پوتا پوتی انور کہہ کر بلاتے ہیں، انور مقصود کا بچوں سے دوستی کا انوکھا فلسفہ
اشاعت کی تاریخ: 9th, June 2025 GMT
پاکستان کے نامور ادیب، مزاح نگار اور دانشور انور مقصود نے حال ہی میں ایک پوڈکاسٹ میں شرکت کی جس میں اُن کی گفتگو نے نہ صرف ناظرین کو مسکرانے پر مجبور کیا بلکہ کئی گہرے معاشرتی پہلوؤں پر سوچنے کی راہیں بھی کھول دیں۔
گوہر رشید کے ساتھ اس بےتکلف نشست میں انور مقصود نے زندگی، رشتوں، تنقید، تعریف اور معاشرے کے رویوں پر اپنے مخصوص شائستہ انداز میں خیالات کا اظہار کیا۔
گفتگو کے دوران انور مقصود نے بتایا کہ ان کا اپنے پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں سے رشتہ محض ایک بزرگ کا نہیں بلکہ دوستی پر مبنی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب بچے انہیں اُن کے نام سے پکارتے ہیں تو انہیں خوشی ہوتی ہے، عجیب نہیں لگتا۔ ان کے بقول، جب وہ بچوں سے پوچھتے ہیں کہ "مجھے انور کیوں کہتے ہو؟” تو وہ معصومیت سے جواب دیتے ہیں کہ "آپ ہمیں ہمارے نام سے کیوں پکارتے ہیں؟” انور صاحب نے کہا کہ بچوں کے ساتھ دوستی کرنا ہی اُن سے محبت کا سب سے خوبصورت طریقہ ہے، اور یہی ہر رشتے کی بنیاد ہونی چاہیے۔
تنقید کے رویے پر بات کرتے ہوئے انور مقصود نے کہا کہ اکثر لوگ دوسروں پر تنقید اس لیے کرتے ہیں تاکہ اپنی کمزوریاں چھپا سکیں۔ انہوں نے کہا کہ جو لوگ خود کچھ کرنے کی ہمت نہیں رکھتے، وہ دوسروں کی کامیابی کو دیکھ کر تنقید کا راستہ اپناتے ہیں۔ ان کے مطابق اگر کسی شعبے کا ماہر شخص تعمیری تنقید کرے تو وہ قابل غور ہوتی ہے، لیکن اگر تنقید کرنے والا متعلقہ فن سے ناواقف ہو تو وہ صرف حسد کی علامت ہے۔
معاشرتی تضادات پر بات کرتے ہوئے انور مقصود نے ایک دلچسپ مشاہدہ پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان میں دیواروں پر نظر دوڑائی جائے تو مردانہ طاقت کے اشتہارات عام نظر آتے ہیں، لیکن کہیں یہ نہیں لکھا ہوتا کہ خواتین کی طاقت بڑھائیں۔ ان کے بقول یہ رویہ اس بات کا ثبوت ہے کہ معاشرے میں مرد خود کو غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ طاقت کے دعوے صرف مردوں کے لیے کیے جاتے ہیں۔
انور مقصود کی یہ گفتگو سوشل میڈیا پر بھی موضوعِ بحث بنی، جہاں ناظرین نے ان کے انداز، بصیرت اور معاشرتی تنقید کو سراہا۔ ان کے جملے، چاہے طنز کے پیرائے میں ہوں یا محبت بھرے انداز میں، ہمیشہ سننے والوں کے دلوں کو چھو جاتے ہیں اور دیر تک سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔
TagsShowbiz News Urdu.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: نے کہا کہ
پڑھیں:
17 بچوں کو یرغمال بنانے والا ہلاک، روہت آریہ کے مطالبات کیا تھے؟
ممبئی کے علاقے پَوائی میں جمعرات کے روز 17 بچوں کو یرغمال بنانے والے شخص روہت آریہ کی موت ہو گئی۔
پولیس کے مطابق آریہ ایک ایئر گن سے پولیس پر فائرنگ کر رہا تھا، جس کے بعد پولیس نے جوابی فائر کیا۔ گولی آریہ کے سینے کے دائیں جانب لگی، اور وہ علاج کے دوران دم توڑ گیا۔ اس کی پوسٹ مارٹم رپورٹ ممبئی کے جے جے اسپتال میں تیار کی جا رہی ہے۔
RA اسٹوڈیو میں 2 گھنٹے کا ڈرامائی محاصرہیہ واقعہ RA اسٹوڈیوز نامی ایک چھوٹے فلم اسٹوڈیو میں پیش آیا، جہاں آریہ نے بچوں کو آڈیشن کے بہانے بلایا تھا۔
