اسرائیل نے ایران کو کیسے دھوکے میں رکھا؟ ٹرمپ نے بھی ’کھیل کھیلا‘
اشاعت کی تاریخ: 13th, June 2025 GMT
اسرائیل نے دھوکا دہی پر مبنی غلط معلومات اور تاثر کے ذریعے ایران کو جال میں پھنسا کر حملہ کیا تاکہ وہ اپنے دفاع کے مکمل تحفظ میں ناکام رہے اور اس چال میں امریکی صدر نے مکارانہ کھیل کھیلا۔
13 جون کی رات کو ایران پر اسرائیلی حملے کے حوالے سے اسرائیلی اہلکار نے ٹائمز آف اسرائیل کو بتایا کہ اسرائیل اور امریکا نے حالیہ دنوں میں ایک کثیر جہتی غلط معلومات کی مہم چلائی تاکہ ایران کو یہ باور کرایا جا سکے کہ اس کی جوہری تنصیبات پر مستقبل قریب میں حملہ نہیں ہو گا۔
اہلکار نے زور دے کر کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس پورے کھیل میں ایک سرگرم رکن تھے اور وہ اس وقت سے فوجی آپریشن کے بارے میں جانتے تھے جب سے وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے پیر کو حملے کے ساتھ آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا تھا۔
نیتن یاہو اور ٹرمپ نے اسی دن 40 منٹ تک فون پر بات کی تھی۔
اس وقت نامعلوم عہدیداروں نے اسرائیل کے چینل 12 کو یہ لیک کیا کہ ٹرمپ نے نیتن یاہو کو ایک “ڈرامائی” گفتگو میں کہا تھا کہ وہ ایران کے جوہری مقامات پر حملے کو ایجنڈے سے ہٹا دیں کیونکہ مذاکرات جاری ہیں۔
ٹی وی رپورٹ کے مطابق ٹرمپ نے زور دے کر کہا کہ فوجی حملے پر اس وقت تک کوئی بات چیت نہیں ہو گی جب تک صدر اس نتیجے پر نہیں پہنچ جاتے کہ ایران کے ساتھ جوہری مذاکرات ناکام ہو گئے ہیں۔
اسرائیلی اہلکار نے جمعہ کو دلیل دی یہ سب غلط تھا۔
اگلے دن نیتن یاہو نے ایک ویڈیو بیان میں اعلان کیا کہ حماس کے ساتھ یرغمالیوں کے مذاکرات میں “اہم پیش رفت” ہوئی ہے۔
اسرائیلی صحافیوں کو حکام کی طرف سے بتایا گیا کہ جمعرات کو ہونے والے کابینہ کے اجلاس میں یرغمالیوں کے مذاکرات سے متعلق بات ہو گی۔
مسئلہ یہ تھا کہ غیر ملکی حکام یہ نہیں جان سکے کہ اسرائیل کس پیشرفت کے بارے میں بات کر رہا ہے کیونکہ معاہدے کو محفوظ بنانے کی کوششوں میں کوئی بڑی پیش رفت نہیں ہوئی تھی۔
حتیٰ کہ یرغمالیوں کے مذاکرات سے واقف ایک عرب اہلکار نے ٹائمز آف اسرائیل کے ساتھ بات کی اور وہ بھی اس بارے میں لاعلم تھے۔
اسرائیلی اہلکار نے اشارہ کیا کہ یہ بھی غلط سمت کا حصہ ہے۔ اسرائیل چاہتا تھا کہ ایران یہ سوچے کہ اس کی توجہ بنیادی طور پر یرغمالیوں کے معاہدے پر مرکوز ہے نہ کہ حملے کی تیاری پر۔
اس کے ساتھ ہی اسرائیل نے ایران کو ایک قابل اعتماد کہانی بیچنی تھی، اور جوہری معاملے کو نظر انداز نہیں کرنا تھا۔ اسرائیل چاہتا تھا کہ تہران یہ سوچے کہ وہ اب بھی وائٹ ہاؤس کے ساتھ ممکنہ حملے کے معاملے پر مذاکرات کر رہا ہے۔
