اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن )وفاقی حکومت کی جانب سے مالی سال 2025-2026 کا 17 ہزار 600 ارب روپے کا بجٹ آج شام کو چار بجے پیش کیا جائے گا ۔

نجی ٹی وی ایکسپریس نیوز کے مطابق قومی اسمبلی میں بجٹ پیش کرنے سے قبل شام چار بجے وزیراعظم کی زیر صدارت ہونے والے وفاقی کابینہ کے خصوصی اجلاس میں بجٹ مسودے اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں و پنشن میں اضافے کی منظوری دی جائے گی۔ وفاقی حکومت کی جانب سے آئندہ مالی سال 2025-26 کے وفاقی بجٹ میں گریڈ ایک سے سولہ تک ملازمین کیلئے 30 فیصد ڈسپیرٹی الاوٴنس اور مہنگائی کے تناسب سے بجٹ میں تنخواہ اور پنشن میں 10 فیصد اضافے سمیت تین تجاویز زیر غور ہیں۔

لاہور میں 18سال بعد گرم ترین دن، پارہ کتنا رہا؟

بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافے کے ساتھ ساتھ سرکاری ملازمین پر عائد ٹیکس میں ریلیف کا بھی امکان ہے جبکہ مالی سال 2025-2026 کا کرنٹ اکاوٴنٹ خسارہ جی ڈی پی کا منفی 0.

5 فیصد رکھنے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔آئندہ مالی سال کرنٹ اکاوٴنٹ خسارہ 2 اعشاریہ ایک ارب ڈالر مختص کیا گیا ہے آئندہ مالی سال کیلئے برآمدات کا ہدف 35 ارب 30 کروڑ ڈالر مقرر کیا گیا ہے جبکہ درآمدات کا ہدف 65 ارب 20 کروڑ ڈالر مقرر کیا گیا ہے۔

بجٹ میں ایف بی آر کی ٹیکس وصولیوں کا ہدف چودہ ہزار ارب روپے سے زائد، اقتصادی ترقی کی شرح کا ہدف 4.2 فیصد رکھنے کی تجویز ہے جبکہ بجٹ میں وفاقی ترقیاتی بجٹ(پی ایس ڈی پی)کا حجم ایک ہزار ارب روپے متوقع ہے۔آئندہ مالی سال 26-2025 کے سالانہ ترقیاتی پلان کے تحت طے کردہ ہدایات کے مطابق مالی سال 26-2025 کا کرنٹ اکاوٴنٹ خسارہ جی ڈی پی کا منفی 0.5 فیصد رکھنے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔

جن علاقوں میں جبلی کا بل نہیں بھرا جاتا وہاں لوڈ شیڈنگ ہوتی رہے گی : وزیر خزانہ 

آئندہ مالی سال میں خدمات کے شعبہ میں برآمدات کا ہدف 9 ارب 60 کروڑ ڈالر مقرر کیا گیا ہے جبکہ خدمات کے شعبہ کی درآمدات کا ہدف 14 ارب ڈالر مختص کیا گیا ہے، اس کے علاوہ آئندہ مالی سال کیلئے ترسیلات زر کا ہدف 39 اعشاریہ 4 ارب ڈالر مقرر کیا گیا ہے۔حکام کے مطابق آئندہ مالی سال کیلئے اشیاء اور خدمات کی برامدات کا ہدف 44 اعشاریہ 9 ارب ڈالر مقرر کیا گیا ہے جبکہ اشیا اور خدمات کی درآمدات کا ہدف 79 اعشاریہ 2 ارب ڈالر مقرر کیا گیا ہے۔

آئندہ مالی سال کے لیے مہنگائی کا سالانہ اوسط ہدف ساڑھے 7 فیصد اور معاشی شرح نمو کا ہدف 4 اعشاریہ 2 فیصد مقرر کرنے کی تجویز ہے جبکہ آئندہ مالی سال کے لیے معاشی شرح نمو کا ہدف 4.2 فیصد مقرر کرنے، مہنگائی کا سالانہ اوسط ہدف 7.5 فیصد اور زرعی شعبے کا ہدف 4.5 فیصد مقرر کرنے کی تجاویز دی گئی ہیں ۔

پنجاب پولیس کے 2 شیر دل جوانوں کا نہتے غریب مزدور پر بیچ چورہے تشدد، شرمناک ویڈیو بھی سامنے آگئی

اسی طرح نئے مالی سال کے لیے صنعتی شعبے کے لیے 4.3 فیصد، خدمات کے شعبے کا ہدف 4 فیصد، مجموعی سرمایہ کاری کا ہدف 14.7 فیصد، فکسڈ انویسٹمنٹ کے لیے 13 فیصد، پبلک بشمول جنرل گورنمنٹ انویسٹمنٹ کا ہدف 3.2 فیصد اور پرائیویٹ انویسٹمنٹ کا ہدف 9.8 فیصد کی تجاویز سامنے آئی ہیںآ ئندہ مالی سال نیشنل سیونگز کا ہدف 14.3 فیصد مقرر کرنے، اہم فصلوں کا ہدف 6.7 اور دیگر فصلوں کا ہدف 3.5 فیصد، کاٹن جننگ 7 فیصد، لائیو اسٹاک 4.2 فیصد، جنگلات کا ہدف 3.5 فیصد اور فشنگ کا ہدف 3 فیصد مقرر کرنے کی تجاویز دی گئی ہیں۔