پولیس کے مطابق تمام 17 بچے، جن کی عمریں 8 سے 14 سال کے درمیان تھیں، تقریباً 2 گھنٹے یرغمال بنے رہے مگر بالآخر محفوظ طور پر بازیاب کر لیے گئے۔
یہ بھی پڑھیے ممبئی جارہے ہو تو مراٹھی بولنی پڑے گی، انڈیا میں دوران پرواز لسانی تنازع شدت اختیار کرگیا
پَوائی پولیس اسٹیشن کو 1:45 بجے دوپہر ہنگامی کال موصول ہوئی جس پر پولیس ٹیم فوری طور پر موقع پر پہنچی۔
ابتدائی طور پر مذاکرات کی کوشش کی گئی، مگر آریہ نے بچوں کو چھوڑنے سے انکار کر دیا اور انہیں نقصان پہنچانے کی دھمکیاں دینے لگا۔
اس پر پولیس نے باتھ روم کے راستے سے زبردستی داخل ہو کر کارروائی کی اور تمام بچوں کو بحفاظت نکال لیا۔
واقعے سے قبل آریہ نے ایک ویڈیو جاری کی تھی جس میں اس نے کہا کہ وہ خودکشی کے بجائے یہ قدم اٹھا رہا ہے۔
ویڈیو میں وہ کہتا ہے:
’میں روہت آریہ ہوں۔ خودکشی کرنے کے بجائے میں نے منصوبہ بنایا ہے کہ چند بچوں کو یرغمال بناؤں۔ میرے کچھ سادہ، اخلاقی اور اصولی مطالبات ہیں۔ اگر تم نے کوئی غلط قدم اٹھایا تو میں اس جگہ کو آگ لگا دوں گا۔ میں پیسے نہیں مانگ رہا، میں دہشتگرد نہیں ہوں۔‘
اس نے مزید کہا کہ اگر وہ زندہ رہا تو خود یہ ’مشن‘ جاری رکھے گا، اور اگر مر گیا تو ’کوئی دوسرا یہ کام کرے گا۔‘
پولیس کو ایئر گن اور کیمیکل کنٹینرز ملےپولیس نے موقع سے ایک ایئر گن اور کچھ کیمیائی مواد کے ڈبے برآمد کیے ہیں، جنہیں آریہ نے پولیس کو دھمکانے کے لیے استعمال کیا تھا۔
تمام بچے RA اسٹوڈیوز میں ویب سیریز کے آڈیشن کے لیے بلائے گئے تھے، جو ایک رہائشی عمارت کی نچلی منزل پر واقع ہے۔
روہت آریہ نے ماضی میں الزام لگایا تھا کہ حکومت نے اس کے پی ایل سی سینیٹیشن مانیٹر پروجیکٹ کے تحت کیے گئے کام کی ادائیگی نہیں کی۔
یہ منصوبہ وزیرِاعلیٰ کے پروگرام ’میرا اسکول، خوبصورت اسکول‘کے تحت چلایا گیا تھا۔
آریہ کے مطابق، اس نے 2013 میں ‘لیٹس چینج’ کے نام سے ایک مہم شروع کی تھی تاکہ اسکول کے بچوں کو صفائی کے سفیر بنایا جا سکے۔
اس نے دعویٰ کیا کہ حکومت نے اس کے لیے 2 کروڑ روپے کی منظوری دی تھی مگر جنوری 2024 سے کوئی ادائیگی نہیں کی گئی۔
یہ بھی پڑھیے یکطرفہ عشق کا انجام، طالب علم نے سابق اُستانی پر پیٹرول چھڑک کر آگ لگا دی
آریہ نے بتایا تھا کہ وہ 2 بار بھوک ہڑتال بھی کر چکا ہے اور سابق وزیرِ تعلیم دیپک کیسَرکر نے اسے ذاتی طور پر 7 لاکھ اور 8 لاکھ روپے کے 2 چیک دیے تھے، مگر مکمل رقم ادا نہیں کی گئی۔
محکمہ تعلیم کی تردیدمہاراشٹر کے سیکرٹری تعلیم رنجیت سنگھ دیول نے وضاحت کی کہ حکومت پر آریہ کی کوئی رقم واجب الادا نہیں۔
ان کے مطابق:
’روہت آریہ نے یہ کام رضاکارانہ طور پر کیا تھا اور اسے اس پر ایک تعریفی سند دی گئی تھی۔ بعد ازاں وہ حکومت کے ساتھ ‘میرا اسکول، سندر اسکول’ پروگرام کے نفاذ پر بات چیت کر رہا تھا، مگر وہ معاہدہ طے نہیں پا سکا۔‘
امن و امان کی بحالی کے لیے بڑا امتحانیہ واقعہ ممبئی پولیس کے لیے ایک اہم چیلنج ثابت ہوا، تاہم پولیس کی فوری اور مؤثر کارروائی سے تمام 17 بچے بلا نقصان بازیاب ہو گئے۔
پولیس واقعے کی مکمل تحقیقات کر رہی ہے اور اس بات کا جائزہ لیا جا رہا ہے کہ آریہ نے یہ انتہائی قدم کیوں اٹھایا؟
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں