ایک اور جہاز گرا، ایک اور Mayday پکارا گیا، ایک اور سانحہ ہوا، اور ایک بار پھر بین الاقوامی ہوابازی ادارے خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔

ائیر انڈیا کی پرواز AI171 نے 12 جون 2025 کو احمد آباد سے لندن کی جانب اڑان بھری، مگر منزل سے پہلے، زمین نے اسے نگل لیا۔ 242 میں سے 241 افراد مارے گئے، صرف ایک بچ سکا۔

احمد آباد میں ائیر انڈیا کی فلائٹ AI171 حادثے کی تحقیقات جاری ہے، اور اس کی صحیح وجہ کا تعین ہونا باقی ہے۔ تاہم، یہاں کچھ اہم حقائق ہیں جو ممکنہ وجوہات کی شناخت میں مدد کر سکتے ہیں۔

پرواز کی تفصیلات:

یہ پرواز بوئنگ 787-8 ڈریم لائنر تھی، جو احمد آباد سے لندن گیٹ وِک تک چل رہی تھی، جس میں 230 مسافر اور عملے کے 12 ارکان سمیت 242 افراد سوار تھے۔

مے ڈے کال:

پائلٹ نے ٹیک آف کے فوراً بعد مے ڈے کال جاری کی، جو ایک سنگین مسئلے کی نشاندہی کرتا ہے۔

کریش سائٹ:

طیارہ ہوائی اڈے کی حدود کے قریب گر کر تباہ ہوا، رہائشی علاقے، خاص طور پر ڈاکٹروں کے ہاسٹل کی عمارت سے گرنے سے پہلے تقریباً 825 فٹ کی اونچائی پر پہنچ گیا۔

موسم کے حالات:

 کوئی منفی موسمی حالات کی اطلاع نہیں دی گئی ہے۔ حادثہ دوپہر کے وقت پیش آیا۔

ایئر کرافٹ مینٹیننس:

 حادثے سے پہلے طیارے کی دیکھ بھال کی تاریخ کے بارے میں کوئی معلومات دستیاب نہیں ہے۔

پائلٹ کا تجربہ:

 کپتان سومیت سبھروال کے پاس پرواز کے 8,200 گھنٹے کا تجربہ تھا، جب کہ فرسٹ آفیسر کلائیو کندر کے پاس 1,100 گھنٹے تھے۔ جن ممکنہ وجوہات کی تحقیقات کی جا رہی ہیں ان میں  شامل ہو سکتے ہیں۔

تکنیکی ناکامی:

 مئی ڈے کال اور اونچائی میں اچانک کمی کے پیش نظر، تکنیکی خرابی ایک ممکنہ وجہ ہے۔

پائلٹ کی غلطی:

انسانی غلطی یا پائلٹ کی غلط فہمی اس حادثے میں معاون ہو سکتی ہے۔

ایندھن کا بوجھ:

طویل فاصلے کے سفر کے لیے ہوائی جہاز میں بہت زیادہ ایندھن ڈالا گیا تھا، جس نے حادثے کے بعد کی آگ کو بڑھا دیا ہو گا۔

تفتیش:

توقع ہے کہ ڈائریکٹوریٹ جنرل آف سول ایوی ایشن (DGCA) اور بوئنگ تحقیقات کی قیادت کریں گے۔

امریکہ سے نیشنل ٹرانسپورٹیشن سیفٹی بورڈ (NTSB) اور فیڈرل ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن (FAA) تکنیکی مدد فراہم کریں گے۔

تحقیقات ممکنہ طور پر مختلف عوامل کا جائزہ لے گی، بشمول پائلٹ کی تربیت، ہوائی جہاز کی دیکھ بھال، اور ہوائی ٹریفک کنٹرول کے طریقہ کار۔

معید الرحمان ایوی ایشن کے ماہر مطابق اس حادثے کے مزید ممکنہ اسباب تو بہت گنوائے جا رہے ہیں، جن میں پرندے سے ٹکر، تھرسٹ میں کمی، یا پائلٹ کی جلد بازی شامل ہیں۔

لیکن کیا کوئی یہ سوال پوچھنے کی جرأت کرے گا:

کہیں پائلٹ جعلی تو نہیں تھا؟ کیا سیفٹی کے لوازمات مکمل تھے؟

کہیں پائلٹ بھی اُن 4000 میں سے تو نہیں جنہیں بھارت میں جعلی طریقے سے پائلٹ لائسنس دیے گئے؟

بھارت: حادثات کی طویل فہرست

یہ AI171 کوئی پہلا واقعہ نہیں۔ بھارت کی ہوا بازی کا ماضی ہوائی حادثات سے سیاہ پڑ چکے ہیں۔

