ایک اور جہاز گرگیا: بین الاقوامی ایوی ایشن سیفٹی ایجنسیوں کا ضمیر بھی
اشاعت کی تاریخ: 13th, June 2025 GMT
ایک اور جہاز گرا، ایک اور Mayday پکارا گیا، ایک اور سانحہ ہوا، اور ایک بار پھر بین الاقوامی ہوابازی ادارے خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔
ائیر انڈیا کی پرواز AI171 نے 12 جون 2025 کو احمد آباد سے لندن کی جانب اڑان بھری، مگر منزل سے پہلے، زمین نے اسے نگل لیا۔ 242 میں سے 241 افراد مارے گئے، صرف ایک بچ سکا۔
احمد آباد میں ائیر انڈیا کی فلائٹ AI171 حادثے کی تحقیقات جاری ہے، اور اس کی صحیح وجہ کا تعین ہونا باقی ہے۔ تاہم، یہاں کچھ اہم حقائق ہیں جو ممکنہ وجوہات کی شناخت میں مدد کر سکتے ہیں۔
پرواز کی تفصیلات:یہ پرواز بوئنگ 787-8 ڈریم لائنر تھی، جو احمد آباد سے لندن گیٹ وِک تک چل رہی تھی، جس میں 230 مسافر اور عملے کے 12 ارکان سمیت 242 افراد سوار تھے۔
مے ڈے کال:پائلٹ نے ٹیک آف کے فوراً بعد مے ڈے کال جاری کی، جو ایک سنگین مسئلے کی نشاندہی کرتا ہے۔
کریش سائٹ:طیارہ ہوائی اڈے کی حدود کے قریب گر کر تباہ ہوا، رہائشی علاقے، خاص طور پر ڈاکٹروں کے ہاسٹل کی عمارت سے گرنے سے پہلے تقریباً 825 فٹ کی اونچائی پر پہنچ گیا۔
موسم کے حالات:کوئی منفی موسمی حالات کی اطلاع نہیں دی گئی ہے۔ حادثہ دوپہر کے وقت پیش آیا۔
ایئر کرافٹ مینٹیننس:
حادثے سے پہلے طیارے کی دیکھ بھال کی تاریخ کے بارے میں کوئی معلومات دستیاب نہیں ہے۔
پائلٹ کا تجربہ:کپتان سومیت سبھروال کے پاس پرواز کے 8,200 گھنٹے کا تجربہ تھا، جب کہ فرسٹ آفیسر کلائیو کندر کے پاس 1,100 گھنٹے تھے۔ جن ممکنہ وجوہات کی تحقیقات کی جا رہی ہیں ان میں شامل ہو سکتے ہیں۔
تکنیکی ناکامی:مئی ڈے کال اور اونچائی میں اچانک کمی کے پیش نظر، تکنیکی خرابی ایک ممکنہ وجہ ہے۔
پائلٹ کی غلطی:انسانی غلطی یا پائلٹ کی غلط فہمی اس حادثے میں معاون ہو سکتی ہے۔
ایندھن کا بوجھ:طویل فاصلے کے سفر کے لیے ہوائی جہاز میں بہت زیادہ ایندھن ڈالا گیا تھا، جس نے حادثے کے بعد کی آگ کو بڑھا دیا ہو گا۔
تفتیش:توقع ہے کہ ڈائریکٹوریٹ جنرل آف سول ایوی ایشن (DGCA) اور بوئنگ تحقیقات کی قیادت کریں گے۔
امریکہ سے نیشنل ٹرانسپورٹیشن سیفٹی بورڈ (NTSB) اور فیڈرل ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن (FAA) تکنیکی مدد فراہم کریں گے۔
تحقیقات ممکنہ طور پر مختلف عوامل کا جائزہ لے گی، بشمول پائلٹ کی تربیت، ہوائی جہاز کی دیکھ بھال، اور ہوائی ٹریفک کنٹرول کے طریقہ کار۔
معید الرحمان ایوی ایشن کے ماہر مطابق اس حادثے کے مزید ممکنہ اسباب تو بہت گنوائے جا رہے ہیں، جن میں پرندے سے ٹکر، تھرسٹ میں کمی، یا پائلٹ کی جلد بازی شامل ہیں۔
لیکن کیا کوئی یہ سوال پوچھنے کی جرأت کرے گا:
کہیں پائلٹ جعلی تو نہیں تھا؟ کیا سیفٹی کے لوازمات مکمل تھے؟
کہیں پائلٹ بھی اُن 4000 میں سے تو نہیں جنہیں بھارت میں جعلی طریقے سے پائلٹ لائسنس دیے گئے؟
بھارت: حادثات کی طویل فہرستیہ AI171 کوئی پہلا واقعہ نہیں۔ بھارت کی ہوا بازی کا ماضی ہوائی حادثات سے سیاہ پڑ چکے ہیں۔
2025: AI171، احمد آباد — 241 ہلاکتیں
2020: AI Express IX-1344، کوژیکوڈ — 21 ہلاکتیں
2010: AI Express IX-812، منگلور — 158 ہلاکتیں
1998: Alliance Air 7412، پٹنہ — 60 ہلاکتیں
1996: چرخی دادری تصادم — 349 ہلاکتیں
1993: IA Flight 491، اورنگ آباد — 55 ہلاکتیں
