34 سال قبل، جب چوٹہ بازار میں 32 کشمیریوں کو شہید کردیا
اشاعت کی تاریخ: 11th, June 2025 GMT
مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی ظلم و جبر کی بے شمار کہانیاں کشمیریوں کی یادداشت میں محفوظ ہیں۔ یہ ایسی یاد ماضی ہیں جو واقعتاً ان کے لیے عذاب بنی ہوئی ہیں۔ ان میں سے ایک کہانی چوٹہ بازار کی ہے جہاں قابض بھارتی فوج کے ہاتھوں چند لمحوں میں 32 کشمیری شہید اور 22 شدید زخمی کردیے گئے۔ یہ خون اور یہ زخم کشمیری قوم کو آج بھی بخوبی یاد ہیں۔
اس بہیمانہ قتل عام کی برسی پر کشمیر میڈیا سروس کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں اس سانحہ کی تفصیلات کا ذکر کیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے خطے میں امن کے لیے مسئلہ کشمیر کا حل ناگزیر ہے، وزیراعظم شہباز شریف
11جون 1991 کو بھارتی پیراملٹری سینٹرل ریزرو پولیس فورس کے اہلکاروں نے مقبوضہ کشمیر کے دارالحکومت سرینگر کے علاقے چوٹہ بازار میں خواتین اور بچوں سمیت 32معصوم شہریوں کو بے رحمی سے شہید کردیا تھا۔
سرینگر کے علاقے زینہ کدل میں نامعلوم حملہ آوروں کے ساتھ مبینہ تصادم کے بعد سی آر پی ایف اہلکاروں نے چوٹہ بازار میں اندھا دھند فائرنگ کی جس کے نتیجے میں کم از کم 32کشمیری شہید اور 22زخمی ہوئے۔
شہید ہونے والوں میں دکاندار، راہگیر، ایک 75سالہ خاتون اور ایک 10سالہ بچہ شامل تھا۔
یہ بھی پڑھیے بھارت کشمیریوں کے اغوا و قتل اور اجتماعی قبروں کا ذمہ دار ہے، پاکستان کی سلامتی کونسل کو بریفنگ
رپورٹ میں بتایا گیا کہ کئی دہائیاں گزرنے کے بعد بھی متاثرہ خاندان آج بھی انصاف سے محروم ہیں۔
بھارتی فورسز کے اہلکاروں نے1990 سے بے گناہ کشمیریوں کو نشانہ بناتے ہوئے درجنوں قتل عام کیے ہیں اور چوٹہ بازار جیسے قتل عام کشمیریوں کے استصواب رائے کے حقیقی مطالبے کو کچلنے کی بھارت کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بھارت چوٹہ بازار سرینگر مقبوضہ جموں و کشمیر.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بھارت
پڑھیں:
ایک باکمال نثر نگار، حیات عبد اللہ
حیات عبد اللہ بنیادی طور پر کالم نگارکی حیثیت سے جانے پہچانے اور مانے جاتے ہیں، وہ اپنی نثرکی طرح شاعر بھی بہت عمدہ ہیں۔ ہر شاعرکی طرح ان کے نزدیک بھی جمال پرستی خدائی صفت ہے اور حیات عبداللہ کے نزدیک حُسن شاعری میں ہو یا رقص و موسیقی میں، بند کھڑکیوں میں ہو یا کھلے دریچوں میں، گلاب میں ہو یا شبِ ماہتاب میں، تصورکے رنگوں میں ہو یا لکیروں میں، ستاروں میں ہو یا سیاروں میں، آواز میں ہو یا رنگین آنچلوں کی سرسراہٹ میں، حیات عبداللہ کے دل کے دریچے پر بہرحال دستک دیتا ہے۔ بقول ناصر زیدی کہ:
