سائیکلنگ کونسی دماغی بیماری کا خطرہ کم کردیتی ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 14th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
سائیکلنگ نہ صرف جسمانی صحت کے لیے فائدہ مند ہے بلکہ یہ دماغی صحت پر بھی مثبت اثر ڈالتی ہے اور ڈمنشیا کے خطرے کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔
نئے شواہد سے پتہ چلا ہے کہ تقریباً 4 لاکھ 80 ہزار بالغ افراد پر کی گئی تحقیق کے مطابق، باقاعدہ سائیکلنگ سے ڈمنشیا کا مجموعی خطرہ 19 فیصد تک کم ہو جاتا ہے۔ خاص طور پر بیماری کی ابتدائی علامات کے خطرے میں 40 فیصد تک نمایاں کمی دیکھی گئی۔
تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سائیکل چلانے والوں کے دماغ میں hippocampus جیسے اہم حصے کا حجم زیادہ ہوتا ہے، جو یادداشت اور سیکھنے کے عمل کے لیے ضروری ہے۔ ایم آر آئی اسکینز سے یہ ثابت ہوا کہ سائیکلنگ دماغ کے اہم حصوں کو مضبوط بناتی ہے، جس سے یادداشت بہتر ہوتی ہے اور فیصلہ سازی کی صلاحیت میں بھی بہتری آتی ہے۔
یہ فائدہ ان افراد میں بھی دیکھا گیا جو APOE E4 جین کے حامل ہوتے ہیں، جو عام طور پر ڈمنشیا کے خطرے کو بڑھاتا ہے۔ تاہم سائیکلنگ کرنے والے ایسے افراد میں بھی اس بیماری کا خطرہ 26 فیصد تک کم ہو جاتا ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
خطرے سے دوچار ہمپ بیک وہیل کا بڑا گروہ بلوچستان کے ساحل پر نمودار
معدومیت کے خطرے سے دوچار عرب ہمپ بیک وہیل کا ایک بڑا گروپ گزشتہ رات بلوچستان کے شہر گوادر کے قریب دیکھا گیا۔
تفصیلات کے مطابق ناخدا امیر داد کریم کی قیادت میں ماہی گیروں کے ایک گروپ نے گوادر کے پہاڑ سے تقریباً 11 ناٹیکل میل جنوب میں سمندری پانیوں میں 6 سے زائد عربی وہیلوں کو مغرب سے مشرق کی طرف ہجرت کرتے ہوئے دیکھا۔
گزشتہ ہفتے، بروڈس وہیل کے ایک گروپ کی گوادر (مشرقی خلیج) سے اطلاع ملی تھی، جو بلوچستان کے ساحل کی حیاتیاتی تنوع کی صلاحیت کی نشاندہی کرتی ہے۔ اب تک پاکستان سے ڈولفن اور وہیل کی 27 اقسام پائی جا چکی ہیں جو کہ پیداواری ساحلی اور سمندری پانیوں میں بکثرت پائی جاتی ہیں۔
بحیرہ عرب کے ہمپ بیک وہیل بیلین وہیل کی ایک قسم ہے جو یمن اور سری لنکا کے درمیان بحیرہ عرب میں پائی جاتی ہے۔ ہر سال جنوبی سمندروں کی طرف ہجرت نہیں کرتی اور بحیرہ عرب تک ہی محدود رہتی ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ زیادہ تر وہیل عام جھینگوں اور چھوٹی مچھلیوں کو کھانے کے لیے گرمیوں کے دوران انٹارکٹک کے پانیوں کی طرف ہجرت کرتی ہیں۔ کھانے کا یہ بھرپور ذریعہ انہیں چربی کی موٹی تہوں پر مشتمل بناتا ہے، جو سرد مہینوں میں ان کی توانائی کے لیے ضروری ہوتا ہے ۔ تب وہ افزائش نسل کے لیے گرم پانیوں کی طرف ہجرت کرتے ہیں۔
بحیرہ عرب کے ہمپ بیک وہیل کی بڑی آبادی عمان کے پانیوں میں رہتی ہے اور جنوب مغربی مون سون کے ختم ہونے کے بعد جھینگے اور دیگر چھوٹی مچھلیوں کو کھانے کے لیے پاکستانی پانیوں کی طرف ہجرت کرتی ہے۔ پاکستان کے پانیوں سے ڈبلیو ڈبلیو ایف نےعربی وہیل کے بہت سے ریکارڈ نے رپورٹ کیے ہیں۔
زیادہ ترمشاہدے ایک یا دو وہیل پر مشتمل ہوتے ہیں جبکہ موجودہ واقعہ میں چھ سے زیادہ وہیل مچھلیوں پر مشتمل ایک بڑے گروہ کا انکشاف ہوا ہے۔
پاکستان کے ساحل کے ساتھ اتنے بڑے گروپ کا ہونا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اس کی کم ہوتی ہوئی آبادی بحال ہو رہی ہے۔ 1963 سے 1967 تک پاکستان کے ساحل سمیت عربی وہیلوں میں وہیل کی کارروائیوں میں سوویت بیڑے نے وہیل کو نشانہ بنایا تھا۔