سزا کیلئے شواہد کی ایک مکمل اور بغیر کسی وقفے کی کڑی سے ملزم کا جرم سے تعلق ثابت ہونا چاہیے‘سپریم کورٹ
اشاعت کی تاریخ: 11th, June 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 11 جون2025ء) سپریم کورٹ نے نور مقدم قتل کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کیا ہے جس میں ڈیجیٹل شواہد کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اگر کسی فوٹیج کو درست طریقے سے تصدیق شدہ قرار دیا جائے تو وہ سائلنٹ وِٹنس تھیوری(خاموش گواہ اصول) کے تحت بنیادی شہادت کے طور پر قابلِ قبول ہو سکتی ہے۔صرف حالات و واقعات کی بنیاد پر سزا دینا قانوناً ممنوع نہیں لیکن ایسے شواہد ملزم کی بیگناہی سے مطابقت نہیں رکھنے چاہئیں اور ان شواہد کی ایک مکمل اور بغیر کسی وقفے کی کڑی سے ملزم کا جرم سے تعلق ثابت ہونا چاہیے۔
جسٹس محمد ہاشم کاکڑ نے 13 صفحات پر مشتمل فیصلے میں لکھا ہے کہ یہ ایک معروف حقیقت ہے کہ ٹیکنالوجی ہماری زندگیوں میں اس قدر شامل ہو چکی ہے کہ ہر کوئی کسی نہ کسی شکل میں اسے استعمال کر رہا ہے۔(جاری ہے)
جسٹس محمد ہاشم کاکڑ نے اس 3 رکنی بینچ کی سربراہی کی جس نے 20 مئی کو ظاہر ذاکر جعفر کی سزائے موت کو برقرار رکھتے ہوئے اس کی اپیل مسترد کر دی تھی، یاد رہے کہ نور مقدم کے 2021 کے اندوہناک قتل نے ملک بھر میں صدمے کی لہر دوڑا دی تھی۔
فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ مجرم عدالت میں ایک مایوس شخص کے طور پر سامنے آیا، جس پر بینچ کے کسی بھی رکن کو کوئی ہمدردی محسوس نہیں ہوئی، تاہم بینچ کے رکن جسٹس علی باقر نجفی نے کہا کہ وہ جلد ہی اپنا اضافی نوٹ جاری کریں گے۔جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ پچھلے 25 سالوں میں تقریباً تمام ممالک میں ’سائلنٹ وٹنس تھیوری‘ (خاموش گواہ کا اصول) کو اپنایا گیا ہے، اس اصول کے تحت، اگر کسی تصویر یا ویڈیو کو اس طریقہ کار یا نظام کی درستگی سے ثابت کیا جا سکے جس کے ذریعے وہ بنائی گئی ہے، تو پھر وہ خود بخود ایک گواہ کے طور پر تسلیم کی جا سکتی ہے، یعنی یہ تصاویر یا ویڈیوز اپنی صداقت خود بیان کرتی ہیں۔سائلنٹ وٹنس تھیوری ایک ایسا قانون ہے جو تصویر، ویڈیو یا دیگر ریکارڈ شدہ مواد کو اس بات کے پختہ ثبوت کے طور پر قبول کرنے کی اجازت دیتا ہے کہ وہ جس واقعے کو دکھا رہے ہیں، وہ حقیقت میں پیش آیا اور اس کے لیے کسی عینی شاہد کی گواہی درکار نہیں ہوتی کہ اس نے وہ واقعہ اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔عدالت نے تسلیم کیا کہ کافی عرصے تک ملکی عدالتیں ڈیجیٹل شواہد کو بروئے کار نہ لا سکیں کیونکہ انہیں صرف سنی سنائی باتوں کے زمرے میں شمار کیا جاتا تھا، حالانکہ یہ شواہد صرف قانونِ شہادت 1984 کے آرٹیکل 164 کے تحت قابلِ قبول تھے۔تاہم، مجرموں کی شناخت اور سراغ رسانی میں ڈیجیٹل شواہد کی بڑھتی ہوئی اہمیت کو دیکھتے ہوئے بعض اہم قانونی تبدیلیاں کی گئیں تاکہ ان شواہد کو بنیادی شہادت کا درجہ دیا جا سکے۔عدالت نے فوٹیج کی شہادتی حیثیت کے حوالے سے برطانیہ، کینیڈا اور امریکا کی مثالیں بھی دی ہیں، ماضی قریب تک پاکستان میں اس قسم کے شواہد کو ثانوی یا سنی سنائی شہادت سمجھا جاتا تھا، لیکن مجرموں کی شناخت میں اس کی افادیت کے پیش نظر متعلقہ قوانین میں تبدیلی کی گئی اور ڈیجیٹل شواہد کو بنیادی شہادت تسلیم کیا گیا۔