غدیر کا انکار اور امتِ مسلمہ کی گمراہی کا نوحہ
اشاعت کی تاریخ: 13th, June 2025 GMT
اسلام ٹائمز: اگر ہم آج بھی غدیر کے پیغام کو اپنے دل کی دھڑکن اور فکر کی بنیاد بنا لیں تو ایک نئی صبح کا سورج ضرور طلوع ہوسکتا ہے۔ وہ صبح جس میں فرقے، قبیلے، زبانیں اور جغرافیے، وحدتِ ایمانی کے دائرے میں سمٹ جائیں گے؛ جہاں مسجدوں سے لے کر ایوانوں تک صداقت کی گونج ہوگی؛ جہاں ہر بچہ، علیؑ جیسی صداقت، فاطمہؑ جیسی عفت، حسنؑ جیسی وقار اور حسینؑ جیسی غیرت کو اپنا آئیڈیل بنائے گا؛ جہاں قیادت ایک امانت ہوگی، وراثت نہیں اور جہاں امت کا ہر فرد، دین کی معنوی روشنی میں، ظلم کے اندھیروں کو چیرنے والا چراغ بن جائے گا۔ ہم سب مل کر عہد کریں کہ غدیر کو پھر سے زندہ کریں گے۔ تحریر: محمد حسن جمالی
تاریخِ اسلام کے اوراق پر چند ایسے واقعات کا تذکرہ ملتا ہے، جن کی گونج صدیاں گزرنے کے بعد بھی ایمان والوں کے دل و دماغ میں تازگی پیدا کرتی ہے اور جن کے انکار سے نہ صرف حق کی روشنی ماند پڑتی ہے بلکہ امت گمراہی کی دھند میں بھٹکنے لگتی ہے۔ واقعۂ غدیر کا شمار سرفہرست انہی واقعات میں ہوتا ہے۔ اس واقعے کا اجمال یہ ہے کہ 18 ذی الحجہ کو رسولِ خدا (ص) نے خدا کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے لاکھوں کے مجمع میں اعلانِ ولایت فرمایا۔ یہ صرف سیاسی رہنمائی نہیں، بلکہ دین کی بقاء اور امت کی رہبری کا اعلان تھا، مگر افسوس! مسلمانوں کی اکثریت نے واقعہ غدیر کو فقط ایک تاریخی واقعہ سمجھا اور اس کی معنویت سے چشم پوشی کی گئی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ امتِ مسلمہ ایسی پستی میں جا گِری، جہاں فرقہ واریت، ظلم اور باطل پرستی نے جڑیں پکڑ لیں۔ غدیر کا انکار صرف ایک شخصیت کا انکار نہیں، بلکہ اُس الہیٰ نظامِ ہدایت کا انکار ہے، جو رسول (ص) کے بعد امت کو صراطِ مستقیم پر رکھنے کے لیے معین کیا گیا تھا۔
روز غدیر تاریخِ اسلام کا وہ مقدس لمحہ ہے، جس میں علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی امامت اور ولایت کا اعلان پیغمبر مکرم اسلام کی 23 سالہ زحمتوں پر بھاری ثابت ہوا۔ اس حقیقت کا اظہار خالق دو جہاں کی طرف سے نہ کنائے کی صورت میں ہوا اور نہ اشارے کی شکل میں، بلکہ نص قرآن کے ذریعے ہوا۔ فرمایا: "یٰۤاَیُّہَا الرَّسُوۡلُ بَلِّغۡ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ مِنۡ رَّبِّکَ ؕ وَ اِنۡ لَّمۡ تَفۡعَلۡ فَمَا بَلَّغۡتَ رِسَالَتَہٗ ؕ وَ اللّٰہُ یَعۡصِمُکَ مِنَ النَّاسِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡکٰفِرِیۡنَ۔۔"، "اے رسول! جو کچھ آپ کے رب کی طرف سے آپ پر نازل کیا گیا ہے، اسے پہنچا دیجئے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو گویا آپ نے اللہ کا پیغام نہیں پہنچایا اور اللہ آپ کو لوگوں (کے شر) سے محفوظ رکھے گا، بے شک اللہ کافروں کی رہنمائی نہیں کرتا۔" تفسیر الکوثر کی نقل کے مطابق یہ آیت 18 ذی الحجۃ الحرام بروز جمعرات حجۃ الوداع 10 ہجری کو رسول اللہؐ پر اس وقت نازل ہوئی، جب آپؐ غدیر خم نامی جگہ پہنچ گئے تھے۔
چنانچہ آپؐ نے آگے نکل جانے والوں کو جو مقام جحفہ کے قریب پہنچ گئے تھے، واپس بلایا اور آنے والوں کا انتظار کیا اور تقریباً ایک لاکھ کے مجمع میں حضرت علی علیہ السلام کا ہاتھ بلند کرکے فرمایا: "ان اللّٰہ مولای و انا مولی المؤمنین و انا اولی بہم من انفسہم فمن کنت مولاہ فعلی مولاہ۔"، "اللہ میرا مولا ہے اور میں مومنوں کا مولا ہوں اور ان کے نفسوں سے اولیٰ ہوں۔ پس جس کا میں مولا ہوں، اس کے علی مولا ہیں۔" پیغمبر اکرمؐ نے اس کو تین بار دہرایا۔ بقول امام حنابلہ احمد بن حنبل کے چار مرتبہ دہرایا۔ اس کے بعد فرمایا: "اللّٰہم وال من والاہ و عاد من عاداہ و احب من احبہ و ابغض من ابغضہ و اخذل من اخذلہ و ادر الحق معہ حیث دار الا فیبلغ الشاھد الغائب۔"، "اے اللہ! جو اس سے محبت رکھے تو اس سے محبت رکھ اور جو اس سے دشمنی رکھے تو اس سے دشمنی رکھ اور جو اس سے محبت کرے تو اس سے محبت کر، جو اس سے بغض رکھے تو اس سے بغض رکھ، جو اس کو ترک کرے تو اس کو ترک کر اور حق کو وہاں پھیر دے، جہاں علی ہو۔ دیکھو جو یہاں حاضر ہیں، ان پر واجب ہے کہ وہ سب تک یہ بات پہنچا دیں۔"
اس حدیث کو امام احمد بن حنبل نے چالیس طریق سے، ابن جریر طبری نے ستر سے زائد طریق سے، علامہ جزری المقری نے 80 طریق سے، علامہ ابن عقدہ نے 105 طریق سے، علامہ ابن سعید سجستانی نے 120 طریق سے، علامہ ابو بکر جعابی نے 125 طریق سے روایت کیا ہے۔ ہمارے معاصر علامہ امینی اپنی شہرہ آفاق کتاب الغدیر جلد اول میں 110 اصحاب سے یہ روایت ثابت کرتے ہیں۔ صاحب الغدیر کی تحقیق کے مطابق درج ذیل اصحاب رسولؐ نے روایت کی ہے کہ یہ آیت غدیر خم کے ۔۔موقع پر حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں نازل ہوئی ہے 1) زید بن ارقم: ان کی روایت کو امام طبری کتاب الولایۃ میں نقل کرتے ہیں۔
2) ابو سعید الخدری: ان سے ابن ابی حاتم، ابن مردویہ اور ابن عساکر نے روایت نقل کی ہے۔ الدرالمنثور ۲: ۵۲۸ طبع بیروت ۱۹۹۰۔ الواحدی اسباب النزول ص ۱۰۵۔
3) عبد اللہ بن مسعود: ان سے ابن مردویہ نے روایت کی ہے۔ الدرالمنثور ۲: ۵۲۸۔ فتح القدیر، الشوکانی ۳: ۵۷۔
4) عبد اللہ بن عباس: حافظ ابو سعید سجستانی کتاب الولایۃ میں، بدخشانی نے مفتاح النجا میں، آلوسی نے تفسیر روح المعانی ۲: ۳۴۸ میں ان کی روایت نقل کی ہے۔
5) جابر بن عبداللہ انصاری: حافظ حاکم الحسکانی نے شواہد التنزیل میں ان کی روایت نقل کی ہے۔
6) ابو ہریرہ: شیخ الاسلام حموینی نے فرائد السمطین میں ان کی روایت نقل کی ہے۔
7) براء بن عازب: السید علی ہمدانی نے المودۃ القربیٰ میں، السید عبد الوہاب البخاری نے اپنی تفسیر میں ان کی روایت بیان کی ہے۔ اسی طرح ایک سو دس اصحاب نے یہ حدیث روایت کی ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو الغدیر جلد اول۔(الکوثر فی تفسیر القرآن: جلد 2، صفحہ 559) روز غدیر پیغمبر اکرم (ص)یہ فرمان کہ "من کنت مولاہ فعلی مولاہ" فقط ایک سیاسی بیعت یا ذاتی محبت کا اظہار نہ تھا، بلکہ یہ ایک ربانی منصوبے کی تکمیل تھی۔ علیؑ کی ولایت کا اعلان، دین کی بقاء کا سامان تھا، مگر صد افسوس! بعض نادان اور مغرض افراد نے اس اعلان کو تاریخ کے پس منظر میں دھکیل دیا گیا۔
قارئین کرام؛ غدیر کا انکار وہ المیہ ہے، جس کی گونج ہر صدی میں محسوس کی جا سکتی ہے۔ اس کی بازگشت کربلا کی صحراؤں میں سنائی دیتی ہے، جہاں پیاسے حلقوں نے حق کی گواہی دی اور اس امام کو بڑی بے دردی سے شہید کر دیا گیا، جس کے نانا نے غدیر میں اعلانِ ولایت فرمایا تھا۔ غدیر وہ نظریہ ہے، جو قیادت، خلافت اور روحانیت کے معیار متعین کرتا ہے۔ اس دن یہ بات واضح ہوئی کہ امامت و قیادت کسی قبائلی فخر یا دنیاوی اقتدار کی بنیاد پر نہیں، بلکہ علم، تقویٰ، عدل اور قربِ الہیٰ کی بنیاد پر ہونی چاہیئے۔ علیؑ کی ذات، نبی کے بعد وہ واحد شخصیت تھی، جس میں یہ تمام صفات بدرجہ اتم موجود تھیں۔ ان کی تلوار صرف معرکہ جنگ میں نہیں، بلکہ جہل، تعصب اور باطل نظریات کے خلاف بھی چمکتی تھی۔ ان کا علم صرف فتووں تک محدود نہ تھا، بلکہ وہ فکری جہات کو روشن کرنے والی روشنی تھی۔
مسلمانوں کی اکثریت نے غدیر کے چراغ کو بجھا کر خود اپنے آپ کو اندھیروں کے حوالے کر دیا ہے۔ جب غدیر کو بھلا دیا تو پھر نہ عدل باقی رہا، نہ علم کی حرمت، نہ صداقت کی بقا۔ خلافت حکومت میں بدل گئی اور سیاست دین کے جسم پر مسلط ہوگئی۔ جنہوں نے اہل بیتؑ کو نظر انداز کیا، انہوں نے حقیقت میں قرآن کو بوسیدہ اور دین کو مجروح کر دیا ہے۔ جب غدیر کو دبا گیا تو طرح طرح کے فتنوں نے سر اٹھایا اور امت کے جسم میں فرقہ واریت کے خنجر پیوست ہونے لگے۔ اگر امت نے غدیر کے پیغام کو سینے سے لگا لیا ہوتا تو نہ یزید جیسا فاسق برسرِ اقتدار آتا، نہ کربلا کی ہولناک داستان رقم ہوتی، نہ امت اتنی فکری اور اخلاقی زبوں حالی کا شکار ہوتی۔ اہل بیتؑ کی علمی، روحانی اور اخلاقی رہنمائی اگر معاشروں کا حصہ بن جاتی تو آج امت تہذیب و تمدن کے اوج پر ہوتی۔
غدیر کی فراموشی کے اثرات صرف ماضی تک محدود نہیں۔ آج بھی ہم اسی بدقسمتی کا شکار ہیں۔ قیادت کا تصور اب دولت، طاقت اور لسانی و نسلی وابستگیوں کے گرد گھومتا ہے۔ قومیں ٹکڑوں میں بٹ چکی ہیں، مسالک کی دیواریں آسمان کو چھو رہی ہیں اور ایک مخصوص ٹولہ دوسرے مسلمانوں کو کافر کہہ کر دین کا پرچم بلند کرنے کا دعویٰ کر رہا ہے۔ قرآن جو ہدایت کی روشن کتاب ہے، اب محض قاری کی تلاوت اور حافظ کی یادداشت تک محدود ہوچکا ہے۔ اس کی روح، اس کا پیغام اور اس کی انقلابی قوت ہماری فکری روایت سے اوجھل ہوچکی ہے۔ دین کے حقیقی نمائندے، یعنی اہل بیتؑ، اب صرف مجالس اور چند مخصوص ایام کا حصہ بن چکے ہیں، نہ کہ روزمرہ کی فکری، اخلاقی اور سیاسی زندگی کا۔ یہ روحانی زوال اسی وقت شروع ہوا، جب غدیر کے عہد کو بھلا دیا گیا۔