2025: AI171، احمد آباد — 241 ہلاکتیں

2020: AI Express IX-1344، کوژیکوڈ — 21 ہلاکتیں

2010: AI Express IX-812، منگلور — 158 ہلاکتیں

1998: Alliance Air 7412، پٹنہ — 60 ہلاکتیں

1996: چرخی دادری تصادم — 349 ہلاکتیں

1993: IA Flight 491، اورنگ آباد — 55 ہلاکتیں

1990: IA Flight 605، بنگلور — 92 ہلاکتیں

1988: IA Flight 113، احمد آباد — 133 ہلاکتیں

1978: AI Flight 855، بحرِ عرب — 213 ہلاکتیں

اتنی بڑی تعداد میں حادثات اور ہلاکتیں — مگر دنیا چپ ہے، ادارے چپ ہیں، IATA، ICAO،EASA  سب خاموش۔

دوہرے معیار کا المیہ

پاکستان میں اگر PIA کی ایک پرواز گر جائے تو فوراً:

پروازوں پر پابندی

یورپی یونین کا بلیک لسٹ

ICAO  کی غیر معمولی میٹنگ

پاکستانی ایوی ایشن کا دنیا بھر میں مذاق

لیکن بھارت؟

جہاں 4000 جعلی پائلٹ لائسنس کا اسکینڈل سامنے آئے، پائلٹ 35 منٹ کی پرواز سے 360 گھنٹے کا تجربہ دکھائے، اور 8 بڑے حادثات میں 1000 سے زائد افراد مارے جائیں — تو کوئی پابندی نہیں، کوئی انکوائری نہیں، کوئی پریس ریلیز بھی نہیں۔

کیا انسانی جانوں کی قیمت قومیت سے طے ہوتی ہے؟

ہمیں اب سوال اٹھانا ہوگا۔ اگر بین الاقوامی ادارے بھارت کو سفارتی مصلحتوں کی وجہ سے رعایت دے رہے ہیں تو وہ نہ صرف ناانصافی کر رہے ہیں بلکہ دنیا بھر کی فضائی حفاظت کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔

تحقیق کہاں ہونی چاہیے؟

AI171  کے حادثے کی تفتیش صرف طیارے کے بلیک باکس تک محدود نہ ہو، بلکہ:

پائلٹ کی اصل تربیت کی جانچ

جعلی لائسنسنگ کی موجودگی

ایوی ایشن اتھارٹی کی شفافیت

بین الاقوامی اداروں کی خاموشی کا احتساب

زندگی کا حساب کون دے گا؟

241 انسان مٹی میں دفن ہو چکے ہیں۔ ان کے پیچھے کوئی سوال نہ اٹھے، کوئی جواب نہ مانگا جائے، یہ خود انسانیت کا سانحہ ہے۔

یہ حادثہ صرف ایک جہاز کا نہیں، بلکہ ضمیر، انصاف اور ہوابازی کے نظام کی مکمل ناکامی ہے-

عبید الرحمان عباسی

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عبید الرحمان عباسی

مصنف سابق سینئر ایڈیشنل ڈائریکٹر لاء پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی اور اسلام آباد میں مقیم ایوی ایشن اینڈ انٹرنیشنل لاء کنسلٹنٹ ہیں۔ ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

احمد آباد ایوی ایشن بھارت جہاز طیارہ تباہ.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: ایوی ایشن بھارت جہاز طیارہ تباہ بین الاقوامی ایوی ایشن پائلٹ کی ایک اور رہے ہیں

پڑھیں:

وفاقی بجٹ 2025-26:اشیا خورونوش اور روزمرہ استعمال کی چیزوں پر بھاری ٹیکس عائد، عوام پر مہنگائی کا نیا پہاڑ گرگیا۔