اس طرح اس نے اعلان کیا کہ اسٹریجیٹک امور کے وزیر رون ڈرمر اور موساد کے سربراہ ڈیوڈ بارنیا تہران اور واشنگٹن کے درمیان اتوار کو ہونے والے مذاکرات کے اگلے دور سے قبل امریکی خصوصی ایلچی سٹیو وٹکوف کے ساتھ بات چیت کے لیے روانہ ہوں گے اور دعویٰ کیا کہ اس سفر کا مقصد “اسرائیل کی پوزیشن کو واضح کرنا ہے۔”
وزیراعظم کا دفتر ٹائمز آف اسرائیل کے اس براہ راست سوال کا جواب بھی نہیں دے گا کہ یہ ملاقات کہاں ہونی تھی۔ اب یہ واضح ہے کہ ملاقات کبھی بھی شیڈول کے مطابق نہیں تھی۔
اسرائیل کو واضح طور پر امید تھی کہ ایرانی اس بات پر یقین کریں گے کہ اتوار کی بات چیت سے پہلے اس پر حملہ کرنے کا کوئی طریقہ نہیں تھا۔
تمام محاذوں پر، اسرائیل نے معمول کے مطابق اپنے امور کو انجام دینے کی کوشش کی۔ نیتن یاہو کے دفتر نے جمعرات کو ایک بیان جاری کیا جس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ بڑھتی ہوئی علاقائی کشیدگی کے درمیان کچھ میڈیا رپورٹس کے برعکس، وہ شمال میں اپنی ویک اینڈ کی چھٹیاں منسوخ نہیں کریں گے۔
نیتن یاہو کے بیٹے ایونر کی اگلے ہفتے شادی ہونے والی ہے جس کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو یہ یقین بھی ہو گیا کہ حملے کا امکان نہیں ہے۔ تقریب کی تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں۔ جمعرات کو، پولیس نے تل ابیب کے شمال میں، کبٹز یاکم میں اعلیٰ درجے کے رونٹز فارم ایونٹ ہال کے ارد گرد 100 میٹر (109-یارڈ) کے ارد گرد آہنی راستے میں رکاوٹیں اور خاردار تاروں کی باڑیں لگائیں۔
اسرائیلی اہلکار نے کہا کہ ٹرمپ نے اس کوشش میں تعاون کیا “اس نے اسرائیل کے ساتھ مل کر کھیل کھیلا،” یہ ایک مکمل کوآرڈینیشن تھا۔
اسرائیل میں امریکی سفیر مائیک ہکابی نے بھی جمعرات کو ایک انٹرویو میں کہا کہ اسرائیل کا واشنگٹن کی جانب سے گرین لائٹ کے بغیر ایران پر حملہ کرنے کا امکان نہیں ہے۔
اس طرح اسرائیل نے تاثر قائم کیا کہ وہ جلد ہی حملے کی پوزیشن میں نہیں آئے گا اور اتوار تک جوہری مذاکرات کے چھٹے مرحلے کے نتائج کا انتظار کرے گا۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ اسرائیل نے حملے سے پہلے دھوکے میں رکھا۔ غزہ میں 2008-2009 کے آپریشن کاسٹ لیڈ سے پہلے، اس وقت کے وزیر اعظم ایہود اولمرٹ کے ماتحت وزیر اعظم کے دفتر نے کہا تھا کہ بدھ کو ہونے والی سیکیورٹی کابینہ کی میٹنگ عالمی جہاد سے نمٹنے کے لیے ہے جب حقیقت میں اجلاس آپریشن کی تیاری کے لیے بلایا گیا تھا۔ میٹنگ کے بعد، اعلامیہ میں ایک پورا صفحہ 35 اسلام پسند گروپوں کو کالعدم قرار دینے کی کوشش کے لیے وقف کر دیا جبکہ صرف ایک لائن غزہ کے لیے لکھی گئی۔