آج امت کو جس زوال، انتشار اور پسماندگی کا سامنا ہے، وہ اسی ایک بنیادی غلطی کا نتیجہ ہے۔ یعنی غدیر کو نظرانداز کرنے کا۔ یہ وہ بھول تھی، جس نے ہماری معنوی اساس کو کمزور کر دیا اور ہمارے اجتماعی شعور کو منتشر۔ ہم نے وحدتِ اسلامی کے اس مرکز کو بھلا دیا، جو سب کے لیے سایۂ رحمت بن سکتا تھا۔ اب وقت ہے کہ ہم تاریخ کے اس موڑ پر واپس آئیں اور اپنے ضمیر کی عدالت میں خود کو حاضر کریں۔ ہمیں غدیر کی صداؤں کو دل سے سننے کی ضرورت ہے، اس اعلانِ نبوت کو اپنانے کی ضرورت ہے، جو علیؑ کی ولایت میں مضمر ہے۔ قیادت کو دوبارہ عدل، تقویٰ، علم اور روحانیت کی بنیاد پر پرکھنا ہوگا۔ ہمیں سیاست کو دین کا تابع بنانا ہوگا، نہ کہ دین کو سیاست کا خادم۔
اگر آج بھی ہم غدیر کے چراغ کو اپنے دلوں میں روشن کریں تو وہ صبح ضرور طلوع ہوسکتی ہے، جس کی روشنی میں امتِ مسلمہ ایک جسم کی مانند ہو جائے، جہاں کوئی فقہی، لسانی یا جغرافیائی حد ہمیں ایک دوسرے سے جدا نہ کرے، بلکہ ایک ایسا اخلاقی و روحانی رشتہ قائم ہو جائے، جو محبت، اخوت اور عدل پر مبنی ہو۔ غدیر کا پیغام ایک ازلی صدا ہے، جو صرف ایک مخصوص مکتبِ فکر یا مسلک کا اثاثہ نہیں، بلکہ ہر اُس دل کی پکار ہے، جو حق کا متلاشی، عدل کا پیاسا اور روحانیت کا طالب ہے۔ یہ وہ صدا ہے، جو تاریخ کے ہر موڑ پر مظلوم کی آہ، محروم کی پکار اور محبِ علیؑ کے دل کی دھڑکن میں سنائی دیتی ہے۔ غدیر ہمیں صرف علیؑ کی ولایت کا اعلان نہیں سکھاتا، بلکہ وہ طرزِ قیادت عطا کرتا ہے، جس میں خودی مٹ جاتی ہے اور خدا کا رنگ چڑھتا ہے۔ یہ پیغام، ہمیں اصولوں سے جڑے رہنے، سچائی پر استقامت اختیار کرنے اور مصلحت کے پردوں کو چاک کرکے حق کی ترجمانی کرنے کا درس دیتا ہے۔
آج، جب امتِ مسلمہ فکری انتشار، اخلاقی زوال اور روحانی خلا کا شکار ہے تو ہمیں اسی غدیر کی طرف پلٹنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ وحدت کا خواب صرف تقاریر، قراردادوں یا جلسوں سے شرمندۂ تعبیر نہیں ہوگا، جب تک ہم اپنی فکری بنیادوں کو غدیر کے اصولوں پر استوار نہ کریں۔ غدیر ہمیں علیؑ جیسی قیادت کی تلاش کا شعور دیتا ہے، جو محراب میں شہید ہو، مگر عدل سے پیچھے نہ ہٹے؛ جو یتیم کے آنسو کو بھی اپنی ریاست کی پالیسی کا مرکز بنائے؛ جو بیت المال کو امانت سمجھے اور اپنی تلوار صرف دشمنِ دین پر اٹھائے، نہ کہ اقتدار کے حریصوں پر۔یہ پیغام ہمیں قرآن کو صرف تلاوت سے آگے لے جا کر، اس کے فہم، تدبر اور معنوی تاثیر کو اپنانے کا کہتا ہے۔ یہ ہمیں دعوت دیتا ہے کہ ہم دین کو عبادات کی قید سے نکال کر ایک ہمہ گیر، حیات افروز نظامِ فکر میں تبدیل کریں۔ ایسا نظام جو مسجد سے عدالت، بازار سے ایوانِ حکومت اور فرد سے معاشرہ تک عدل، تقویٰ، علم اور محبت کا پرچار کرے۔