یہ روشنی کا سمندر کہاں سے آیا ہے
بکھر رہے ہیں کئی آفتاب آنکھوں میں
آفتاب کی کرنیں اپنی مٹھی میں سمیٹنے والا، رتجگوں میں ستاروں سے ہم کلام ہونے والا، تازہ گلوں کی مہک سے مہکنے والا، رقص کرتی تتلی کے رنگین پروں کو دیکھنے والا، خزاں میں اُمیدِ بہار رکھنے والا، ہتھیلی پر بجھتے چراغوں کو جلانے والا شخص کیسے اندھیروں کا تعاقب کرسکتا ہے؟ ان سب سوالوں کے جواب ہمیں حیات عبد اللہ کے کالموں کا مجموعہ ’’اندھیروں کا تعاقب‘‘ کی صورت میں ملتا ہے۔
جو اخبار میں شایع ہونے والے منتخب کالموں پر مشتمل ہیں۔ اس کتاب کے ٹائٹل سے معلوم ہوتا ہے کہ اندھیری رات کے سناٹوں میں پڑا دیا کیسے اپنی سمت ایک ایسے شخص کو کھینچ رہا ہے جو نہ صرف آندھیوں کا بلکہ اندھیروں کا تعاقب بھی کر سکتا ہے۔اعزاز احمد آذر کا ایک شعر یاد آیا:
تم ایسا کرنا کہ کوئی جگنو کوئی ستارہ سنبھال رکھنا
مرے اندھیروں کی فکر چھوڑو بس اپنے گھر کا خیال رکھنا
حیات عبداللہ ایک نڈر آدمی ہے انھوں نے ’’اندھیروں کا تعاقب‘‘ بڑی جاں فشانی سے کیا ہے، جس کی گواہی ڈاکٹر عبدالقدیر خان دیتے ہیںکہ ’’ حیات عبد اللہ کے کالمز تحریری جہاد اور قلمی تبلیغ ہیں، وہ بڑے نپے تلے اور جچے لفظوں میں منادی کرتے ہیں، ان کے کالم مکمل معاشرتی تصویر ہے جو کہیں سے کٹی پھٹی،کہیں سے لہولہان، کہیں سے منہ چڑاتی ہوئی اور کہیں رُلاتی ہوئی۔‘‘
حیات عبد اللہ کی اس کتاب ’’ اندھیروں کا تعاقب‘‘ میں بہت سی یادوں کے جگنو ٹمٹما رہے ہیں اورکہیں پر اندھیرے میں گم ہوئے راہی کو منزل کا درست رستہ دکھا رہے ہیں۔ ان کی اس قلمی کاوش کو عبدالستار عاصم ’’جہاد ِ اکبر‘‘ کا نام دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’ حیات عبداللہ کے خیالات، مشاہدات، افکار کا مجموعہ ’’اندھیروں کا تعاقب‘‘ قلم فاؤنڈیشن ایک قومی فریضہ سمجھ کر شایع کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہے۔
ان کے افکار کی روشنی کے مینار ہیں۔ انھوں نے دو عشروں سے کوشش کی ہے کہ اپنے حصے کی شمع قلم کے روشن دان میں سجا کر اس کی روشنی قوم کو پہنچائیں اور ان کا ہر کالم معلومات کا انسائیکلوپیڈیا ہوتا ہے بلکہ یہ کہا جائے تو بہتر ہو گا کہ ان کا ہر کالم ایک کتاب جیسا سبق آموز ہوتا ہے۔‘‘’’اندھیروں کا تعاقب‘‘ کے بعد ان کی نئی کتاب ’’سلام کشمیر‘‘ کے مطالعہ کا موقع فراہم ہوا۔ جس میں کشمیر، فلسطین، برما اور شام پر لکھے گئے کالموں کو شامل کیا گیا ہے۔