اگلے دن جمعرات کو اسرائیل نے کہا کہ غزہ میں سرحدی گزرگاہیں کھول دی جائیں گی اور اولمرٹ اتوار کو حماس کے ساتھ کشیدگی پر بات کرنے کے لیے مزید ملاقاتیں کریں گے پھر اسرائیل نے ہفتے کے روز اچانک حملہ کر دیا۔
غلط فہمی میں مبتلا رکھنے کی مہم کس قدر کامیاب ہوئی اس کا اندازہ اس بات سے ہو سکتا ہے کہ ایران کی اعلیٰ فوجی قیادت اپنے گھروں میں ہی نشانہ بن گئی کیونکہ سینئر کمانڈروں کو بہت جلد ایسے حملے کی توقع نہیں تھی۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: اسرائیلی اہلکار نے یرغمالیوں کے اسرائیل کے کہ اسرائیل اسرائیل نے نیتن یاہو جمعرات کو کہ ایران ایران کو کے ساتھ کیا کہ کہا کہ تھا کہ کے لیے کو ایک
پڑھیں:
امن معاہدہ اور ٹرمپ راہداری!
حمیداللہ بھٹی
جنوبی قفقاز کے ممالک آذربائیجان اورآرمینیا کے درمیان امریکی صدرکی میزبانی میں امن معاہدہ طے پاگیا ہے جو ایک بڑی پیش رفت ہے ۔یہ معاہدہ ڈونلڈ ٹرمپ کی کوششوں اور میزبانی میں ہواہے ۔اِس لیے توقع ہے کہ دونوں طرف سے پاسداری ہو گی مگر اِس معاہدے کی جزیات اور شرائط کے بارے میں ابہام ہے جس کی وجہ سے کچھ حلقے بدگمانی کاشکارہیں اورمعاہدے کو خطے کی حساسیت کے مطابق قرارنہیں دیتے ،بلکہ دستاویز کو جلدبازی میں اُٹھایا گیا قدم کہتے ہیں۔ یہ معاہدہ پائیدار امن کی جانب پیش رفت ثابت ہوگا یا نہیں؟ اِس بارے عالمی ردِ عمل اورخیالات کچھ زیادہ حوصلہ افزا نہیں۔ خطے کے اہم ممالک روس اور ایران بھی معاہدے پرناخوش ہیں۔
آذربائیجان کے صدرالہام علیوف اور آرمینیا کے وزیرِ اعظم نکول پشینیان نے ٹرمپ کے دائیں بائیں بیٹھ کرمعاہدے پر دستخط کیے مگر امن معاہدے کے پوشیدہ پہلو کیاہیں ؟اِس حوالے سے دنیا میں تجسس ہے پاکستان ،ترکیہ اور اسلامی ممالک کی نمائندہ تنظیم اوآئی سی نے اگر خیر مقدم کیا ہے تو ایران نے تحفظات ظاہر کرنے میں تاخیر نہیں کی روسی ناخوشی بھی عیاں ہے عین ممکن ہے روس اور ایران ایسی کوششیں کریں کہ امریکہ خطے سے باہررہے ایسی کسی کوششوں کے نتیجے میں ایک نئی کشمکش کا آغاز ہوسکتاہے ۔
