data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

لاہور (اسپورٹس ڈیسک )حال ہی میں آئی سی سی ہال آف فیم میں شامل ہونے والی پاکستان کی ویمنز کرکٹ ٹیم کی سابق کپتان ثنا میر نے ایک اور اعزاز حاصل کرلیا۔ورلڈٹیسٹ چیمپئن شپ کا فائنل لارڈز کرکٹ گرائونڈ پر آسٹریلیا اور جنوبی افریقا کے درمیان جاری ہے۔لارڈز گرانڈ کی روایت کے مطابق یہاں کھیلے جانے والے ہر ٹیسٹ کے دن کا آغاز گھنٹی بجاکر کیا جاتا ہے۔ جمعرات کو پاکستان ویمنز ٹیم کی سابق کپتان ثنا میر کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ انہوں نے لارڈز میں جاری ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ کے فائنل کے دوسرے کھیل کا آغاز گھنٹی بجاکر کیا۔خیال رہے کہ ثنا میر کو حال ہی میں آئی سی سی ہال آف فیم میں بھی شامل کیا گیا ہے، وہ ہال آف فیم میں شامل ہونے والی پاکستان کی پہلی خاتو ن کرکٹربنی ہیں۔ ثنا میر نے اپنے ایک روزہ کرکٹ کرئیر کا آغاز دسمبر 2005 کراچی میں سری لنکا کے خلاف کیا جب کہ آخری ایک روزہ میچ نومبر2019، لاہور میں بنگلا دیش کے خلاف کھیلا۔ثنا میر نے اپنے کرئیر میں 226 بین الاقوامی میچوں میں شرکت کی، اس دوران انہوں نے 2009 سے2017 تک 137 بین الاقوامی میچوں میں پاکستان ویمن کرکٹ ٹیم کی کپتانی کی۔انہوں نے 120 ایک روزہ میچوں میں 151 وکٹیں حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ 1630 رنز بنائے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: فیم میں

پڑھیں:

رکاوٹوں کے باوجود پاکستان آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر کی قسط حاصل کرنے کیلئے تیار

پاکستان ایک ارب ڈالر سے زائد کی تیسری قسط حاصل کرنے کے لیے بہتر پوزیشن میں نظر آتا ہے، حالاں کہ کچھ معاملات میں معمولی کوتاہیاں ہوئی ہیں، حکام پیر کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے دورہ کرنے والے جائزہ مشن کے ساتھ پالیسی سطح کے مذاکرات کا آغاز کر رہے ہیں۔

نجی اخبار کی رپورٹ میں باخبر ذرائع کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ تکنیکی سطح کے مذاکرات مکمل ہو چکے ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں فریقین کو پالیسی سطح کی بات چیت کے دوران چند نرمیوں پر اتفاق کرنا ہوگا، تاکہ رواں ہفتے کے آخر (9 یا 10 اکتوبر) تک وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کے ساتھ جائزہ مکمل کیا جا سکے۔

اگرچہ پاور سیکٹر نے وصولیوں میں بہتری اور گردشی قرضے میں کمی کے ذریعے غیر معمولی کارکردگی دکھائی ہے، جو کہ سبسڈی کے لیے مختص مالی گنجائش کی منتقلی اور نئے قرضوں کے ذریعے ممکن ہوئی، لیکن وفاقی محصولات اور صوبائی کارکردگی، خصوصاً بجٹ سرپلس اور زرعی ٹیکس وصولی کے وعدوں میں کمزوری دیکھی گئی ہے۔

آئندہ 4 روز میں اضافی اقدامات کے ساتھ، سیلاب سے متعلق چیلنجوں کے پیش نظر ممکنہ رعایتوں کے ذریعے دوسرے جائزے کے اختتام کی راہ ہموار ہونے کی توقع ہے، جس کے نتیجے میں آئندہ ماہ کے آغاز تک ایک ارب ڈالر سے زائد کی اگلی قسط جاری ہونے کا امکان ہے، تاہم آئی ایم ایف بورڈ کی منظوری درکار ہوگی۔

بین الاقوامی سیاسی ماحول بھی پاکستان کے حق میں سازگار بتایا جا رہا ہے، کیوں کہ بڑے ووٹنگ اراکین ملک کی حمایت کر رہے ہیں۔
ذرائع کے مطابق فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اور پنجاب و سندھ کی صوبائی حکومتیں آئی ایم ایف کے سخت جائزے کے تحت ہیں۔

