا اور ہندو اراکین کو کانگریس میں، یعنی عملی طور پر کانگریس کو ایک "ہندو پارٹی" مان لیا گیا۔ انہوں نے اسے ایک بڑی غلطی قرار دیا اور یاد کیا کہ کیسے کئی مسلم کمیونسٹوں نے مسلم لیگ کے ساتھ کام کرنے پر مجبور کیے جانے پر مارکسزم سے خود کو دور کر لیا۔ تاہم انہوں نے یاد دلایا کہ جب کمیونسٹ ایک متنازعہ سیاسی موقف اپنا رہے تھے، اس زمانے کے ایک ممتاز کمیونسٹ ترجمان آر پی دت نے اپنی مشہور کتاب انڈیا ٹوڈے (1940ء) میں ایک الگ باب لکھا تھا جس میں یہ دلیل دی گئی کہ ہندوستان کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم نہیں کیا جانا چاہیے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ ان کی دلیل کو کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے اس وقت کے جنرل سکریٹری پی سی جوشی نے نظرانداز کر دیا، جو مسلم لیگ کے تئیں اپیزمنٹ کی پالیسی پر عمل پیرا تھے۔

متعلقہ مضامین

  • کانگریس اور مسلم لیگ کو ایک جیسا مان کر کمیونسٹوں نے غلطی کی تھی، پروفیسر عرفان حبیب
  • شوبز انڈسٹری بدل گئی ہے، اب ڈرامے بنا کر خود کو لانچ کیا جارہا ہے، غزالہ جاوید کا انکشاف
  • مودی سرکار نے مذموم سیاسی ایجنڈے کیلیے اپنی فوج کو پروپیگنڈے کا ہتھیار بنا دیا
  • اسرائیلی جارحیت سے صرف خون ریزی میں اضافہ ہو رہا ہے، برطانیہ
  • بھارت کا غیر ذمے دارانہ رویہ اب کھیلوں کے میدان تک پہنچ چکا، عطا تارڑ
  • بھارت کا غیر ذمے دارانہ رویہ اب کھیلوں کے میدان تک پہنچ چکا: عطا تارڑ
  • قطر اور دیگر ممالک کی پالیسیوں نے اسرائیل کو عالمی طور پر تنہا کردیا، نیتن یاہو کا اعتراف
  • قطر اور دیگر ممالک کی پالیسیوں نے اسرائیل کو عالمی طور پر تنہا کردیا، نیتن یاہو 
  • عرب اسلامی سربراہی اجلاس: ’گریٹر اسرائیل‘ کا منصوبہ عالمی امن کے لیے سنگین خطرہ بنتا جارہا ہے: امیر قطر
  • ٹیکس بڑھانے سے معیشت نہیں سنبھلتی تو کم کر کے دیکھ لیں