خلیل الرحمٰن قمر کا متنازع ’’طاغوت اسکینڈل‘‘ سے متعلق تہلکہ خیز انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 7th, June 2025 GMT
معروف ڈرامہ نویس اور شاعر خلیل الرحمٰن قمر نے پچھلے سال کے سب سے متنازع وائرل ہونے والے ’طاغوت اسکینڈل‘ کے حوالے سے تہلکہ خیز انکشاف کیا ہے۔
ایک پوڈکاسٹ میں گفتگو کرتے ہوئے خلیل الرحمٰن نے بتایا کہ وہ شو جس میں معروف اسلامی اسکالر ساحل عدیم اور ایک نوجوان خاتون کے درمیان لفظی جھڑپ ہوئی تھی، دراصل وہ واقعہ ’’پری پلانٹڈ‘‘ تھا، یعنی سب کچھ پہلے سے طے شدہ تھا۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ پروگرام میں جو کچھ ہوا، وہ سب اچانک نہیں تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ جیسے ہی ساحل عدیم نے خواتین کو جاہل کہا، وہ مداخلت کرنے والے ہی تھے تاکہ اس بات کو واضح کرسکیں کہ جہالت کا تعلق صرف خواتین سے نہیں، بلکہ وہ ہر اس شخص کو جاہل سمجھتے ہیں جس نے قرآن کو ترجمے کے ساتھ نہیں پڑھا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت۔ مگر اُن کے بولنے سے پہلے ہی ایک لڑکی نے مداخلت کی، اور یوں بحث کا رخ بگڑ گیا۔
خلیل الرحمٰن قمر نے یہ بھی بتایا کہ انہیں حیرت ہوئی جب ایک خاتون نے ساحل عدیم جیسے اسکالر سے معافی مانگنے کا مطالبہ کر ڈالا۔ ان کے مطابق، ہر انسان سے غلطیاں ہوسکتی ہیں، اور اس موقع پر ان کے غصے کی اصل وجہ یہی بے ادبی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس واقعے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پروگرام بنانے والوں کا مقصد ماحول کو اشتعال دلانا اور مخصوص ردِعمل حاصل کرنا تھا اور وہ اپنے مقصد میں کامیاب رہے۔
گزشتہ برس جون میں نشر ہونے والے اس پروگرام میں شامل ہونے والے اسکالر ساحل عدیم نے خواتین پر سخت تبصرے کیے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر 100 خواتین کا جائزہ لیا جائے تو 95 فیصد کو وہ جاہل پاتے ہیں، جنہیں صرف میک اپ اور ٹک ٹاک کا شوق ہے، اور وہ ’’طاغوت‘‘ جیسے بنیادی اسلامی تصور سے بھی ناواقف ہیں۔
ان کے اس بیان پر شو میں شریک لڑکی ازبحہ عبداللہ نے احتجاج کیا اور ساحل عدیم سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا۔ اس دوران دونوں جانب سے تیز و تند جملوں کا تبادلہ ہوا۔ ساحل عدیم نے اس لڑکی سے سوال کیا کہ کیا وہ ’’طاغوت‘‘ کا مطلب جانتی ہے؟ جب لڑکی نے لاعلمی کا اظہار کیا تو انہوں نے کہا کہ یہی جہالت ہے اور اسے تسلیم کرنا چاہیے۔
بات یہاں رکی نہیں۔ لڑکی نے جواب دیا کہ خواتین کو علم سے دور رکھنے والا معاشرہ خود پدر سری نظام کا نتیجہ ہے، مگر ساحل عدیم اس مؤقف سے متفق نہ ہوئے اور اپنی بات پر قائم رہے کہ جہالت کا نام لینا اسلام کا فرض ہے۔ جب لڑکی نے حوالہ مانگا تو انہوں نے حدیث کا حوالہ دیا کہ جاننے اور نہ جاننے والے برابر نہیں، اور جہالت کا انجام گڑھے میں گرنا ہوتا ہے۔
بحث کے دوران خلیل الرحمٰن قمر بھی اپنا سکون کھو بیٹھے۔ انہوں نے لڑکی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر عربی آیات سن کر تکلیف ہو رہی ہے تو یہ ناقابلِ برداشت ہے۔ انہوں نے میزبان سے کہا کہ لڑکی کا مائیک چھین لیں، اور اس لمحے نے پورے پروگرام کو مزید تنازعے کا شکار بنا دیا۔
یہ واقعہ جلد ہی سوشل میڈیا پر وائرل ہوگیا۔ جہاں کچھ لوگوں نے لڑکی کی جرأت کی تعریف کی، وہیں خلیل الرحمٰن قمر، ساحل عدیم اور میزبان کو بھی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ اب تقریباً ایک سال بعد، خلیل الرحمٰن قمر کا یہ انکشاف کہ پورا واقعہ ’’منصوبہ بندی‘‘ کے تحت رونما ہوا، اس تنازعے کو ایک نیا رخ دے رہا ہے۔
TagsShowbiz News Urdu.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: خلیل الرحم ن قمر انہوں نے لڑکی نے
پڑھیں:
چاند کے تاریک حصے میں خلائی مخلوق کی موجودگی؟ دلچسپ انکشاف
جہاں امریکا چاند پر دوبارہ انسان کو بھیجنے کی تیاریاں کر رہا ہے وہیں سی آئی اے کی 25 برس سے زیادہ عرصہ پرانی ایک فائل دوبارہ سامنے آئی ہے جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ چاند پر زندگی دریافت کر لی گئی ہے۔
1970 اور 80 کی دہائی میں سی آئی اے نے ایسے افراد کے ساتھ تجربات کیے تھے جن کا دعویٰ تھا کہ وہ فاصلہ پر موجود اشیاء، وقوعے یا لوگوں کی معلومات حاصل کر سکتے ہیں جس کو ’ریموٹ ویوئنگ‘ کا عمل کہا جاتا ہے۔
یہ عمل کرنے والے ایک شخص اِنگو سوان نے اس متعلق 1998 میں پہلی بار انکشاف کیا جب انہوں نے اس عمل کے ذریعے چاند کے تاریک حصے میں جانے کے متعلق تفصیلات بیان کیں۔ واضح رہے چاند کا یہ حصہ کبھی بھی زمین کے سامنے نہیں آتا اور انسانی آنکھ سے پوشیدہ رہتا ہے۔
یہ وہ جگہ تھی جہاں مشاہدہ کرنے والوں نے ٹاور، عمارتوں اور انسانوں جیسے خلائی مخلوق دیکھے، جو چاند کی سطح پر ایک خفیہ کمپلیکس پر کام کر رہے تھے۔
اِنگو سوان کا کہنا تھا کہ حکومتی اہلکار یہ جانتے تھے کہ وہاں خلائی مخلوق کی بیس ہے اور جب اِنہوں ذہنی صلاحیتوں کا استعمال کرتے ہوئے 2 لاکھ 38 ہزار میل دور یہ منظر دیکھا تو وہ خلائی مخلوق ان کی موجودگی کو محسوس کرسکتے تھے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ بالکل ہماری طرح دِکھنے والے خلائی مخلوق نے چاند پر بڑے بڑے متعدد ٹاور تعمیر کیے ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک کا سائز نیو یارک میں قائم اقوامِ متحدہ کی عمارت جتنا تھا۔
2013 میں انتقال کرجانے والے اِنگو سوان 1998 میں ایک کتاب 'Penetration: The Question of Extraterrestrial and Human Telepathy' لکھی جس میں انہوں نے ہوش اڑا دینے والے انکشافات کیے۔
اِنگو کے ان تمام دعووں کے باوجود امریکا، روس، چین، جاپان اور بھارت کے لونر مشنز چاند پر خلائی مخلوق کی بیسز یا زندگی کو ٹھوس ثبوت حاصل نہیں کر سکے۔