اسرائیل اور ایران تحمل کا مظاہرہ کریں: انتونیو گوتریس
اشاعت کی تاریخ: 13th, June 2025 GMT
سربراہ اقوام متحدہ انتونیو گوتریس نے اسرائیل اور ایران سے زیادہ سے زیادہ تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے مشرق وسطیٰ میں تازہ کشیدگی کے پیش نظر اسرائیل اور ایران دونوں پر زور دیا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ تحمل کا مظاہرہ کریں۔
اقوام متحدہ کے ترجمان کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ گوتریس نے مشرق وسطیٰ میں کسی بھی قسم کی فوجی کشیدگی کی شدید مذمت کی ہے۔
انتونیو گوتریس نے خاص طور پر ایران کی جوہری تنصیبات پر اسرائیلی حملوں پر تشویش ہے جو کہ امریکا اور ایران کے درمیان جاری ایٹمی مذاکرات کے دوران کیے گئے۔
بیان میں کہا گیا کہ سیکریٹری جنرل دونوں فریقین سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ہر قیمت پر شدید تصادم سے گریز کریں، خطہ مزید تنازع کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
انتونیو گوتریس نے اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قوانین کی پاسداری پر بھی زور دیا ہے۔
Post Views: 3.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: انتونیو گوتریس نے اقوام متحدہ اور ایران
پڑھیں:
ایران اسرائیل کشیدگی پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 14 جون 2025ء) ایران کی جوہری اور عسکری تنصیبات پر اسرائیلی حملوں کے بعد بلائے گئے سلامتی کونسل کے خصوص اجلاس میں اقوام متحدہ کے حکام نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ موجودہ حالات میں مشرق وسطیٰ نئی اور خطرناک کشیدگی کا شکار ہو سکتا ہے۔
سیاسی امور اور تخفیف اسلحہ پر اقوام متحدہ کی انڈر سیکرٹری جنرل روزمیری ڈی کارلو نے کونسل سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مشرق وسطیٰ میں ہر طرح کی عسکری کشیدگی قابل مذمت ہے۔
اسرائیل اور ایران ہرممکن تحمل سے کام لیں اور تنازع کو خطے بھر میں پھیلنے سے روکیں۔ان کا کہنا تھا کہ حالیہ کشیدگی ایسے موقع پر شروع ہوئی ہے جب امریکہ اور ایران کے مابین اومان میں ہونے والی بات چیت میں اہم سفارتی پیش رفت ہو رہی تھی۔
(جاری ہے)
بات چیت کے ذریعے تنازع کا حل ہی ایران کے جوہری پروگرام کو پرامن رکھنے کا بہترین ذریعہ ہے۔یاد رہے کہ جمعے کی رات اسرائیل نے ایران میں نطنز جوہری مرکز اور متعدد عسکری تنصیبات کو نشانہ بنایا جہاں یورینیم افزودہ کی جاتی ہے۔ ان حملوں میں ایرانی پاسدران انقلاب کے سربراہ حسین سلامی اور فوج کے اعلیٰ ترین عہدیدار، جوہری سائنس دان اور عام شہری بھی ہلاک ہو گئے۔
جواب میں ایران نے اسرائیل پر ڈرون اور بیلسٹک میزائلوں سے حملے کیے جن میں متعدد افراد کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔
اسرائیل نے بین الاقوامی قوانین پامال کیے: روساقوام متحدہ میں روس کے مستقل نمائندے ویزلے نیبنزیا نے کونسل سے خطاب کرتے ہوئے خبردار کیا کہ اسرائیل کے اقدامات سے مشرق وسطیٰ بڑے پیمانے پر جوہری تباہی کی جانب بڑھ رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل جو بھی کہے، یہ انتہائی اشتعال انگیز حملہ اور اقوام متحدہ کے چارٹر سمیت بین الاقوامی قانون کی سنگین پامالی ہے۔
انہوں نے روس کی جانب سے اس حملے کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا کہ 2015 میں ایران کے ساتھ طے پانے والے جوہری معاہدے کے 'مغربی ارکان' اس کے جوہری پروگرام کے حوالے سے اپنی پالیسیوں کے ذریعے حالیہ بحران پیدا کرنے کے ذمہ دار ہیں۔
وہ ناصرف اس کشیدگی کو بڑھانے کے لیے ہرممکن کوشش کر رہے ہیں بلکہ انہوں نے اس کی ترغیب بھی دی ہے۔انہوں نے کشیدگی کا خاتمہ کرنے کے لیے نئے سرے سے سفارتی کوششوں پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق مسائل کا حل پرامن، سیاسی اور سفارتی راستوں سے ہی ممکن ہے۔
ایران کو دفاع کا حق حاصل ہے: پاکستاناقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل سفیر عاصم افتخار احمد نے کونسل سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کی شدید اشتعال انگیزی سے علاقائی امن و استحکام کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کے چارٹر کی شق 51 کے تحت ایران کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ غزہ، شام، لبنان اور یمن میں اسرائیل کے اقدامات یکطرفہ عسکریت کے متواتر سلسلے کی عکاسی کرتے ہیں۔
ایران کے خلاف یہ حملے ایسے وقت ہوئے ہیں جب اس کے جوہری پروگرام کا پرامن سفارتی حل نکالنے کے لیے بات چیت جاری تھی۔ اسرائیل کی یہ کارروائی اخلاقی اعتبار سے نفرت انگیز اور بین الاقوامی اصولوں کے خلاف ہے۔
پاکستان کے سفیر نے تمام فریقین پر زور دیا کہ وہ مزید کشیدگی سے اجتناب کرتے ہوئے بات چیت سے تنازع حل کرنے کو ترجیح دیں۔ انہوں نے کونسل سے کہا کہ وہ جارح کا محاسبہ کرے اور اسرائیل کو بین الاقوامی قانون اور عالمگیر رائے عامہ کے خلاف کھل کھیلنے کی چھوٹ نہ دی جائے۔
ایرانی حکومت مذاکرات کرے: امریکہامریکی دفتر خارجہ کے اعلیٰ عہدیدار میکائے پٹ نے اپنے ملک کی جانب سے بات کرتے ہوئے کونسل کے ارکان کو بتایا کہ ایران نے اسرائیل کے شہریوں کے خلاف بلااشتعال، براہ راست اور اپنے آلہ کاروں کے ذریعے حملے کیے، خطے میں دہشت پھیلائی، عدم استحکام پیدا کیا اور لوگوں پر تکالیف مسلط کیں۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ کے صدر ٹرمپ بارہا کہہ چکے ہیں کہ اس خطرناک حکومت کو جوہری ہتھیار رکھنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ امریکہ کو اس حملے کا پیشگی علم تھا لیکن اس کی فوج کا ان کارروائیوں میں کوئی کردار نہیں۔ خطے میں اپنے شہریوں، اہلکاروں اور فوجیوں کو تحفظ دینا امریکہ کی اولین ترجیح ہے۔
انہوں ںے کہا کہ امریکہ ایران کو جوہری ہتھیاروں کے حصول اور مشرق وسطیٰ میں استحکام کے لیے خطرہ بننے سے روکنے کے لیے سفارتی ذرائع سے کوششیں جاری رکھے گا۔
اگر ایران کی حکومت نے دانشمندانہ راہ اپنائی تو وہ اس مرتبہ مذاکرات کی میز پر آئے گی۔اسرائیل نے جوہری تباہی کا خطرہ پیدا کیا: ایراناقوام متحدہ میں ایران کے سفیر امیر سید ایراوانی نے اسرائیل کے حملے کو وحشیانہ اور مجرمانہ قرار دیتے ہوئے اس کی سخت مذمت کی۔
ان کا کہنا تھا کہ ایران کی عسکری قیادت اور جوہری سائنس دانوں کو دانستہ اور منظم طور سے ہلاک کیا جانا سوچی سمجھی جارحیت کا ہولناک مظاہرہ ہے۔
یہ مظالم ریاستی دہشت گردی اور بین الاقوامی قانون کی کھلی پامالی کے مترادف ہیں۔انہوں ںے کہا کہ محفوظ جوہری تنصیبات پر اسرائیل کے حملوں سے ناصرف بین الاقوامی قانون کے بنیادی اصولوں بلکہ ضمیر عامہ کی بھی پامالی ہوئی۔ جوہری تنصیبات کو نقصان پہنچنے سے تباہ کن تابکاری کا اخراج ہو سکتا ہے جس سے پورا خطہ اور دیگر ممالک بھی متاثر ہوں گے۔
ایران کے سفیر نے کہا کہ امریکہ سمیت اسرائیلی حکومت کی حمایت کرنے والوں کو علم ہونا چاہیے کہ وہ بھی اس اقدام میں شریک ہیں۔ ایسے جرائم میں مدد دینے پر انہیں بھی نتائج بھگتنا ہوں گے۔
ملکی تحفظ کے لیے حملے کیے: اسرائیلاسرائیل کے سفیر ڈینی ڈینن نے سلامتی کونسل سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کے شہروں پر ایران کے بیلسٹک میزائل برس رہے ہیں۔
اسرائیل کے حملے درستگی، مقصدیت اور جدید ترین انٹیلی جنس کے ساتھ کیے گئے۔ ان کا واضح مقصد ایران کے جوہری پروگرام کو ختم کرنا، اس کی دہشت اور جارحیت کے ذمہ داروں کو مٹانا اور اسرائیل کو تباہ کرنے کی صلاحیت کا قلع قمع کرنا تھا۔انہوں نے الزام عائد کیا کہ ایران جوہری ہتھیار تیار کرنے کی جانب قدم بڑھا رہا ہے اور عالمی برادری اسے روکنے میں ناکام ہے۔اسرائیل کے حملے لاپرواہانہ نہیں تھے بلکہ ان کے لیے اس نے انتظار کیا۔ یہ ملکی تحفظ کا اقدام تھا اور اسرائیل کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