اگر ہم آج بھی غدیر کے پیغام کو اپنے دل کی دھڑکن اور فکر کی بنیاد بنا لیں تو ایک نئی صبح کا سورج ضرور طلوع ہوسکتا ہے۔ وہ صبح جس میں فرقے، قبیلے، زبانیں اور جغرافیے، وحدتِ ایمانی کے دائرے میں سمٹ جائیں گے؛ جہاں مسجدوں سے لے کر ایوانوں تک صداقت کی گونج ہوگی؛ جہاں ہر بچہ، علیؑ جیسی صداقت، فاطمہؑ جیسی عفت، حسنؑ جیسی وقار اور حسینؑ جیسی غیرت کو اپنا آئیڈیل بنائے گا؛ جہاں قیادت ایک امانت ہوگی، وراثت نہیں اور جہاں امت کا ہر فرد، دین کی معنوی روشنی میں، ظلم کے اندھیروں کو چیرنے والا چراغ بن جائے گا۔ ہم سب مل کر عہد کریں کہ غدیر کو پھر سے زندہ کریں گے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: میں ان کی روایت اور روحانی روایت کی کا انکار کا اعلان کی بنیاد تو اس سے غدیر کا کی گونج غدیر کی غدیر کے غدیر کو آج بھی کے بعد کر دیا دین کی
پڑھیں:
پبلک ٹرانسپورٹ کیا سب کا حق نہیں؟
دنیا کے اندر ترقی میں ذرائع آمد و رفت کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا بلکہ یوں کہنا بے جا نا ہوگا کہ دنیا میں جدید ترقی کے پیچھے بڑی حد تک پہئے کی ایجاد اور ذرائع رسل و رسائل ہی کارفرما ہیں۔ترقی یافتہ ممالک اپنے عوام کے لئے اندون ملک اور بیرون ملک نقل و حرکت کو آسان بنانے کے لئے بہترین سڑکوں کے نظام سے لے کر پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم کو اپ گریڈ کرتے ہیں۔
یہ سسٹم جہاں ملکی انفراسٹکچرکو بہتر بنانے کے لئے متعارف کروایا جاتا ہے وہیں اس کے پییچھے عوام کی سہولت اور آسانی کا خیال کارفرما ہوتا ہے۔جتنے بھی ترقی یافتہ ممالک ہیں وہاں پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام بہتر بنانے کے لئے باقاعدہ پلاننگ ڈیپارٹمنٹس اور بورڈز تشکیل دیئے جاتے ہیں۔ کیونکہ حکومتوں کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ عوام نے روزگار، تعلیم اور دیگر ضرورتوں کے پیش نظر اندونِ شہر اور اندورن ملک روزانہ کی بنیاد پر سفر کرنا ہی ہے۔
اولین ترجیع تو یہی ہوتی ہے کہ سب پبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعے ہی مینج ہو لیکن بڑھتی ہوئی آبادی اور لوگوںکی معاشی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے پرائیویٹ ٹرانسپورٹ کا سسٹم بھی متوازی چلتا ہے۔لیکن ایسا بھی نہیں ہوتا کہ پرائیویٹ ٹرانسپورٹرز کو کھلی چھٹی دے دی جائے۔اور وہ عوام کا خون چوس لیں جیسا کہ عموماً پاکستان میں ہوتا ہے۔ یہاں جس کے ہاتھ ذرہ سا اختیار آجائے وہ خود کو مختارِ کل سمجھنے لگتا ہے۔ ٹیکسیاں ہوں ، لوکل ٹرانسپورٹ کے دیگر ذرائع جیسے بسیں، ویگنیں، رکشے ، چنگچی رکشے یا پھر آن لائن ایپلی کیشنز سے چلنے والی رائڈز سب من مانے دام لیتے ہیں ۔
