Islam Times:
2025-06-13@18:27:04 GMT

وفاقی بجٹ 2026ء

اشاعت کی تاریخ: 13th, June 2025 GMT

وفاقی بجٹ 2026ء

اسلام ٹائمز: مجموعی طور پر بجٹ کا عوام دوست ہونا نظر نہیں آتا۔ حکومت نئے ٹیکس نہ لگانے کے دعوے کرتی رہی، مگر 280 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگا دیئے گئے۔ اگر شفاف ٹیکس کلیکشن پر توجہ ہو تو نئے ٹیکس لگانے کی ضرورت نہ پڑے۔ عام آدمی کیلئے بجٹ کو موجودہ شکل میں قبول کرنا مشکل ہے۔ مہنگائی کے تناسب سے تنخواہوں میں اضافہ ناکافی ہے۔ شریک حیات کے انتقال پر فیملی پنشن کی مدت 10 سال تک محدود کر دی گئی ہے۔ اگر ایک خاتون شوہر کی پنشن پر بچوں کی کفالت کر رہی ہو تو 10 سال بعد عورت جو ضعیف ہوچکی ہوگی، کیا کرے گی۔ یہ اقدامات کرپشن میں اضافے اور سرکاری ملازمتوں میں عدم دلچسپی کا باعث بنیں گے۔ تحریر: سید اسد عباس

وفاقی وزیر خزانہ نے سال 2025ء اور 2026ء کے لیے بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کر دیا ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ملک قرضوں پر چل رہا ہے، ہم بجٹ میں جس قدر ریلیف دے سکتے تھے، دے دیا ہے۔ ملک میں حکمران جماعت مسلم لیگ نون نے بجٹ کو عوام دوست قرار دیا ہے جبکہ پی ٹی آئی نے بجٹ کو آئی ایم ایف کا بجٹ قرار دیا ہے۔ پیپلزپارٹی جو اقتدار میں بھی ہے اور اپوزیشن کا کردار بھی ادا کر رہی ہے، اس نے کہا کہ بجٹ میں تنخواہوں میں اضافہ ناکافی ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ فیملی پنشن کی مدت 10 سال تک محدود کر دی گئی۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس نے کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا، مگر حقیقت میں 280 ارب روپے کے نئے ٹیکس عائد کر دیئے گئے ہیں۔

بجٹ کا حجم و نمایاں خدوخال:
وفاقی بجٹ کا مجموعی حجم 17,573 ارب روپے رکھا گیا۔ 500 ارب روپے سے زائد کے نئے ٹیکس عائد کیے گئے۔ تنخواہ دار طبقے کے لیے انکم ٹیکس کی شرح میں کمی، جبکہ ڈسپیریٹی ریڈکشن الاؤنس کے تحت بعض ملازمین کو 30 فیصد اضافی مراعات دی گئیں۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اور پنشن میں 7 فیصد اضافہ کیا گیا۔ معذور ملازمین کا کنوینس الاؤنس 4 ہزار سے بڑھا کر 6 ہزار روپے کر دیا گیا۔دفاعی بجٹ میں 20 فیصد اضافہ کیا گیا، جو اب 2,550 ارب روپے ہوگیا ہے۔ نان فائلرز پر سختیاں بڑھائی گئی ہیں۔ 50 ہزار روپے سے زائد رقم نکالنے پر 1 فیصد ٹیکس عائد کیا گیا ہے، جو پہلے 0،6 فیصد تھا۔ نان فائلر کو گاڑی یا جائیداد خریدنے کی اجازت نہیں۔ بینکوں کی منافع آمدن پر ٹیکس 15 فیصد سے بڑھا کر 20 فیصد کر دیا گیا۔ ای کامرس، آن لائن خدمات، کوریئر سروسز پر 18 فیصد سیلز ٹیکس عائد کیا گیا۔ 850 سی سی سے کم گاڑیوں پر بھی 18 فیصد سیلز ٹیکس لگایا گیا۔ پٹرولیم لیوی 78 روپے سے بڑھا کر 100 روپے فی لیٹر کرنے کی تجویز۔ کاربن لیوی پٹرول، ڈیزل اور فرنس آئل پر 2.