اسی طرح نئے مالی سال کے لیے مینوفیکچرنگ کا ہدف 4.7 فیصد رکھنے، لارج اسکیل 3.5، اسمال اسکیل 8.9 اور سلاٹرنگ کا ہدف 4.3 فیصد رکھنے کی تجویز ہے بجلی، گیس اور واٹر سپلائی کے لیے 3.5 فیصد کا ہدف مقررکرنے کی تجویز سامنے آئی ہے جبکہ تعمیراتی شعبے کا ہدف 3.8 فیصد رکھنے، ہول سیل اینڈ ریٹیل ٹریڈ کا ہدف 3.9 فیصد، ٹرانسپورٹ، اسٹورریج اینڈ کمیونیکیشنز کا ہدف 3.4 فیصد رکھنے، انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن کا ہدف 5 فیصد مقرر کرنے اور فنانشل اینڈ انشورنس سرگرمیوں کا ہدف 5 فیصد رکھنے کی تجاویز ہیں۔

سعودی وزارتِ حج و عمرہ میں حج آپریشن کی کامیاب تکمیل پر تقریب ،   پاکستان حج مشن کو "ایکسی لینس ایوارڈ" سے نوازا گیا

ذرائع کا کہنا ہے کہ اگلے مالی سال کیلئے وفاقی بجٹ کا حجم ساڑھے 17 ہزار ارب روپے سے 18 ہزار ارب روپے تک رہنے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق ایف بی آر آئندہ مالی سال کے دوران 14 ہزار 307 ارب روپے کے محاصل جمع کرے گا، 6 ہزار 470 ارب روپے ڈائریکٹ ٹیکس کی مد میں جمع کئے جائیں گے جبکہ فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی مد میں 11 سو 53 ارب روپے اور سیلز ٹیکس کا ہدف 4943 ارب روپے مقرر کیا گیا ہے۔

کسٹمز ڈیوٹی کی مد میں 1 ہزار 741 ارب روپے، پٹرولیم لیوی کا ہدف 13 سو 11 ارب روپے مقرر کیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق نان ٹیکس آمدن 25 سو 84 ارب روپے، صوبے 12 سو 20 ارب کا سرپلس دیں گے۔

معروف کالم نگار ، صحافی ، پروفیسر توفیق بٹ کے اعزاز میں عشائیہ کا اہتمام،  خدمات لازوال ہیں: رام کمار تولانی

 آئندہ سال قرضوں پر سود ادائیگیوں کیلئے 8 ہزار 685 ارب روپے خرچ کیے جائیں گے، آئندہ مالی سال کے دوران دفاع پر 2 ہزار 414 ارب روپے خرچ کیے جائیں گے جبکہ ترقیاتی منصوبوں پر وفاق 1065 ارب روپے خرچ کرے گا۔

واضح رہے کہ آئندہ مالی سال 6 ہزار 588 ارب روپے کا قرض حاصل کرنے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔

تینوں تجاویز کی قومی خزانے پر مالی بوجھ بارے الگ الگ ورکنگ پر مشتمل ورکنگ پیپر وزیراعظم کی زیر صدارت ہونے والے وفاقی کابینہ کے خصوصی اجلاس میں پیش کیا جائے گا اور وزیراعظم کی زیر صدارت ہونیو الے اس اہم اجلاس میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں و پنشن میں اضافے بارے حتمی منظوری دینے پر غور ہوگا۔

ذرائع کا کہناہے کہ آرمڈ فورسز کو کنٹری بیوٹری پنشن اسکیم سے مستثنی رکھنے کی بھی تجویز ہے، حکومت کو اتحادیوں نے بھی تنخواہوں میں اضافے کا مشورہ دیا ہے جبکہ آئندہ بجٹ میں عوام کو انرجی سیور پنکھے اقساط پر دینے کا اعلان بھی متوقع ہے اور عوام کو توانائی کم خرچ کرنے والے پنکھے اقساط پر دینے کا مقصد بجلی کی بچت ہے صارفین ان پنکھوں کی قیمت کی ادائیگی بجلی کے بلوں کے ذریعے اقساط میں کر سکیں گے بلاسود آسان اقساط پر پنکھوں کی فراہمی کی اسکیم کا امکان ہے۔

اس کے علاوہ بجٹ میں صنعتی ترقی کے لیے سات ہزار سے زائد ٹیرف لائنز پر ڈیوٹی میں کمی کا اعلان بھی متوقع ہے، جن میں خام مال، درمیانی اور کیپیٹل گڈز اوردیگر اشیا کی تیاری میں استعمال ہونے والی اشیاء شامل ہیں ذرائع کا کہنا ہے کہ توقع ہے کہ حکومت آئندہ بجٹ میں 4294 ٹیرف لائنز پر 2 فیصد ایڈیشنل کسٹمز ڈیوٹی (اے سی ڈی) ختم کرنے کا اعلان کرے گی، یہ زیادہ تر خام مال پر مشتمل ہیں، جس سے صنعتوں کی پیداواری لاگت میں کمی آئے گی۔

 بجٹ میں الیکٹرک گاڑیوں کے فروغ کیلئے پیٹرول اور ڈیزل پر چلنے والی گاڑیوں پر 5 سال لیوی لگانے، لیپ ٹاپ اور اسمارٹ موبائل فونز کی بیٹری اور چارجرز کی مقامی تیاری کیلئے مراعات دی جائیں گی۔

آئی ایم ایف کی مشاورت سے مختلف شعبوں کے اہم معاشی اہداف کا تعین بھی کردیا گیا ہے، پیٹرولیم مصنوعات پر لیوی لگانے سے سالانہ 24 ارب اور 5 سال میں 122 ارب روپے کا ریونیو متوقع ہے۔

ذرائع کے مطابق لیوی پیٹرول و ڈیزل پر چلنے والی تمام درآمدی اور مقامی تیار گاڑیوں پر لگائی جائے گی، حاصل رقم نئی 5 سالہ الیکٹرک وہیکل پالیسی 2026-30 پر خرچ ہوگی۔

ذرائع نے کہا ہے کہ لیپ ٹاپ اور اسمارٹ فونز کی بیٹری اور چارجرز کی مقامی تیاری کیلئے مراعات دینے کی بھی تجویز ہے۔ آئی ایم ایف نے اگلے مالی سال بھی سخت مالی و مانیٹری پالیسیاں برقرار رکھنے پر زور دیا ہےْ

آئندہ بجٹ میں پوائنٹ آف سیلز میں رجسٹرڈ ریٹیلرز پر ٹیکس چوری کرنے پر جرمانہ بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے، ٹیکس چوری میں ملوث ریٹیلرز پر جرمانہ 5 لاکھ روپے سے بڑھا کر 50 لاکھ روپے کیا جائے گا، روزانہ کی بنیاد پر ٹیکس چوری میں ملوث20 ریٹیلرز کو سیل کیا جا رہا ہے، ٹیکس چوری میں ملوث ریٹیلرز کی نشاندہی کرنے پر 5 ہزار سے 10 ہزار تک انعام ملے گا۔

ایف بی آر حکام نے کہا کہ پوائنٹ آف سیلز میں رجسٹرڈ ریٹیلرز کی تعداد 39 ہزار ہے، آئندہ بجٹ میں پوائنٹ آف سیلز میں ریٹیلرز کی تعداد بڑھا کر 70 لاکھ کرنے کا ہدف ہے، بجٹ میں ریٹیلرز پر مانیٹرنگ کیمرہ اور نگرانی کیلئے ملازمین کی تعیناتی بھی کی جائے گی۔

وفاقی حکومت نے آئندہ مالی سال 25 ارب ڈالر سے زائد قرض حاصل کرنے کا تخمینہ لگا یا گیا ہے۔ ذرائع وزارت خزانہ کے مطابق سعودی عرب، چین، یو اے ای اور دیگر دوست ممالک سے 12 ارب ڈالر قرض رول اوور کرایا جائے گا۔

آئندہ مالی سال 4.6 ارب ڈالر پراجیکٹ کیلئے فنانسنگ کا تخمینہ لگایا گیا ہے، 3.2 ارب ڈالر چینی کمرشل لون کی ری فنانسنگ کرائی جائے گی وزارت خزانہ کے ذرائع نے بتایا ہے کہ چین سے 1 ارب ڈالر کا نیا کمرشل قرض حاصل کرنے کا پلان ہے، 2 ارب ڈالر آئی ایم ایف سے قرض قسط پلان میں شامل ہے۔

موٴخر ادائیگیوں پر سعودی آئل فیسیلیٹی اور دیگر کی مد میں 2 ارب ڈالر کا تخمینہ لگایا گیا ہے ذرائع نے مزید کہا ہے کہ پراجیکٹ فنانسنگ میں عالمی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک اور دیگر مالیاتی ادارے شامل ہیں، یو اے ای سے سیف ڈپازٹ کو رول اوور کرانے کی ذمہ داری مرکزی بینک پر ہو گی۔

آئی ایم ایف سے ای ایف ایف قرض اقساط کی ذمہ داری وزارت خزانہ کی ہو گی اور تقریباً ساڑھے 19 ارب سے 20 ارب ڈالر اقتصادی امور ڈویژن کی ذمہ داری ہے۔

مزید :

ذریعہ: Daily Pakistan

کلیدی لفظ: سرکاری ملازمین آئندہ مالی سال کیا جائے گا ملازمین کی میں اضافے کے مطابق ارب روپے جائے گی ہے جبکہ

پڑھیں:

ریاست نئے مالیاتی معاہدے کی کھوج میں

وطن عزیز میں نئے صوبے قائم کرنے کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔ ساتھ ساتھ یہ آوازیں بھی بلند ہو رہی ہیں کہ قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ ازسرنو طے کیا جائے جس کے ذریعے وفاق اور صوبے آپس میں وسائل وآمدن کی تقسیم کرتے ہیں۔ ایسا پہلا ایوارڈ 1951 ء میں آیا تھا۔ اب تک سات ایوارڈ بنائے جا چکے۔آخری ایوارڈ پندرہ سال قبل 2010ء میں بنا تھا۔ حال ہی میں وفاقی حکومت نے آٹھواں ایوارڈ بنانے کے لیے گیارہواں قومی مالیاتی کمیشن تشکیل دیا ہے۔

یہ خوش آئند علامت ہے کہ اس کمیشن کا قیام عمل میں آ چکا ۔ اُمید ہے کہ یہ پندرہ سال بعد باہمی اتفاق رائے سے آٹھواں ایوارڈ پیش کرنے میں کامیاب ہوجائے گا۔ اس کو موجودہ اقتصادی بحران، پسماندہ علاقوں کی محرومی ،جی ڈی پی اور آبادی کے تناسب جیسے نئے عوامل زیادہ معقول انداز میں مدنظر رکھتے تشکیل دیا جائے گا۔

ذرائع کے مطابق وفاقی حکومت نے قابل تقسیم آمدن میں سے صوبوں کا حصہ کم از کم 10 فیصد کم کرنے کی تجویز دی ہے کیونکہ وہ مالی وسائل کی کمی کا شکار ہے اور اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری، گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر کے لیے فنڈز مختص کرنے پر غور کر رہی ہے جو اس کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں۔

