UrduPoint:
2025-11-03@10:03:33 GMT

طالبان کے ماتحت افغانستان کتنا ’محفوظ‘ ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 12th, June 2025 GMT

طالبان کے ماتحت افغانستان کتنا ’محفوظ‘ ہے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 12 جون 2025ء) یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ افغانستان محفوظ ہے، طالبان ان تمام افغانوں سے، جو ملک چھوڑ کر بھاگ گئے ہیں وطن واپس لوٹ آنے کی اپیل کر رہے ہیں۔

طالبان حکومت کی وزراتی کونسل کے چیئرمین محمد حسن اخوند نے عید الاضحیٰ کے اسلامی تہوار کے موقع پر ہفتے کے روز اپنے پیغام میں وطن واپس آنے والوں کے لیے عام معافی کا وعدہ کیا۔

طالبان کی طرف سے افغانستان چھوڑ جانے والوں کو وطن واپسی کی پیشکش

نیلوفر ابراہیمی، جو طالبان کے قبضے سے پہلے افغانستان کی پارلیمنٹ کی سابق رکن ہیں، نے ڈی ڈبلیو کو بتایا ’’تشدد کے مرتکب اب اقتدار میں ہیں، مثال کے طور پر، وزارت داخلہ کے سربراہ کے طور پر۔ یقیناً، اور اب وہ دعویٰ کررہے ہیں کہ ملک محفوظ ہے۔

(جاری ہے)

‘‘

سراج الدین حقانی طالبان کے وزیر داخلہ کے طور پر کام کر رہے ہیں۔

خیال کیا جاتا ہے کہ حقانی 2021 میں طالبان کے ملک پر قبضے تک افغانستان میں متعدد مہلک حملوں کے ذمہ دار تھے۔

وہ ’’افغانستان میں امریکہ اور اتحادی افواج کے خلاف سرحد پار حملوں کو مربوط کرنے اور مدد کرنے‘‘ کے شبہے میں امریکی کے ایف بی آئی کی انتہائی مطلوب افراد کی فہرست میں شامل ہیں۔

حقانی اب طالبان کے طاقت کے ڈھانچے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں اور خاص طور پر سکیورٹی اور پولیس کے معاملات کے لیے ذمہ دار ہیں۔

افغانستان: انسانی حقوق پر طالبان حکمرانوں کے حملوں کا سلسلہ جاری

ابراہیمی، جنہیں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد افغانستان چھوڑنا پڑا، نے کہا، ’’طالبان کسی بھی مزاحمت کو دباتے ہیں اور لوگوں کو ڈراتے ہیں۔‘‘

انہوں نے مزید کہا، ’’ملک کے شمال مشرق میں، صوبہ بدخشاں میں، وہ کسانوں کے خلاف کارروائی کر رہے ہیں جو نہیں جانتے کہ وہ کون سی فصل اگائیں کیونکہ طالبان نے پوست کی کاشت پر پابندی لگا دی ہے۔

‘‘

دنیا کے غریب ترین ممالک میں سے ایک، افغانستان میں، آبادی کا 80 فیصد تک زراعت سے وابستہ ہے۔ دیگر فصلوں کے مقابلے میں، افیون کی کاشت نمایاں طور پر زیادہ منافع بخش تھی، یہاں تک کہ خشک سالی کے وقت بھی، اور بہت سے کسانوں کو آمدنی کا ایک محفوظ ذریعہ فراہم کرتا تھا۔

اپنے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ کے حکم پر طالبان نے پورے افغانستان میں پوست کی کاشت بند کر دی ہے۔

اب کسانوں کے پاس کچھ نہیں بچا اور وہ نہیں جانتے کہ اپنے خاندان کا پیٹ کیسے پالیں۔ طالبان کے دور میں افغانستان میں غربت

طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے افغانستان کی نصف سے زیادہ آبادی غربت کی لکیر سے نیچے چلی گئی ہے۔ لاکھوں لوگ انسانی امداد پر منحصر ہیں۔ ملک کی آبادی تقریباً 41.

