ایران کی کچھ جوہری تنصیبات کو جزوی نقصان پہنچا، مکمل ختم نہیں ہوئیں: سابق سفارتکار نائلہ چوہان
اشاعت کی تاریخ: 14th, June 2025 GMT
ایران میں پاکستان کی سابق سفارتکار نائلہ چوہان نے کہا ہے کہ ایران کبھی اپنی پوری فوجی صلاحیت کو ظاہر نہیں کرتا۔ ایران کی کچھ جوہری تنصیبات کو جزوی نقصان پہنچا ہے لیکن وہ ختم نہیں ہوئیں۔
ایران میں خدمات سرانجام دینے والی سابق سفارتکار نائلہ چوہان نے اس سوال کے جواب میں کہ آیا ایران اسرائیلی فوجی طاقت کا جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے؟ کہا کہ ایران کبھی اپنی پوری فوجی صلاحیت کو ظاہر نہیں کرتا۔ ایران کی کچھ جوہری تنصیبات کو جزوی نقصان پہنچا ہے لیکن وہ ختم نہیں ہوئیں۔ اور اگر ایران نے تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق نیوکلیئر ڈیٹرنس استعمال کر لیا تو حالات مزید کشیدہ ہو سکتے ہیں۔
’اسرائیل فی الوقت کشیدگی بڑھانے سے باز نہیں آ رہا۔ یہ وقت بتائے گا کہ آیا اسرائیل نے ایران کی طاقت کا درست اندازہ لگایا تھا یا غلط۔ مشرقِ وسطیٰ کا امن اسرائیل کی وجہ سے تباہ ہے اور اگر اسرائیل کو روکا نہیں گیا تو بہت تباہی ہو گی۔‘
یہ بھی پڑھیے تہران، نطنز، تبریز کے بعد کرمانشاہ پر بھی اسرائیلی فضائی حملے، بیلسٹک میزائلوں کی ذخیرہ گاہ تباہ
انہوں نے کہا کہ اس حملے سے اسرائیل نے ایران کو اُس کی طاقت سے محروم کرنے کی کوشش کی ہے لیکن یہ تو وقت بتائے گا کہ ایران اپنی طاقت سے محروم ہوا ہے کہ نہیں۔
16 جون کو ایران امریکا مذاکرات سے پہلے حملہ کیا گیا جس کی وجہ یہ ہے کہ ایران کے امریکا کے ساتھ تعلقات بہتر نہ ہو پائیں۔
نائلہ چوہان نے کہا کہ اس جنگ میں امریکا کا بیانیہ یہ ہے کہ ایران اگر امریکا کے مفادات کو نقصان نہیں پہنچاتا تو وہ اسرائیل کے خلاف جو چاہے کر سکتا ہے لیکن اصل میں کیا ہوگا اس کا پتہ آنے والے کچھ دنوں میں چلے گا۔
ایران اسرائیل جنگ میں پاکستان محتاط روّیہ اختیار کرے گاایران اسرائیل جنگ کے پاکستان پر اثرات کے حوالے سے بات کرتے نائلہ چوہان نے کہا کہ پاکستان نے اس وقت خود کو ان تنازعات سے دور رکھا ہوا ہے۔ ہم نے دنیا کو بتایا ہے کہ ہماری جوہری صلاحیت صرف بھارت کے خلاف ہے کیونکہ وہاں سے ہماری سالمیت کو خطرہ ہے۔ پاکستان کی قیادت محتاط ہو گی کہ اس تنازعے میں ملوّث نہ ہوا جائے۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ حالیہ پاک بھارت جنگ کے دوران پاکستان پر اسرائیلی ڈرونز کے ساتھ حملے کیے گئے۔ لیکن پاکستان ایران کی سفارتی مدد جاری رکھے گا جس طرح ایران نے ہماری سفارتی مدد کی۔
اسرائیل ایران کے اسلامی سٹیٹس کو ختم کر کے وہاں بادشاہت قائم کرنا چاہتا ہےنائلہ چوہان نے کہا کہ اسرائیل اس وقت جو پیغامات جاری کر رہا ہے وہ یہ ہیں کہ اسرائیل ایران میں حکومت کی تبدیلی چاہتا ہے۔ وہ ’اسلامی جمہوری ایران‘ سے تبدیل کر کے ایران کو واپس شاہ کے زمانے میں لے جانا چاہتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے اسرائیل کے حملے سے قبل موساد ایجنٹوں نے ایران میں کیا کارروائی کی؟