وفاق خوش نہیں

وفاق جو صوبوں کو آمدن دے کر تقریباً خالی ہاتھ رہ جاتا ہے، اب چاہتا ہے کہ وفاقی ٹیکسوں کو تعلیم، صحت، آبادی کے نظم و نسق اور ماحولیاتی اشاریوں میں بہتری سے مشروط کیا جائے۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ وفاق میں قائم مخلوط حکومت اپنے ہی سیاسی اتحادیوں کو جو تین صوبوں میں اقتدار میں ہیں،اس ضمن میں کس حد تک قائل کر پائے گی۔

قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ طویل عرصے سے وفاق اور صوبوں کے درمیان تنازع کا باعث رہا ہے کیونکہ وفاق موجودہ وسائل کی تقسیم کے فارمولے سے خوش نہیں۔ وفاقی قابل تقسیم محاصل کا 57.5 فیصد حصہ صوبوں کو دیا جاتا ہے جبکہ وفاق بدستور قرضوں کے دلدل میں پھنسا ہوا ہے۔

امید ہے، نیا کمیشن امدادی گرانٹس کے سلسلے میںمفید تجاویز دے گا ۔نیز وفاقی و صوبائی حکومتوں کی قرض لینے کی صلاحیت کا بھی ازسرنو جائزہ لے گا۔ ریاست پاکستان جو بڑھتے قرضوں اور آبادی کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے،اس کو اب ایک نئے مالیاتی معاہدے کی ضرورت ہے۔کمیشن کو چاہیے کہ وہ اصلاحات اور مردم شماری کو غیر سیاسی بنانے اور کارکردگی پر مبنی وسائل کی تقسیم کی طرف پیش رفت کرے۔وہ مجموعی قومی پیداوار (GNP) اور ٹیکس وصولی کو بنیاد بنائے نہ کہ صرف آبادی کو۔

آخر میں یہ کہ اگر قومی مالیاتی کمیشن غیر سیاسی ماہرینِ معیشت، ماہرینِ قانون اور باوقار بیوروکریٹس پر مشتمل ہو، تو یہ غربت اور زوال کی کھائی سے معاشرے کو نکالنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔بہرحال وفاقی خسارے کا رجحان تشویشناک ہی نہیں بلکہ ناقابلِ برداشت ہے۔اس لیے اب صوبوں کو بھی قرض اور دفاع میں اپنا منصفانہ حصہ ڈالنا ہوگا۔

پاکستان پہ چڑھا قرض

ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کا عوامی قرضہ مجموعی قومی پیداوار کے 71 فیصد تک پہنچ گیا ہے، جو مالیاتی ذمے داری اور قرضہ حد بندی ایکٹ (FRDLA) کے تحت مقررہ 60 فیصد کی قانونی حد سے تجاوز کر چکا ۔ یہ بات وزارتِ خزانہ نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ و محصولات کو بتائی۔

رپورٹ کے مطابق سید نوید قمر کی زیرِ صدارت اجلاس میں بتایا گیا کہ مجموعی عوامی قرضہ تقریباً 80.5 ہزار ارب روپے تک جا پہنچا ہے، جو گزشتہ ایک دہائی میں’’ قرضہ بالموازنہ جی ڈی پی تناسب‘‘ میں 10 فیصد سے زائد اضافے کی عکاسی کرتا ہے۔

حکام کے مطابق مالی سال 2025 ء کے اختتام تک مجموعی قرضہ جی ڈی پی کے 70.8 فیصد کے برابر ہو گیا جو 2016 ء میں 60.1 فیصد تھا۔ بتایا گیا کہ بیرونی قرضہ جو 2016 ء میں 6 ہزار کھرب روپیتھا ، اب بڑھ کر 2025 ء میں 26 ہزار ارب روپے تک پہنچ گیا ہے جبکہ ملکی قرضہ اسی عرصے میں 13.6 ہزار ارب روپے سے بڑھ کر 54.5 ہزار ارب روپے ہو گیا۔

مالی سال 2025 ء میں قرضوں کی ادائیگی پر خالص وفاقی محصولات کا 89 فیصد خرچ ہو چکا جس کے بعد دیگر تمام وفاقی اخراجات بشمول دفاع، پنشن، ترقیاتی منصوبے اور سبسڈیز کے لیے صرف 11 فیصد باقی بچتا ہے۔

ماہرینِ معاشیات نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے خبردار کیا کہ اگر یہی رجحان جاری رہا تو 2035 ء تک پاکستان کا قرضہ بالموازنہ جی ڈی پی تناسب 85 فیصد تک پہنچ سکتا ہے، جو FRDLA کی مقررہ حد سے کہیں زیادہ ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ جاپان کا قرضہ تناسب تقریباً 200 فیصد ہے، لیکن پاکستان زیادہ مالیاتی دباؤ میں ہے کیونکہ اس کی محصولات کی بنیاد محدود ہے اور قرضوں کی ادائیگی کے اخراجات بہت زیادہ ہیں۔

گہرے ہوتے مالی خطرات

کمیٹی کے سامنے ‘‘پاکستان کا عوامی قرضہ: حرکیات، چیلنج اور ہم آہنگ اصلاحات کی ضرورت’’ کے عنوان سے ایک پالیسی دستاویز بھی پیش کی گئی جس میں بتایا گیا کہ غیر پائیدار قرض لینے کے طریقے اور کمزور ادارہ جاتی ہم آہنگی مالی خطرات کو مزید گہرا کر رہے ہیں۔

