اہرام مصر کے نیچے ایک اور خفیہ شہر دریافت
اشاعت کی تاریخ: 10th, June 2025 GMT
سائنس دانوں کی ایک ٹیم (جس نے مصر میں زیر زمین ایک ’پوشیدہ شہر‘ کے متعلق بتایا تھا) نے دوسرے شہر کی دریافت کے متعلق اعلان کر دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ چیز زیر زمین ایک پیچیدہ ڈھانچے کی موجودگی کو ثابت کرتی ہے جو جیزا کے اہرام کو سطح سے دو ہزار فٹ کی گہرائی کے ساتھ جوڑتے ہیں۔
نو دریافت شدہ ستون اور خانوں کے وجود کی اگر تصدیق ہوجاتی ہے تو یہ تاریخ کو ایک نیا رخ دے سکتے ہیں۔
اطالوی محققین کی ایک ٹیم نے اس سے قبل مارچ میں خفرع اہرام کے نیچے زیر زمین وسیع ڈھانچے دریافت کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ جس کے بعد بڑے ماہرینِ آثارِ قدیمہ کی جانب سے ان کو شدید ردِ عمل کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ دریافت غلط ہے اور اس کی کوئی سائنسی بنیادیں نہیں ہیں۔
تنقید سے بے پروہ ٹیم نے اب مبینہ طور پر مینکور کے اہرام (جیزا میں موجود تین مرکزی اہرام میں سب سے چھوٹا) کے نیچے بھی بالکل خفرع جیسے ستون کی نشان دہی کی گئی ہے۔
اسکاٹ لینڈ کی یونیورسٹی آف اسٹارتھکلائیڈ کے ریڈار ماہر اور تحقیق کے شریک مصنف فلیپو بیونڈی نے بتایا کہ اس بات کے 90 فی صد امکانت ہیں کہ مینکور کے نیچے بھی ویسے ہی ستون ہیں جیسے خفرع کے نیچے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ماہرین کو پختہ یقین ہے کہ جیزا اہرام آپس میں ملے ہیں اور اس نظریے کو ثبت کرتے ہیں کہ اہرام زیر زمین موجود ایک بہت بڑے انفرا اسٹرکچر کا محض ایک چھوٹا سا ظاہری کنارہ ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کے نیچے
پڑھیں:
اسرائیل اور امریکی کمپنیوں کے خفیہ گٹھ جوڑ کی حیران کُن تفصیلات سامنے آگئیں
اسرائیل اور امریکی ٹیکنالوجی کمپنیوں گوگل اور ایمازون کے درمیان 2021ء میں طے پانے والے اربوں ڈالر کے ’پروجیکٹ نیمبس‘ معاہدے کی خفیہ تفصیلات منظرِ عام پر آگئی ہیں۔
یہ بھی
اس انکشافات کے مطابق اسرائیل نے ان کمپنیوں کو اپنے ہی سروس معاہدوں اور قانونی تقاضوں کی خلاف ورزی پر مجبور کیا ہے۔
رشیا ٹوڈے کے مطابق 1.2 ارب ڈالر مالیت کے اس معاہدے میں ایک شق شامل ہے جو گوگل اور ایمازون کو یہ حق نہیں دیتی کہ وہ اسرائیلی حکومت کی کلاؤڈ سروسز تک رسائی محدود کر سکیں، چاہے وہ ان کے ’ٹرمز آف سروس‘ کی خلاف ورزی ہی کیوں نہ کرے۔
’ونکنگ میکانزم‘ کے ذریعے خفیہ اطلاع کا نظامرپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اگر کوئی غیر ملکی عدالت یا حکومت اسرائیل کے ڈیٹا تک رسائی کی درخواست کرے، تو گوگل یا ایمازون اسرائیل کو ایک مخصوص مالی اشارے کے ذریعے خفیہ طور پر آگاہ کریں۔
اس طریقہ کار کو ’ونکنگ میکانزم‘ کہا گیا ہے، جس کے تحت کمپنی اسرائیل کو 1000 سے 9999 شیکل کے درمیان رقم ادا کرتی ہے۔ جس کا ہندسہ متعلقہ ملک کے بین الاقوامی ڈائلنگ کوڈ کے برابر ہوتا ہے۔
اس نظام کے ذریعے اسرائیل کو غیر ملکی ڈیٹا درخواستوں کی خفیہ معلومات فراہم کی جاتی ہیں، جو عام حالات میں سخت رازداری کے زمرے میں آتی ہیں۔
معاہدہ منسوخ کرنے پر بھاری جرمانےمعاہدے میں یہ بھی درج ہے کہ اگر گوگل یا ایمازون نے اسرائیل کو سروس فراہم کرنا بند کیا، تو انہیں بھاری مالی جرمانے ادا کرنے ہوں گے۔
اسرائیلی حکومت کو ان سروسز کے غیر محدود استعمال کی اجازت ہے، بشرطیکہ وہ اسرائیلی قوانین یا کاپی رائٹ کی خلاف ورزی نہ کرے۔
یہ شق خاص طور پر اس امکان کے پیشِ نظر شامل کی گئی کہ اگر کمپنیوں پر ملازمین، شیئر ہولڈرز یا انسانی حقوق کے کارکنان کی جانب سے دباؤ بڑھا تو بھی اسرائیل کے ساتھ ان کے تعلقات ختم نہ ہوں۔
گوگل ملازمین کے احتجاج اور برطرفیاںگزشتہ 2 برسوں کے دوران گوگل کے درجنوں ملازمین نے اسرائیل کے ساتھ کمپنی کے تعلقات کے خلاف احتجاج کیا۔ اپریل 2024 میں گوگل نے ایسے 30 سے زائد ملازمین کو برطرف کر دیا جن پر کام میں رکاوٹ ڈالنے کا الزام تھا۔
بعد ازاں جولائی 2025 میں گوگل کے شریک بانی سرگے برن نے اقوامِ متحدہ پر الزام عائد کیا کہ وہ کھلم کھلا یہودی مخالف رویہ اختیار کیے ہوئے ہے، کیونکہ اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ بڑی ٹیکنالوجی کمپنیاں، بشمول گوگل کی پیرنٹ کمپنی الفابیٹ، غزہ جنگ سے منافع حاصل کر رہی ہیں۔
یہ انکشافات ایک ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب اقوامِ متحدہ سمیت متعدد عالمی تنظیمیں اسرائیل کے 7 اکتوبر 2023 کے بعد کے فوجی اقدامات کو نسل کشی (Genocide) قرار دے چکی ہیں، جن میں 1200 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔
رپورٹ کے مطابق ’پروجیکٹ نیمبس‘ اسرائیل کے ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کو مکمل طور پر امریکی کلاؤڈ ٹیکنالوجی پر منتقل کرنے کی ایک بڑی کوشش ہے، جس سے انسانی حقوق کے ماہرین اور ڈیجیٹل آزادی کے حامیوں نے شدید تحفظات ظاہر کیے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں