اڑان پاکستان کا ویژن 2029 تک 63 ارب ڈالر کی برآمدات کا ہدف مقرر
اشاعت کی تاریخ: 13th, June 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 13 جون2025ء) حکومتِ پاکستان نے ملک کو معاشی ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے "اڑان پاکستان"کے نام سے ایک جامع ویژن 2029 متعارف کروا دیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت پاکستان کا ہدف ہے کہ 2029 تک سالانہ 63 ارب امریکی ڈالر کی برآمدات حاصل کی جائیں۔"اڑان پاکستان" ویژن کا مقصد پاکستان کو ایک برآمدات پر مبنی معیشت میں تبدیل کرنا ہے، جس کے ذریعے نہ صرف زرِ مبادلہ میں اضافہ کیا جائے گا بلکہ لاکھوں روزگار کے مواقع بھی پیدا کیے جائیں گے۔
اڑان پاکستان کے ویژن کے مطابق 2029 تک پاکستان کا ہدف ہے کہ سالانہ 63 ارب امریکی ڈالر کی برآمدات حاصل کی جائیں۔ یہ ہدف قومی برآمدی حکمتِ عملی میں تنوع، ویلیو ایڈیشن، اور جدید مارکیٹوں تک رسائی کے ذریعے ممکن بنایا جائے گا۔(جاری ہے)
پلاننگ کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق اس ضمن میں ترجیحی شعبوں میں انفارمیشن ٹیکنالوجی سافٹ ویئر، سروسز، اور فری لانسنگ پلیٹ فارمز کی عالمی مارکیٹوں میں وسعت،زراعت،ویلیو چین ڈویلپمنٹ، پراسیسنگ، اور فوڈ سیکیورٹی پر مبنی برآمدات ،مینوفیکچرنگ ، ٹیکسٹائل، انجینئرنگ اشیاء، اور آٹوموٹیو سیکٹر،تخلیقی صنعتیں ،میڈیا، فلم، ڈیزائن اور دستکاری،معدنیات ،رئیئر ارتھ، تانبہ، کوئلہ اور دیگر قدرتی وسائل کی ترقی یافتہ برآمدی حکمت عملی،افرادی قوت ،تربیت یافتہ ہنرمند افرادی قوت کی بیرونِ ملک ترسیل،بلیو اکانومی ، ماہی گیری، سمندری ٹریڈ، اور کوسٹل ڈویلپمنٹ شامل ہیں ۔
یہ اقدامات پاکستان کو برآمدی معیشت کی طرف لے جائیں گے، جس سے نہ صرف زرِ مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو گا بلکہ لاکھوں افراد کے لیے روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔5 ایز فریم ورک کے اہداف (2029 تک)یہ فریم ورک اگلے پانچ سالوں میں پاکستان کو ہر ستون کے تحت اہم اہداف حاصل کرنے میں مدد دے گا۔سالانہ 63 ارب امریکی ڈالر کی برآمدات کا ہدف ہے ۔ ڈیجیٹل پاکستان کے تحت آئی سی ٹی فری لانسنگ انڈسٹری کو 5 ارب ڈالر تک پہنچانا ہے،کمپیوٹر سائنس اور آئی ٹی کے گریجویٹس کی سالانہ تعداد کو 2 لاکھ تک بڑھانا ہے۔100 ملین سے زائد نیکسٹ جنریشن موبائل سروسز صارفین حاصل کرنا ہے ۔ ماحولیات اور موسمی تبدیلی کے تحت گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں 50 فی صد کمی کرنا ہے ،1 کروڑ ایکڑ فٹ اضافی سطحی پانی ذخیرہ کرنا،2 کروڑ 3 لاکھ ایکڑ زمین کو قابلِ کاشت بنانا ہے ۔ توانائی اور انفراسٹرکچر کے تحت قابل تجدید توانائی کا حصہ 10فیصد سے زائد تک بڑھانا ہے،ریلوے میں مسافروں کا حصہ 5 فی صد سے 15 فی صد تک بڑھانا ہے۔ریلوے میں مال برداری کا حصہ 8فی صد سے 25 فیصد تک بڑھانا ہے۔بڑے معدنیاتی منصوبے مکمل کرناہے۔یونیورسل ہیلتھ کوریج انڈیکس میں 12 فیصد اضافہ کرنا ہے ،شرح خواندگی میں 10 فیصد اضافہکرنا ہے ،خواتین کی لیبر فورس میں شمولیت میں 17فیصد اضافہ اور نوجوانوں میں بیروزگاری کی شرح میں 6فیصد کمی کرنا ہے ۔ان اہداف کے حصول سے پاکستان میں سرمایہ کاری کا جی ڈی پی میں تناسب بہتر ہوگا،مالی خسارہ قابو میں آئے گا،مقامی حکومتوں کی سروس ڈیلیوری بہتر ہوگی ،توانائی بحران کا حل نکلے گا اور سول سروس اصلاحات ممکن ہوں گی۔\395.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ڈالر کی برآمدات اڑان پاکستان کرنا ہے کے تحت کا ہدف
پڑھیں:
غزہ کو خالی کروا کر وہاں یہودی بستیاں آباد کی جائیں گی، سردار مسعود
