جس معنی میں نبی مولیٰ اسی معنی میں ہی علی مولیٰ
اشاعت کی تاریخ: 13th, June 2025 GMT
اسلام ٹائمز: اگر ہم نے "مولا" کو اسکے اصل مقام پر نہیں پہچانا تو ہم نبیؐ کے پیغام کو بھی مکمل نہیں سمجھ سکتے۔ علیؑ کو "دوست" ماننا آسان ہے، علیؑ کو "امام" ماننا مشکل اور یہی ہماری آزمائش ہے۔ مگر جو نبیؐ جس معنی میں مولیٰ ہوں، اسی معنی میں علیؑ کو مولا قرار دیں تو پھر بات ختم فیصلہ ہوچکا! اعلان غدیر، ولایت کا اقرار، حق کا اعلان اور امت پر خدا کا اتمام حجت ہے۔ اگر ہم نے قبول کیا تو ہدایت ہماری طرف بڑھے گی۔ اگر ہم نے واقعہ غدیر کا انکار کیا یا غلط تاویلات کا سہارا لیکر اسکی روح کو تسلیم کرنے سے روگردانی کی تو تاریخ گواہی دیگی کہ ہم نے نور کو اندھیروں میں دفن کر دیا ہے۔ تحریر: محمد حسن جمالی
 
 کبھی کبھی لفظوں سے نہیں، وقت کے سانسوں سے ہدایت برستی ہے۔ کبھی ایک جملہ، پوری امت کی تقدیر رقم کرتا ہے۔ غدیر کا واقعہ صرف ایک اعلان نہیں بلکہ نبوت کے بعد ہدایت کی امانت کا ابلاغ ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے، جب آسمان نے سجدہ کیا اور زمین نے گواہی دی کہ ہدایت کا چراغ خاموش نہیں ہوا، بلکہ اسے دوسرے ہاتھوں میں منتقل کیا گیا ہے۔ یہ جملہ شاید پڑھنے میں مختصر لگے، لیکن اگر روح اس کے اندر جھانک لے تو محسوس ہوگا کہ غدیر کا اعلان صرف ایک بیان نہیں، بلکہ پوری انسانیت کے فکری و روحانی سفر کا سنگِ میل ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے، جب کلماتِ نبوت نے وقت کی نبض تھام کر آنے والی صدیوں کی سمت متعین کی۔ غدیر صرف ایک جلسہ، جشن یا صرف ایک اجتماع نہ تھا، بلکہ یہ مقامِ ابلاغ تھا اور نبوت کے اتمام اور امامت کے آغاز کا نقطۂ اتصال۔ یہاں الفاظ نہیں بول رہے تھے، یہاں صداقت اپنے پورے وجود کے ساتھ ظاہر ہو رہی تھی۔ یہاں رسولِ خدا (ص) نے صرف ایک شخصیت کو بلند نہیں کیا، بلکہ امت کو امانت سونپی۔
 
 غدیر کے صحرا میں نبیؐ نے اچانک حکم دیا کہ "ٹھہرو!" کارواں رُک گیا۔ منبر بنا، چادر بچھائی گئی اور نبوت کے تاجدارؐ نے علی کے ہاتھ کو بلند کیا اور کھلے الفاظ میں فرمایا "من کنت مولاہ، فھذا علی مولاہ!"، "جس کا میں مولا ہوں، اس کا علی بھی مولا ہے۔" یہ جملہ نہ صرف الفاظ کا ایک خوبصورت سنگھار تھا، بلکہ پوری امتِ محمدیہ کے لیے قیادت، ولایت اور امامت کا اعلان تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اعلانِ غدیر کے فوراً بعد آیت نازل ہوئی: "الیوم أكملت لکم دینکم وأتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الإسلام دیناً"، "آج میں نے تمہارے لیے دین کو مکمل کر دیا، اپنی نعمت کو تم پر تمام کر دیا اور اسلام کو تمہارے لیے بطور دین پسند کر لیا۔" سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا صرف دوستی کے اعلان پر دین مکمل ہوسکتا ہے۔؟ کیا محبت کے جذبات پر قرآنی آیات نازل ہوتی ہیں۔؟ نہیں ہرگز نہیں! یہ یقیناً انتہائی مضحکہ خیز و بچگانہ سوچ ہے۔
 