5 ملین ہے۔ اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ کے مطابق، تقریباً 43 فیصد ایسے بچے ہیں جن کی عمریں 0 سے 14 سال کے درمیان ہیں۔

یونیسیف کی مارچ 2025 کی رپورٹ کے مطابق، افغانستان میں ہر دوسرے بچے کو ہنگامی امداد کی فوری ضرورت ہے۔ شدید غذائی قلت کے شکار بچوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ بہت سی نابالغ لڑکیوں کی زبردستی شادی کر دی جاتی ہے کیونکہ ان کے گھر والے نہیں جانتے کہ اپنے بچوں کا پیٹ کیسے پالیں۔

افغان خواتین کی احتجاجی تحریک پرپل سٹرڈے کی ایک کارکن نے ڈی ڈبلیو کو ایک ای میل میں بتایا کہ’’یہ وہ بچے ہیں جنہیں تعلیم، ذاتی نشوونما اور یہاں تک کہ بچوں کی طرح کھیلنے کے حق سے بھی محروم رکھا جاتا ہے۔

انہیں قبل از وقت پیدائش، انتہائی غربت، خاندانی تشدد اور سماجی تنہائی جیسے تکلیف دہ نتائج کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘‘ مذکورہ خاتون نے سکیورٹی وجوہات کی بناء پراپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی۔

انہوں نے مزید کہا، ’’اور یہ ایک ایسے معاشرے میں ہے جس میں خواتین اور بچوں کے لیے امدادی ڈھانچے عملی طور پر منہدم ہو چکے ہیں۔

‘‘

یہ مقامی کارکن خواتین اور نوجوان لڑکیوں کو اپنے نیٹ ورک کے ذریعے آگاہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور انہیں نجی طور پر تعلیم دینے کی کوشش کرتے ہیں۔

طالبان کے دور میں خواتین کو اب یونیورسٹیوں میں پڑھنے کی اجازت نہیں ہے۔ پانچویں جماعت کے بعد سیکنڈری اسکولوں میں لڑکیوں کے لیے پابندی عائد کر دی گئی ہے۔

کارکن نے کہا، ’’اب ہمیں پہلے سے کہیں زیادہ، بین الاقوامی برادری کی حقیقی اور غیر مشروط یکجہتی کی ضرورت ہے۔

‘‘ ملک سے بھاگنے والے طالبان سے خوفزدہ

بہت سی مایوس خواتین پڑوسی ممالک کو بھاگ گئی ہیں، جن میں تین بچوں کی ماں دیبا بھی شامل ہے۔

طالبان کے قبضے سے قبل، وہ افغان وزارت تعلیم میں کام کر چکی تھیں اور خواتین کی ترقی کے لیے ایک ادارے کی شریک بانی تھیں، جسے بعد میں طالبان نے بند کر دیا تھا۔ طالبان کی حکومت کے کئی مہینوں کے بعد، خواتین کے حقوق کی کارکن کو پاکستان فرار ہونے پر مجبور ہونا پڑا۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’میں نے اپنا سارا سامان بیچ دیا اور فرار ہو گئی۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ اب ویزا کی مدت ختم ہونے کے بعد انہیں پاکستان سے ڈی پورٹ کیے جانے کا خدشہ ہے۔ افغان مہاجرین کو اس وقت پاکستان سے بڑے پیمانے پر ملک بدر کیا جا رہا ہے۔ اندازوں کے مطابق صرف اپریل اور مئی میں تقریباً 200,000 افراد کو ملک بدر کیا گیا۔

دیبا نے کہا، ’’میں افغانستان واپس جانے کے بجائے روپوش ہوجانا پسند کروں گی‘‘

طالبان کی حکومت والے افغانستان میں، انہیں ایک عورت کے طور پر معاشرے میں آزادانہ طور پر گھومنے پھرنے کی اجازت بھی نہیں دی جائے گی، اپنے خاندان کی کفالت کے لیے نوکری تلاش کرنے کی اجازت نہیں ہو گی۔ ان کی بیٹیوں کو اپنی زندگی جینے کی اجازت نہیں ملے گی۔

وہ اپنے آپ کو اور اپنے بچوں کو محفوظ تیسرے ملک تک پہنچانے کا راستہ تلاش کرنے کی امید رکھتی ہے۔

دیگر ممالک بھی افغان مہاجرین کو ملک بدر کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔

مثال کے طور پر، ایران نے اعلان کیا ہے کہ وہ اس سال چالیس لاکھ افغانوں کو ان کے ’’محفوظ وطن" واپس بھیجے گا۔ صرف مئی میں 15000 افراد کو ملک بدر کیا گیا۔

