اسلام ٹائمز: مجموعی طور پر بجٹ کا عوام دوست ہونا نظر نہیں آتا۔ حکومت نئے ٹیکس نہ لگانے کے دعوے کرتی رہی، مگر 280 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگا دیئے گئے۔ اگر شفاف ٹیکس کلیکشن پر توجہ ہو تو نئے ٹیکس لگانے کی ضرورت نہ پڑے۔ عام آدمی کیلئے بجٹ کو موجودہ شکل میں قبول کرنا مشکل ہے۔ مہنگائی کے تناسب سے تنخواہوں میں اضافہ ناکافی ہے۔ شریک حیات کے انتقال پر فیملی پنشن کی مدت 10 سال تک محدود کر دی گئی ہے۔ اگر ایک خاتون شوہر کی پنشن پر بچوں کی کفالت کر رہی ہو تو 10 سال بعد عورت جو ضعیف ہوچکی ہوگی، کیا کرے گی۔ یہ اقدامات کرپشن میں اضافے اور سرکاری ملازمتوں میں عدم دلچسپی کا باعث بنیں گے۔ تحریر: سید اسد عباس
وفاقی وزیر خزانہ نے سال 2025ء اور 2026ء کے لیے بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کر دیا ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ملک قرضوں پر چل رہا ہے، ہم بجٹ میں جس قدر ریلیف دے سکتے تھے، دے دیا ہے۔ ملک میں حکمران جماعت مسلم لیگ نون نے بجٹ کو عوام دوست قرار دیا ہے جبکہ پی ٹی آئی نے بجٹ کو آئی ایم ایف کا بجٹ قرار دیا ہے۔ پیپلزپارٹی جو اقتدار میں بھی ہے اور اپوزیشن کا کردار بھی ادا کر رہی ہے، اس نے کہا کہ بجٹ میں تنخواہوں میں اضافہ ناکافی ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ فیملی پنشن کی مدت 10 سال تک محدود کر دی گئی۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس نے کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا، مگر حقیقت میں 280 ارب روپے کے نئے ٹیکس عائد کر دیئے گئے ہیں۔
بجٹ کا حجم و نمایاں خدوخال:
وفاقی بجٹ کا مجموعی حجم 17,573 ارب روپے رکھا گیا۔ 500 ارب روپے سے زائد کے نئے ٹیکس عائد کیے گئے۔ تنخواہ دار طبقے کے لیے انکم ٹیکس کی شرح میں کمی، جبکہ ڈسپیریٹی ریڈکشن الاؤنس کے تحت بعض ملازمین کو 30 فیصد اضافی مراعات دی گئیں۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اور پنشن میں 7 فیصد اضافہ کیا گیا۔ معذور ملازمین کا کنوینس الاؤنس 4 ہزار سے بڑھا کر 6 ہزار روپے کر دیا گیا۔دفاعی بجٹ میں 20 فیصد اضافہ کیا گیا، جو اب 2,550 ارب روپے ہوگیا ہے۔ نان فائلرز پر سختیاں بڑھائی گئی ہیں۔ 50 ہزار روپے سے زائد رقم نکالنے پر 1 فیصد ٹیکس عائد کیا گیا ہے، جو پہلے 0،6 فیصد تھا۔ نان فائلر کو گاڑی یا جائیداد خریدنے کی اجازت نہیں۔ بینکوں کی منافع آمدن پر ٹیکس 15 فیصد سے بڑھا کر 20 فیصد کر دیا گیا۔ ای کامرس، آن لائن خدمات، کوریئر سروسز پر 18 فیصد سیلز ٹیکس عائد کیا گیا۔ 850 سی سی سے کم گاڑیوں پر بھی 18 فیصد سیلز ٹیکس لگایا گیا۔ پٹرولیم لیوی 78 روپے سے بڑھا کر 100 روپے فی لیٹر کرنے کی تجویز۔ کاربن لیوی پٹرول، ڈیزل اور فرنس آئل پر 2.