 حقیقت یہ ہے کہ یہ اس علیؑ کی ولایت کا اعلان تھا، جس کے بغیر دین کی عمارت ادھوری رہتی۔ اس سے پہلے نبی کریم (ص) نے مجمعِ عام سے ایک اہم سوال کیا: "ألست أولى بكم من أنفسكم؟"، "کیا میں تمہاری جانوں پر تم سے زیادہ حق نہیں رکھتا؟" سب نے یک زبان ہو کر کہا: جی ہاں یا رسول اللہ! جب سب نے اقرار کر لیا، تب آپ نے فرمایا: "من کنت مولاہ،فھذا علی مولاہ۔۔۔" گویا نبیؐ نے پہلے اپنے اختیار اور ولایت کا اعتراف کروایا، پھر علیؑ کو اسی اختیار کا وارث قرار دیا۔ شیعہ سنی مسلمانوں کے لئے جس نکتے پر زیادہ توجہ مرکوز رکھنی چاہیئے، وہ یہ ہے کہ حدیث غدیر میں لفظ مولیٰ کا مطلب صرف دوست یا محبوب نہیں ہوسکتا، یعنی یہ معقول نہیں، کیونکہ نبیؐ کو امت پر جو اختیار حاصل ہے، وہ صرف ایک دوست کا نہیں ہوسکتا۔
 
 اگر "مولیٰ" کا مطلب صرف دوست مانا جائے تو کیا نبیؐ بھی امت کے صرف دوست تھے؟ کیا وہ صرف محبت بانٹنے والے تھے۔؟ نہیں! بلکہ نبیؐ امت کے رہنماء تھے، امام تھے، صاحبِ امر تھے اور اولیٰ بالتصرّف تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب آنحضرت علیؑ کے لیے وہی لفظ استعمال کرتے ہیں تو وہی معانی، وہی مفاہیم اور وہی عظمتیں علیؑ کی جھولی میں ڈال دیتے ہیں۔ ذرا غور کیجئے کہ ایک ہی جملے میں ایک ہی لفظ دو الگ معنی کیسے رکھ سکتا ہے۔؟ یہ بلاغت کے اصولوں کے خلاف ہے، فصاحت کے ادب سے باہر ہے اور سب سے بڑھ کر یہ نبوت کی حکمت اور خدا کے الفاظ کی توقیر کے منافی ہے۔ "مولا" کا مطلب وہی ہے، جو نبیؐ کے لیے تھا، یعنی اختیار، ولایت، رہبری، رہنمائی اور اولی بالتصرف۔
 
 اسی لیے علیؑ کو "مولیٰ" کہنا دراصل انہیں نبیؐ کے بعد امت کا روحانی، فکری، دینی اور عملی قائد تسلیم کرنا ہے۔ کیا یہ صرف اتفاق ہے کہ نبیؐ نے فرمایا: "أنا مدینة العلم و علی بابها"، "میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے۔" کیا یہ بھی محض محبت کا اظہاریہ تھا کہ فرمایا: "علی مع الحق والحق مع علی"، "علی حق کے ساتھ ہے،اور حق علی کے ساتھ ہے۔۔۔" نہیں، صاحبو! یہ سب جملے امامت، رہبری اور ولایت کے مظاہر تھے۔ نبیؐ نے کسی محبوب صحابی کو اس انداز میں پیش نہیں کیا، جیسے علیؑ کو کیا، لیکن افسوس! بعض نے "مولا" جیسے مقدس لفظ کو صرف "دوستی" تک محدود کرکے نبوت کے اس روشن اعلان کو غبارِ تاویل میں گم کر دیا! انہوں غدیر کے منبر کو محض ایک خطبہ سمجھ لیا، حالانکہ وہ آئندہ صدیوں کا نقشہ تھا۔
 