آٹھ اگست جمعہ کے روز وائٹ ہائوس میں امریکی ثالثی میں طے پانے والے امن معاہدے سے توقع ظاہر کی گئی کہ جنوبی قفقاز کے دونوں ممالک کے درمیان عشروں پر محیط ایک خونریز تنازع ختم ہو گیا ہے ۔معاہدے کو آذربائیجان اور آرمینیا نے تاریخی پیش رفت قرار دیا جبکہ ٹرمپ نے امن قائم کرنے کی ایک اور کامیابی سے تعبیر کیااور کہا کہ دونوں ممالک ہر طرح کی جنگ بندی پر راضی ہو گئے ہیں جس سے باہمی تجارت،سیر وسیاحت کے ساتھ سفارتی تعلقات کوفروغ ملے گاکیونکہ دونوں ممالک نے ایک دوسرے کی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کے احترام کا عہد کیاہے۔ معاہدے کے بعدامریکہ نے آذربائیجان پر فوجی تعاون کے حوالے سے عائد پابندیاں ختم کرتے ہوئے امریکی کمپنیاں کو توانائی ،بنیادی ڈھانچے اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری کی اجازت دے دی۔ ٹرمپ نے دونوں ممالک کو سرحدی سلامتی ،اقتصادی تعاون ،ٹیکنالوجی میں شراکت داری اورترجیح تجارت کی یقین دہانی بھی کرائی۔ اِس معاہدے کاایک اہم پہلو یہ ہے کہ جنوبی قفقاز میں ٹرمپ کے نام پر ایک امن اور خوشحالی راہداری بنائی جائے گی جس کی ملکیت امریکہ کے پاس ہوگی یہی اِس معاہدے کااہم ترین پہلواورمرکزی نکتہ ہے۔
آذربائیجان کے صدر الہام علیوف پُرامیدہیں کہ امن معاہدہ امریکہ سے دوطرفہ تعلقات کے ایک نئے دورکا پیش خیمہ ثابت ہوگا جبکہ آرمینیا کے وزیرِ اعظم نکول پشینیان نے قیام ِ امن کے لیے ایک ایساعظیم معاہدہ قراردیاجس کے خطے اور دنیا پر مثبت اثرات ہوں گے۔ آرمینیا کے وزیرِ اعظم نے آذربائیجان کے صدر کی طرف سے ٹرمپ کو نوبل امن انعام کے لیے نامزد کرنے کی تائید کردی ،ٹرمپ اِس اعزاز کے لیے نارویجن وزیرِ خارجہ ینس ستولتن برگ سے بات بھی کرچکے یادرہے کہ نوبل انعام ہر سال ناروے کی نوبل کمیٹی عطا کرتی ہے جس کا اعلان اکتوبرمیں کیاجاتا ہے اور چار امریکی صدور یہ اعزاز پہلے حاصل کر چکے۔ اسرائیل،پاکستان ،کمبوڈیاسمیت جنوبی قفقازکے دو ممالک صدر ٹرمپ کو نوبل انعام کے لیے نامزد کرچکے ۔ٹرمپ کا اپنا بھی یہ خیال ہے کہ وہ ہی اِس انعام کے اصل حقدار ہیں ۔
آذربائیجان اور آرمینیا تنازع استعمار کی سازش ہے جب یہ ممالک روسی فیڈریش کا حصہ تھے تو روس نے نگورنوکاراباخ کو آذربائیجان کا حصہ بناکربعدمیں آرمینیائی اکثریت کی خواہش پرآرمینیا سے جوڑ دیا اورپھر آذربائیجان کاحصہ بنادیا۔یوں ایک بڑی کشمکش نے جنم لیا 1980 میں آرمینیا نے فوجی یلغارسے یہ علاقہ قبضے میں لے لیا حالانکہ یہ آذربائیجان کا تسلیم شدہ حصہ ہے ۔سوویت یونین سے آزادی کے بعد1994 میںنگورنو کاراباخ تنازع پر ایک بڑی خونریز جنگ لڑی گئی بعد میں بھی سرحدی جھڑپیںمعمول رہیں۔ 2023 میں آذربائیجان نے ایک بڑی فوجی مُہم سے یہ علاقہ آرمینیا سے چھین لیا ۔اِس جنگ کو ایک سو برس کے دوران کسی مسلم ملک کی محاذِ جنگ پر پہلی فتح قرار دیا جاتا ہے مگر اِسے کفرواسلام کی جنگ نہیں کہہ سکتے کیونکہ اگر آذربائیجان کوڈرونزاوردیگر ہتھیار فراہم کرنے میں ترکیہ جبکہ سفارتی حوالے سے مقدمہ لڑنے میں پاکستان پیش پیش تھاتوایران اور اسرائیل دونوں آرمینیاکے حمایتی رہے ۔