’اسرائیل نے ایران کے سابق بادشاہ رضا شاہ پہلوی کے صاحبزادے سے اس سلسلے میں رابطہ بھی کیا ہے۔ لیکن میرا نہیں خیال کہ فوجی سربراہان کو مار کے ایرانی انقلاب کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ ایرانی نفسیات ہے کہ وہ کسی بیرونی جارح کے ہاتھوں اپنے ہاں نظام کی تبدیلی کو قبول نہیں کریں گے۔ ایرانیوں کے اندر نیشنلزم حد درجے کا ہے۔ وہاں لوگ احتجاج کرتے رہے ہیں لیکن اس طرح کے کسی اقدام کو قبول نہیں کریں گے اور یہ اسرائیل اور امریکا کا غلط اندازہ ہو گا اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ایرانی عوام کو تقسیم کر کے وہاں نظام کی تبدیلی کر سکتے ہیں۔’
پاک امریکہ تعلقات کا ایران کے معاملے سے کوئی تعلق نہیںنائلہ چوہان نے کہا کہ اس وقت بھی پاکستانی وفد امریکا کے دورے پر ہے اور پاک امریکا تعلقات کا ایرانی معاملات سے کوئی تعلقات نہیں۔ اس وقت پاکستان کی دوستی چین کے ساتھ ہے، امریکا کے ساتھ بھی ہے اور روس کے ساتھ تعلقات بھی بہتر ہو رہے ہیں۔ لیکن اس معاملے میں ایران تنہا ہو رہا ہے۔ جس طرح چین پاکستان کے ساتھ کھڑا ہوا، اس طرح وہ ایران کے ساتھ کھڑا نہیں ہو گا، اور روس اپنی جنگ میں پھنسا ہوا ہے اور اُس کے اندر اہلیت نہیں کہ وہ یہاں آ کر کچھ کر سکے۔
ایران اسرائیل کشیدگی میں او آئی سی ممالک اخلاقی دباؤ ڈال سکتے ہیں لیکن اس تنظیم میں کوئی طریقہ کار نہیں جو اسرائیل کے خلاف منظور کردہ قراردادوں پر عمل درآمد کے لیے قوت استعمال کر سکے۔
اسرائیل کا حملہ اچانک نہیں بتدریج ہےنائلہ چوہان نے کہا کہ اسرائیل نے گزشتہ برس سے ایران پر حملے شروع کر رکھے ہیں۔ ایران میں موجود حماس کے رہنماء کو مارا گیا، لبنان اور یمن میں ایران کی حمایت یافتہ عسکری تنظیموں کو نشانہ بنایا گیا۔ اسرائیل، ایران کو فلسطین کی طرح ٹکڑے ٹکڑے کرنا چاہتا ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے جو تقریر کی اُس میں اُس نے ایرانی عوام سے کہا کہ وہ موجودہ ایرانی حکومت سے جان چُھڑا لیں ورنہ اسرائیل حملہ کرے گا۔لیکن اسرائیل کو ایرانی عوام کی نفسیات کا ادراک نہیں۔ وہ پہلے ایرانی اُس کے بعد کچھ اور ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسرائیل ایران تنازع نائلہ چوہان.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسرائیل ایران تنازع ایران اسرائیل اسرائیل نے امریکا کے ایران میں نے ایران ایران کی ایران کے کہ ایران کے ساتھ نہیں ہو لیکن اس ہے لیکن ہے اور
پڑھیں:
نو مئی اور سانحہ بلوچستان
نو مئی کے بہت سے ملزموں کو سزا ہو گئی۔سیاسی کارکنوں کی پکڑ دھکڑ اور سزا تکلیف دہ ہے۔ یہ نوبت کبھی نہیں آنی چاہیے لیکن اس کے ساتھ ہی کچھ ذمے داری سیاسی کارکنوں اور سیاسی جماعتوں کی بھی ہے۔ یہ ذمے داری کیا ہے، چند مثالوں کی مدد سے اسے سمجھا جا سکتا ہے۔
جنرل ضیا الحق نے مارشل لا لگایا اور ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی۔ مارشل لا اور پھانسی کی سزا دونوں متنازع تھے۔ اس کے ردعمل میں بھٹو صاحب کے صاحب زادے میر مرتضیٰ بھٹو نے الذوالفقار بنائی اور دہشت گردی شروع کر دی۔ بھٹو خاندان اور پیپلز پارٹی بہت دکھی تھے لیکن سابق وزیر اعظم کی صاحب زادی محترمہ بے نظیر بھٹو نے الذوالفقار سے لاتعلقی اختیار کی اور خالصتاً سیاسی جدوجہد کی جو بالآخر رنگ لائی۔