 مسلمانوں کو بیدار ہونے کی ضرورت ہے۔ نہ فقط تاریخی طور پر، بلکہ شعوری طور پر۔اگر ہم نے "مولا" کو اس کے اصل مقام پر نہیں پہچانا تو ہم نبیؐ کے پیغام کو بھی مکمل نہیں سمجھ سکتے۔ علیؑ کو "دوست" ماننا آسان ہے، علیؑ کو "امام" ماننا مشکل اور یہی ہماری آزمائش ہے۔ مگر جو نبیؐ جس معنی میں مولیٰ ہوں، اسی معنی میں علیؑ کو مولا قرار دیں تو پھر بات ختم فیصلہ ہوچکا! اعلان غدیر، ولایت کا اقرار، حق کا اعلان اور امت پر خدا کا اتمام حجت ہے۔ اگر ہم نے قبول کیا تو ہدایت ہماری طرف بڑھے گی۔ اگر ہم نے واقعہ غدیر کا انکار کیا یا غلط تاویلات کا سہارا لیکر اس کی روح کو تسلیم کرنے سے روگردانی کی تو تاریخ گواہی دے گی کہ ہم نے نور کو اندھیروں میں دفن کر دیا ہے۔ 
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اگر ہم نے کا اعلان یہ ہے کہ کا مطلب صرف ایک نبوت کے غدیر کا کر دیا
پڑھیں:
کیا حکومت نے یوم اقبال پر عام تعطیل کا اعلان کردیا؟
پاکستان کے قومی شاعر علامہ اقبالؒ کے یومِ پیدائش کے قریب آتے ہی سوشل میڈیا پر عام تعطیل سے متعلق مختلف دعوے گردش کرنے لگے ہیں، تاہم وفاقی یا صوبائی حکومتوں کی جانب سے تاحال کسی چھٹی کا باضابطہ نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا گیا۔
حکام کی جانب سے شہریوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ غیر تصدیق شدہ اطلاعات پر یقین کرنے یا انہیں آگے پھیلانے سے گریز کریں۔
مزید پڑھیں: اقبال کی شاعری خود شناسی کی لازوال دعوت ہے، یوم اقبال پر وزیراعظم کا پیغام
طلبہ اور ملازمین کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ درست معلومات کے حصول کے لیے صرف سرکاری ذرائع اور مستند نیوز پلیٹ فارمز سے رجوع کریں۔
حکام کا کہنا ہے کہ یومِ اقبال کے موقع پر چھٹی سے متعلق جھوٹی خبروں یا افواہوں سے ہوشیار رہنا ضروری ہے، تاکہ عوام میں کسی قسم کا ابہام یا انتشار پیدا نہ ہو۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق وفاقی کابینہ ڈویژن کی جانب سے جاری کردہ سالانہ عام تعطیلات کے نوٹیفکیشن میں یومِ اقبال کو تعطیل کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا، مگر چونکہ اس سال یہ دن اتوار کو آ رہا ہے، اس لیے کوئی اضافی چھٹی نہیں دی جائے گی۔
یاد رہے کہ ہر سال 9 نومبر کو ملک بھر میں یومِ اقبال منایا جاتا ہے، جس میں شاعرِ مشرق اور مصورِ پاکستان ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ کو خراجِ عقیدت پیش کیا جاتا ہے۔
اس دن مختلف تقاریب، مشاعرے اور تعلیمی پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں جن میں اقبالؒ کی فکری اور فلسفیانہ خدمات کو اجاگر کیا جاتا ہے۔
مزید پڑھیں: سعودی سفارتخانے کا ’یوم اقبال‘ پر شاعر مشرق کو زبردست خراج تحسین
علامہ محمد اقبال 9 نومبر 1877 کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ وہ برصغیر کے ممتاز فلسفی، شاعر اور مفکر تھے جنہوں نے تحریکِ پاکستان میں فکری رہنمائی فراہم کی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews افواہیں حکومت سوشل میڈیا عام تعطیل نوٹیفکیشن وی نیوز یوم اقبال