رپورٹ میں ‘‘مالیاتی غلبے کے ایک تباہ کن چکر’’ (a vicious cycle of fiscal dominance ) کی نشاندہی کی گئی جس میں حکومت کے وسیع پیمانے پر قرض لینے سے نجی شعبے کو قرض کی فراہمی محدود ہو جاتی ہے، مرکزی بینک کو لیکویڈیٹی (نقدی کی دستیابی) بڑھانے پر مجبور کیا جاتا ہے اور بینکوں کو سرکاری بانڈز پر بلند منافع حاصل کرنے کا موقع ملتا ہے۔ رپورٹ نے خبردار کیا کہ اس عمل سے مالیاتی پالیسی کا مؤثر پن کمزور ہوتا، مہنگائی برقرار رہتی اور سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔

ماہرین نے تجویز دی کہ پاکستان کو ایک ہم آہنگ مالیاتی اور زری (monetary) حکمتِ عملی اپنانی چاہیے جو معتبر اداروں اور شفاف اصولوں کی بنیاد پر ہو۔ انہوں نے سفارش کی کہ وزارتِ خزانہ کے اندر ایک ماڈل پر مبنی نظام (in-house, model-based framework ) قائم کیا جائے، جو شرحِ سود اور یِیلڈ کَرو (yield curve) کی پیش گوئی کر سکے۔ ساتھ ہی باقاعدگی سے قرض کی پائیداری کے تجزیے (debt-sustainability assessments) اور ہنگامی منصوبے ( plans contingency) شائع کیے جائیں تاکہ سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہو جائے۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ اگر حکومت 1.5 فیصد کا پرائمری سرپلس ( surplus primary ) برقرار رکھے اور سالانہ مجموعی قومی پیداوار ( GDP nominal) میں تقریباً 5 فیصد اضافہ حاصل کرے، تو قرض کی پائیداری بحال کی جا سکتی ہے۔ متبادل طور پر اگر مجموعی قومی پیداوار کی شرحِ نمو کم از کم شرحِ سود سے تین فیصد زیادہ رہے، تو مالی سال 2035 ء تک قرضہ بالموازنہ جی ڈی پی تناسب بتدریج 60 فیصد سے کم ہو سکتا ہے ۔ لیکن یہ صرف اس صورت میں ممکن ہے جب وزارتِ خزانہ، اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور پارلیمنٹ کے درمیان مضبوط ہم آہنگی قائم ہو۔

کمیٹی کے ارکان نے ملک کی قرض منیجمنٹ حکمتِ عملی، بیرونی قرضوں اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے کردار سے متعلق سوالات اٹھائے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ طویل المدتی اصلاحات کی ضرورت ہے تاکہ مالیاتی نظم و ضبط مضبوط کیا جا سکے، غیر بینک ذرائع سے مالی اعانت میں وسعت پیدا کی جا ئے اور کم شرحِ سود والے طویل مدتی قرضوں کی طرف منتقلی ہو سکے۔

 زیادہ منصفانہ انتظام

ماہرین معاشیات یہ بھی کہتے ہیں کہ ساتویں قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ کا موجودہ ڈھانچا توڑنے کے بجائے اسے برقرار رکھتے ہوئے ایک زیادہ منصفانہ انتظام متعارف کرایا جائے… ایسا نظام جس میں صوبے بھی قومی قرض کی ادائیگی اور دفاعی اخراجات کے مالیاتی خرچ میں اپنا حصہ ڈال سکیں۔

ساتویںقومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ نے صوبوں کا حصہ تقسیم شدہ محاصل (divisible pool ) میں 47.5 فیصد سے بڑھا کر 57.5 فیصد کر دیا تھا۔مگر اس کا افقی فارمولا جو 82 فیصد آبادی کی بنیاد پر، 10.3 فیصد غربت اور پسماندگی پر، 5 فیصد محاصل کی پیداوار پر اور 2.7 فیصد آبادی کی معکوس کثافت پر مبنی ہے، وقت کے ساتھ وفاقی حکومت کو بھاری بھرکم مجموعی خسارے’’44 ہزار ارب روپے‘‘ (2010 ء سے 2024 ء تک ) میں دھکیل چکا ۔اگر یہ رجحان نہ روکا گیا تو خسارہ 2035 ء تک بڑھ کر تقریباً ’’200 ہزار ارب روپے‘‘ تک جا سکتا ہے۔

خطرے کی گھنٹی

 وفاقی خسارے کا یہ رجحان صرف پریشان کن نہیں ناقابلِ برداشت ہے۔ وجہ یہ کہ قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ سراسر غیر پائیدار ہے۔

وفاقی بجٹ برائے 2025-26 ء میں ایف بی آر کے ٹیکس محاصل 14 ہزار ارب روپے اور نان ٹیکس آمدن 5 ہزار ارب روپے متوقع ہیں ۔ اس طرح کل وفاقی آمدن 19 ہزار ارب روپے ہوگی۔

اس رقم میں سے 8 ہزار ارب روپے صوبوں کو قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ کے تحت منتقل کرنے لازمی ہیں۔جبکہ 8.2 ہزار ارب روپے صرف سود کی ادائیگی کے لیے مختص ہیں۔ گرانٹس اور سبسڈیز نکالنے کے بعد وفاقی حکومت کے پاس مؤثر طور پر کچھ بھی نہیں بچتا۔

