طالبان کے ماتحت افغانستان کتنا ’محفوظ‘ ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 12th, June 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 12 جون 2025ء) یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ افغانستان محفوظ ہے، طالبان ان تمام افغانوں سے، جو ملک چھوڑ کر بھاگ گئے ہیں وطن واپس لوٹ آنے کی اپیل کر رہے ہیں۔
طالبان حکومت کی وزراتی کونسل کے چیئرمین محمد حسن اخوند نے عید الاضحیٰ کے اسلامی تہوار کے موقع پر ہفتے کے روز اپنے پیغام میں وطن واپس آنے والوں کے لیے عام معافی کا وعدہ کیا۔
طالبان کی طرف سے افغانستان چھوڑ جانے والوں کو وطن واپسی کی پیشکش
نیلوفر ابراہیمی، جو طالبان کے قبضے سے پہلے افغانستان کی پارلیمنٹ کی سابق رکن ہیں، نے ڈی ڈبلیو کو بتایا ’’تشدد کے مرتکب اب اقتدار میں ہیں، مثال کے طور پر، وزارت داخلہ کے سربراہ کے طور پر۔ یقیناً، اور اب وہ دعویٰ کررہے ہیں کہ ملک محفوظ ہے۔
(جاری ہے)
‘‘
سراج الدین حقانی طالبان کے وزیر داخلہ کے طور پر کام کر رہے ہیں۔
خیال کیا جاتا ہے کہ حقانی 2021 میں طالبان کے ملک پر قبضے تک افغانستان میں متعدد مہلک حملوں کے ذمہ دار تھے۔وہ ’’افغانستان میں امریکہ اور اتحادی افواج کے خلاف سرحد پار حملوں کو مربوط کرنے اور مدد کرنے‘‘ کے شبہے میں امریکی کے ایف بی آئی کی انتہائی مطلوب افراد کی فہرست میں شامل ہیں۔
حقانی اب طالبان کے طاقت کے ڈھانچے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں اور خاص طور پر سکیورٹی اور پولیس کے معاملات کے لیے ذمہ دار ہیں۔
افغانستان: انسانی حقوق پر طالبان حکمرانوں کے حملوں کا سلسلہ جاری
ابراہیمی، جنہیں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد افغانستان چھوڑنا پڑا، نے کہا، ’’طالبان کسی بھی مزاحمت کو دباتے ہیں اور لوگوں کو ڈراتے ہیں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ’’ملک کے شمال مشرق میں، صوبہ بدخشاں میں، وہ کسانوں کے خلاف کارروائی کر رہے ہیں جو نہیں جانتے کہ وہ کون سی فصل اگائیں کیونکہ طالبان نے پوست کی کاشت پر پابندی لگا دی ہے۔
‘‘دنیا کے غریب ترین ممالک میں سے ایک، افغانستان میں، آبادی کا 80 فیصد تک زراعت سے وابستہ ہے۔ دیگر فصلوں کے مقابلے میں، افیون کی کاشت نمایاں طور پر زیادہ منافع بخش تھی، یہاں تک کہ خشک سالی کے وقت بھی، اور بہت سے کسانوں کو آمدنی کا ایک محفوظ ذریعہ فراہم کرتا تھا۔
اپنے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ کے حکم پر طالبان نے پورے افغانستان میں پوست کی کاشت بند کر دی ہے۔
اب کسانوں کے پاس کچھ نہیں بچا اور وہ نہیں جانتے کہ اپنے خاندان کا پیٹ کیسے پالیں۔ طالبان کے دور میں افغانستان میں غربتطالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے افغانستان کی نصف سے زیادہ آبادی غربت کی لکیر سے نیچے چلی گئی ہے۔ لاکھوں لوگ انسانی امداد پر منحصر ہیں۔ ملک کی آبادی تقریباً 41.
