افغان طالبان نے بندوقیں رکھ کر جنگ کی کہانیاں لکھنا شروع کر دیں
اشاعت کی تاریخ: 12th, June 2025 GMT
کابل: افغانستان میں طالبان رہنماؤں نے جنگ کے بعد اپنی جدوجہد کی کہانیاں لکھنا شروع کر دی ہیں، جن میں انہوں نے مغربی افواج کے خلاف 20 سالہ جنگ کو اپنی نظر سے بیان کیا ہے۔
طالبان حکومت کے ترجمان اور کابل پولیس کے ترجمان خالد زدران نے "15 منٹ" کے نام سے ایک 600 صفحات پر مشتمل کتاب لکھی ہے، جس میں انہوں نے امریکی ڈرون حملے، اپنی زندگی کی ہولناک یادیں اور طالبان میں شمولیت کی وجوہات بیان کی ہیں۔
خالد زدران، جو کبھی حقانی نیٹ ورک کے سرگرم رکن تھے، اب حکومت کا حصہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ "مغربی مصنفین نے ہمارے خلاف جو کچھ لکھا وہ حقیقت سے بہت دور ہے۔ ہم نے آزادی کی جنگ لڑی۔"
اسی طرح، طالبان حکومت کے نائب وزیر اطلاعات و ثقافت مہاجر فراهی نے "یادیں جہاد کی: قبضے کے 20 سال" کے عنوان سے اپنی کتاب لکھی ہے، جس میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ امریکا نے افغانستان کو بمباری سے تباہ کیا، قوموں کے درمیان نفرتیں پھیلائیں اور بنیادی ڈھانچہ برباد کیا۔
دونوں کتابوں میں طالبان حملوں میں مارے جانے والے ہزاروں عام شہریوں کا ذکر نہ ہونے کے برابر ہے۔ تاہم مہاجر فراهی کا کہنا ہے کہ طالبان ہمیشہ عام شہریوں کو بچانے کی کوشش کرتے رہے۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: انہوں نے
پڑھیں:
ہم اپنی خودمختاری کے دفاع کیلئے جوابی اقدام کیلئے پُرعزم ہیں، امیر قطر
عرب و اسلامی ممالک کے ایک ہنگامی سربراہی اجلاس میں شیخ تمیم بن حمد آل ثانی کا کہنا تھا کہ اسرائیل، شام کو تقسیم کرنے کے منصوبے بنا رہا ہے، لیکن یہ سازشیں ناکام ہوں گی۔ نتین یاہو، عرب دنیا کو اسرائیلی اثر کے تحت لانے کا خواب دیکھ رہا ہے، جو ایک خطرناک وہم ہے۔ اسلام ٹائمز۔ "دوحہ" میں عرب اور اسلامی ممالک کا ایک ہنگامی سربراہی اجلاس ہوا، جس کا آغاز قطر کے امیر "شیخ تمیم بن حمد آل ثانی" کے خطاب سے ہوا۔ اس موقع پر شیخ تمیم بن حمد آل ثانی نے کہا کہ قطر کے دارالحکومت پر ایک بزدلانہ حملہ کیا گیا، جس میں "حماس" رہنماؤں کے خاندانوں اور مذاکراتی وفد کے رہائشی مقام کو نشانہ بنایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے شہری، اس حملے سے حیران رہ گئے اور دنیا بھی اس دہشتگردی و جارحیت پر چونک گئی۔ حملے کے وقت حماس کی قیادت قطر اور مصر کی جانب سے دی جانے والی ایک امریکی تجویز پر غور کر رہی تھی۔ اس اجلاس کی جگہ سب کو معلوم تھی۔ امیر قطر نے کہا کہ اسرائیل کی غزہ پر جنگ اب نسل کشی میں بدل چکی ہے۔ دوحہ نے حماس اور اسرائیل کے وفود کی میزبانی کی اور ہماری ثالثی سے کچھ اسرائیلی و فلسطینی قیدیوں کی رہائی ممکن ہوئی۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ اگر اسرائیل، حماس کی سیاسی قیادت کو قتل کرنا چاہتا ہے تو پھر مذاکرات کیوں کرتا ہے؟۔ اسرائیل کی جارحیت کُھلی بزدلی اور غیر منصفانہ ہے۔
امیر قطر نے کہا کہ مذاکراتی فریق کو مسلسل نشانہ بنانا دراصل مذاکراتی عمل کو ناکام بنانا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل، غزہ کو ایسا علاقہ بنانا چاہتا ہے جہاں رہائش ممکن نہ ہو تا کہ وہاں کے لوگوں کو جبراً ہجرت پر مجبور کیا جا سکے۔ اسرائیل یہ سمجھتا ہے کہ وہ ہر بار عرب دنیا پر نئی حقیقتیں مسلط کر سکتا ہے۔ شیخ تمیم بن حمد آل ثانی نے کہا کہ عرب خطے کو اسرائیل کے اثر و رسوخ میں لانا ایک خطرناک خیال ہے۔ اسرائیل، شام کو تقسیم کرنے کے منصوبے بنا رہا ہے لیکن یہ سازشیں ناکام ہوں گی۔ نتین یاہو، عرب دنیا کو اسرائیلی تسلط کے زیر اثر لانے کا خواب دیکھ رہا ہے، جو ایک خطرناک وہم ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر اسرائیل نے عرب امن منصوبے کو قبول کر لیا ہوتا تو خطہ بے شمار تباہیوں سے محفوظ رہتا۔ اسرائیل کی انتہاء پسند رژیم، دہشت گردانہ اور نسل پرستانہ پالیسیاں ایک ساتھ اپنا رہی ہے۔ امیر قطر نے واضح کیا کہ ہم اپنی خودمختاری کے تحفظ اور اسرائیلی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لئے ہر ضروری قدم اٹھانے کے لئے پُرعزم ہیں۔