1990: IA Flight 605، بنگلور — 92 ہلاکتیں
1988: IA Flight 113، احمد آباد — 133 ہلاکتیں
1978: AI Flight 855، بحرِ عرب — 213 ہلاکتیں
اتنی بڑی تعداد میں حادثات اور ہلاکتیں — مگر دنیا چپ ہے، ادارے چپ ہیں، IATA، ICAO،EASA سب خاموش۔
دوہرے معیار کا المیہپاکستان میں اگر PIA کی ایک پرواز گر جائے تو فوراً:
پروازوں پر پابندی
یورپی یونین کا بلیک لسٹ
ICAO کی غیر معمولی میٹنگ
پاکستانی ایوی ایشن کا دنیا بھر میں مذاق
لیکن بھارت؟
جہاں 4000 جعلی پائلٹ لائسنس کا اسکینڈل سامنے آئے، پائلٹ 35 منٹ کی پرواز سے 360 گھنٹے کا تجربہ دکھائے، اور 8 بڑے حادثات میں 1000 سے زائد افراد مارے جائیں — تو کوئی پابندی نہیں، کوئی انکوائری نہیں، کوئی پریس ریلیز بھی نہیں۔
کیا انسانی جانوں کی قیمت قومیت سے طے ہوتی ہے؟ہمیں اب سوال اٹھانا ہوگا۔ اگر بین الاقوامی ادارے بھارت کو سفارتی مصلحتوں کی وجہ سے رعایت دے رہے ہیں تو وہ نہ صرف ناانصافی کر رہے ہیں بلکہ دنیا بھر کی فضائی حفاظت کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔
تحقیق کہاں ہونی چاہیے؟AI171 کے حادثے کی تفتیش صرف طیارے کے بلیک باکس تک محدود نہ ہو، بلکہ:
پائلٹ کی اصل تربیت کی جانچ
جعلی لائسنسنگ کی موجودگی
ایوی ایشن اتھارٹی کی شفافیت
بین الاقوامی اداروں کی خاموشی کا احتساب
زندگی کا حساب کون دے گا؟
241 انسان مٹی میں دفن ہو چکے ہیں۔ ان کے پیچھے کوئی سوال نہ اٹھے، کوئی جواب نہ مانگا جائے، یہ خود انسانیت کا سانحہ ہے۔
یہ حادثہ صرف ایک جہاز کا نہیں، بلکہ ضمیر، انصاف اور ہوابازی کے نظام کی مکمل ناکامی ہے-
عبید الرحمان عباسی
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
مصنف سابق سینئر ایڈیشنل ڈائریکٹر لاء پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی اور اسلام آباد میں مقیم ایوی ایشن اینڈ انٹرنیشنل لاء کنسلٹنٹ ہیں۔ ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
احمد آباد ایوی ایشن بھارت جہاز طیارہ تباہ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ایوی ایشن بھارت جہاز طیارہ تباہ بین الاقوامی ایوی ایشن پائلٹ کی ایک اور رہے ہیں
پڑھیں:
’’آپ کیسی ہیں۔۔۔؟‘‘
ماضی کے جھروکوں سے جھانکوں تو خوش گوار یادوں کی ٹھنڈی ہوائیں میرے ذہن و دل کو معطر کر دیتی ہیں۔ گھروں کے درمیان دیواریں بھی مشترکہ ہوا کرتی تھیں،دلوںمیں محبتوں کا اٹوٹ بندھن تھا۔
نہ فون، نہ موبائل، نہ ہی جدید ذرائع آمدورفت، مگر پھر بھی سب کی خبر گیری ہوا کرتی تھی۔ گھر میں جو پکتا پڑوس میں بھیجا جاتا۔ شام کے وقت خواتین بچوں کے ہمراہ پاس پڑوس، محلے میں یا رشتے داروں سے ملنے جاتیں۔ شام کی چائے ساتھ پی جاتی۔ عمر رسیدہ یا بیمار خواتین تو خاص انتظار کرتیں کہ ابھی فلاں آئے گی۔
سادگی کا دور تھا۔ بنا بتائے کسی کے گھر چلے جائیں تو وہ خوشی سے استقبال کرتے۔ گھر میں جو طعام میسر ہوتا اس سے مہمان کی خاطر کی جاتی۔ انواع و اقسام کے پکوان نہیں ہوتے تھے، سادہ سا کھانا ہوتا، لیکن بہت محبت و خلوص سے دسترخوان بچھادیا جاتا تھا اور مہمان بھی خوش ہوتے۔ کتنی ہی دیر ایک دوسرے سے دل کا حال بیان کیا جاتا۔ کسی کو کوئی مسئلہ ہوتا تو سبھی اس کے حل کے لیے کوشاں رہتے۔ کوئی بیوہ یا تنہا خاتون بزرگ ہوتی تو رشتے دار اپنے گھر لے آتے۔ ان کی خدمت کرتے۔ گھر کے بچوں کو خاص تاکید کی جاتی کہ یہ گھر کی بڑی بزرگ ہیں.