ایف بی آر نہ صرف جون 2025 کے اختتام تک آمدنی کے ہدف سے کافی پیچھے رہا بلکہ موجودہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں بھی تقریباً 200 ارب روپے کا شارٹ فال دیکھا گیا ہے، جو ماہانہ اوسطاً 65 ارب روپے سے زائد بنتی ہے، حالاں کہ ادارے نے اصلاحاتی منصوبہ شروع کر رکھا ہے جس میں درجنوں نئی گاڑیاں خریدنے جیسے اقدامات شامل تھے۔

اب اصل سوال یہ ہے کہ آیا عدالتوں میں زیرِ سماعت مقدمات سے متوقع ریکوریاں اس خسارے کو پورا کر سکیں گی یا نومبر کے آغاز میں مزید اقدامات کی ضرورت پیش آئے گی؟۔

کیش سرپلس کے وعدے
دوسری طرف وفاق میں اتحادی ہونے کے باوجود سندھ اور پنجاب کی حکومتیں گزشتہ مالی سال کے اختتام پر اپنے کیش سرپلس وعدے پورے کرنے میں ناکام رہیں، بلکہ سندھ نے تو نئے مالی سال 26 کے آغاز پر خسارے کا بجٹ پیش کیا۔

آئی ایم ایف نے ان سستیوں کے باعث اصلاحی اقدامات پر زور دیا ہے، جس سے اپوزیشن کی زیرِ قیادت خیبرپختونخوا حکومت پر بھی سیاسی وجوہات کی بنا پر اخراجات بڑھانے کا دباؤ پڑا، حالاN کہ وہ اب تک مالی نظم و ضبط برقرار رکھنے میں کامیاب رہی تھی۔

سیلابی حالات کے باعث صوبوں کی موجودہ سال میں بہتر کارکردگی متوقع نہیں، لیکن آئی ایم ایف ان پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ اپنے مالی نظم کو درست کریں، اسی دباؤ کا اظہار پنجاب کے وزیراعلیٰ کے اس بیان میں ہوا جس میں انہوں نے شکایت کی کہ آئی ایم ایف صوبے کے تمام مالی معاملات پر ان سے حساب مانگ رہا ہے۔

پنجاب کو مرکز کو 740 ارب روپے کا سرپلس فراہم کرنا ہے، سندھ کو 370 ارب، کے پی کو 220 ارب، اور بلوچستان کو 155 ارب روپے دینے ہیں۔

مزید برآں، وفاقی اور صوبائی حکومتیں زرعی ٹیکس کے مؤثر نظام کے قیام میں مشکلات کا شکار ہیں، حالیہ سیلابی تباہی کے باعث وہ قوانین پر مکمل عملدرآمد کے بجائے نرمیوں اور رعایتوں کی متلاشی ہیں۔

صوبے اپنی بجٹ سرپلس کارکردگی کو وفاقی ریونیو کی کارکردگی سے مشروط کر رہے ہیں، تاہم، کے پی اور پنجاب نے آئی ایم ایف کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ سیلاب سے متعلق اخراجات اپنی ہی وسائل سے پورے کریں گے۔

اگرچہ تمام صوبوں نے زرعی آمدنی ٹیکس کے قوانین وقت پر منظور کر لیے تھے، لیکن ان پر عملدرآمد جو ستمبر یا اکتوبر سے شروع ہونا تھا، خصوصاً پنجاب اور سندھ میں جاری سیلابی حالات کے باعث اب بھی غیر یقینی ہے، حکام کو ابھی یہ بھی واضح نہیں کہ متاثرہ لوگوں، شعبوں اور بنیادی ڈھانچے کے لیے کتنی مالی مدد درکار ہوگی۔

پاکستانی حکام اور آئی ایم ایف کے وفد کی گفتگو میں گیس سیکٹر کے بڑھتے ہوئے گردشی قرضے پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا، جو کسی حد تک بجلی کے شعبے سے واجبات کی منتقلی کا نتیجہ ہے، دونوں فریقین مستقبل میں گیس سیکٹر کے لیے نئے بینچ مارک طے کرنے پر بات چیت کر رہے ہیں، جس میں تعریفات اور رپورٹنگ کے طریقہ کار شامل ہیں۔

ابھی تک دونوں فریقین ریاستی ملکیت کے اداروں (ایس او ایز) سے متعلق قوانین کی تعمیل کے معاملات حل نہیں کر سکے، جن میں پاکستان ویلتھ فنڈ کے تحت بڑی کمپنیوں کے انتظامی امور اور تمام سطحوں پر سرکاری اہلکاروں کے اثاثوں و منافعوں کے عوامی انکشاف کے مسائل شامل ہیں۔
مجموعی طور پر جون 2025 کے آخر تک حکام کی پروگرام کارکردگی ملی جلی رہی ہے، اور مستقبل کا منظرنامہ مزید کوششوں کا متقاضی ہے۔

