ایران اسرائیل کشیدگی پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس
اشاعت کی تاریخ: 14th, June 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 14 جون 2025ء) ایران کی جوہری اور عسکری تنصیبات پر اسرائیلی حملوں کے بعد بلائے گئے سلامتی کونسل کے خصوص اجلاس میں اقوام متحدہ کے حکام نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ موجودہ حالات میں مشرق وسطیٰ نئی اور خطرناک کشیدگی کا شکار ہو سکتا ہے۔
سیاسی امور اور تخفیف اسلحہ پر اقوام متحدہ کی انڈر سیکرٹری جنرل روزمیری ڈی کارلو نے کونسل سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مشرق وسطیٰ میں ہر طرح کی عسکری کشیدگی قابل مذمت ہے۔
اسرائیل اور ایران ہرممکن تحمل سے کام لیں اور تنازع کو خطے بھر میں پھیلنے سے روکیں۔ان کا کہنا تھا کہ حالیہ کشیدگی ایسے موقع پر شروع ہوئی ہے جب امریکہ اور ایران کے مابین اومان میں ہونے والی بات چیت میں اہم سفارتی پیش رفت ہو رہی تھی۔
(جاری ہے)
بات چیت کے ذریعے تنازع کا حل ہی ایران کے جوہری پروگرام کو پرامن رکھنے کا بہترین ذریعہ ہے۔یاد رہے کہ جمعے کی رات اسرائیل نے ایران میں نطنز جوہری مرکز اور متعدد عسکری تنصیبات کو نشانہ بنایا جہاں یورینیم افزودہ کی جاتی ہے۔ ان حملوں میں ایرانی پاسدران انقلاب کے سربراہ حسین سلامی اور فوج کے اعلیٰ ترین عہدیدار، جوہری سائنس دان اور عام شہری بھی ہلاک ہو گئے۔
جواب میں ایران نے اسرائیل پر ڈرون اور بیلسٹک میزائلوں سے حملے کیے جن میں متعدد افراد کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔
اسرائیل نے بین الاقوامی قوانین پامال کیے: روساقوام متحدہ میں روس کے مستقل نمائندے ویزلے نیبنزیا نے کونسل سے خطاب کرتے ہوئے خبردار کیا کہ اسرائیل کے اقدامات سے مشرق وسطیٰ بڑے پیمانے پر جوہری تباہی کی جانب بڑھ رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل جو بھی کہے، یہ انتہائی اشتعال انگیز حملہ اور اقوام متحدہ کے چارٹر سمیت بین الاقوامی قانون کی سنگین پامالی ہے۔
انہوں نے روس کی جانب سے اس حملے کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا کہ 2015 میں ایران کے ساتھ طے پانے والے جوہری معاہدے کے 'مغربی ارکان' اس کے جوہری پروگرام کے حوالے سے اپنی پالیسیوں کے ذریعے حالیہ بحران پیدا کرنے کے ذمہ دار ہیں۔
وہ ناصرف اس کشیدگی کو بڑھانے کے لیے ہرممکن کوشش کر رہے ہیں بلکہ انہوں نے اس کی ترغیب بھی دی ہے۔انہوں نے کشیدگی کا خاتمہ کرنے کے لیے نئے سرے سے سفارتی کوششوں پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق مسائل کا حل پرامن، سیاسی اور سفارتی راستوں سے ہی ممکن ہے۔
ایران کو دفاع کا حق حاصل ہے: پاکستاناقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل سفیر عاصم افتخار احمد نے کونسل سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کی شدید اشتعال انگیزی سے علاقائی امن و استحکام کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کے چارٹر کی شق 51 کے تحت ایران کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ غزہ، شام، لبنان اور یمن میں اسرائیل کے اقدامات یکطرفہ عسکریت کے متواتر سلسلے کی عکاسی کرتے ہیں۔
ایران کے خلاف یہ حملے ایسے وقت ہوئے ہیں جب اس کے جوہری پروگرام کا پرامن سفارتی حل نکالنے کے لیے بات چیت جاری تھی۔ اسرائیل کی یہ کارروائی اخلاقی اعتبار سے نفرت انگیز اور بین الاقوامی اصولوں کے خلاف ہے۔
پاکستان کے سفیر نے تمام فریقین پر زور دیا کہ وہ مزید کشیدگی سے اجتناب کرتے ہوئے بات چیت سے تنازع حل کرنے کو ترجیح دیں۔ انہوں نے کونسل سے کہا کہ وہ جارح کا محاسبہ کرے اور اسرائیل کو بین الاقوامی قانون اور عالمگیر رائے عامہ کے خلاف کھل کھیلنے کی چھوٹ نہ دی جائے۔
ایرانی حکومت مذاکرات کرے: امریکہامریکی دفتر خارجہ کے اعلیٰ عہدیدار میکائے پٹ نے اپنے ملک کی جانب سے بات کرتے ہوئے کونسل کے ارکان کو بتایا کہ ایران نے اسرائیل کے شہریوں کے خلاف بلااشتعال، براہ راست اور اپنے آلہ کاروں کے ذریعے حملے کیے، خطے میں دہشت پھیلائی، عدم استحکام پیدا کیا اور لوگوں پر تکالیف مسلط کیں۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ کے صدر ٹرمپ بارہا کہہ چکے ہیں کہ اس خطرناک حکومت کو جوہری ہتھیار رکھنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ امریکہ کو اس حملے کا پیشگی علم تھا لیکن اس کی فوج کا ان کارروائیوں میں کوئی کردار نہیں۔ خطے میں اپنے شہریوں، اہلکاروں اور فوجیوں کو تحفظ دینا امریکہ کی اولین ترجیح ہے۔