خاص طور پر جب کوئی خاص موقع ہو ، تہوار ہو یا کسی کی مجبوری میں جانا پڑے ایسے میں پرائیویٹ ٹرانسپور ٹ مافیاسرگرم ہو جاتا ہے اور منہ مانگے دام لے کر عوام کو اذیت میں مبتلا کرتاہے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان کی آبادی اس وقت ساڑھے پچیس کرورڑ ہے۔
جس میں آبادی کا بڑا حصہ معاشی ضرورتوں اور سرگرمیوں کے لئے میٹرو پولیٹن سٹیز اور بڑے شہروں کا رخ کرتا ہے۔پاکستان میں پنجاب آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہے اور تقریبا ایک سو پینتیس ملین آبادی یہاں پناں گزین ہے۔اسی طرح صوبہ سندھ کے مرکز کراچی کی آبادی 20.3ملین ہے ۔ اور اس آبادی کو پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولیات فراہم کرنے کی سکت کئی گنا کم۔
پبلک ٹرانسپوٹ کیوں ضروری ؟
یوں تو حکومت نے بڑے شہروں میں ماس ٹرانزٹ اتھارٹی اور دیگر ٹرانسپورٹر باڈیز کے ساتھ مل کر پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام چلا رکھا ہے جو کہ تاحال آبادی کے لئے ناکافی ہے۔ پنجاب کے سب سے بڑے شہر اور کاروباری مرکز لاہور کی ہی مثال لے لی جائے تو یہاں سپیڈو بس ، میٹرو بس، گرین بسس اور اورینج ٹرین جیسے منصوبوں کے تحت پبلک ٹرانسپورٹ کو متعارف کروایا گیا ہے جو مختلف روٹس پہ عوام الناس کی نقل و حمل میں معاونت کرتی ہیں۔
راولپنڈی اسلام آباد اور کراچی میںبھی سرخ بسز، پنک بسسز جیسے منصوبے موجود ہیں لیکن بڑے شہروں میں آبادی کا تناسب بھی بڑا ہوتا ہے جس کے لئے سروسز کو وسیع کرنا ناگزیر ہے ۔ اب لاہور میں چلنے والی میٹرو یا سپیڈو بس کی ہی مثال لے لی جائے تو اعداد و شمار کے مطابق 64میڑو بسیں جبکہ مختلف روٹس پہ چلنے والی 200سپیڈو بسیں موجود ہیں لیکن ان میں مردو زن کا رش اس قدر ہوتا ہے کہ پیر دھرنے کی جگہ تک نہیں ملتی۔ کیونکہ بیٹھنے کے لئے تو بمشکل اٹھارہ سے بیس سیٹیں ہی موجود ہوتی ہیںاس کے علاوہ کھڑ ے افرادکے درمیان فاصلہ رکھنے کی جگہ بھی نہیں بچتی۔لاہور کی تقتیباً ڈیڑھ کروڑ آبادی کے لئے پبلک ٹرانسپورٹ کی یہ سہولیات تاحال ناکافی ہیں۔روزانہ ہزاروں افراد جاب پہ جانے یا طلباء سکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں کو جانے کے لئے پبلک ٹرانسپورٹ کا انتخاب کرتے ہیں کیونکہ ایک بڑا طبقہ معاشی وسائل کی عدم دستیابی کے باعث مسلسل پس رہا ہے۔
ایسے اوقات میں سروسز کی تعداد بڑھانا بہترین اقدام ہوگا۔ جیسے سکول کالج جانے اور چھٹی کے وقت پبلک ٹرانسپورٹ کہ پوائنٹس میں اضافہ کر دیا جائے جہاں ایک بس اس وقت آتی ہے وہاں مختصر وقفے کے دوران دوسری آجائے۔ تاکہ طلباء کے لئے آسانی ہو اور انھیں بس میں سوار ہونے کی خاطر دھکے نا کھانے پڑیں۔
موٹر سائیکل اورسکوٹی کابڑھتا رحجان
پاکستان میںا س وقت 30لاکھ رجسٹرڈ موٹر گاڑیاں ہیں جس میں 23لاکھ موٹر سائیکل اور 70لاکھ موٹر کاریں ہیں ۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان میں صرف 2.77فیصد گاڑیاں ہی انشورڈ ہیں جن کا تناسب پڑوسی ملکوں بھارت، بنگلہ دیش، سری لنکا اور یوگنڈا کے مقابلے میں کم ہے۔ محدود وسائل کے پیش نظر لوگ اپنی سواری کے لئے موٹر سائیکل کو ترجیع دیتے ہیں اور گزشتہ کچھ عرصے سے خواتین میں بھی سکوٹیز استعمال کرنے کارجحان بلواسطہ اور بلاواسطہ بڑھا ہے۔