کم آمدنی والے افراد کو سستے گھر یا فلیٹ کی خریداری کے لیے آسان قرضے دیئے جائیں گے۔ زراعت میں بہتری کے لیے کھاد اور کیڑے مار ادویات پر ٹیکس نہیں لگایا گیا، جبکہ چھوٹے کسانوں کو ایک لاکھ روپے تک بلا ضمانت قرض فراہم کیا جائے گا۔ سبزی، پھل، مچھلی، دالیں، بیج، کیمیکل، ٹیکسٹائل فیبرکس سمیت ہزاروں اشیاء پر کسٹم و ریگولیٹری ڈیوٹی میں کمی کی گئی۔ زندہ جانوروں (گائے، بکری، بھینس، گھوڑے، گدھے) پر کسٹم ڈیوٹی 3 فیصد سے صفر کر دی گئی۔ مختلف مشینری، صنعتی پلانٹس، زراعت، آئی ٹی، پولٹری، ڈیری سیکٹر میں استعمال ہونے والی درآمدی اشیاء پر ڈیوٹی مکمل ختم یا کم کر دی گئی۔ ڈیجیٹل کیمرے، پروجیکٹر، اسٹیل مصنوعات، انسولین ٹیپ، پولیمرز، سٹین لیس اسٹیل پر بھی رعایت دی گئی ہے۔ بیکری مصنوعات پر 10 فیصد جی ایس ٹی ختم جبکہ درآمدی چاکلیٹ، سیریلز اور پالتو جانوروں کی خوراک پر 18 فیصد سیلز ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔
غیر منقولہ جائیداد کی خرید و فروخت پر ایڈوانس ٹیکس میں اضافہ کیا گیا ہے۔ فاٹا/پاٹا میں ٹیکس چھوٹ ختم کرنے کا آغاز آئندہ سال 10 فیصد سیلز ٹیکس کی تجویز، جو مرحلہ وار مکمل کیا جائے گا۔ ریاستی اداروں میں 40 ہزار سرکاری آسامیاں ختم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ 10 وزارتوں کی رائٹ سائزنگ اور پی آئی اے، روزویلٹ ہوٹل سمیت متعدد اداروں کی نجکاری کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ نائب امیر جماعت اسلامی، لیاقت بلوچ نے کہا ہے کہ سالانہ بجٹ نے حکومتی معاشی ناکامیوں کو بے نقاب کر دیا ہے۔ ریاستی وسائل اور حکومتی طاقت سے جھوٹ پر مبنی تشہیری مہم معیشت کو بحال نہیں کرسکتی۔ حقائق سچائی ہوتے ہیں اور جھوٹی تشہیری مہم حکمرانوں کو ہی ننگا کر دیتی ہے۔ قرض، سود، کرپشن، بدانتظامیوں کے ساتھ معیشت بحال نہیں کی جا سکتی۔
اقتصادی سروے سے واضح ہے کہ غلط حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے گندم، چاول، گنا، کپاس، مکئی جیسی نقد آور فصلوں کی پیداوار میں گذشتہ سال کے دوران بڑی کمی ہوئی، کسان رْل گیا۔ مسلسل سیاسی بحران کی وجہ سے قومی سیاست و معیشت بے یقینی کا شکار رہی، جس کا براہ راست نقصان غریب عوام کو بھاری بھرکم ٹیکسز کی صورت میں برداشت کرنا پڑا۔ اشرافیہ، جاگیرداروں، سرمایہ داروں پر ٹیکس عائد کرنے کے بجائے تنخواہ دار غریب طبقہ سے ٹیکس وصولی کو ہی حکومتی ریونیو کا بڑا ذریعہ بنا دیا گیا ہے۔ پاکستان مرکزی مسلم لیگ کے صدر، خالد مسعود سندھو نے کہا ہے کہ وفاقی بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں دس فیصد ممکنہ اضافہ انتہائی کم ہے۔ مہنگائی کے تناسب سے اضافہ کیا جائے، بجلی کے بلوں میں ٹیکسز ختم کیے جائیں، اشرافیہ کی مراعات بند کی جائیں۔ بجٹ عوام دوست نہ ہوا تو مرکزی مسلم لیگ عوام کی آواز بنے گی۔