1953ء کی تحریک ختم نبوت کے موقع پر ایک کتابچہ لکھنے کی پاداش میں مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کو سزائے موت سنا دی گئی۔ اسی طرح جماعت اسلامی سمیت کئی سیاسی جماعتوں پر بار بار پابندی عائد کی گئی لیکن بڑی سے بڑی سزا ملنے کے باوجود کسی سیاسی جماعت نے وہ راستہ اختیار نہیں کیا جو پی ٹی آئی نے اختیار کیا۔ دہشت گردی اور سیاسی سرگرمی کے درمیان یہ فرق ہے لیکن پی ٹی آئی یہ فرق ملحوظ نہیں رکھ سکی۔
نو مئی ہوا تو بانی پی ٹی آئی سمیت بہت سے دیگر راہ نماؤں نے ان سرگرمیوں کے جواز پیش کیے۔ بانی پی ٹی آئی تو یہاں تک کہہ گزرے کہ مجھے گرفتار کیا جائے گا تو پھر اور کیا ہو گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پی ٹی آئی سیاسی سرگرمی اور دہشت گردی کے درمیان فرق کو سمجھنے سے قاصر رہی ہے۔
اس جماعت کا ایک مسئلہ اور بھی ہے۔ یہ جماعت سیاست اور ریاست کے درمیان جو پہاڑ جیسا فرق ہے، اسے بھی سمجھنے سے قاصر رہی ہے۔ پی ٹی آئی یہ فرق سمجھتی تو نہ دفاعی تنصیبات پر حملے کرتی اور نہ پاکستان کے دفاعی ہیروز کی توہین کی مرتکب ہوتی۔ اسی طرح یہ جماعت ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے کے لیے ریاستی کوششوں کو نقصان پہنچانے میں بھی ملوث رہی ہے۔ اس کا صرف ایک ہی مطلب تھا کہ اس جماعت کے خیال میں ملک کی سلامتی اور مالی استحکام پر اس کا اقتدار فوقیت رکھتا ہے۔
یہ پی ٹی آئی کے سیاسی شعور کی ناکامی تھی لیکن اس کے ساتھ ہی ایک ناکامی اور بھی ہے۔ غلطی کسی سے بھی ہو سکتی ہے لیکن غلطی کے بعد اس پر جم جانا اور شرمندہ ہو کر اپنی اصلاح نہ کرنا زیادہ بڑی غلطی ہے۔اس قسم کے حالات میں بہتر یہی ہوتا ہے کہ ریاست متعلقہ گروہ کو اتنے بڑے بحران سے نکلنے کا موقع فراہم کرے۔
ریاست نے نو مئی کے واقعات میں ملوث لوگوں کے خلاف مقدمات کا جلد فیصلہ نہ کر کے پی ٹی آئی کو یہی موقع فراہم کیا لیکن پی ٹی آئی اپنی روش پر قائم رہی لہٰذا مجرموں کے خلاف فیصلے سنا دیے گئے۔ اب بھی وقت ہے، پی ٹی آئی ریاست اور سیاست کے درمیان فرق کو سمجھ کر اپنی اصلاح پر آمادہ ہو جائے تو صورت بدل سکتی ہے۔ کاش ایسا ہو جائے۔
بلوچستان میں شیتل اور اس کے شوہر کے قتل نے دکھی کر دیا ہے۔ ظلم کی بعض نوعیتیں ایسی ہوتی ہیں جن کے اظہار سے الفاظ معذور ہو جاتے ہیں، اس واقعے پر دکھ کے اظہار کے لیے دکھ کا لفظ بھی معمولی محسوس ہوتا ہے۔یہ تکلیف دہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ ہمارے سماج کی بنیاد ابھی تک جہالت ہے۔
صدیوں بلکہ قرنوں سے جمتی ہوئی جہالت کی اس دبیز تہہ کو اکھاڑ پھینکنے میں نہ مذہبی گروہ کام یاب ہو سکا ہے اور نہ تعلیم۔ نئے عہد کی روشنی ہمارے سماج کے ان تاریک گوشوں تک نہیں پہنچ سکی یہاں تک کہ دنیا بھر میں سماجی رویوں میں تیز رفتار تبدیلیاں پیدا کر دینے والے ذرایع ابلاغ بھی اس معاملے میں ناکام رہے ہیں جب کہ قانون تو ایسی ظالمانہ اجتماعیت میں ہے ہی موم کی ناک۔