خزانہ خالی ہو جانے کا نتیجہ ہے، وفاقی حکومت کو اپنے اخراجات کی خاطر قرض لینا پڑتا ہے جن میں نمایاں یہ ہیں: دفاعی امور (2.5 ہزار ارب روپے)، پنشن (1 ہزار ارب روپے)، ترقیاتی اخراجات (1.3 ہزار ارب روپے)، سول حکومت کے انتظامی امور (971 ارب روپے) اور ہنگامی صورتحال کے لیے مختص فنڈ (389 ارب روپے)

درج بالا حساب کتاب صاف ظاہر کرتا ہے کہ موجودہ قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ کا انتظام مالی طور پر ناقابلِ برداشت ہے۔

مالیاتی دباؤ کی جڑ

 وفاقی حکومت جس مالیاتی دباؤ کا شکار ہے، اس کی جڑ قرضوں کی ادائیگی اور دفاعی اخراجات میں موجود ہے۔

۔نکتہ نمبر 1: قرضوں کی ادائیگی اور دفاع وفاقی حکومت کی عیاشی نہیں ہے۔

۔نکتہ نمبر 2: سود کی ادائیگی کے لیے مختص 8.2 ہزار ارب روپے دراصل وہ قرض ہیں جو پاکستان کے تمام چاروں صوبوں اور ریاست کے لیے اور ان پر خرچ کیے گئے۔وہ صرف اسلام آباد کے لیے مختص نہ تھے۔

۔نکتہ نمبر 3: دفاعی امور کے لیے مختص 2.5 ہزار ارب روپے پاکستان کے 8,81,913 مربع کلومیٹر کے رقبے کو تحفظ فراہم کرنے کی خاطر خرچ ہوں گے۔ان کا تعلق صرف اسلام آباد کے 906 مربع کلومیٹر رقبے سے نہیں۔

پاکستان کی ترقی و خوشحالی کے لیے ایک زیادہ سادہ اور عملی راستہ واضح ہے… صوبوں کو بھی قومی قرض اور دفاع کے اخراجات میں اپنا منصفانہ حصہ ڈالنا ہوگا، بالکل اسی تناسب سے جس کے ذریعے وہ قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ فارمولے سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔اس بندوبست کو ’’تناسبی شراکت ماڈل‘‘ (Proportional Sharing model)کہا جا سکتا ہے۔

درج بالا ماڈل کے تحت قرضوں کی ادائیگی اور دفاع کو قومی سطح پر اولیّں ترجیح (first charge) سمجھا جائے … یعنی ان اخراجات کو کل وسائل میں سے کاٹ کر باقی رقم تقسیم شدہ محاصل میں ڈالی جائے۔ اس طریق کار کے تحت وفاقی حکومت قرضوں کی ادائیگی اور دفاعی اخراجات کا  42.5 فیصد بوجھ اٹھائے گی جبکہ صوبے اجتماعی طور پر 57.5 فیصد برداشت کریں گے۔

وسائل کا بقیہ صوبائی حصہ پھر موجودہ قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ فارمولے کے مطابق یوں تقسیم ہوگا:

٭ پنجاب: 51.74%

٭ سندھ: 24.55%

٭ خیبر پختونخوا: 14.62%

٭ بلوچستان: 9.09%

مثبت دلائل

حقائق سے آشکارا ہے، تناسبی شراکت ماڈل کے تحت صوبوں کا خالص حصہ مثبت ہی رہے گا جس سے وہ اپنے اخراجات پورے کر سکیں گے۔

۔…یہ کسی صوبے کو سزا دینے کا معاملہ نہیں، یہ انصاف کا معاملہ ہے۔

۔…یہ قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ فارمولا برقرار رکھنے کا گر ہے۔

۔…یہ اٹھارہویں ترمیم سے حاصل کردہ ثمرات کو محفوظ رکھنے کی بات ہے۔

۔…یہ نئے صوبوں کی سرحدیں یا نیا فارمولے دوبارہ بنانے کے انتشار سے بچنے کا راستہ ہے۔

۔…یہ قومی مالیاتی نظم و ضبط کو لاگو کرنے اور اس کی حوصلہ افزائی کرنے کا نسخہ ہے۔

۔…یہ مالیات کو سیاسی تماشا بنائے بغیر مستحکم کرنے کی بات ہے۔

۔…یہ بوجھ بانٹنے کی بات ہے نہ کہ پہیہ دوبارہ ایجاد کرنے کی!

صدر آصف علی زرداری نے آئین کے آرٹیکل 160 کے تحت 11ویں قومی مالیاتی کمیشن (این ایف سی) کے قیام کا نوٹیفکیشن جاری کیا۔ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی سربراہی میں قائم اس نو رکنی کمیشن میں صوبائی وزرائے خزانہ اور ہر صوبے سے ایک ماہر شامل ہے۔ یہ یاد رہے، تاریخی نوعیت کے ساتویں این ایف سی ایوارڈ کے بعد تین کمیشن … آٹھواں (2015ء )، نواں (2016ء) اور دسواں (2019ء ) تشکیل دیے گئے لیکن کوئی بھی نیا اتفاق رائے قائم نہ کر سکا اور پرانا فارمولہ ازخود نافذ العمل رہا۔

ہر بار وفاق نے قرضوں کی ادائیگی، دفاع اور سبسڈیز کے لیے زیادہ حصہ مانگا جب کہ صوبوں نے مزاحمت کی اور مؤقف اختیار کیا کہ 18ویں ترمیم کے بعد انہیں صحت، تعلیم اور مقامی ترقی کے لیے زیادہ فنڈز درکار ہیں۔ سیاسی محاذ آرائی، وزرائے خزانہ کی بار بار تبدیلی اور جی ڈی پی کے مقابلے میں تقریباً 11 فیصد کی مستقل کم شرحِ ٹیکس وصولی نے بھی پیش رفت کو روکے رکھا۔