طالبان نے وعدہ کیا ہے کہ ’’ہم ان کا استقبال کریں گے۔‘‘

ج ا ⁄ ص ز (شبنم وان ہیئن)

ڈی ڈبلیو کے دری/پشتو ڈیپارٹمنٹ کی پروانہ علی زادہ نے اس رپورٹ میں تعاون کیا۔ یہ مضمون اصل میں جرمن زبان میں لکھا گیا تھا۔

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے افغانستان میں طالبان کے طالبان نے کے طور پر ڈی ڈبلیو انہوں نے رہے ہیں کے لیے کے بعد

پڑھیں:

طالبان افغانستان کو قبرستان بنائے رکھنا چاہتے ہیں

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251101-03-6

 

وجیہ احمد صدیقی

پاکستان اور افغانستان کے تعلقات تاریخی طور پر پیچیدہ اور کشیدہ رہے ہیں، جن کی جڑیں دیرینہ سیاسی، جغرافیائی اور علاقائی مسائل میں ہیں۔ پاکستان نے اپنی خودمختاری اور قومی سلامتی کا دفاع کرتے ہوئے متعدد بار افغان سرزمین سے سرحد پار دہشت گردی کی کوششوں کی مذمت کی اور افغانستان سے دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کے خاتمے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس تنازعے میں بھارت کا کردار بھی نہایت منفی اور پراثر ہے جو طالبان کو پاکستان مخالف کارروائیوں کے لیے اُکساتا ہے۔ مگر افغانستان کا قیام اور اس کا مستقبل اقتصادی و جغرافیائی حوالے سے پاکستان کے ساتھ خوشگوار تعلقات پر منحصر ہے کیونکہ یہ ایک لینڈ لاک ملک ہے جسے سمندر تک رسائی کے لیے پاکستان یا ایران کا سہارا لینا پڑتا ہے۔

تاریخی تناظر یہ بتاتا ہے کہ سرحدی جھڑپیں اور ’’ڈیورنڈ لائن‘‘ تنازع 1947 میں پاکستان کے قیام کے وقت سے ہی ہے۔ افغانستان نے پاکستان کے مغربی سرحدی معاہدے ’’ڈیورنڈ لائن‘‘ کو تسلیم کرنے سے ہمیشہ انکار کیا۔ حالانکہ اس معاہدے پر افغان حکومت کے دستخط ہیں۔ اس سرحد کو لے کر کئی مرتبہ دونوں ملکوں کے درمیان جھڑپیں اور چھوٹے اور بڑے پیمانے پر فائرنگ کے واقعات سامنے آئے ہیں۔ 1949-50 میں افغان فوجیوں اور قبائلی ملیشیاؤں کی طرف سے بلوچستان میں مبینہ حملوں کے واقعات سامنے آئے، جس پر پاکستان نے سخت ردعمل دیا۔ اس کے بعد 1960 اور 1970 کی دہائیوں میں بھی متعدد بار کشیدگی بڑھی اور سرحد پر لڑائیاں ہوئیں۔ 2020 کی دہائی میں طالبان کے دوبارہ اقتدار سنبھالنے کے بعد سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ 2024 اور 2025 میں بار بار سرحد پر فائرنگ، بمباری اور عسکری جھڑپوں کی خبریں آتی رہیں، جن میں دونوں ملکوں کے فوجی اہلکار اور غیر فوجی بھی ہلاک ہوئے۔ ان جھڑپوں کا پس منظر مخصوص دہشت گرد گروہوں جیسے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور بلوچ لبریشن آرمی کا افغان سرزمین پر محفوظ ٹھکانے رکھنا ہے جو پاکستان میں حملے کرتے ہیں۔ اس دوران دونوں ملکوں نے کئی بار جنگ بندی کی کوشش کی لیکن دیرپا امن قائم نہیں ہو سکا۔ افغان طالبان کو یہ غلط فہمی ہو گئی ہے کہ افغانستان بڑی طاقتوں کا قبرستان ہے۔ لیکن ان جنگوں نے سوویت یونین سے لے کر امریکا کی مداخلت تک افغانستان کو ہی قبرستان بنا دیا ہے۔ تو طالبان کیا افغانستان کو مسلسل قبرستان ہی کی حیثیت دیے رکھنا چاہتے ہیں یا وہاں کے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے بھی کوئی کام کریں گے یا محض اپنے سارے پڑوسیوں سے جھگڑے کرتے رہیں گے؟ ان کا کوئی بھی پڑوسی ایسا نہیں ہے جس کے ساتھ ان کا سرحدی یا پانی کا تنازع نہ ہو۔ طالبان دہشت گردوں کو پناہ دے کر اپنے لیے ہی مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔ اس لیے وقت کا تقاضا یہ ہے کہ افغانستان میں ایک ایسی جمہوری حکومت آئے جو افغان عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرے اور اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرے۔ طالبان کی موجودگی میں افغان عوام کی فلاح و بہبود کا کوئی امکان نہیں ہے۔