ان سے باتیں کرو۔ ان کا خیال رکھو، ان کی خدمت کرو۔ اس طرح وہ تنہائی یا ڈپریشن کا شکار نہیں ہوتیں۔ جو خواتین تنہا رہتیں، محلے دار بھی ان کی خبر گیری رکھتے۔ آتے جاتے محلے کی خواتین حال پوچھتی رہتیں۔ ’’خالہ جی طبیعت کیسی ہے ؟ کچھ منگوانا ہے، تو بتا دیجیے، میں سودا لینے جارہی ہوں، آپ کی دوا بھی لے آؤں گی۔ آج میں نے آپ کے لیے یخنی بنائی ہے اور آپ کی پسند کا کسٹرڈ بھی بنایا ہے۔ ابھی لاتی ہوں‘ یہ احساس اور بے لوث خلوص کے انداز دل کو محبت سے سرشار کر دیا کرتے۔ وقت گزرنے کے ساتھ زندگی مصروف ہوتی چلی گئی۔ رابطے کم ہونے لگے اور فاصلے بڑھنے لگے۔ نئے دور کے جدید اندازِ روابط آگئے۔
دن بہ دن زندگی مصروف ہوتی چلی گئی اور فاصلے بڑھتے چلے گئے۔ ان فاصلوں نے تنہائی کو جنم دیا۔ جہاں تنہائی کا شکار منتظر نگاہیں دروازے کی سمت دیکھتی ہیں کہ کب دستک ہو۔ کبھی میرے اپنے میرے پیارے، میرے عزیز کوئی حال چال پوچھنے آجائے۔ بہنوں جیسی پڑوسن کوئی تو آئے کہ کچھ دیر بیٹھ کر دل کی بات کروں۔ تنہائی کاٹنے کو دوڑتی ہوگی، لیکن بیماری نے کہیں آنے جانے کی سکت ختم کر دی ہوگی۔ فون کرو، تو ہر ایک مصروف۔۔۔۔ ’’میں مصروف ہوں کچھ دیر میں آپ کو کال کرتی ہوں‘‘ اور پھر سماعتیں فون کی منتظر ہی رہ جاتی ہیں۔ اپنے گردوپیش کے سکوت اور سناٹے سے تنگ آکر جانے کیا کیا جتن کرتی ہوں گی۔ یہی کیفیت کچھ وقت میں ڈپریشن کو جنم دیتی ہے۔
اگر ہم اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں، تو کئی ایسی خواتین نظر آئیں گی۔ جو ہماری توجہ اور ہمارے وقت کی منتظر ہیں۔ کئی مائیں بھی تنہائی کا شکار ہو جاتی ہیں۔ بیٹی کو بیاہ دیا ہو، اولاد بیرون ملک مقیم ہوں وغیرہ۔ گو کہ ماؤں کو جدید موبائل فون، لیپ ٹاپ وغیرہ کے تحفے دے دیے کہ ’’امی فکر کیوں کرتی ہیں۔ میں آپ کو روز ’میسیج‘ کر دیا کروں گا‘‘ مائیں یہ سوچتی رہ جاتی ہیں۔ کہ ان جدید روابط کے آلات نے بظاہر رابطوں کو آسان بنادیا ہے، لیکن ان برقی پیغامات سے احساس و خلوص کے جذبات اور محبت کی مہک نہیں آتی۔
یہ تنہائی اور یہ صورت حال دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے۔ تنہا بزرگوں/ خواتین کا خیال رکھنا من حیث القوم، ہم سب کی ذمے داری ہے۔ اپنے روزمرہ کے مصروف معمولات میں سے سماجی روابط کی ویب سائٹس کو دیے جانے والا کچھ وقت آج سے اپنوں کے نام کر دیں۔ پڑوسی، والدین، بہن بھائی، عزیز اقربا، سہیلیاں۔ سب کی خبرگیری کرتی رہیں۔ سب سے رابطے میں رہیں۔ ہم اکثر ایک بات سنتے رہتے ہیں کہ فلاں نے مجھے کال نہیں کی تو میں کیوں کروں؟ وہ مجھ سے ملنے نہیں آئی، تو میں کیوں ملنے جاؤں؟