5 روپے فی لیٹر (آئندہ سال 5 روپے تک بڑھائی جائے گی)۔

کم آمدنی والے افراد کو سستے گھر یا فلیٹ کی خریداری کے لیے آسان قرضے دیئے جائیں گے۔ زراعت میں بہتری کے لیے کھاد اور کیڑے مار ادویات پر ٹیکس نہیں لگایا گیا، جبکہ چھوٹے کسانوں کو ایک لاکھ روپے تک بلا ضمانت قرض فراہم کیا جائے گا۔ سبزی، پھل، مچھلی، دالیں، بیج، کیمیکل، ٹیکسٹائل فیبرکس سمیت ہزاروں اشیاء پر کسٹم و ریگولیٹری ڈیوٹی میں کمی کی گئی۔ زندہ جانوروں (گائے، بکری، بھینس، گھوڑے، گدھے) پر کسٹم ڈیوٹی 3 فیصد سے صفر کر دی گئی۔ مختلف مشینری، صنعتی پلانٹس، زراعت، آئی ٹی، پولٹری، ڈیری سیکٹر میں استعمال ہونے والی درآمدی اشیاء پر ڈیوٹی مکمل ختم یا کم کر دی گئی۔ ڈیجیٹل کیمرے، پروجیکٹر، اسٹیل مصنوعات، انسولین ٹیپ، پولیمرز، سٹین لیس اسٹیل پر بھی رعایت دی گئی ہے۔ بیکری مصنوعات پر 10 فیصد جی ایس ٹی ختم جبکہ درآمدی چاکلیٹ، سیریلز اور پالتو جانوروں کی خوراک پر 18 فیصد سیلز ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔

غیر منقولہ جائیداد کی خرید و فروخت پر ایڈوانس ٹیکس میں اضافہ کیا گیا ہے۔ فاٹا/پاٹا میں ٹیکس چھوٹ ختم کرنے کا آغاز آئندہ سال 10 فیصد سیلز ٹیکس کی تجویز، جو مرحلہ وار مکمل کیا جائے گا۔ ریاستی اداروں میں 40 ہزار سرکاری آسامیاں ختم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ 10 وزارتوں کی رائٹ سائزنگ اور پی آئی اے، روزویلٹ ہوٹل سمیت متعدد اداروں کی نجکاری کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ نائب امیر جماعت اسلامی، لیاقت بلوچ نے کہا ہے کہ سالانہ بجٹ نے حکومتی معاشی ناکامیوں کو بے نقاب کر دیا ہے۔ ریاستی وسائل اور حکومتی طاقت سے جھوٹ پر مبنی تشہیری مہم معیشت کو بحال نہیں کرسکتی۔ حقائق سچائی ہوتے ہیں اور جھوٹی تشہیری مہم حکمرانوں کو ہی ننگا کر دیتی ہے۔ قرض، سود، کرپشن، بدانتظامیوں کے ساتھ معیشت بحال نہیں کی جا سکتی۔

اقتصادی سروے سے واضح ہے کہ غلط حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے گندم، چاول، گنا، کپاس، مکئی جیسی نقد آور فصلوں کی پیداوار میں گذشتہ سال کے دوران بڑی کمی ہوئی، کسان رْل گیا۔ مسلسل سیاسی بحران کی وجہ سے قومی سیاست و معیشت بے یقینی کا شکار رہی، جس کا براہ راست نقصان غریب عوام کو بھاری بھرکم ٹیکسز کی صورت میں برداشت کرنا پڑا۔ اشرافیہ، جاگیرداروں، سرمایہ داروں پر ٹیکس عائد کرنے کے بجائے تنخواہ دار غریب طبقہ سے ٹیکس وصولی کو ہی حکومتی ریونیو کا بڑا ذریعہ بنا دیا گیا ہے۔ پاکستان مرکزی مسلم لیگ کے صدر، خالد مسعود سندھو نے کہا ہے کہ وفاقی بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں دس فیصد ممکنہ اضافہ انتہائی کم ہے۔ مہنگائی کے تناسب سے اضافہ کیا جائے، بجلی کے بلوں میں ٹیکسز ختم کیے جائیں، اشرافیہ کی مراعات بند کی جائیں۔ بجٹ عوام دوست نہ ہوا تو مرکزی مسلم لیگ عوام کی آواز بنے گی۔