جمود توڑنے کی کوشش

فارمولے میں ڈھانچہ جاتی خامیاں یعنی کارکردگی کے بجائے آبادی کے حجم اور غربت کو مدنظر رکھنا اصلاحات کی حوصلہ شکنی کرتی رہیں۔ نتیجتاً پچھلے 15 برسوں سے کوئی نیا ایوارڈ طے نہیں ہو سکا۔ 11واں کمیشن اسی جمود کو توڑنے کی ایک اور کوشش ہے۔ کاغذ پر یہ ایک معمول کی آئینی مشق دکھائی دیتی ہے، لیکن حقیقت میں 11واں قومی مالیاتی کمیشن پاکستان میں آج کے سب سے متنازع سیاسی مباحثوں میں سے ایک کو جنم دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

2010 ء میں منظور ہونے والا ساتواں قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ اْس وقت ایک "تاریخی کامیابی" قرار دیا گیا تھا۔ اس نے وسائل کی تقسیم صرف آبادی کی بنیاد پر کرنے کی پرانی روایت توڑ دی، ایک کثیر الجہتی فارمولا متعارف کرایا اور سب سے بڑھ کر صوبوں کے حصے میں وفاقی ٹیکس آمدن کا 10 فیصد اضافی حصہ شامل کیا۔ وفاق کے لیے یہ ایک بڑی رعایت دینا تھی جب کہ صوبوں کے لیے یہ ایک دیرینہ کامیابی تھی۔

تقسیمِ وسائل میں عمودی حصے کے مطابق صوبوں کو 57.5 فیصد اور وفاق کو 42.5 فیصد دیا گیا۔ افقی تقسیم میں فارمولا درج بالا بیان ہو چکا۔لیکن جو کبھی کامیابی سمجھی گئی تھی، اب اسے بڑھتی ہوئی حد تک ڈھانچہ جاتی طور پر ناقص مانا جا رہا ہے۔ وفاقی حکومت شدید مالی دباؤ کا شکار ہے اور قرضوں کی واپسی، دفاعی ضروریات نیز ترقیاتی اخراجات پورے کرنے سے قاصر ہو چکی۔ ناقدین کا کہنا ہے، اگرچہ صوبوں کا حصہ بڑھ گیا لیکن ان کی ذمے داریاں نہیں بڑھیں۔ اسلام آباد تو وسائل بڑھانے کے لیے بھاگ دوڑ کرتا ہے جب کہ صوبائی حکومتیں اپنے ٹیکس نیٹ بڑھانے کی سنجیدہ کوششیں کیے بغیر وفاقی منتقلیوں پر انحصار کرتی چلی آ رہی ہیں۔

سیاسی چیلنج بھی اتنا ہی کٹھن ہے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا اصرار ہے ، صوبوں کو فنڈز سے محروم نہیں کیا جا سکتا، خاص طور پر جب 18ویں ترمیم کے بعد انہیں زیادہ ذمے داریاں سونپی گئی ہیں۔ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی قیادت کا مؤقف ہے کہ فاٹا کے انضمام کے بعد صوبے کو اضافی وسائل ملنے چاہیں، جو ان کے مطابق نہیں دیے گئے۔ چونکہ تمام بڑی سیاسی جماعتیں صوبائی حکومتیں چلا رہی ہیں، اس لیے یہ توقع کہ وہ اپنے حصے سے ازخود دستبردار ہو جائیں گی، غیر حقیقت پسندانہ معلوم ہوتی ہے۔

فارمولے کی خامیاں

تاہم اگر اہل پاکستان اصلاحات لانے کے بارے میں سنجیدہ ہیں تو آبادی پر مبنی فارمولا لازمی طور پر بدلنا ہوگا۔ جیسا کہ بتایا گیا، موجودہ فارمولے میں 82 فیصد وزن آبادی کو دیا گیا ہے۔ یہ اشاریہ صوبائی حکومتوں کو آبادی پر قابو پانے کی کون سی ترغیب دیتا ہے؟ منصوبہ بندی کے وزیر احسن اقبال بجا طور پر کہتے ہیں کہ صوبے آبادی پر قابو پانے سے گریز کرتے ہیں کیونکہ زیادہ آبادی کا مطلب زیادہ مالی حصہ ملنا ہے۔ دلچسپ بات یہ کہ خیبر پختونخوا کی حکومت اس سوچ کی حمایت کرتی نظر آتی ہے۔ اس کے وزیر خزانہ نے تو یہاں تک کہا ہے کہ آبادی اور پسماندگی ،فارمولے سے ان دونوں اشاریوںکا وزن ختم کر دینا چاہیے۔

عملی طور پر صوبوں کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ پاکستان کا ٹیکس برائے جی ڈی پی تناسب تقریباً 11 فیصد پر جمود کا شکار ہے، جو خطے کے دیگر ممالک سے کہیں کم ہے۔ صوبے بمشکل جی ڈی پی کا 1 فیصد سے بھی کم ٹیکس جمع کرتے ہیں جب کہ ایف بی آر 10 فیصد سے زائد اکٹھا کرتا ہے۔ ساتویں ایوارڈ میں وعدہ کیا گیا تھا کہ 2015ء تک ٹیکس برائے جی ڈی پی تناسب 15 فیصد تک بڑھایا جائے گا، جس میں صوبوں کا حصہ 2.5 فیصد ہوگا۔ لیکن ایک دہائی گزر جانے کے باوجود کچھ نہیں بدلا۔