یونیسیف کی مارچ 2025 کی رپورٹ کے مطابق، افغانستان میں ہر دوسرے بچے کو ہنگامی امداد کی فوری ضرورت ہے۔ شدید غذائی قلت کے شکار بچوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ بہت سی نابالغ لڑکیوں کی زبردستی شادی کر دی جاتی ہے کیونکہ ان کے گھر والے نہیں جانتے کہ اپنے بچوں کا پیٹ کیسے پالیں۔
افغان خواتین کی احتجاجی تحریک پرپل سٹرڈے کی ایک کارکن نے ڈی ڈبلیو کو ایک ای میل میں بتایا کہ’’یہ وہ بچے ہیں جنہیں تعلیم، ذاتی نشوونما اور یہاں تک کہ بچوں کی طرح کھیلنے کے حق سے بھی محروم رکھا جاتا ہے۔
انہیں قبل از وقت پیدائش، انتہائی غربت، خاندانی تشدد اور سماجی تنہائی جیسے تکلیف دہ نتائج کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘‘ مذکورہ خاتون نے سکیورٹی وجوہات کی بناء پراپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی۔انہوں نے مزید کہا، ’’اور یہ ایک ایسے معاشرے میں ہے جس میں خواتین اور بچوں کے لیے امدادی ڈھانچے عملی طور پر منہدم ہو چکے ہیں۔
‘‘یہ مقامی کارکن خواتین اور نوجوان لڑکیوں کو اپنے نیٹ ورک کے ذریعے آگاہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور انہیں نجی طور پر تعلیم دینے کی کوشش کرتے ہیں۔
طالبان کے دور میں خواتین کو اب یونیورسٹیوں میں پڑھنے کی اجازت نہیں ہے۔ پانچویں جماعت کے بعد سیکنڈری اسکولوں میں لڑکیوں کے لیے پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
کارکن نے کہا، ’’اب ہمیں پہلے سے کہیں زیادہ، بین الاقوامی برادری کی حقیقی اور غیر مشروط یکجہتی کی ضرورت ہے۔
‘‘ ملک سے بھاگنے والے طالبان سے خوفزدہبہت سی مایوس خواتین پڑوسی ممالک کو بھاگ گئی ہیں، جن میں تین بچوں کی ماں دیبا بھی شامل ہے۔
طالبان کے قبضے سے قبل، وہ افغان وزارت تعلیم میں کام کر چکی تھیں اور خواتین کی ترقی کے لیے ایک ادارے کی شریک بانی تھیں، جسے بعد میں طالبان نے بند کر دیا تھا۔ طالبان کی حکومت کے کئی مہینوں کے بعد، خواتین کے حقوق کی کارکن کو پاکستان فرار ہونے پر مجبور ہونا پڑا۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’میں نے اپنا سارا سامان بیچ دیا اور فرار ہو گئی۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ اب ویزا کی مدت ختم ہونے کے بعد انہیں پاکستان سے ڈی پورٹ کیے جانے کا خدشہ ہے۔ افغان مہاجرین کو اس وقت پاکستان سے بڑے پیمانے پر ملک بدر کیا جا رہا ہے۔ اندازوں کے مطابق صرف اپریل اور مئی میں تقریباً 200,000 افراد کو ملک بدر کیا گیا۔
دیبا نے کہا، ’’میں افغانستان واپس جانے کے بجائے روپوش ہوجانا پسند کروں گی‘‘
طالبان کی حکومت والے افغانستان میں، انہیں ایک عورت کے طور پر معاشرے میں آزادانہ طور پر گھومنے پھرنے کی اجازت بھی نہیں دی جائے گی، اپنے خاندان کی کفالت کے لیے نوکری تلاش کرنے کی اجازت نہیں ہو گی۔ ان کی بیٹیوں کو اپنی زندگی جینے کی اجازت نہیں ملے گی۔
وہ اپنے آپ کو اور اپنے بچوں کو محفوظ تیسرے ملک تک پہنچانے کا راستہ تلاش کرنے کی امید رکھتی ہے۔دیگر ممالک بھی افغان مہاجرین کو ملک بدر کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔
مثال کے طور پر، ایران نے اعلان کیا ہے کہ وہ اس سال چالیس لاکھ افغانوں کو ان کے ’’محفوظ وطن" واپس بھیجے گا۔ صرف مئی میں 15000 افراد کو ملک بدر کیا گیا۔
طالبان نے وعدہ کیا ہے کہ ’’ہم ان کا استقبال کریں گے۔‘‘
ج ا ⁄ ص ز (شبنم وان ہیئن)
ڈی ڈبلیو کے دری/پشتو ڈیپارٹمنٹ کی پروانہ علی زادہ نے اس رپورٹ میں تعاون کیا۔ یہ مضمون اصل میں جرمن زبان میں لکھا گیا تھا۔
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے افغانستان میں طالبان کے طالبان نے کے طور پر ڈی ڈبلیو انہوں نے رہے ہیں کے لیے کے بعد
پڑھیں:
فیلڈ مارشل کا دورہ امریکا، دفاعی بجٹ میں اضافہ اور سرینڈر مودی
فیلڈ مارشل عاصم منیر 4 روزہ دورے پر امریکا جا رہے ہیں، پینٹاگان اور وزارت دفاع میں طے شدہ مصروفیات کے علاوہ ان کی ملاقات سیکریٹری آف اسٹیٹ اور نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر مارکو روبیو سے بھی متوقع ہے، اس دورے پر ڈپٹی وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار بھی فیلڈ مارشل کو دو دن کے لیے جوائن کریں گے۔
وزیراعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کا دورہ بیجنگ بھی جلد متوقع ہے، چین سے پہلے واشنگٹن کا دورہ امریکا چین تعلقات کو بیلنس کرنے کی ایک کوشش ہے، یہ بیلنس اس لیے بھی ضروری ہے کہ چین سے نئی ڈیفنس ڈیل کی باتیں سامنے آ رہی ہیں۔
جے ایف 35 اسٹیلتھ طیاروں ، جے 500 اواکس سسٹم ، ایچ کیو 19 بلاسٹک میزائل ڈیفنس سسٹم اور ڈی ایف 17 ہائپر میزائل سسٹم چین سے حاصل کرنے کی باتیں انٹرنیشنل میڈیا میں رپورٹ ہو رہی ہیں، امریکا جانا اور ان کو بتانا بنتا ہے کہ ہم بیجنگ ہی نہیں واشنگٹن بھی آتے جاتے رہیں گے۔
پاکستان افغانستان نے تعلقات میں سرد مہری کو تیزی سے ختم کیا ہے، اس بار بریک تھرو کرانے میں معاشی امکانات کا سب سے اہم کردار رہا ہے، افغان مہاجرین کیخلاف سختی بھی کم ہوئی ہے اور ان کی واپسی کی رفتار میں بھی کمی آئی ہے۔ پاکستان افغانستان نے تعلقات بہتر بنائے تو تعلقات خرابی کی اصل وجہ پر بھی پیشرفت ہونا ہی تھی، افغانستان میں موجود مسلح دہشت گردوں کا مسئلہ بھی حل کرنا لازم ہے ۔
افغان طالبان کو یقین دلایا جا رہا ہے کہ مسلح گروپوں کے خلاف کارروائی کی صورت میں پاکستان اور چین افغان طالبان حکومت کی مدد کریں گے، ٹیررازم کے ایشو پر امریکا کو آن بورڈ لینا اور مل کر چلنا ضروری ہے۔ دہشت گردی کے خاتمے کے بغیر تیز رفتار کنیکٹیوٹی ، انرجی ، منرل ، ریلوے ٹریک اور انفرا اسٹرکچر پروجیکٹ کی تکمیل بس خواب اور خیال ہی رہ سکتا ہے۔ دہشت گردی کا خاتمہ سب کے لیے وِن وِن سچوئیشن ہوگی۔
افغان طالبان کا یہ خدشہ بھی کافی حقیقی ہے کہ وہ مذہبی شدت پسند مسلح تنظیموں کے خلاف کارروائی کریں، ہمسایہ ملک صرف تماشا دیکھیں اور افغانستان اک نئی لڑائی کا شکار ہو جائے۔ اس کے لیے ایک بڑے اتفاق رائے کی ضرورت ہے۔ جس پر کام ہوتا دکھائی دے رہا ہے ۔پاکستان افغانستان تعلقات کو شاید ایک لطیفے کے ذریعے اچھا سمجھا جا سکتا ہے ۔