دہشت گردی کی مذمت میں پاکستان کا واضح موقف ہے کہ سرحد پار دہشت گردی انتہائی ناقابل قبول ہے اور اس کے خلاف سخت اقدامات کیے جائیں گے۔ پاکستان نے افغان طالبان کی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو دہشت گردوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ نہ بنائیں۔ پاکستان کی فوج اور سیکورٹی ادارے مسلسل سرحدی علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشنز کر رہے ہیں تاکہ سرزمین کی حفاظت کی جا سکے۔ پاکستان کی یہ پالیسی ملکی سلامتی کے تناظر میں بالکل جواز رکھتی ہے اور عالمی قوانین کے مطابق بھی مستحسن ہے۔ پاکستان میں دہشت گرد حملوں کی وجہ سے ہزاروں شہری اور فورسز کے اہلکار جان سے گئے۔ یہ حملے نہ صرف انسانی جانوں کے لیے خطرہ ہیں بلکہ ملک کی معیشت اور ترقی کو بھی متاثر کرتے ہیں۔ لہٰذا پاکستان کا احتجاج اور دفاعی اقدامات اپنی سرزمین کی حفاظت کے لیے ناگزیر اور جائز ہیں۔

بھارت کا کردار خطے میں امن کے قیام کے بجائے دہشت گردی کی سرگرمیوں کو فروغ دینا ہے چاہے وہ غیر ریاستی دہشت گرد ہوں یا بھارت کی طرح ریاستی دہشت گردی۔ طالبان کو پاکستان مخالف اُکسانا افغانستان کے تنازعے میں بھارت کا کردار منفی اور خطرناک ہے۔ بھارت طالبان سے قطع تعلق کے باوجود گزشتہ کچھ عرصے میں انہیں پاکستان کے خلاف اُکسانے کی کوششیں کر رہا ہے۔ بھارت طالبان کو مالی اور عسکری حمایت فراہم کر کے انہیں پاکستان مخالف سرگرمیوں کے لیے براہِ راست یا بالواسطہ مدد دے رہا ہے۔ اس کا مقصد پاکستان کو کمزور کرنا اور خطے میں اپنی جغرافیائی اور سیاسی پوزیشن کو مستحکم کرنا ہے۔ بھارت کی افغانستان سے کوئی سرحد نہیں ہے، اس لیے وہ افغانستان کو سمندر تک رسائی دینے والے راستوں کو مشکلات میں ڈال کر افغان معیشت کو متاثر کرنا چاہتا ہے۔ اس تناظر میں بھارت کی سیاست کو ’’بی جمالو‘‘ کے کردار کے طور پر دیکھا جاتا ہے، یعنی جو اپنی ملکیت میں آنے والے دوسرے ملکوں کے لیے مشکلات پیدا کرے۔ اس کی وجہ سے افغانستان کے مسائل مزید گہرے اور پیچیدہ ہو رہے ہیں جبکہ یہ پاکستان اور افغانستان دونوں کے خلاف سازش ہے۔