یہی منطق غربت و پسماندگی کے اشاریے پر بھی صادق آتی ہے جو اس وقت این ایف سی فارمولے میں 10.3 فیصد وزن رکھتا ہے۔ اگر صوبوں کو صرف غریب رہنے پر انعام دیا جائے گا تو انہیں غربت کم کرنے کی کیسے ترغیب ملے گی؟ یہ اشاریے تو کارکردگی کے بجائے خامیوں اور خرابیوں کو فروغ دینے کا بندوبست رکھتے ہیں ۔

 فارمولا اس طرح ازسرِنو بنایا جانا چاہیے کہ ترقی کرنے والے صوبوں کو انعام دیا جائے…معنی یہ کہ جو صوبے غربت کم کرنے، صحت و تعلیم بہتر بنانے یا ماحولیاتی لچک پیدا کرنے میں کامیاب ہوں، انہیں زیادہ وسائل ملنے چاہیں۔ اصلاحات کی فوری ضرورت بالکل واضح ہے: عالمی بینک کے مطابق پاکستان میں غربت کی شرح 2010 ء میں 36.8 فیصد تھی لیکن 2025ء تک بڑھ کر 44.7 فیصد ہو گئی۔یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ موجودہ انتظامی و مالیاتی نظام پاکستانی معاشرے میں کوئی معنی خیز اور عوام دوست تبدیلی نہیں لا سکا۔

اب آتی ہے محصولات کی وصولی جس کا حصہ محض 5 فیصد ہے۔ قبل ازیں ذکر ہوا کہ عملی طور پر صوبوں نے اس میں بھی کچھ خاص کردار ادا نہیں کیا۔ پاکستان کا ٹیکس برائے جی ڈی پی تناسب وہی 11 فیصد کے قریب اٹکا ہوا ہے، صوبے ایک فیصد سے بھی کم اکٹھا کرتے ہیں۔ گویا سنجیدہ مالیاتی اصلاحات کے بغیر قومی مالیاتی ایوارڈ ہمیشہ ایک "بے معنی نظام" ہی رہے گا۔

ساتواں قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ اتفاقِ رائے سے اس لیے بن سکا تھا کہ پنجاب اور سندھ نے قومی ہم آہنگی کی خاطر قربانی دینے پر آمادگی ظاہر کی تھی۔ لیکن آج کا سیاسی ماحول کہیں زیادہ سخت ہے۔ ہر جماعت اپنے صوبائی دائرے سے چمٹی ہوئی ہے۔ مرکز خالی خزانے کے ساتھ بیٹھا ہے۔ صوبے مطمئن اور بے پروا ہیں اور قومی معیشت گھمبیر بحران کا شکار ہے۔

11واںقومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ صرف پیسوں کی تقسیم کا معاملہ نہیں ، یہ پاکستان کو ان تلخ حقیقتوں کا سامنا کرنے پر مجبور کرنے کے بارے میں ہے… کہ آبادی میں بے قابو اضافہ روکنا ہوگا، غربت کو حقِ موروثی کے طور پر نہیں لیا جا سکتا اور صوبوں کو اسلام آباد کے سکڑتے وسائل پر انحصار کرنے کے بجائے اپنی آمدن خود پیدا کرنی ہوگی۔

یہ کمیشن کامیاب ہوتا ہے یا اپنے پیش روؤں کی طرح ناکام ہوجاتا ہے، دونوں صورتوں میں یہ بات کھل کر سامنے آ جائے گی کہ آیا پاکستان کی سیاسی قیادت تنگ نظری سے بالاتر ہو کر وفاق کے مفاد میں فیصلے کر سکتی ہے یا نہیں۔ یہاں صرف مالی توازن ہی داؤ پر نہیں لگا بلکہ ایک فعال ریاست کے بقا کا سوال بھی ہم سب کے سامنے ہے۔

متعلقہ مضامین

  • سینیٹ اجلاس کل منگل، قومی اسمبلی کا اجلاس بدھ کو طلب کرنے کا فیصلہ
  • قومی اسمبلی کا اجلاس بدھ 5نومبر کو طلب کرنے کا فیصلہ،سمری وزیراعظم کو ارسال
  • خان گڑھ: اسپیکر سندھ اسمبلی سید اویس شاہ ،رکن قومی اسمبلی سردار علی گوہر خان مہر سے والدہ کے انتقال پر تعزیت کررہے ہیں
  • ریاست نئے مالیاتی معاہدے کی کھوج میں
  • پاکستان میں تعلیم کا بحران؛ ماہرین کا صنفی مساوات، سماجی شمولیت اور مالی معاونت بڑھانے پر زور
  • سول ہسپتال کوئٹہ میں مالی بے ضابطگیوں کا انکشاف
  • صرف ایک سال میں 10 ہزار ارب روپے کا نیا بوجھ، حکومتی قرضے 84 ہزار ارب سے متجاوز
  • رکن قومی اسمبلی علی گوہر مہر اور علی نواز مہر کی والدہ انتقال کر گئیں
  • بھارتی قومی اسمبلی (لوک سبھا) کے 93 فیصد ارکان کروڑ و ارب پتی بن گئے، عوام بدحال؛ رپورٹ
  • ایک سال میں حکومتی قرضوں میں 10 ہزار ارب روپے کا اضافہ، مجموعی قرض 84 ہزار ارب سے تجاوز کر گیا