اس رجحان کو تقویت دینے میں حکومتی پالیسیوں نے بھی اپنا کردار ادا کیا۔گو یہ ایک اچھی چیز ہے کہ خواتین اب آنے جانے کے لئے خود مختار ہیںلیکن اس میںایک حساس امر یہ ہے کہ مرد ہوں یا خواتین دونوں ہی کے لئے موٹر سائیکل کوئی محفوظ سورای نہیںہے۔ اعداد و شمار اٹھا کر دیکھے جائیں تو گاڑیوںکی نسبت روڈ ٹریفک حادثات میں موٹربائیکس سواروں کی اموات کی شرح دالخراش حد تک زیادہ ہے ۔
ہیلمٹ کے استعمال کے حوالے سے بھی ہمارے ہاں لوگوں میں سنجیدہ رویوںکی کمی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں موٹر سائیکل کو لوگ شوق اور مشغلے کے نقطہ نظر سے استعمال کرتے ہیں اور ان کے لئے الگ ٹریکس موجود ہوتے ہیں ۔ لیکن ترقی پذیر ممالک میں اسے معمول کی سواری کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اور استعمال پر شعور و آگاہی کے فقدان کے باعث حادثات میں سنگین نتائج سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ ایک محنت کش مزدور جسے روز دور دارز علاقے میں ملازمت پہ پہنچنا ہے اور اس کے قریب کوئی پبلک ٹرانسپورٹ کا ذریعہ بھی نہیں تو بائیک کا استعمال کرنے کے سوا اس کے پاس کوئی چارہ بھی نہیں اور کم آمدنی کے باعث اپنی فیملی کے ساتھ پرائیویٹ رکشہ ٹیکسی کے کرایوں سے بچنے کے لئے بھی موٹر سائیکل کو ہی ترجیع دیتا ہے۔
جس سے اکثر موٹرسائیکلوں پہ گنجائش سے زیادہ افراد سوار ہوتے ہیں جن سے حادثات کے چانسز بڑھ جاتے ہیں۔دوسری جانب والدین اپنے کم عمر بچوں کو بھی موٹر سائیکلوں کو گلیوں اور سڑکوں میں لے جانے سے نہیں روکتے جو کہ خطرہ ہونے کے ساتھ ساتھ سنگین جرم بھی ہے۔ لاہور میں گرین لین متعارف کروائی گئی لیکن تاحال تمام بائیکس اس کو فالو کرنے سے گریزاں ہیں اور اس میں بڑا ہاتھ انتظامیہ کا بھی ہے کیونکہ جب تک بائیکرز لین کی پابندی نا کرنے پر قوانین اور ان کی پاسداری نہیں ہوگی سب محنت بے کار جائے گی۔
کیا چھوٹے شہروں کے باسیوں کا حق نہیں؟
پاکستان کے دیگر بڑے اور چھوٹے شہروں میں رہنے والے باسیوں کا بھی پبلک ٹرانسپورٹ پہ اتنا ہی حق ہے جتنا کے دیگر کا۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا حکومتی ادارے پلاننگ کے وقت سوچ سمجھ کر چھوٹے شہروں میں پبلک ٹراسپورٹ کی بابت پالیسیاں بنانے سے گرہیز کرتے ہیںیا ایسا غیر ارادی طور پر ہو جاتا ہے۔
دونوں ہی صورتوں میں نقصان عوام کا ہوتا ہے۔ سوئٹزرلینڈ آبادی کے لحاظ سے پاکستان سے کئی گنا چھوٹا ملک ہے لیکن وہاں پبلک ٹرانسپورٹ کے جدید اور تمام ذرائع موجود ہیں جو ملک کے چپے چپے اور کونے کونے میں موجود ہیں۔ ٹرین، بس، ٹرام ، کشتیاںاور پہاڑوں سے گزرتی ریلوے لائنز عوام کو ملک کے اندر نقل و حمل بآسانی فراہم کرنے کے لئے موجود ہیں۔پاکستان کے چھوٹے شہروں اور خصوصا گاؤں میں جہاں آبادی کا بڑا حصہ بستا ہے وہاں پبلک ٹرانسپورٹ کے حوالے سے کوئی حساسیت دکھنے میں نہیں آتی ۔