چودھری گھر کے دروازے پر کھڑا چودھرانی سے بہترین بزتی کرا رہا تھا۔ سامنے سے چودھری کو اپنا مشیر اول مراثی آتا دکھائی دیا۔ چودھرانی نے بزتی کرنا جاری رکھی۔ جب مراثی قریب آ گیا تو چودھرانی وقفہ لینے یا چودھری کی عزت کا خیال کرتے اندر چلی گئی۔ چودھری اپنی عزت بحال کرنے کو مراثی سے کہتا ہے کہ اسے میں نے طلاق دے دینی ہے۔ یہ بہت تنگ کرتی ہے مجھے۔ مراثی نے جواب دیا کہ چھوڑیں چودھری صاحب جو نکاح کو نہیں مانتی وہ طلاق کو کدھر مانے گی۔ پاکستان افغانستان آپس میں نہ نکاح مانتے ہیں نہ طلاق۔ اس لیے ان کا گزارہ بھی رل مل کر چلنے اور لڑنے میں ہی ہے۔
پیار میں اکثر پریمی پہلے جھگڑا کرتے ہیں، مگر پھر آہیں بھرتے ہیں اور اک دوجے پر مرتے ہیں۔ یہ گانا تو آپ نے سنا ہی ہوگا۔ جھگڑے کا ذکر کر کے بتانا ضروری ہے کہ پاکستان نے اپنے دفاعی بجٹ میں 20 فیصد اضافہ کیا ہے۔ پچھلے سال یہ 2100 ارب روپے تھا اس سال یہ 2550 ارب روپے ہیں۔ پچھلے سال بجٹ کا حجم 18900 ارب روپے اور اس سال 17600 ارب روپے ہے۔ تو دفاعی بجٹ میں اضافہ اس حساب سے زیادہ تو ہے لیکن سرینڈر مودی کی طبعیت کے عین مطابق ہے ۔
اس بجٹ میں فاٹا کے لیے سبسڈی کم کی گئی ہے ۔ سابق فاٹا کے اضلاع دہشت گردی سے متاثرہ اضلاع ہیں ۔ فاٹا کے خیبر پختون خواہ میں انضمام کے وقت ہر ساال ترقیاتی کاموں کے لیے سو ارب روپئے دینے کا وعدہ کیا گیا تھا جس پر عمل نہیں ہوا ۔ خیبر پختون خواہ کو 1 پرسنٹ سرپلس بجٹ ٹیررازم سے متاثر ہونے کی وجہ سے ملتا ہے ۔ یہ اضافی فنڈ بلوچستان کو بھی ملنا چاہئے ۔
دفاعی بجٹ میں اس لیے بھی ضروری تھا کہ پاکستان نئے ملٹری ایکوئپمنٹس خرید رہا ہے۔ جو کچھ چین سے حاصل کرنے کی بات سامنے آ رہی ہے، ان دفاعی آلات کی خریداری کے بعد تکنیکی طور پر پاکستان انڈیا سے ایک دہائی آگے چلا جائے گا۔ پاکستان کی فضائی نگرانی کی صلاحیت انڈیا سے بھی آگے اس کے کئی سو کلومیٹر دور سمندری جزیروں تک بڑھ جائے گی جہاں انڈین ملٹری فورسز کے اہم سینٹرز ہیں۔
اس اضافے کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں عسکری گروپوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کا وقت آ گیا ہے۔ اس کے لیے درکار فنڈ فراہم کر دیے گئے ہیں۔ یہ عالمی دورے، افغانستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری ، ریاستی اور قومی اعتماد میں اضافہ اب ترقی کے لیے لازمی شرط امن و امان قائم کرنے کی طرف متوجہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ ایسا جب بھی ہوتا دکھائی دے تو سرینڈر مودی کو دل سے تھینکس ضرور بولیں۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
وسی بابا نام رکھا وہ سب کہنے کے لیے جن کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔ سیاست، شدت پسندی اور حالات حاضرہ بارے پڑھتے رہنا اور اس پر کبھی کبھی لکھنا ہی کام ہے۔ ملٹی کلچر ہونے کی وجہ سے سوچ کا سرکٹ مختلف ہے۔ کبھی بات ادھوری رہ جاتی ہے اور کبھی لگتا کہ چپ رہنا بہتر تھا۔