جس کا انتساب انھوں نے گلشنِ حیات کے نوخیز پھول ارحم عبد اللہ کے نام منسوب کیا ہے۔ حیات عبد اللہ ’’سلام کشمیر‘‘ جہاں مقبوضہ کشمیرکی آزادی کے لیے اپنی جانوں کو قربان کرنے والے تمام شہداء کی عظمتوں اور رفعتوں کو سلام پیش کر رہے ہیں، وہیں فلسطین، برما اور شام کے مسلمان شہداء کو بھی سلام پیش کر رہے ہیں۔
اس سے قبل بھی کشمیر ،برما، فلسطین اور شام کے موضوعات پر بہت سی کتابیں لکھی جا چکی ہیں ۔ میرے خیال میں اتنی ساری کتابوں کو دیگر موضوعات پر الگ الگ پڑھنے سے بہتر ہوگا کہ حیات عبد اللہ کی کتاب ’’سلام کشمیر‘‘ کا ایک ہی بار مطالعہ کر لیا جائے تو آپ کو کشمیر سے فلسطین اور برما سے شام کے مسلمانوں پر ہونے والے ہر ظلم کی داستان پڑھنے کو مل جائے گی۔
’’سلام کشمیر‘‘ کے حوالے سے اپنی رائے میں حافظ محمد سعید لکھتے ہیں کہ ’’حیات عبد اللہ جیسے دردِ دل رکھنے والے اہلِ قلم جس طرح معاشرتی مسائل، اُمتِ مسلمہ کو درپیش چیلنجز اور دنیا بھر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کے حوالے سے قلم اُٹھا رہے ہیں وہ یقینا لائقِ تحسین ہے۔‘‘ اس کے علاوہ کتاب میں الطاف حسن قریشی اور اوریا مقبول جان کی قیمتی آراء کو بھی شامل کیا گیا ہے۔
حیات عبداللہ صرف صداقت پر یقین رکھتے ہیں کیونکہ انھیں جھوٹ سے سخت نفرت ہیں ، وہ بہت سنجیدہ مزاج اور کم گو انسان ہے۔ ’’ سلام کشمیر‘‘ کے حرفِ آغاز میں بقول ان کہ ’’ ستر سال سے زائد عرصے پر محیط تلخیوں کے آزار سہنے کے باوجود کشمیریوں نے اپنے جذبات اور خیالات میں کوئی مصلحت پیدا نہ ہونے دی۔ اہلِ کشمیرکے دلوں میں پاکستان کی محبت، آنگن میں اتری مانوس خوشبوؤں کی طرح جا گزیں ہے، وہ بندوقوں کے سامنے بھی بہ بانگِ دہل پاکستان کے ساتھ محبت کا اظہارکرتے ہیں،
اس کے ساتھ ساتھ فلسطین، برما اور شام کے دُکھوں پر مشتمل چند اوراق بھی کتاب کا حصہ ہیں۔‘‘بابائے قوم بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ نے کہا تھا کہ ’’کشمیر پاکستان کی شاہ رگ ہے‘‘ مگر ہم اپنے اپنے مفادات کی خاطر کتنے اندھے ہوچکے ہیں کہ ہمیں اپنی شہ رگ کٹ جانے کا بھی ڈر نہیں۔ کئی حکمران آتے اور جاتے رہے مگر مسئلہ کشمیر وہیں کا وہیں رہا۔
میرے خیال میں ہمیں اپنی آنکھیں کھول لینی چاہیے اور حیات عبداللہ کی کتاب ’’سلام کشمیر‘‘ کو پڑھ کر قائد کے فرمان کی طرف توجہ مرکوز کر لینی چاہیے اور اپنے اندر اس بات کا احساس پیدا کرلیں کہ جن مسلمانوں کا کوئی قصور نہیں انھیں ناحق کیوں مارا جا رہا ہے؟ کیا وہ ہماری طرح انسان نہیں بقول سید انوار احمد کے اس شعرکہ :
کیوں مل رہی ہے ان کو سزا، چیختی رہی
سنسان وادیوں میں ہَوا چیختی رہی