ان گِلے شکوؤں کو چھوڑ دیجیے۔ زندگی بہت مختصر ہے، اِسے محبتوں کے ساتھ بسر کیجیے۔ کیا خبر کسی کے خبر گیری کے لمحات اس کی زندگی کے آخری لمحات ہوں۔ شاید کوئی آپ کے کچھ دیر بات کرنے سے اپنے درد کو غم کو بھلا کر خوش باش ہوجائے اور اس کے دل سے آپ کے لیے دعا نکلے، جو اللہ کی بارگاہ میں مقبول ہو جائے۔
اکثر اوقات تنہائی یا بڑھاپے کا شکار افراد چڑچڑے بھی ہو جاتے ہیں۔ لہٰذا کبھی کسی کی کوئی بات بری لگے، تو اِسے دل میں لے کر نہ بیٹھا کیجیے، بلکہ درگزر کیا کیجیے۔ یہ سوچیے کہ ہوسکتا ہے وہ پریشان یا بیمار ہوں ، اپنی ذات میں کوئی جنگ لڑرہی ہوں۔ اس لیے ایسا کیا ہوگا۔ یہ اچھا گُمان اور مثبت سوچ آپ کی شخصیت میں بھی نکھار پیدا کردے گی۔
اسی طرح اکثر بزرگوں سے ملنے یا بات کرنے سے لوگ گھبراتے ہیں کہ بھئی یہ بڑی عمر کے افراد بہت باتیں کرتے ہیں۔ کئی بار سنائے ہوئے ماضی کے قصے بھی دوبارہ سنانے لگتے ہیں۔ ان کا حال چال پوچھنا ہی مشکل ہو جاتا ہے۔ ان کی خبر گیری کا آسان طریقہ یہ ہوتا ہے کہ آپ ان کو پہلے سے مطلع کردیں۔ آنٹی مجھے سات بجے روٹیاں پکانی ہیں۔ لہٰذا تب تک میں اور آپ گپ شپ کرتے ہیں۔
گپ شپ کے دوران ان کے کھانے پینے دوا وغیرہ کا ضرور معلوم کرلیں۔ ان کے لیے کچھ کھانے کے لیے لے جائیں۔ کوئی خاص پکوان پکائیں تو تھوڑا ان کو بھی دینے چلی جائیں ۔ اس طرح بھی ان کی خیریت پتا چلتی رہے گی۔ اسی طرح کبھی اپنے گھر مدعو کرلیں۔ آتے جاتے گھر کی گھنٹی بجا کر پوچھتی رہیں۔ ’’آپ کیسی ہیں کسی چیز کی ضرورت تو نہیں!‘‘
ایسے تمام رشتے جن سے روزانہ ملاقات ممکن نہیں، مگر ان کی سماعتیں و بصارتیں آپ کی منتظر رہتی ہیں۔ ان سے روزانہ کم از کم ویڈیو کال پر ضرور بات کریں۔ فاصلے کیسے بھی ہوں۔ ویڈیو کال لمحوں میں فاصلوں کو مٹا دیتی ہے۔ احساسات و جذبات، محبت و خلوص نگاہوں کے ذریعے دل میں اترتا ہوا محسوس ہوگا۔ زندگی کی مصروف معمولات کبھی ختم نہیں ہوں گے، لیکن ’مہلتِ حیات‘ مُٹھی میں بند ریت کی مانند پھسلتی جا رہی ہے۔ لہٰذا اس وقت میں سے ان چھوٹی چھوٹی نیکیوں کے لیے وقت کشید کرنا پڑے گا۔ کسی کی دل جوئی، خدمت، خبر گیری کے بدلے دعاؤں کا سرمایہ جمع کرنا ہوگا کہ روز محشر سرخرو ہوسکیں۔