مجموعی طور پر بجٹ کا عوام دوست ہونا نظر نہیں آتا۔ حکومت نئے ٹیکس نہ لگانے کے دعوے کرتی رہی، مگر 280 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگا دیئے گئے۔ اگر شفاف ٹیکس کلیکشن پر توجہ ہو تو نئے ٹیکس لگانے کی ضرورت نہ پڑے۔ عام آدمی کے لیے بجٹ کو موجودہ شکل میں قبول کرنا مشکل ہے۔ مہنگائی کے تناسب سے تنخواہوں میں اضافہ ناکافی ہے۔ شریک حیات کے انتقال پر فیملی پنشن کی مدت 10 سال تک محدود کر دی گئی ہے۔ اگر ایک خاتون شوہر کی پنشن پر بچوں کی کفالت کر رہی ہو تو 10 سال بعد عورت جو ضعیف ہوچکی ہوگی، کیا کرے گی۔ یہ اقدامات کرپشن میں اضافے اور سرکاری ملازمتوں میں عدم دلچسپی کا باعث بنیں گے۔
دوسری جانب وفاقی وزراء اور وزیر مملکت کی تنخواہوں میں 188 فیصد اضافہ کیا گیا ہے، وفاقی وزیر کے مطابق اگر یہ تنخواہیں ہر سال بڑھتی رہتیں تو یوں اچانک ان تنخواہوں کو بڑھانے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ دفاعی شعبے کے ریگولز ملازمین کو 25 فیصد اضافی الاونس دیا جائے گا۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ ریاست کے اخراجات کا مکمل بوجھ نچلے طبقے یا غریب عوام پر ڈال دیا گیا ہے۔ آج عمران خان کے الفاظ یاد آرہے ہیں، میں برداشت کر لوں گا، آپ برداشت نہیں کرسکیں گے۔ وہ برداشت کر رہا ہے، غریب آدمی کے لیے یہ سب برداشت کرنا واقعی مشکل ہے، اس پر مستزاد بے تحاشہ بجلی کے بل رہی سہی کسر نکال رہے ہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: فیصد اضافہ کیا گیا تنخواہوں میں کے نئے ٹیکس کیا گیا ہے ٹیکس عائد میں اضافہ عوام دوست ارب روپے ٹیکس نہ دیا گیا کر دیا بجٹ کو بجٹ کا کے لیے نے کہا دیا ہے
پڑھیں:
کراچی میں بھی چینی کی قیمت میں من مانا اضافہ، انتظامیہ سرکاری نرخ پر اطلاق میں ناکام
کراچی میں چینی کی قیمت کو پُر لگ گئے اور انتظامیہ بھی گراں فروشوں کیلیے کارروائی سے گریزاں نظر آتی ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق کمشنر کراچی کی جانب سے چینی کی تھوک قیمت 170 روپے اور خوردہ قیمت 173 روپے فی کلو مقرر کیے جانے کے باوجود شہر بھر میں سرکاری نرخوں پر عمل درآمد نہ ہوسکا۔
مارکیٹ میں چینی ہول سیل سطح پر 175 روپے جبکہ خوردہ سطح پر 190 روپے فی کلو میں فروخت کی جا رہی ہے، جبکہ گلی محلوں کی چھوٹی دکانوں پر چینی کی قیمت 200 روپے فی کلو تک جا پہنچی ہے۔
ہول سیل مارکیٹ میں چینی کی قیمت میں 8 روپے فی کلو کی کمی واقع ہوئی ہے اور موجودہ نرخ 175 روپے فی کلو پر آ گیا ہے، تاہم اس کمی کا کوئی فائدہ صارفین کو نہیں پہنچ سکا۔
شہر کے بیشتر بازاروں میں چینی 185 سے 190 روپے فی کلو میں فروخت ہو رہی ہے، اور ریٹیلرز قیمت کم کرنے کو تیار نہیں۔
واضح رہے کہ وفاقی حکومت اور پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کے درمیان معاہدے کے تحت 15 جولائی سے چینی کی ایکس مل قیمت 165 روپے فی کلو مقرر کی گئی تھی۔ لیکن اس معاہدے اور کمشنر کراچی کی جانب سے مقرر کردہ قیمتوں کے باوجود عملدرآمد نہ ہونے کے باعث شہری مہنگی چینی خریدنے پر مجبور ہیں۔
صارفین کا کہنا ہے کہ پرائس کنٹرول کمیٹیاں غیر مؤثر ہو چکی ہیں اور حکومت کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات محض کاغذی کارروائی تک محدود ہیں۔
صارفین نے مطالبہ کیا ہے کہ ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع خوروں کے خلاف فوری اور مؤثر کارروائی کی جائے تاکہ عوام کو ریلیف مل سکے۔