سربراہ تحریک بیداری امت مصطفیٰ کا کہنا ہے کہ غزہ اور ایران کے بعد صہیونیوں کا اگلا ہدف اب پاکستان ہے، اسرائیل نے ایران پر حملہ امریکہ کی مدد سے کیا، اگر پاکستان نے ایران کیساتھ کھڑے ہونے میں کوتاہی کی، تو یاد رکھو، یہی درندے کل پاکستان کی زمین کو اپنے پنجوں تلے روندنے کی کوشش کریں گے۔ آج ایران ہے، کل تم نشانہ ہو گے۔ اسلام ٹائمز۔ علامہ سید جواد نقوی نے امریکہ کی مدد سے اسرائیل کی جانب سے ایران پر حملہ کے حوالے سے اپنے خطاب میں کہا کہ غزہ کی سرزمین سے شروع ہونیوالا یہ معرکہ، جس نے باطل کی بنیادیں ہلا دیں، اب ایران کے دہلیز پر آ پہنچا ہے اور ہمیں یاد رکھنا ہو گا کہ صہیونیوں کا اگلا ہدف کوئی اور نہیں، بلکہ پاکستان ہے، کیونکہ پاکستان کی ایٹمی طاقت اُن کے ناپاک عزائم کیلئے ایک ناقابلِ برداشت خنجر ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ اسرائیل نے جو حملہ ایران پر کیا، وہ تنہا نہ تھا یہ امریکہ کے شیطانی ہاتھوں کی تائید سے انجام پایا، یہ محض ایک حملہ نہیں، بلکہ اسرائیل کی نابودی کا آغاز ہے۔

انہوں نے نریندر مودی، نیتن یاہو اور ڈونلڈ ٹرمپ کو شیطانی مکر کی تکون قرار دیتے ہوئے خبردار کیا کہ اگر پاکستان نے ایران کیساتھ کھڑے ہونے میں کوتاہی کی، تو یاد رکھو، یہی درندے کل پاکستان کی زمین کو اپنے پنجوں تلے روندنے کی کوشش کریں گے۔ آج ایران ہے، کل تم ہو گے۔ انہوں نے ایران کی نصف صدی پر محیط مزاحمتی تاریخ کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ایران وہ واحد ملک ہے جو نصف صدی سے اکیلا فرعونِ وقت اور یزیدِ عصر کیخلاف سینہ سپر ہے، یہ تاریخِ انسانی کا وہ درخشندہ باب ہے، جس میں اکیلا چراغ ظلمت کے سمندر میں جلتا رہا اور بجھنے سے انکار کرتا رہا۔

انہوں نے اس عظیم جدوجہد کی اصل بنیاد بیان کرتے ہوئے کہا کہ انقلابِ اسلامی کے بعد ایران کسی قوم پرستی یا تعصب پر نہیں، بلکہ دینِ ابراہیمی، دینِ محمدی اور دینِ اہلِبیتؑ کی حقیقی تعلیمات پر استوار ہوا اور دینِ محمدیؐ کا تقاضا ہے کہ یزیدِ وقت ہو یا فرعونِ عصر، یا ان کے صہیونی اتحادی، ان کے سامنے جھکنا نہیں، بلکہ راہِ مزاحمت اختیار کرنا ہے، چاہے پوری دنیا ساتھ چھوڑ دے، تب بھی تنہا ہی سہی، مگر سرِ تسلیم خم نہیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: نے ایران ایران پر انہوں نے

پڑھیں:

پاکستان کو جنگ نہیں بلکہ بات چیت کے ذریعے تعلقات بہتر بنانے چاہییں، پروفیسر محمد ابراہیم

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کراچی: جماعتِ اسلامی پاکستان کے نائب امیر پروفیسر محمد ابراہیم نے کہا ہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام سے جماعت اسلامی کو خودبخود تقویت نہیں ملے گی،  اگر جماعت اسلامی اپنے بیانیے کو طالبان حکومت کے ساتھ ہم آہنگ کرے تو اس سے فکری اور نظریاتی سطح پر ضرور فائدہ حاصل ہو سکتا ہے۔

جسارت کے اجتماعِ عام کے موقع پر شائع ہونے والے مجلے کے لیے اے اے سید کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں پروفیسر محمد ابراہیم نے کہا کہ طالبان کا پہلا دورِ حکومت 1996ء سے 2001ء اور دوسرا دور 2021ء سے اب تک جاری ہے،  پہلے دور میں طالبان کی جماعتِ اسلامی کے ساتھ سخت مخالفت تھی لیکن اب ان کے رویّے میں نمایاں تبدیلی آئی ہے، پہلے وہ بہت تنگ نظر تھے مگر اب وہ افغانستان کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔

انہوں نے انکشاف کیا کہ امیرالمؤمنین ملا ہبت اللہ اور ان کے قریبی حلقے میں اب بھی ماضی کی کچھ سختیاں موجود ہیں، جس کی مثال انہوں نے انٹرنیٹ کی دو روزہ بندش کو قرار دیا، ستمبر کے آخر میں طالبان حکومت نے انٹرنیٹ اس بنیاد پر بند کیا کہ اس سے بے حیائی پھیل رہی ہےمگر دو دن بعد خود ہی فیصلہ واپس لے لیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اصلاح کی سمت بڑھ رہے ہیں۔

پروفیسر محمد ابراہیم نے کہا کہ موجودہ طالبان حکومت ایک بڑی تبدیلی کی علامت ہے، اور جماعت اسلامی کو اس سے فکری و نظریاتی سطح پر فائدہ پہنچ سکتا ہے، گزشتہ  دہائی میں دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی نے گہرے منفی اثرات چھوڑے ہیں،

آج بھی دونوں طرف سے ایک دوسرے کے خلاف شدید پروپیگنڈا جاری ہے، اور ہمارے کچھ وفاقی وزراء اپنے بیانات سے حالات مزید خراب کر رہے ہیں ۔

انہوں نے وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف اور وزیر اطلاعات عطا تارڑ کے بیانات کو غیر ذمہ دارانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کی زبان کسی باشعور انسان کی نہیں لگتی،  وزیرِ دفاع کا یہ کہنا کہ اگر مذاکرات ناکام ہوئے تو جنگ ہوگی بے وقوفی کی انتہا ہے،  خواجہ آصف ماضی میں یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ  افغانستان ہمارا دشمن ہے  اور محمود غزنوی کو  لٹیرا  قرار دے چکے ہیں جو تاریخ سے ناواقفیت کی علامت ہے۔

پروفیسر محمد ابراہیم نے مطالبہ کیا کہ حکومت وزیر دفاع کو فوری طور پر تبدیل کرے اور استنبول مذاکرات کے لیے کسی سمجھدار اور بردبار شخصیت کو مقرر کرے، پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی کم کرنے کے لیے لازم ہے کہ پشتون وزراء کو مذاکرات میں شامل کیا جائے جو افغانوں کی نفسیات اور روایات کو سمجھتے ہیں۔

انہوں نے وزیر اطلاعات عطا تارڑ کے بیان پر بھی ردِعمل دیتے ہوئے کہا کہ  یہ کہنا کہ  ہم ان پر تورا بورا قائم کر دیں گے انتہائی ناسمجھی ہے،  تورا بورا امریکی ظلم کی علامت تھا، اور طالبان آج اسی کے بعد دوبارہ اقتدار میں ہیں۔ ایسی باتیں بہادری نہیں، بلکہ نادانی ہیں۔

پروفیسر محمد ابراہیم نے زور دیا کہ پاکستان کو جنگ نہیں بلکہ احترام، بات چیت اور باہمی اعتماد کے ذریعے افغانستان سے تعلقات بہتر بنانے ہوں گے کیونکہ یہی خطے کے امن و استحکام کی واحد ضمانت ہے۔

ویب ڈیسک وہاج فاروقی

متعلقہ مضامین

  • نیشنل لیبر فیڈریشن پاکستان کے صدر شمس الرحمن سواتی نے راولپنڈی میں بنو قابل پروگرام میں شرکت کی۔ اس موقع پر راجہ جواد اودیگر نے ان کا استقبال کیا
  • مدارس کو مشکوک بنانے کی سازشیں ناکام ہوں گی، علامہ راشد سومرو
  • کس پہ اعتبار کیا؟
  • علاقائی عدم استحکام کی وجہ اسرائیل ہے ایران نہیں, عمان
  • غزہ نسل کشی میں اسرائیل سمیت 63 ممالک ملوث
  • میں گاندھی کو صرف سنتا یا پڑھتا نہیں بلکہ گاندھی میں جیتا ہوں، پروفیسر مظہر آصف
  • سید مودودیؒ: اسلامی فکر، سیاسی نظریہ اور پاکستان کا سیاسی شعور
  • پاکستان کو جنگ نہیں بلکہ بات چیت کے ذریعے تعلقات بہتر بنانے چاہییں، پروفیسر محمد ابراہیم
  • دنیا کی زندگی عارضی، آخرت دائمی ہے، علامہ رانا محمد ادریس قادری
  • وزیراعظم سے محسن نقوی کی ملاقات، دورہ عمان اور ایران بارے بریفنگ دی