افغانستان کا مفاد پاکستان کے ساتھ خوشگوار تعلقات میں ہی مضمر ہے۔ افغانستان ایک لینڈ لاک ملک ہے اور سمندر تک رسائی کے لیے اسے پاکستان یا ایران کے راستے کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ پاکستان ہی ایک ایسا ملک ہے جو افغانستان کو سمندری راستوں تک بہت آسانی سے رسائی فراہم کر سکتا ہے، لہٰذا افغانستان کے مفادات میں شامل ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ دوستانہ اور تعاون پر مبنی تعلقات قائم رکھے۔ دوستی کی راہ اپنانے سے افغانستان نہ صرف اپنی معیشت بہتر بنا سکتا ہے بلکہ سرحدی تحفظ میں بھی بہتری آسکتی ہے۔ دہشت گردی کی حمایت چھوڑ کر افغانستان پاکستان کے ساتھ تعاون کرے تو دونوں ممالک کی سلامتی میں بہتری آئے گی اور خطے میں امن قائم ہو گا۔ پاکستان نے متعدد مواقع پر افغان طالبان سے مذاکرات کیے ہیں تاکہ سرحدی مسائل کو حل اور امن قائم کیا جا سکے، مگر بھارت کے اثرات اور دہشت گرد گروہوں کی سرگرمیاں اس سلسلے میں رکاوٹ ہیں۔

اکتوبر 2025 میں دونوں ملکوں کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئیں جن میں کئی پاکستانی فوجی اور طالبان جنگجو ہلاک ہوئے۔ پاکستان نے افغان علاقوں میں دہشت گرد ٹھکانوں پر فضائی حملے کیے، جبکہ افغان طالبان نے بھی سرحدی چوکیوں پر حملے کیے۔ ان جھڑپوں کے بعد قطر اور ترکی کی ثالثی میں ایک معاہدہ ہوا جس کے تحت مختصر مدت کے لیے جنگ بندی ہوئی لیکن یہ مکمل طور پر برقرار نہ رہ سکی۔ یہ بات واضح ہے کہ دونوں طرف سے دہشت گردی کی سرگرمیاں ختم کیے بغیر دیرپا امن مشکل ہے۔ اس لیے خطے کے تمام فریقوں کو امن کے لیے سنجیدہ اور عملی اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ جنگ نہ بڑھے اور عام شہری محفوظ رہیں۔

پاکستان کا موقف منطقی، درست اور تحفظ پر مبنی ہے کہ کسی بھی صورت میں دہشت گردی کو سرزمین پر پروان نہیں چڑھنے دیا جائے گا۔ افغانستان کے ساتھ دوستی خطے کی ترقی اور استحکام کے لیے ضروری ہے، کیونکہ افغانستان کو سمندری راستہ پاکستان یا ایران کے ذریعے ملتا ہے۔ بھارت کی طالبان کو پاکستان مخالفت پر اُکسانا اور افغانستان میں مداخلت خطے میں عدم استحکام میں اضافہ کر رہی ہے، جسے روکا جانا چاہیے۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف بے شمار قربانیاں دی ہیں اور امن کے لیے مذاکرات کی راہ اپنائی ہوئی ہے، امید ہے کہ افغانستان بھی اپنے مفادات کو سمجھتے ہوئے تعاون کرے گا تاکہ خطے میں دیرپا امن قائم ہو سکے۔

وجیہ احمد صدیقی

متعلقہ مضامین

  • مذاکرات: افغان ہٹ دھرمی نئے تصادم کا باعث بن سکتی ہے،پاکستان
  • وزیراعظم آزادیِ صحافت کے تحفظ، صحافیوں کو محفوظ ماحول فراہم کرنے کیلئے پُرعزم
  • افغانستان ثالثی کے بہتر نتائج کی امید، مودی جوتے کھا کر چپ: خواجہ آصف
  • جہادِ افغانستان کے اثرات
  • افغان طالبان نے جو لکھ کر دیا ہے ، اگر اس کی خلاف ورزی ہوئی تو ان کے پاس کوئی بہانہ نہیں بچے گا: طلال چوہدری
  • افغانستان سے کشیدگی نہیں،دراندازی بند کی جائے، دفتر خارجہ
  • طالبان رجیم کو پاکستان میں امن کی ضمانت دینا ہو گی، وزیر دفاع: مزید کشیدگی نہیں چاہتے، دفتر خارجہ
  • طالبان افغانستان کو قبرستان بنائے رکھنا چاہتے ہیں
  • پاکستانی وزرا کے بیانات صورتحال بگاڑ رہے ہیں، پروفیسر ابراہیم
  • افغان طالبان سے مذاکرات میں پاکستان کا مؤقف لکھ کر مان لیا گیا ہے، طلال چوہدری