آئی ایم ایف نے تیل صاف کرنے والی پرانی ریفائنریوں کی اپ گریڈیشن کے لیے ٹیکس میں رعایت دینے کی حکومتی درخواست مسترد کر دی ہے، جس سے تقریباً 6 ارب ڈالر کی نئی سرمایہ کاری خطرے میں پڑ گئی ہے۔

آئی ایم ایف فنڈ کا کہنا ہے کہ ایسی رعایتیں ایک ارب 40 کروڑ ڈالر کے موسمیاتی تبدیلی سے متعلق ریسائلنس اینڈ سسٹین ایبلٹی فیسلیٹی (آر ایس ایف)کے مقاصد کے خلاف ہوں گی۔

ریفائنری اپ گریڈیشن کی پالیسی دو سال قبل صنعت سے مشاورت کے بعد متعارف کروائی گئی تھی، اور کمپنیاں معاہدوں پر دستخط کے قریب تھیں، جب حکومت نے آئی ایم ایف پروگرام کے تحت کسی بھی قسم کی ٹیکس چھوٹ نہ دینے کا وعدہ کر لیا۔

پیٹرولیم ڈویژن کا مؤقف ہے کہ موجودہ ریفائنریاں پیداوار اور کھپت دونوں سطحوں پر ماحولیاتی خطرات کا باعث بن رہی ہیں، جو انسانی صحت اور آب و ہوا دونوں کے لیے نقصان دہ ہیں۔

اگرچہ حکومت موسمیاتی منصوبوں کے لیے آر ایس ایف کے تحت فنڈز حاصل کرنا چاہتی ہے، لیکن اندرونِ ملک پرانی ٹیکنالوجی کے استعمال کے باعث اسے تنقید کا سامنا ہے، حکومت کا مؤقف ہے کہ یہ صورتحال آئی ایم ایف مذاکرات کاروں کی تکنیکی غلط فہمی اور وزارتِ خزانہ و ایف بی آر کے سخت مؤقف کا نتیجہ ہے۔

پاکستان نے جون 2025 کے آخر تک زیادہ تر مقداری اہداف (کوانٹیٹیو پرفارمنس انیشیٹیو) حاصل کر لیے ہیں، لیکن اشاریاتی اہداف (انڈیکیٹو ٹارگٹس) اور ساختی شرائط (اسٹرکچرل بینچ مارکس) میں پیچھے ہے، جو مستقبل کے پروگرام پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔

چوں کہ 7 ارب ڈالر کے ای ایف ایف اور ایک ارب 40 کروڑ ڈالر کے اار ایس ایف کے 6 ماہ بعد جائزے ہوتے ہیں، اس لیے دونوں فریقین کو ماضی کی کارکردگی اور مستقبل کی حکمتِ عملی پر اتفاق کرنا ضروری ہے۔

متعلقہ مضامین

  • رکاوٹوں کے باوجود پاکستان آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر کی قسط حاصل کرنے کیلئے تیار
  • پاکستان ایوی ایشن اتھارٹی کو بہترین سیکورٹی پر عالمی اعزاز مِل گیا
  • پاک برطانیہ فلم فیسٹیول، دوسرا ایڈیشن 11،12 اکتوبر کو لندن میں ہوگا
  • ماہرنگ بلوچ کے والد حکومت کے خلاف مسلح جہدوجہد میں شامل رہے، گلزار امام شمبے کا انکشاف
  • ایلون مسک کا منفرد اعزاز؛ 500 ارب ڈالر کی ارننگ سے سب کو پیچھے چھوڑ دیا، نیا ریکارڈ قائم
  • ٹی 20 ورلڈ کپ 2026: نمیبیا اور زمبابوے نے کوالیفکیشن حاصل کر لی
  • 408 پوزیشن ہولڈرز کے اعزاز میں شاندار تقریب، وزیراعلیٰ مریم نواز شریف کی خصوصی شرکت
  • دبئی کے کیفے نے مہنگے ترین کافی کپ کا عالمی ریکارڈ حاصل کرلیا
  • "فتح" 4 پاکستان کی میزائل کمانڈ میں شامل کر دیا گیا
  • پاکستانی گھڑ سوار نے ایشین گیمز کیلیے کوالیفائی کرلیا