انسان کے قلب و نظر میں لرزہ پیدا کر دینے والی وڈیو میں قاتلوں کا جو ہجوم دکھائی دے رہا ہے، اس میں تقریباً ہر عمر کے لوگ موجود ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس قبیلے میں یہ لرزہ خیز جرم ہوا ہے، اس میں اس جرم کے بارے میں مکمل یک سوئی تھی۔ ایک آدھ کوئی استثنا تھا بھی تو اس میں اختلاف کی جرات نہیں تھی لیکن وہ جو کوئی بھی تھا، صاحب ضمیر تھا جس نے نہایت دانش مندی کے ساتھ اس خونی عمل کی وڈیو بنا کر سماج کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔
اس جرات مندانہ عمل کے لیے پورا پاکستانی سماج اس کا شکر گزار ہے۔ یہ ایک عمل ایسا ہے جس کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ ٹیکنالوجی کے نئے مظاہر نے کم از کم یہ تو کیا ہے کہ ایسے سنگ دل سماج میں بھی جونک لگا دی ہے۔ امید کی بس یہی ایک کرن ہے۔
چودہ سو برس قبل بیٹیوں کو زندہ درگور کر دینے والے سماج میں مذہب کی روشنی پیدا ہوئی تو ایک انقلاب پیدا ہو گیا۔
کیا سبب ہے کہ بیٹیوں اور بیٹوں کو یوں سامنے کھڑا کر کے گولیوں سے بھون دینے والے معاشرے پر مذہبی طبقہ اثر انداز نہیں ہو سکا۔ اس کی ایک ہی وجہ ہے کہ ہمارے قبائلی سماج میں مذہب کا نمایندہ بھی اسی قسم کا ایک پرزہ ہے جیسے وڈیرے اور سردار کے جائز اور ناجائز ہر قسم کے احکام بجا لانے والے دیگر کارندے ہوتے ہیں۔ سبب یہ ہے کہ قبائلی سماج میں اس قسم کے مظالم کے لیے اس کا سہارا لیا جاتا ہے۔
دل کو دہلا دینے والے اس واقعے کے سامنے آنے کے بعد لوگ فطری طور پر دکھی ہیں اور وہ مختلف انداز میں اس پر ردعمل ظاہر کر رہے ہیں جو ظاہر ہے کہ بنجر سماج میں کچھ نہ کچھ تو ہیجان پیدا کرے گا۔ دکھ کا یہ اظہار مزید مفید ہو سکتا ہے، اگر یہ ان ظالمانہ سماجی رویوں کی اصلاح کے لیے فکر مندی کا ذریعہ بن سکے۔یہ تو ظاہر ہے کہ ایسے سنگ دلانہ رویوں کی اصلاح پلک جھپکنے میں نہیں ہو سکتی لیکن اس کا آغاز کہیں سے تو ہونا چاہیے۔
ہمارے یہاں جدید رجحانات رکھنے والی این جی اوز اور دینی رجحانات کے نمایندوں میں ہزاروں میل کی دوری ہے۔ ضروری ہے کہ یہ لوگ اپنے اختلافات کو برقرار رکھتے ہوئے اس نکتے پر متفق ہو جائیں۔ اس مقصد کے لیے ریاست سہولت کار کا کردار ادا کرے تاکہ وہ غور و فکر کر کے کچھ عملی تجاویز سامنے لا سکیں۔
ذرایع ابلاغ خاص طور پر شوبز میں ایسے موضوعات کو حکمت سے نہیں برتا جاتا۔ یہ شعبہ بھیڑ چال کا شکار ہے، خاص طور پر بھارت کی بے سوچے سمجھے نقالی کی جا رہی ہے لیکن شوبز کے لوگ اگر تھوڑی محنت کر کے پاکستانی قبائلی روایات کے مثبت پہلوؤں کو سمجھ کر فلم اور ڈرامہ بنا سکیں تو بہتری کی امید کی جا سکتی ہے۔
ایک بلکہ بنیادی کام ریاست کو بھی کرنا ہے۔ اس کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ روشن خیال اور دین کی حقیقی تعلیمات پر یقین رکھنے والے قبائلی بزرگوں اور مؤثر افراد کو ایک پلیٹ فارم پر لائے تاکہ یہ لوگ اپنے لوگوں کی ذہنی سطح اور انداز فکر کے مطابق تبدیلی کا عمل شروع کر سکیں۔یہ کام کرنے میں ہم نے بہت دیر کر دی ہے۔ مزید دیر نہیں کی جا سکتی۔ اس سے پہلے کہ یہ خون آشامی ہمارے سماج اور ریاست کو ہڑپ کر جائے، بسم اللہ کر دیں۔