عدالت نے مزید وضاحت کی کہ یہ بات عام طور پر تسلیم شدہ ہے کہ سزا محض حالات و واقعاتی شواہد کی بنیاد پر بھی دی جا سکتی ہے، بشرطیکہ وہ سخت اصولوں اور معیارات پر پورا اتری.سپریم کورٹ نے یہ بھی نشاندہی کی کہ درخواست گزار (ملزم) نے یہ وضاحت پیش نہیں کی کہ مقتولہ اس کے گھر پر کیوں موجود تھی اور اس کی لاش اسی جگہ سے کیوں برآمد ہوئی۔واضح رہے کہ 27 سالہ لڑکی نور مقدم 20 جولائی 2021 کو اسلام آباد میں ظاہر جعفر کی رہائش گاہ سے انتہائی بے دردی سے قتل شدہ حالت میں ملی تھیں، ظاہر جعفر کو مرکزی ملزم کے طور پر گرفتار کیا گیا اور 24 فروری 2022 کو ٹرائل کورٹ نے اسے قتل کے جرم میں سزائے موت سنائی۔عدالت نے اسے جنسی زیادتی کا بھی مجرم قرار دیتے ہوئے 25 سال قیدِ بامشقت اور 2 لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا، بعد ازاں اسلام آباد ہائیکورٹ نے سزائے موت برقرار رکھتے ہوئے زیادتی کے جرم میں عمر قید کو بھی سزائے موت میں تبدیل کر دیا۔
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے سزائے موت کے طور پر شواہد کی عدالت نے شواہد کو کورٹ نے
پڑھیں:
مدعی سچ بولے تو فوجداری مقدمات میں کوئی ملزم بھی بری نہ ہو؛سپریم کورٹ نے ساس سسر قتل کے ملزم کی سزا کے خلاف اپیل خارج کردی
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)سپریم کورٹ نے ساس سسر کے قتل کے ملزم اکرم کی سزا کے خلاف اپیل خارج کردی۔
نجی ٹی وی چینل ایکسپریس نیوز کے مطابق عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں لاہور ہائیکورٹ کا عمر قید کی سزا کا فیصلہ برقرار رکھا۔ مقدمے کی سماعت کے دوران جسٹس ہاشم کاکڑ نے استفسار کیا کہ میاں بیوی میں جھگڑا نہیں تھا تو ساس سسر کو قتل کیوں کیا؟ دن دیہاڑے 2 لوگوں کو قتل کر دیا۔
جسٹس علی باقر نجفی نے ریمارکس دیے کہ بیوی ناراض ہوکر میکے بیٹھی تھی۔ ملزم کے وکیل پرنس ریحان نے عدالت کو بتایا کہ میرا موکل بیوی کو منانے کے لیے میکے گیا تھا۔ جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ وکیل صاحب آپ تو لگتا ہے بغیر ریاست کے پرنس ہیں۔
بطور ایٹمی طاقت پاکستا ن مسلم امہ کے ساتھ کھڑا ہے ،کسی کو بھی پاکستان کی خود مختاری چیلنج نہیں کرنے دیں گے،اسحاق ڈار
جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ 2 بندے مار دیے اور ملزم کہتا ہے مجھے غصہ آگیا۔
جسٹس علی باقر نجفی نے سوال کیا کہ بیوی کو منانے گیا تھا تو ساتھ پستول لے کر کیوں گیا؟۔ جسٹس اشتیاق ابراہیم نے کہا کہ مدعی بھی ایف آئی آر کے اندراج میں جھوٹ بولتے ہیں۔ قتل شوہر نے کیا، ایف آئی آر میں مجرم کے والد خالق کا نام بھی ڈال دیا۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ مدعی سچ بولے تو فوجداری مقدمات میں کوئی ملزم بھی بری نہ ہو۔
واضح رہے کہ مجرم اکرم کو ساس سسر کے قتل پر ٹرائل کورٹ نے سزائے موت سنائی تھی جب کہ لاہور ہائیکورٹ نے سزا کو سزائے موت سے عمرقید میں تبدیل کردیا تھا۔
وزیراعظم شہباز شریف کی امیر قطر سے ملاقات، قریبی روابط برقرار رکھنے پر اتفاق
مزید :