یہی وجہ ہے کہ گاؤں سے سفر کرنے والوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اور یوں ٹرانسپوٹرز کے لئے ان مسافروں کی مجبوریاں استحصال کا محرک بن جاتی ہیں جس کی بنا پر وہ منہ مانگے کرائے اور بدترین سروس دینے سے بھی گریزنہیں کرتے۔ اگر تمام شہروں میں ٹرانسپورٹ کا نظام بہتر کر لیا جائے تو اس سے ناصرف عوام کو آسانی ہوگی بلکہ حکومت کو فضائی آلودگی،بین الصوبائی ہجرت کی بڑھتی ہوئی سطح اور شہری آبادی کے بڑھتے ہوئے مسائل کے حل کی خاطر زیادہ تگ و دو نہیںکرنی پڑے گی۔ ریاست جب شہریوں کو بڑے یا چھوٹے شہر کے باسی ہونے سے بالاتر ہو کر سہولیات فراہم کرے گی تب ہی ملک میں ترقی اور خوشحالی ممکن ہوگی۔
حل کیا ہے؟
سوال یہ اٹھتاہے کہ آخر مسائل سے نمٹنے کے لئے کیا اقدامات کئے جائیں جو عوام کی آسانی کے ساتھ دیگر مسائل پہ قابو پانے میں مدد دیں۔ حکومت کو چاہیے کہ ایک جامع پالیسی بنائے جس میں چھوٹے بڑے شہروں میں پبلک ٹرانسپوٹ کو فروغ دیا جاسکے ۔ ایسا کرنے سے لوگ کم سے کم ذاتی گاڑیوں اور موٹر بائیکس کا استعمال کریں گے جس سے بے ہنگم ٹریفک کے مسئلے پہ قابو پایا جاسکے گا اور ماحولیاتیاتی آلودگی کے جن کو بھی قابو کرنے میں مدد ملے گی۔
پبلک ٹرانسپورٹ کا رجحان اور دستیابی اتنی عام ہو جانی چاہیئے کے لوگوں کو محلوں اور مین سڑکوں تک پیدل پوائینٹس تک جانا مشکل نہ لگے۔ سوائے کسی اہم ضرورت کے وہ اپنی ذاتی سواریوں کو سڑک پہ لانے سے گرہیز کریں۔ساٹپس طے کرتے ہوئے کسی بھی جگہ کو غیر اہم نہیں سمجھنا چاہیئے تاکہ سب کے لئے سہولت ہو۔خواتین کے لئے سپیشل بسیں خصوصاً کالجوں یونیورسٹیوںکے چھٹی کے اوقات میں چلائی جائیں تاکہ ان کو ہراسمنٹ کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ٹرینوں مناسب کرائے رکھے جائیں اور خصوصی مواقع جیسے عید اور تعطیلات کے دوران ذیادہ ٹرینیں چلائی جائیں تاکہ لوگ بآسانی ملک کے اندر سفر کر سکیں۔حادثات اورکسی بھی قسم کے ناخوشگوار حالات سے بچنے کے لئے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے۔
اسی کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ پبلک ٹرانسپورٹ ہی اتنی بڑی آبادی کو ابتدائی طور پر سہولت فراہم نہیں کر سکتی ایسے میں پرائیویٹ ٹرانسپورٹ سسٹم کو شفاف اور موثر بنانے کے لئے پالیسیاں ترتیب دی جائیں تاکہ چیک اینڈ بیلنس قائم رہے۔بس اڈوں اور پارکنگ سٹینڈز پہ موجود غیر قانونی معافیاکا قلع قمع کیا جائے۔ اگر عوام دوستی اور احتساب کو مدنظر رکھتے ہوئے اقدامات کئے جائیں گے تو یقیناً معاشر ے میں پبلک ٹراسپورٹ کا مثبت تصور اجاگر ہوگا اور بہتری آئے گی۔