وفاقی حکومت نے آئندہ مالی سال 2025-26 کے بجٹ کا اعلان کرتے ہوئے عوام پر مہنگائی کا نیا پہاڑ گرا دیا۔سال 2025-26 کے  بجٹ میں متعدد روزمرہ استعمال کی درآمدی اشیا اور صنعتی آلات پر ٹیکس عائد کر دیے گئے ہیں جن میں خوردنی اشیا، طبی ساز و سامان، تعمیراتی مشینری، اور بجلی سے چلنے والے آلات شامل ہیں۔ درآمدی ٹماٹر، مٹر، دالیں، کھجور، موسمی، کیک، دودھ، دہی، اور پولٹری جیسے بنیادی خوراکی اجزا پر اب اضافی ٹیکس دینا ہوگا۔ اس کے علاوہ، سرجیکل آلات، جم کا سامان، ورزشی مشینری، انسولین سرنج، سولر چارجز، سی این جی کٹ، پام آئل، تمباکو، اور تعمیراتی مشینری پر بھی کسٹم ڈیوٹی یا جنرل سیلز ٹیکس میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔ فنانس بل کے تحت دودھ پروسیسنگ پلانٹس کی درآمد پر ٹیکس دو فیصد بڑھا دیا گیا ہے۔ مویشیوں اور پولٹری کے شیڈز پر دو فیصد اضافی ٹیکس لاگو ہوگا، جب کہ جانوروں کی فیڈ بنانے والی تمام مشینری پر بھی دو فیصد ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔ ڈیری مصنوعات کی مشینری پر تین فیصد، اور ڈیری شیڈز میں لگنے والے پنکھوں پر تین فیصد ٹیکس نافذ کر دیا گیا ہے۔ میڈیکل، سرجیکل، ڈینٹل اور ویٹنری فرنیچر، ایمرجنسی لائٹس، اور اسپتالوں میں استعمال ہونے والے مکینیکل فٹنگز والے بستروں پر بھی اب پانچ فیصد ٹیکس دینا ہوگا۔ اسی طرح جم اور ورزشی سامان پر تین سے پانچ فیصد تک ٹیکس عائد کیا گیا ہے، جب کہ آگ بجھانے والے آلات، کینولا اور انسولین سرنج پر بھی پانچ فیصد ٹیکس نافذ ہوچکا ہے۔ تعمیراتی مشینری اور سامان پر تین سے پانچ فیصد ٹیکس، اور سولر چارجرز پر پانچ فیصد ٹیکس عائد کر دیا گیا ہے۔ ڈمپرز اور کرینز کی درآمد پر بیس فیصد تک بھاری کسٹم ڈیوٹی لگائی گئی ہے، جب کہ پام آئل، ویجیٹیبل آئل اور کیسٹر آئل پر پانچ فیصد ڈیوٹی لاگو کر دی گئی ہے۔ سی این جی کٹس بھی اب پانچ فیصد کسٹم ڈیوٹی کے دائرے میں آ گئی ہیں۔ تاہم، حکومت نے برقی گاڑیوں کی درآمد پر ریلیف فراہم کرتے ہوئے الیکٹرک آٹو رکشہ، الیکٹرک موٹرسائیکل، اور تین پہیوں والے برقی لوڈر پر کسٹم ڈیوٹی میں پچاس فیصد کمی کر دی ہے۔ اس رعایت کا دائرہ الیکٹرک کاروں تک بھی بڑھا دیا گیا ہے، جس سے اس شعبے میں سرمایہ کاری بڑھنے کی امید کی جا رہی ہے۔  ماہرین معاشیات کے مطابق یہ بجٹ عام آدمی پر براہ راست اثر ڈالے گا، خاص طور پر خوراک اور طبی اشیا پر ٹیکسوں کی وجہ سے مہنگائی میں نمایاں اضافہ ہوگا۔ دوسری طرف حکومت کا مؤقف ہے کہ یہ اقدامات معاشی استحکام اور مقامی صنعت کو فروغ دینے کے لیے ضروری ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • ایران پر اسرائیلی حملوں کے بعد پاکستانی فضائی حدود میں ایئر ٹریفک کی صورت حال
  • نیپال میں آسمانی بجلی گرنے سے ہلاکتیں
  • ایران کا اسرائیل کے 2 جنگی طیاروں کو مار گرانے، خاتون پائلٹ کو حراست میں لینے کا دعویٰ
  • بچوں کے ہاتھ میں قلم، کتاب، لیپ ٹاپ ہونے چاہئیں، اوزار، اینٹیں نہیں: مریم نواز
  • فرانسیسی ڈسالٹ ایوی ایشن کے بعدامریکیبوئنگ 787-8 ڈریم لائنرکے شیئرزبھی کرگئے
  • احمد آباد طیارہ حادثہ، بھارتی تاریخ کے بدترین فضائی سانحات میں المناک اضافہ
  • 100 سے زیادہ مسافروں کو لیجانے والا جہاز احمد آباد ایئرپورٹ کے قریب گر کر تباہ
  • ڈیری فارمرز کا خام دودھ کی فروخت کو سیلز ٹیکس رجیم میں شامل کرنے کا مطالبہ
  • وفاقی بجٹ 2025-26:اشیا خورونوش اور روزمرہ استعمال کی چیزوں پر بھاری ٹیکس عائد، عوام پر مہنگائی کا نیا پہاڑ گرگیا۔