انہوں ںے کہا کہ امریکہ ایران کو جوہری ہتھیاروں کے حصول اور مشرق وسطیٰ میں استحکام کے لیے خطرہ بننے سے روکنے کے لیے سفارتی ذرائع سے کوششیں جاری رکھے گا۔
اگر ایران کی حکومت نے دانشمندانہ راہ اپنائی تو وہ اس مرتبہ مذاکرات کی میز پر آئے گی۔اسرائیل نے جوہری تباہی کا خطرہ پیدا کیا: ایراناقوام متحدہ میں ایران کے سفیر امیر سید ایراوانی نے اسرائیل کے حملے کو وحشیانہ اور مجرمانہ قرار دیتے ہوئے اس کی سخت مذمت کی۔
ان کا کہنا تھا کہ ایران کی عسکری قیادت اور جوہری سائنس دانوں کو دانستہ اور منظم طور سے ہلاک کیا جانا سوچی سمجھی جارحیت کا ہولناک مظاہرہ ہے۔
یہ مظالم ریاستی دہشت گردی اور بین الاقوامی قانون کی کھلی پامالی کے مترادف ہیں۔انہوں ںے کہا کہ محفوظ جوہری تنصیبات پر اسرائیل کے حملوں سے ناصرف بین الاقوامی قانون کے بنیادی اصولوں بلکہ ضمیر عامہ کی بھی پامالی ہوئی۔ جوہری تنصیبات کو نقصان پہنچنے سے تباہ کن تابکاری کا اخراج ہو سکتا ہے جس سے پورا خطہ اور دیگر ممالک بھی متاثر ہوں گے۔
ایران کے سفیر نے کہا کہ امریکہ سمیت اسرائیلی حکومت کی حمایت کرنے والوں کو علم ہونا چاہیے کہ وہ بھی اس اقدام میں شریک ہیں۔ ایسے جرائم میں مدد دینے پر انہیں بھی نتائج بھگتنا ہوں گے۔
ملکی تحفظ کے لیے حملے کیے: اسرائیلاسرائیل کے سفیر ڈینی ڈینن نے سلامتی کونسل سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کے شہروں پر ایران کے بیلسٹک میزائل برس رہے ہیں۔
اسرائیل کے حملے درستگی، مقصدیت اور جدید ترین انٹیلی جنس کے ساتھ کیے گئے۔ ان کا واضح مقصد ایران کے جوہری پروگرام کو ختم کرنا، اس کی دہشت اور جارحیت کے ذمہ داروں کو مٹانا اور اسرائیل کو تباہ کرنے کی صلاحیت کا قلع قمع کرنا تھا۔انہوں نے الزام عائد کیا کہ ایران جوہری ہتھیار تیار کرنے کی جانب قدم بڑھا رہا ہے اور عالمی برادری اسے روکنے میں ناکام ہے۔اسرائیل کے حملے لاپرواہانہ نہیں تھے بلکہ ان کے لیے اس نے انتظار کیا۔ یہ ملکی تحفظ کا اقدام تھا اور اسرائیل کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کونسل سے خطاب کرتے ہوئے بین الاقوامی قانون کے جوہری پروگرام کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ نے کونسل سے کہ اسرائیل اسرائیل کے میں ایران ایران کے کہ ایران انہوں نے ہے انہوں کے خلاف حملے کی کی جانب کے سفیر بات چیت کے لیے
پڑھیں:
ہنگامی عرب اسلامی سربراہی اجلاس؛ وزیراعظم کی ایرانی صدر سے ملاقات، امت مسلمہ کے اتحاد پر زور
وزیراعظم محمد شہباز شریف کی دوحہ میں ہنگامی عرب اسلامی سربراہی اجلاس کے موقع پر ایران کے صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان سے ملاقات ہوئی۔
اجلاس اسرائیل کے حالیہ قطر پر حملے کے بعد طلب کیا گیا تھا۔ اس موقع پر نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار، چیف آف آرمی اسٹاف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر، وزیر دفاع خواجہ محمد آصف اور وزیر اطلاعات و نشریات عطا اللہ تارڑ بھی موجود تھے۔
ملاقات کے دوران وزیراعظم نے 9ستمبر کو قطر پر اسرائیلی جارحیت کی شدید ترین مذمت کی۔
وزیراعظم شہباز شریف اور ایرانی صدر نے قطر کے ساتھ اپنی یکجہتی اور حمایت کا اظہار کیا جبکہ اسرائیلی جارحیت کے مقابلے میں امت مسلمہ کے اتحاد پر زور دیا۔
اس موقع پر وزیراعظم کا کہنا تھا کہ دوحہ عرب اسلامی سربراہی اجلاس نے مسلم دنیا کی طرف سے ایک مضبوط اور یکجہتی پر مبنی پیغام دیا ہے کہ اسرائیل کی جارحیت اب مزید برداشت نہیں کی جا سکتی۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان ایران کے ساتھ باہمی دلچسپی کے تمام شعبوں میں تعلقات کو مزید فروغ دینا چاہتا ہے۔ انہوں نے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے لیے اپنی دلی عقیدت اور نیک خواہشات بھی پہنچائیں۔
صدر پزشکیان نے فلسطین کے مسئلے پر پاکستان کے مؤقف کو سراہا اور وزیراعظم کے ساتھ قریبی تعاون جاری رکھنے اور پاکستان ایران تعلقات کو مزید مستحکم بنانے کی خواہش ظاہر کی۔ دونوں رہنماؤں نے تیزی سے بدلتی ہوئی علاقائی صورتحال کے تناظر میں رابطے میں رہنے پر اتفاق کیا۔