مجموعی طور پر بجٹ کا عوام دوست ہونا نظر نہیں آتا۔ حکومت نئے ٹیکس نہ لگانے کے دعوے کرتی رہی، مگر 280 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگا دیئے گئے۔ اگر شفاف ٹیکس کلیکشن پر توجہ ہو تو نئے ٹیکس لگانے کی ضرورت نہ پڑے۔ عام آدمی کے لیے بجٹ کو موجودہ شکل میں قبول کرنا مشکل ہے۔ مہنگائی کے تناسب سے تنخواہوں میں اضافہ ناکافی ہے۔ شریک حیات کے انتقال پر فیملی پنشن کی مدت 10 سال تک محدود کر دی گئی ہے۔ اگر ایک خاتون شوہر کی پنشن پر بچوں کی کفالت کر رہی ہو تو 10 سال بعد عورت جو ضعیف ہوچکی ہوگی، کیا کرے گی۔ یہ اقدامات کرپشن میں اضافے اور سرکاری ملازمتوں میں عدم دلچسپی کا باعث بنیں گے۔

دوسری جانب وفاقی وزراء اور وزیر مملکت کی تنخواہوں میں 188 فیصد اضافہ کیا گیا ہے، وفاقی وزیر کے مطابق اگر یہ تنخواہیں ہر سال بڑھتی رہتیں تو یوں اچانک ان تنخواہوں کو بڑھانے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ دفاعی شعبے کے ریگولز ملازمین کو 25 فیصد اضافی الاونس دیا جائے گا۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ ریاست کے اخراجات کا مکمل بوجھ نچلے طبقے یا غریب عوام پر ڈال دیا گیا ہے۔ آج عمران خان کے الفاظ یاد آرہے ہیں، میں برداشت کر لوں گا، آپ برداشت نہیں کرسکیں گے۔ وہ برداشت کر رہا ہے، غریب آدمی کے لیے یہ سب برداشت کرنا واقعی مشکل ہے، اس پر مستزاد بے تحاشہ بجلی کے بل رہی سہی کسر نکال رہے ہیں۔

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: فیصد اضافہ کیا گیا تنخواہوں میں کے نئے ٹیکس کیا گیا ہے ٹیکس عائد میں اضافہ عوام دوست ارب روپے ٹیکس نہ دیا گیا کر دیا بجٹ کو بجٹ کا کے لیے نے کہا دیا ہے

پڑھیں:

ایف بی آر کی نئی تجویز:نان فائلر کیلیے بینک سے کیش نکلوانے پر ٹیکس میں اضافہ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اسلام آباد:وفاقی حکومت کی ٹیکس پالیسی میں نان فائلرز کے لیے نئی پابندیاں متعارف کرا دی گئی ہیں۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے واضح کر دیا ہے کہ بینکوں سے نقد رقم نکالنے والے نان فائلرز کو اب 0.8 فیصد ودہولڈنگ ٹیکس دینا ہوگا۔

کمیٹی اجلاس کی صدارت چیئرمین نوید قمر نے کی، جس میں متعدد اہم تجاویز اور سفارشات کا جائزہ لیا گیا۔

ایف بی آر حکام نے اجلاس کے دوران بتایا کہ ماضی میں نان فائلرز پر کیش نکالنے کی صورت میں 0.6 فیصد ٹیکس عائد تھا، تاہم اب اس میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔ اگر کوئی نان فائلر شخص روزانہ 50 ہزار روپے کی رقم نکلواتا ہے تو اس پر 400 روپے کا ودہولڈنگ ٹیکس لاگو ہوگا،تاہم اس حد پر اراکین کمیٹی نے اعتراض کیا اور مطالبہ کیا کہ اس حد میں اضافہ کیا جانا چاہیے تاکہ عام صارفین پر غیر ضروری بوجھ نہ پڑے۔

چیئرمین ایف بی آر نے کمیٹی کے مطالبے پر لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس حد کو 50 ہزار سے بڑھا کر 75 ہزار روپے کرنے کی تجویز پیش کی، جسے بعد ازاں کمیٹی نے منظور بھی کر لیا۔ یوں نان فائلرز اب روزانہ 75 ہزار روپے تک کی نقد رقم نکال سکیں گے، جس پر 0.8 فیصد یعنی 600 روپے تک ٹیکس عائد ہو گا۔