صدر ٹرمپ نے اپنے کردار و عمل سے ثابت کردیا ہے کہ وہ نفع کے لیے ہر حدتک جا سکتے ہیں اب بھی الاسکا میں روسی صدر پوتن سے ملاقات سے قبل پیشقدمی سے دنیاکو چونکایا ہے ۔امن معاہدے سے امریکہ کو یہ باور کرانے کا موقع ملا ہے کہ وہ عالمی تنازعات حل کرانے کی موثر صلاحیت رکھتا ہے۔ امن معاہدے میں شامل ہوناروسی خواہش تھی مگر حیران کُن طور پر آذربائیجان اور آرمینیا نے ایسی کسی خواہش کو اہمیت نہیں دی اور امریکی ثالثی پر اکتفا کرتے ہوئے ٹرمپ راہداری کے مالکانہ حقوق بھی امریکہ کو دے دیے ۔معاہدے نے روس اور ایران کی سرحدوں کے قریب امریکی موجودگی کا جواز ملا ہے۔ اب امریکہ نہ صرف امن اور خوشحالی راہداری کی صورت میں اپنا سیاسی اور سفارتی کرداربڑھانے ، روس اور ایران پرمستقل نظر ودبائو رکھنے سمیت چینی راہداری منصوبوں کوبھی ناکام بنانے کی پوزیشن میں آگیاہے بلکہ وسطی ایشیائی ریاستوں سے تعلقات کو فروغ دینے اور دفاعی معاہدوں کا حصہ بنانے میں بھی سہولت حاصل ہوگی۔
آذربائیجان اور آرمینیا دونوں آبادی ،رقبے اور فوجی طاقت کے لحاظ سے کوئی بڑے ممالک نہیں آذربائیجان کا رقبہ چھیاسی ہزار چھ سو مربع کلو میٹر اور آبادی ایک کروڑ کے قریب ہے۔ یہ یوریشیا کے جنوبی قفقاز میں سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے مشرقی یورپ اور مغربی ایشیا کے درمیان اِس ملک کی مشرق میں بیحرہ قزون،شمال میں روس ،مغرب میں آرمینیا اورترکیہ،شمال مغرب میں جارجیا اور جنوب میں ایران سے سرحدیں ملتی ہیں ۔چاروں طرف سے خشکی میں گھرے آرمینیا کا رقبہ 29743مربع کلومیٹر جبکہ آبادی تیس لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ اِس کے مغرب میں ترکیہ،شمال میں جارجیا مشرق میں آذربائیجان اور جنوب میں ایران ہے، مذکورہ ممالک کے رقبے اور آبادی سے زیادہ اہم اِ ن کا محل وقوع ہے ۔وونوں ماضی میں روسی فیڈریشن کا حصہ رہے ہیں۔دونوں کی سرحدیں ایران سے متصل ہیں ۔اسی بنا پرامریکی مہربانی اور نوازشات خالی ازعلت معلوم نہیں ہوتیں ۔ایک ہی معاہدے سے امریکہ نے بہت کچھ حاصل کر لیا ہے۔ اب خطے کے معدنی وسائل امریکی دسترس میں آجائیں گے۔ یہ ایسی پیش رفت ہے جس کے نتیجے میں امریکہ ایشیا اور یورپ کے سنگم پر موجود رہ کر روس اور ایران کو مستقل طورپر سفارتی ،سیاسی اور فوجی نقصان سے دوچارکرسکتاہے اور امن وخوشحالی راہداری کا مطلب امریکی اڈاہوگی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