قطر پر اسرائیلی حملے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ سوال اہم ہے کہ امریکا اس حملے سے لاعلم کیسے رہا، جبکہ امریکا اور اسرائیل اسٹریٹجک پارٹنر ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ آزاد کشمیر کے سابق صدر اور امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر سردار مسعود خان نے کہا ہے کہ قطر پر اسرائیل کے حملے کے بعد ایسا تاثر جنم لے رہا ہے کہ بعض حلقے دانستہ اور بعض نادانستہ طور پر مسئلہ فلسطین کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں کہا گیا کہ غزہ کی حکومت میں حماس کا کوئی کردار نہیں ہو گا اور اگر حماس کو ختم کر دیا گیا تو فلسطین دفاعی قوت سے محروم ہو جائے گا۔ مسعود خان نے کہا کہ غزہ اور مغربی کنارے میں پہلے ہی یہودی بستیاں آباد ہیں اور اب منصوبہ یہ ہے کہ غزہ کو خالی کروا کر وہاں یہودی بستیاں بسانے کی راہ ہموار کی جائے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسئلہ فلسطین اور ریاستِ فلسطین کو ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ مشرقِ وسطیٰ کے حوالے سے پاکستان کا کردار قابلِ تعریف رہا ہے اور ایران اسرائیل کشیدگی کے تناظر میں امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے بھی پاکستان کی کوششوں کو سراہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے سفارتکاری کے ذریعے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کر کے دانشمندی اور حکمت کا ثبوت دیا۔ قطر پر اسرائیلی حملے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ سوال اہم ہے کہ امریکا اس حملے سے لاعلم کیسے رہا، جبکہ امریکا اور اسرائیل اسٹریٹجک پارٹنر ہیں اور دونوں ممالک کی خفیہ ایجنسیاں نہ صرف خطے بلکہ ایک دوسرے پر بھی نظر رکھتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ماننا مشکل ہے کہ امریکا کو حملے کا صرف چند منٹ پہلے پتا چلا ہو۔ مسعود خان نے کہا کہ یہ حملہ عالمِ اسلام خصوصاً عرب دنیا کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے اور خطے میں ایک نئے عالمی نظام کی تشکیل ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ خلیجی ممالک نے 80ء کی دہائی میں دفاعی قوت پیدا کرنے کی کوشش کی تھی اور اب دوبارہ مشترکہ دفاعی نظام بنانے پر غور کر رہے ہیں، لیکن امریکا کے زیر اثر ہونے کے باعث ان کے لیے اس پر عمل درآمد مشکل ہو گا۔
ان کے مطابق خلیجی ممالک اس صورتحال میں روس اور چین کی طرف دیکھ سکتے ہیں، تاہم ان کے ساتھ موجودہ تعلقات زیادہ تر معاشی ہیں اور دفاعی تعاون محدود ہے۔ انہوں نے کہا کہ خلیجی ممالک کے پاس اربوں ڈالر کے سرمائے ہیں اور امریکا ہر سال انہیں اسلحہ فراہم کرتا ہے مگر اس سطح تک نہیں جو اسرائیل کی برتری کو چیلنج کر سکے۔ اب دیکھنا یہ ہو گا کہ کیا گریٹر اسرائیل کے منصوبے کے لیے خلیجی ممالک کو کمزور کیا جائے گا یا ان کی سکیورٹی کے لیے کوئی نیا انتظام سامنے آئے گا۔ وزیراعظم شہباز شریف کی اقوام متحدہ جنرل اسمبلی اجلاس میں شرکت اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ممکنہ ملاقات کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس ملاقات کا ایجنڈا وہی ہو گا جو 18 جون کو صدر ٹرمپ اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی ملاقات میں طے پایا تھا، جسے اسحاق ڈار اور امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کے درمیان ملاقات میں حتمی شکل دی گئی تھی اور اس تناظر میں پاکستان کے لیے کچھ مثبت فیصلے متوقع ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیلی وزیراعظم کی جانب سے قطر پر حملے کو پاکستان میں اسامہ بن لادن کے خلاف امریکی آپریشن سے جوڑنا درست نہیں، کیونکہ اسامہ بن لادن کوئی مذاکرات نہیں کر رہا تھا جبکہ حماس رہنما خلیل الحیا قطر میں امریکا کی مرضی سے مذاکرات کے لیے آئے تھے۔ قطر پر حملے کے بعد وزیراعظم شہباز شریف کے فوری دورہ قطر کو انہوں نے ایک اہم فیصلہ قرار دیا اور کہا کہ قطر کے ساتھ پاکستان کے تعلقات ہمیشہ خوشگوار رہے ہیں، وہاں بڑی تعداد میں پاکستانی اعلیٰ عہدوں پر کام کر رہے ہیں اور قطر خطے میں ایک اہم پل کا کردار ادا کرتا ہے۔پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کے حوالے سے سردار مسعود خان نے کہا کہ دونوں ممالک کے تعلقات میں سب سے بڑی رکاوٹ دہشت گردی ہے، گزشتہ برس دہشت گردی میں چار ہزار افراد جان سے گئے۔ انہوں نے کہا کہ طالبان رہنما ملا ہیبت اللہ کئی بار یقین دہانی کرا چکے ہیں مگر اس کے باوجود افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہوتی ہے اور دہشت گردوں کو بھارت کی حمایت حاصل ہے۔