اجلاس کے دوران کچھ اراکین نے تجویز دی کہ یہ حد ایک لاکھ روپے تک ہونی چاہیے، لیکن چیئرمین ایف بی آر نے جواب دیا کہ جو شخص یومیہ ایک لاکھ روپے کی رقم نکالتا ہے، وہ ویسے ہی خاصا خوشحال ہے، اس پر ٹیکس کا بوجھ کوئی بڑا مسئلہ نہیں۔

کمیٹی کے اجلاس میں محض بینکنگ ٹیکس ہی زیر بحث نہیں رہا بلکہ دیگر کئی اہم مالیاتی تجاویز پر بھی غور ہوا۔ آن لائن خریداری پر اضافی 2 فیصد سیلز ٹیکس کی تجویز کمیٹی نے مسترد کر دی جب کہ بینک قرضوں پر منافع کے ٹیکس کو 15 فیصد سے بڑھا کر 20 فیصد کرنے کی تجویز کو بھی رد کر دیا گیا۔ ان دونوں تجاویز پر اراکین کا کہنا تھا کہ عوام پہلے ہی مہنگائی کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں، مزید بوجھ مناسب نہیں۔

دوسری طرف گوگل، یوٹیوب اور دیگر ڈیجیٹل سروسز پر ٹیکس کی شرح میں اضافہ منظور کر لیا گیا۔ نئی تجویز کے مطابق ان سروسز پر 10 فیصد کے بجائے 15 فیصد ٹیکس عائد ہو گا، جس کا براہ راست اثر مواد بنانے والوں، مارکیٹرز اور آن لائن کاروبار کرنے والوں پر پڑے گا۔ ایف بی آر حکام کے مطابق یہ قدم ڈیجیٹل معیشت سے بہتر ریونیو حاصل کرنے کے لیے اٹھایا گیا ہے۔

اجلاس میں کمرشل جائیدادوں کے کرایے سے حاصل ہونے والی آمدن پر 4 فیصد اضافی ٹیکس کی تجویز کو موخر کر دیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ تجویز بھی مسترد کی گئی کہ اگر کوئی فرد 2 لاکھ روپے کی فروخت کرتا ہے تو وہ لازماً بینکاری لین دین کے ذریعے ہو۔ کمیٹی نے اس تجویز کو غیر عملی قرار دیتے ہوئے کہا کہ چھوٹے تاجروں کے لیے یہ شرط کاروباری مشکلات میں اضافہ کرے گی۔

مزید برآں کمیٹی نے ایک اور اہم تجویز منظور کی کہ رینٹل آمدن کو کاروباری نقصانات میں ایڈجسٹ نہ کیا جائے۔ ایف بی آر نے وضاحت کی کہ بعض افراد اپنی جائیداد سے حاصل ہونے والی کرایہ داری کو کاروباری نقصانات سے مشروط کر کے غیر ضروری طور پر ٹیکس میں چھوٹ حاصل کر رہے ہیں، جس سے قومی خزانے کو نقصان پہنچتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ایف بی آر کی نئی تجویز:نان فائلر کیلیے بینک سے کیش نکلوانے پر ٹیکس میں اضافہ
  • 18فیصد سیلز ٹیکس، سولر پینلز کی قیمت میں ہزاروں روپے کا اضافہ
  • بجٹ 2025ء 2026ء : ملٹری پنشن کی مد میں 66 ارب‘ سویلین پنشن کے بجٹ میں 9 ارب روپے کا اضافہ
  • کابینہ اراکین کے بجٹ میں 100 فیصد تک اضافہ کر دیا گیا
  • سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ کرنیوالوں کی اپنی تنخواہوں میں ہوشربا اضافہ
  • مخلوط حکومت کا دوسرا بجٹ،  ملازمین کو نمایاں ریلیف
  • بجٹ 26-2025: ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں 7 فیصد اضافہ تجویز
  • ۔175 کھرب سے زاید کا وفاقی بجٹ پیش ،دفاعی بجٹ میں 20 فیصد اضافہ‘سولر پینل پر 18 فیصد ٹیکس عاید
  • وفاقی بجٹ مایوس کن، تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ کیا جائے ،جاوید قصوری